٭امریکی فوج میں جنسی زیادتی روز کامعمول
درج بالا سرخی کے تحت رپورٹ میں کہا گیا ہے: ”فوج کے اندر عورتوں پر جنسی حملے اور اُنہیں خو ف زدہ کرنے کو عورتوں کے خلاف تشدد کی ایک وسیع قسم کے طور پر امریکہ میں بلا تأمل تسلیم کیا جاتا ہے۔ وکلا بتاتے ہیں کہ عورتیں جب فوج کی ملازمت اختیار کرتی ہیں تووہ نہ صرف جنگ و جدل کے حوالے سے جسمانی خطرات مول لیتی ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کی جانب سے جنسی حملوں کے خطرے کا سامنا بھی کرتی ہیں۔جنسی حملوں کا سامنا اگرچہ مردوں اور عورتوں دونوں کو کرنا پڑتا ہے ، تاہم دستیاب اعداد شمار ظاہر کرتے ہیں کہ نشانہ بننے والوں میں بھاری اکثریت جونیئر رینکس کی 25 سال سے کم عمر عورتوں کی ہوتی ہے۔ (پیرا گراف : 22)
صورت حال کی سنگینی کا اندازہ رپورٹ میں کیے گئے اس انکشاف سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی فوج میں عورتوں کو درپیش ناگفتہ بہ صورت حال پر دو سابق وزرائے دفاع کے خلاف اجتماعی مقدمات بھی دائر کیے گئے ہیں ۔ اس حوالے سے رپورٹ میں کہا گہا ہے :
”سابق وزرائے دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ اور رابرٹ گیٹس کے خلاف، آبرو ریزی اور جنسی حملوں کی شکایات پر کارروائی نہ کرنے ، ان کی تحقیقات نہ کرنے، مجرموں کو سزا دینے میں ناکام رہنے اور انصاف کی فراہمی کے نظام کو کمزور رکھنے پر متاثرین کی جانب سے اجتماعی مقدمے کے بارے میں بھی خصوصی نمائندے کو بتایا گیا۔مقدمے میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ عصمت دری اور جنسی حملوں کا نشانہ بننے والوں کے خلاف کھلم کھلا خوف زدہ کرنے اور نقصان پہنچانے کی کارروائیاں کی گئیں، جرائم کی شکایت درج کرانے کے معاملے میں ان کی حوصلہ شکنی کی گئی، نیز انہیں اپنی زبان بند رکھنے اور جو زیادتی اُن کے ساتھ ہوئی، اسے کسی کو نہ بتانے کا حکم دیا گیا۔” (پیراگراف:23)
امریکہ میں عورتوں کے خلاف تشدد خصوصاً جنسی زیادتی اور جرائم پر مبنی اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی کی اس رپورٹ کے اگلے پیراگراف میں اس حقیقت کی نشان دہی کی گئی ہے کہ فوج میں ہونے والے اس نوعیت کے جرائم عام طور پر ریکارڈ پر نہیں آتے کیونکہ متاثرین چپ رہنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے :
”کیونکہ فوج میں جنسی حملوں کے بیشتر واقعات کی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی لہٰذا درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔محکمہ دفاع کے مطابق، تازہ ترین بےنام سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ایکٹو ڈیوٹی عورتوں میں سے 4.4 فیصد اور ایکٹو ڈیوٹی مردوں میں سے 0.9فیصد نے اشارہ دیا کہ وہ سروے سے پہلے کے بارہ ماہ کے دوران جبری جنسی تعلق کے تجربے سے گزرے ہیں۔ اُن میں سے صرف 29 فیصد عورتوں اور 14 فیصد مردوں نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی شکایت محکمہ دفاع یا کسی سول اتھارٹی سے کی ہے۔” (پیرا گراف :24)
فوج میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ کے اس قدر کم ہونے کے اسباب بیان کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی نمائندہ خصوصی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوج کے تحکمانہ نظام کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہونے والے شکایت کرنے کی صورت میں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اگر زیادتی کے ذمہ دار، متاثرہ فرد کے افسران میں سے ہوں تو ان کے خلاف شکایت کرنا محال کو ممکن بنانے کی کوشش کے مترادف ہوتا ہے اور متاثرین اکثر محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں اپنی فوجی ملازمت یا انصاف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ (پیرا گراف :27)
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرین کے وکلا نےبتایا کہ شکایت کرنے کی صورت میں متاثرین بااثر ملزمان کی جانب سے انتقامی کارروائی کا خوف رکھتے ہیں کیونکہ کمانڈر عام طور پر شکایت کرنے والوں کوملزمان کے انتقامی اقدامات سے تحفظ مہیا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔(پیرا گراف:28)
٭خاتون رکن کانگریس کی گواہی
سی این این کی 31؍جولائی 2008ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے :
”کانگریس کی ایک خاتون رکن کے بقول اُن کا منہ اس وقت کھلا کا کھلا رہ گیا جب سابق فوجیوں کے ایک اسپتال میں فوجی ڈاکٹروں نے اُنہیں بتایا کہ دس میں سے چار عورتوں نے شکایت کی ہے کہ فوجی ملازمت کے دوران اُنہیں جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ ایک سرکاری رپورٹ کی رُو سے یہ تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ ڈی کیلیفورنیا سے کانگریس کی رکن جین ہرمین نے یہ انکشاف کانگریس کے ایک پینل کے سامنے بیان دیتے ہوئے کیا جو یہ تحقیق کررہا ہے کہ فوج میں جنسی زیادتیوں کے واقعات سےکس طرح نمٹا جاتا ہے۔ جین ہرمین نے بتایا کہ اُنہوں نے حال ہی میں لاس اینجلس میں سابق فوجیوں کے ایک اسپتال کا دورہ کیا، جہاں انہیں فوج میں عورتوں کی آبرو ریزی کی خوفناک کہانیاں سنائی گئیں۔”
جین ہرمین کے مطابق جنسی حملوں کا نشانہ بننے والی ان عورتوں میں سے 29 فیصد نے انکشاف کیا کہ فوجی ملازمت کے دوران اُن کی عزت لوٹی گئی۔ ان عورتوں نے اپنے مستقل خوف، بے بسی کے احساس اور مسلسل ابتر ہوتی نفسیاتی کیفیت کے بارے میں بتایا جس میں وہ اسی وقت سے مبتلا ہیں جب اُنہیں اس ظلم کا ہدف بنایا گیا۔
جین ہرمین نے صورتِ حال کی سنگینی کو یوں واضح کیا:
”ہماری فوج میں یہ چیز ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ امریکی فوج میں ملازمت کرنے والی عورتیں آج عراق میں دشمن کی گولی سے مرنے سے کہیں زیادہ اپنے مرد ساتھیوں کے ہاتھوں آبروریزی کے خطرے سے دوچار ہیں۔”
امریکہ کانگریس کی اس خاتون رکن کے بقول 2007ء میں فوج کے اندر جنسی حملوں کے 2212کیس رپورٹ ہوئے مگر ان میں سے صرف 181 یعنی محض 8 فیصد کورٹ مارشل کے لیے بھیجے گئے ۔ جین ہرمین نے بتایا کہ اس کے مقابلے میں شہری معاشرے میں ایسے معاملات کے عدالتوں تک پہنچنے کی شرح 40 فیصد ہے۔26
٭متاثرہ عورتیں زندہ درگور
امریکی فوج میں اپنے مرد ساتھیوں کی بہیمانہ ہوس کا نشانہ بننے والی ان عورتوں کی داد رسی کس حد تک ہوتی ہے اور اپنی بقیہ زندگی میں اُنہیں کن ذہنی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دستیاب واقعاتی حقائق سے اس کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ امریکی فوج میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر امریکی اخبار ڈینور پوسٹ(Denver Post) سے وابستہ ایمی ہرڈی(Amy Herdy) اور مائلز موفیٹ(Miles Moffeit) نے نوماہ کی تحقیق کے بعدایک رپورٹ تیار کی جو اخبار کی 16 تا 18 نومبر 2003ء کی اشاعتوں میں بالاقساط شائع ہوئی۔ 2004ء میں اسے (Betrayal in the Ranks)کے عنوان سے مستقل دستاویز کے طور پر بھی شائع کردیا گیا۔
ڈینوپوسٹ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی فوج میں اپنے مرد ساتھیوں کی ہوس کا نشانہ بننے والی ان مظلوم عورتوں کی دادرسی کے بجائے عموماً اُنہیں خاموش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اُن کے خلاف جنسی تشدد کے مرتکب مجرموں کو عام طور پر کسی باز پرس اور سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ رپورٹ میں ‘کولوریڈو ایئر فورس اکیڈمی’ کے اسکینڈل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 142 کیس رپورٹ ہونے کے باوجود ایک ملزم کو بھی سزا نہیں دی گئی۔
ان رپورٹروں نے ایسی مزید مثالیں دیتے ہوئے لاس ویگاس میں 1991ء میں ہونے والے ‘نیوی ٹیل ہک کنونشن’ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس موقع پر سو سے زائد افسروں نے درجنوں خاتون اہلکاروں کو جنسی طور پر ہراساں کیا مگر جب اس سلسلے میں نیوی کی طرف سے انکوائری ہوئی تو مجرم افسروں نے تحقیقاتی عمل کو بالکل سبوتاژ کرکے رکھ دیا اور ان میں سے ایک کو بھی سزا نہیں دی جاسکی۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کا فوجی نظام یہ رعایت جن مجرموں کو دے رہا ہے، ان کےجرم کے اثرات و نتائج کیا ہیں اور جو عورتیں ان کی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں ، ان کی بقیہ زندگی کس طرح گزرتی ہیں۔ ڈینوپوسٹ نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ایسی 60 عورتوں سے بات چیت کی جنہوں نے انتقام کے خوف یا مجرموں کے خلاف کسی کارروائی سے مایوس ہونے کی بنا پر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہیں رپورٹ درج نہیں کرائی تھی۔
اخبار لکھتا ہے کہ مجرمانہ حملوں کا نشانہ بننے والی درجنوں سابق فوجی خواتین اہلکاروں نے بتایا کہ اذیت کے اندرونی احساس کے سبب ان کے کیریئر تباہ ہوگئے۔ اُنہوں نے منشیات اور کثرت شراب نوشی میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جس سے ان کی زندگیاں برباد ہوگئیں۔
ماریان ہڈ ایسی ہی ایک مظلوم سابق امریکی سپاہی ہے۔اس نے اپنے کرب کا ا ظہار جن الفاظ میں کیا، وہ دل دہلا دینے والے ہیں، ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی فوج میں عورتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا شرمناک اور وحشیانہ سلوک کس طرح خود امریکہ کے خلاف نفرت کے فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ سابق فوجی ہونے کے باوجود امریکی پرچم لہرانے سے انکار کرنے والی ماریان ہڈ کہتی ہے:
”پہلے جب میں امریکی پرچم پر نظر ڈالتی تو یہ مجھے سرخ، سفید اور نیلا دکھائی دیتا تھا ، مگر اب میں اس پر صرف خون کے رنگ دیکھتی ہوں۔ سرخ رنگ اس خون کی علامت ہے جو میرے بدن سے بہا۔نیلا رنگ ان چوٹوں کی نمائندگی کرتا ہے جو میرے جسم نے سہیں۔ اور سفید رنگ میرے خوفزدہ چہرے کا ہے۔ میں اپنے ملک کے لئے ماری پیٹی گئی اور میری عزت لوٹی گئی ۔ اسے کافی سمجھا جانا چاہیے۔”27
(3) مغربی عورت کا حالِ زار: فطرت سے بغاوت کا نتیجہ!
مغربی تہذیب نے ماں، باپ اور شوہر و بیوی کی حیثیت سے عورت اور مرد کے فطری دائرہ کار، صنفی و جسمانی تقاضوں اور نفسیاتی و جذباتی مطالبات کے کھلے فرق کو نظر انداز کرکے زندگی کے ہر میدان میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کرنے کی جو غلطی کی تھی، مغرب کی عورت کو درپیش مسائل اور ذلت انگیز حالات، جن کا کچھ ذکر سطور بالا میں ہوا، فی الحقیقت اسی غلطی کا نتیجہ ہیں۔ مغربی عورت گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ مردوں کی طرح معاشی جدوجہد میں بھی جوت دی گئی ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ کام ضرور کررہی ہے لیکن عملاً وہ مردوں کا دل بہلانے کا کھلونا بن گئی ہے۔ اس طرزِ زندگی کے کئی عشروں کے تجربے نے مغربی عورت پر یہ حقیقت روشن کردی ہے کہ آزادی و مساوات کے نام پر یہ سودا اُسے بہت مہنگا پڑا ہے۔ لہٰذا آج مغربی عورت دوبارہ گھر کی پناہ گاہ میں واپس جانے کی آرزو مند ہے۔
مغربی عورتوں میں اسلام کی حیرت انگیز مقبولیت کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات عورت کو گھر کا مرکز بناتی ہیں اور معاشی جدوجہد میں شرکت کی کوئی ذمہ داری اس پر عائد کیے بغیر محبت،عزت اور احترام کا وہ مقام دیتی ہیں، جس کا کوئی تصور مغربی معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔ مسلمان ہونے والی مغربی خواتین اپنے قبولِ اسلام کے اسباب میں اسلام کے ان اوصاف کا عموماً بطور خاص ذکر کرتی ہیں۔ تاہم ذیل میں اس حوالے سے کئی ہزار برطانوی عورتوں کی ایک کھلی گواہی پیش کی جارہی ہے جو ہر معقول شخص کیلئے سوچ بچار کا بڑا سامان رکھتی ہے۔
٭94 فیصد برطانوی عورتیں ‘سپر وومین رول ماڈل’ سے بیزار
برطانیہ کی خواتین بیک وقت گھریلو ذمہ داریوں اور ملازمت کی ذمہ داریوں کو بھاری بوجھ محسوس کرتی ہیں۔ خواتین کے بہت سے میگزین اکثر ایسی آرا اور معلومات پیش کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹاپ سانتے(Top Sante) نامی برطانوی میگزین کے ایک سروے کے مطابق، جس کی تفصیلات ہم نے برطانوی اخبار ‘ڈیلی میل’ میں شائع ہونے والی رپورٹ سے لی ہیں، برطانیہ کی 94 فیصد ملازمت پیشہ خواتین کا کہنا ہے کہ وہ زوجیت ، مادریت اور ملازمت کے تقاضے بیک وقت پورے کرتے کرتے بے دم ہوچکی ہیں اور اس سپر وومن رول ماڈل سے نجات کی آرزو مند ہیں۔
میگزین کی ایڈیٹر جولیٹ کیلو (Juliet Kellow) جنہوں نے برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئر لینڈ کی پانچ ہزار ملازمت پیشہ عورتوں کے انٹرویو کا اہتمام کرکے یہ جائزہ پیش کیا ہے، کہتی ہیں “It is time for super woman to put back in her box.”یعنی وقت آگیا ہے کہ سپر وومن واپس اپنے گھر کا رُخ کرے اور اپنی اصل ذمہ داریاں نبھائے۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ سپر وومن کا یہ رول ماڈل ان عام عورتوں کے لیے قطعی سازگار نہیں جن کے پاس گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیےبچے کھلانے والی اناؤں، صفائی ستھرائی کرنے والی خادماؤں، پرسنل سیکرٹریوں اور ہیر ڈریسروں وغیرہ کی فوج نہیں ہے۔ سروے کے مطابق ہر دس میں سے آٹھ ملازمت پیشہ عورتوں کا خیال ہے کہ ماں اور باپ دونوں کی کل وقتی ملازمت خاندانوں کے ٹوٹنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ عورتوں کے تعلقات اپنے شریکِ حیات کے ساتھ تلخ ہوجاتے ہیں کیونکہ بیشتر عورتیں سمجھتی ہیں کہ مرد اپنا بوجھ اتنا نہیں اُٹھاتے جتنا اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ خیال84 فیصد عورتوں نے ظاہر کیا ہے۔ اس کے باوجود ایک تہائی عورتوں کے لیے اپنی ملازمت چھوڑ کر اپنے آپ کو گھر کے لیے وقف کردینا ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے شوہروں یا مرد پارٹنروں کی نسبت زیادہ کماتی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں بھی، جو موجودہ مغربی تہذیب کا امامِ اوّل ہے اور جس نے پوری مغربی دنیا کو اس راہ پر لگایا ہے، مساواتِ مرد و زن کے تمام دعووں کے باوجود سروے کے مطابق اب تک عورتیں ہی گھر اور خاندان کے اُمور کے لیے بنیادی طور پر جواب دہ اور ذمّہ دار ہیں حالانکہ وہ مردوں ہی کی طرح اپنا پورا دن ملازمت کی مصروفیت میں گزار کر تھکی ہاری گھر پہنچتی ہیں۔ اپنی ان سہ طرفہ مستقل اور سخت ذمہ داریوں کی مسلسل ادائیگی نے انہیں زمین سے لگا دیا ہے۔ جو لیٹ کیلو کا کہنا ہے کہ ایک کل وقتی گھریلو خادمہ، ملازمت پیشہ عورتوں کی اکثریت کیلئے دیومالائی خواب ہے۔ بہتر معاوضے والی جزوقتی ملازمتیں ان گھر بار والی عام ملازمت پیشہ عورتوں کے مسئلے کا ایک حد تک حل ہوسکتی ہیں لیکن یہ انتہائی کمیاب ہیں اور ان کا حصول نہایت دشوار ہے۔ سروے کے مطابق 57 فیصد برطانوی کمپنیاں اب تک اپنے ہاں ملازمت کرنے والی عورتوں کو ماں بن جانےکی صورت میں کوئی رعایت اور کوئی الاؤنس نہیں دیتی ہیں خواہ ملازمت جاری نہ رکھ پانے کی وجہ سے کمپنیوں کو ان کے تجربے اور صلاحیتوں سے محروم ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔
سروے میں بتایا گیا ہےکہ گھر اور بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ملازمت کی مشقت عورتوں کی صحت کو بُری طرح متاثر کررہی ہے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر تازہ دم ہوکر صحت مند رہنے کے لئے کم سے کم ناگزیر وقت بھی ان عورتوں کےپاس نہیں ہوتا۔ ان غریب عورتوں کا طرز زندگی پریشر کُکر جیسا بن کر رہ گیا ہے۔ وہ اپنی مختلف النوع ذمہ داریوں کی بنا پر مسلسل دباؤ میں رہتی ہیں اور اُنہیں ایک کام سے دوسرے کام کی طرف دوڑتے رہنا پڑتا ہے چنانچہ اُن کے رویے میں جارحیت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ سروے میں ملازمت پیشہ عورتوں کی عمومی صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر مالی مجبوریاں نہ ہوں تو برطانیہ کی 48 فیصد ملازمت پیشہ عورتیں صرف آرام کرنا پسند کریں گی ۔ 32 فیصد گھر داری اختیار کرنے کا فیصلہ کریں گی اور صرف 20 فیصد ملازمت جاری رکھنے کو ترجیح دیں گی۔28
٭سستی لیبر کے لیے سرمایہ داری کی چال
مغرب میں عورت کا یہ حالِ زار دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی عورت کے خلاف خوفناک سازش کا نتیجہ ہے جسے آزادئ نسواں کا دلکش اور پُرفریب نام دیا گیا۔ اب یہ کوئی راز نہیں کہ آزادئ نسواں اور مساواتِ مرد و زن کی تحریکوں کے نام پر عورت کو گھر داری اور نئی نسل کی پرورش اور تربیت کے فطری فریضے کی ادائیگی کے لیے فارغ رکھے جانے سے دراصل روکا ہی اس لئے گیا تھا تاکہ اسے گھر سے باہر لاکر سرمایہ داری نظام کی ضرورت کے مطابق کارخانوں اور دفاتر کے لئے سستی لیبر فراہم کی جاسکے اور عشروں سے ان معاشروں میں عورت کا عملی کردار یہی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ فطرت سے بغاوت کے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے چنانچہ مغرب، خاندانی نظام کے تقریباً مکمل خاتمے کی صورت میں آج فطرت کے خلاف کی گئی اس بغاوت کے انجام سے دوچار ہے جس پر چیخ پکار تو سنائی دیتی رہتی ہے مگر اب اس گاڑی کو ریورس گیئر لگانا بہت مشکل ہے۔
٭عورت کی معاشی جدوجہد، خوشحالی کا ذریعہ؟
ایک عام تصور یہ ہے کہ عورت کو چوکوں اور بازاروں میں کھینچ لانے سے مغرب کا خاندانی نظام اور گھریلو سکون چاہے کتنا ہی برباد ہوگیا ہو مگر کم از کم معاشی طور پر عام آدمی بھی بہت خوشحال ہوگیا ہے، لیکن یہ بھی بس ایک خیال خام ہی ہے ۔ امریکہ کی وَرمونٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ہک گٹ مین(Huck Gutman) امریکہ میں معاشی عدم مساوات کے موضوع پر اپنے ایک مقالے میں جو پاکستان کے ممتاز انگریزی اخبار ‘ڈان’ میں بھی یکم جولائی 2002ء کو شائع ہوا، لکھتے ہیں:
”اگرچہ لگتا ہے کہ امریکہ کے لوگ ناقابل تصور امارت سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر امریکیوں کو پیٹ بھر کھانا بھی نہیں ملتا اور ایک قابل لحاظ تعداد بھوکی رہ جاتی ہے۔ ” وہ کہتے ہیں کہ ”گزشتہ صدی کی آخری چوتھائی جس میں امریکی کارپوریشنوں نے پوری دنیا میں اپنی طاقت اور اثرورسوخ بڑھا کر بھاری منافع کمایا، اس پوری مدت میں امریکی محنت کش کو کوئی اضافی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ امریکی کارکنوں کی اُجرتیں 1978ء سے ایک ہی سطح پر برقرار ہیں یا گھٹ رہی ہیں۔”
اُس کے مقابلے میں اعلیٰ افسران کے معاوضے بڑھتے چلے گئے اور اس تحقیق کے مطابق آج کیفیت یہ ہے کہ ان کی آمدنی ایک عام کارکن سے سات سو گنا تک زیادہ ہے۔ پروفیسر گٹ مین نے اسے زیادہ آسان پیرائے میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک چیف ایگزیکٹیو آفیسر آدھے دن میں اتنا کما لیتا ہے جو ایک مزدور سال بھر میں بھی مشکل سے کما پاتا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ایک فی صد امیر ترین لوگ ، نیچے کے 95 فی صد لوگوں سے زیادہ وسائل کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ
”اس بات پر یقین کرنا ان لوگوں کے لیے مشکل ہوگا جو ٹی وی پرو گراموں میں امریکیوں کو اسپورٹس گاڑیاں چلاتے اور سجے سجائے گھروں میں بسا دیکھتے ہیں لیکن معاشی حقیقت یہ ہے کہ امریکی خاندانوں کے معیارِ زندگی میں جو اضافہ بھی ہوا ہے، وہ تقریباً سب کا سب عورتوں کے بڑے پیمانے پر ورک فورس میں شامل ہونے کا نتیجہ ہے، اور گھریلو اخراجات جو پہلے ایک کمانے والے کی آمدنی سے پورے ہوجاتے تھے، اب اُن کے پورے ہونے کا دارومدار دو افراد کی آمدنی پر ہے۔بچوں کی دیکھ بھال، گھر کا انتظام ، کھانا پکانا، یہ چیزیں اب روز مرہ کام کا حصّہ نہیں بلکہ اضافی بوجھ ہیں۔”29
واضح رہے کہ امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا بے انصافی پر مبنی نظام سرمایہ داری کے سبب گزشتہ کئی برس سے جس معاشی بحران کا شکار ہے، اس کی وجہ سے عام آدمی کے حالات مزید ابتر ہوئے ہیں اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے تفاوت کے باعث پوری مغربی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ عورت کا استحصال اس نظام کا ایک بنیادی وصف ہے۔ زوجیت، مادریت اور خانہ داری کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مردوں کی طرح معاشی جدوجہد بھی اس کی مجبوری بنا دی گئی ہے جبکہ اسلام میں مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار واضح طور پر الگ الگ ہیں۔ اور اسلام نے زندگی کے کسی مرحلہ پر، اور کسی بھی حیثیت سے ، عورت کواپنی مالی کفالت کا ذمہ دار نہیں بنایا، بلکہ یہ فرض اس کے قریبی مردوں کے سپرد کیا ہے، اسلام کے طبقہ نسواں پر اس سے بڑا کیا احسان ہوسکتا ہے!!
اسلامی نظام میں عورت کو گھر کی پناہ گاہ سے باہر آنے پر مجبور کیے بغیر تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں اور اس کی مکمل کفالت اور تمام ضروریات کی تکمیل مرد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔مسلم دنیا میں خاندان کا ادارہ اسی بنا پر آج بھی مستحکم ہے اور مسلمان معاشروں میں عورتیں بالعموم ان مسائل سے دوچار نہیں ہیں جن سے مغرب کی عورت کو شب و روز سابقہ درپیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کی عورت اس سپروومن رول ماڈل سے بیزار ہوچکی ہے جس کا جھانسا دے کر اسے اپنے گھر کی جنت سے نکال کر کارگاہوں اور بازاروں کی زینت بنایا گیا ہے اور پانچ ہزار عورتوں سے انٹرویو کے بعد ان کی بھاری اکثریت کی آرا کی روشنی میں ٹاپ سانتے کی ایڈیٹر کو کہنا پڑا ہے کہ
Working women are heartily sick of these do it all role models. It is time for superwoman to be put back in her box.
”ملازمت پیشہ عورتیں ہر چیز کی ذمہ داری والے اس طرزِ زندگی سے شدید طور پربیزار ہوچکی ہیں، وقت آگیا ہے کہ سپروومن اپنے گھر واپسی کی راہ لے۔”30
ان تفصیلات سے واضح ہےکہ خدائی ہدایات سے بےنیاز ہوکر اور فطرت کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے مغربی تہذیب نے عورت کو مرد بنانے کی جو احمقانہ کوشش کی، اس کے نتیجے میں وہ نہ پوری طرح مرد بن سکی، نہ پوری عورت رہ سکی۔ اس بنا پر آج وہ شدید مسائل کا شکار اور اس صورت حال سے چھٹکارے کی آرزو مند ہے۔یہی کیفیت اسلام کی جانب مغربی خواتین کے رجوع کا ایک بنیادی سبب ہے جس کے شواہد آئے روز ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔
باب کتاب ‘عورت،مغرب اور اسلام’ ، ثروت جمال اصمعی، انسٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز ، اسلام آباد
________________________________________
حوالہ جات
http://www.guardian.co.uk/society/2011/aug/31/cmi-equal-pay-report
http://www.guardian.co.uk/business/2011/oct/13/shocking-lack-women-directors-ft
http://www.guardian.co.uk/society/2007/aug/22/guardiansocietysupplement.crimel
http://www..guardian.co.uk/uk/2011/jul/02/human-trafficking-laws- immigration-control
http://www.whiteribboncampaign.co.uk/Resources/violence_against _women
Walby, S.&Allen.J.(2004) Docestic violence, sexual assault and stalking: Findings from the British Crime Survey. Home Office. London.
HM Government(2007) Cross-government Action Plan on Sexual Violence and Abuse. Home Office. London.
Walby, S. & Allen, J. (2004) Domestic violence, sexual assault and stalking: Findings from the British Crime Survey. Home Office. London.
Amnesty UK (2005) Sexual Assault Research. Amnesty.
Provey, D. (2005) Crime in England and Wales 2003/2004: Supplementary Volume 1:Homicide and Gun Crime. Home Office Statistical Bulletin No.02/05. Home Office. London: Department of Health(2005) Responding to Domestic Abuse. DH. London. (from Statisics on Domestic Violence: www.womensaid.org.uk)
Dodd, T. et al (2004) Crime in England and Wales 2003-2004. Home Office. London (from ‘Statistics on Domestic Violence’ www.womensaid.org.uk
Forced Marriage: A Wrong not a Right, Home Office and Foreign & Commonwealth Office,2005
S Walby, The Cost of Domestic Violence
http://news. Bbc.co.uk/2/hi/uk_news/2752567.stm
http://zcommunications. org/violence-against-women-by-ian-sinclair
Gill Hague and Ellen Malos, Domestic violence. Action for change (New Clarion Press, Cheltenham, 2005) . P.6.
http://www.guardian.co.uk/uk/2007/july/21/ukerime.immigrationpolicy
Joanna Bourke. Rape: a history from 1860 to present Virago Press Ltd. London, 2007
http://www.guardian.co.uk/society/2007/jul/03/crime.penal
http://now.org/press/04-11/04-12.html
http://www.ohchr.org/en/NewsEvents/pages/DisplayNews.aspx? News ID=11479&LangID=E
http://www.ohchr.org/English/bodies/hrcouncil/docs/17session/A.HRC. 17.26. Add.5_AEV.pdf
http://nowfoundation.org/issues/violence/Oct2011SRVAW webinar.html.
http://edition.cnn.com/2008/US/07/31/military.sexabuse/index.html?cref=rss_topstoris
http://extras.denverpost.com/justice/tdp_betrayat.pdf
http://www.dailymail.co.uk/news/article-123003/Sick-Superwoman.html
http://www.commondreams.org/views02/0701-05.htm
http://www.dailymail.co.uk/news/article-123003/Sick-Superwoman.html