فیمنزم میں اسلام کے نکتہ نظر سے “کچھ اجزاء غلط” نہیں سراسر متضاد ہیں اور انکو ماننے والا مسلمان نہیں ہو سکتا اور نہ ماننے والا فیمنسٹ نہیں ہو سکتا۔فیمن ازم وراثت میں عورت کے مرد کے مقابلے میں آدھے حصے کو نہیں مانتا. نشوز والی آیت کو نہیں مانتا. وقرن فی بیوتکن والی آیت کو نہیں مانتا. الرجال قوامون علی النساء والی آیت کو نہیں مانتا. امامت پر صرف مرد کے حق کو نہیں مانتا۔ انبیاء سارے مرد کیوں تھے اس پر بھی اعتراض ہے. فیمن ازم مرد اور عورت کی ہر اعتبار سے برابری کا قائل ہے. جو شخص اس بات کو نہیں مانتا (یعنی مسلمان) وہ فیمنسٹ نہیں ہو سکتا.
بیگم کا شوہر کیلئے تیار ہونا اور زیب و زینت اختیار کرنا اسلام میں عبادت ہے اور فیمن ازم میں لعنت… آپ مجھے یہ سمجھائیں کہ ایک مسلمان خاتون فیمنسٹ کیسے ہو سکتی ہے؟اور ہمارا میڈیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوتے ہوئے الحاد کا راستہ کیوں صاف کر رہا ہے؟جی ہاں، فیمن ازم اور الحاد کا “چولی” دامن کا ساتھ ہے…
.. اللہ نے مرد کو قوام بنایا جو انکے نزدیک عورت پر ظلم ہے… یعنی نعوذبااللہ، اللہ ظالم ہے…!!!
.. اللہ نے نشوز والی آیت نازل فرمائی جو انکے نزدیک عورت کا استحصال ہے… یعنی نعوذبااللہ، اللہ عورتوں کے استحصال کا حکم دیتا ہے…!!!
.. اللہ نے اولاد کو قتل کرنے کو حرام قرار دیا اور انہیں اسقاط حمل کا “حق” چاہیے…یعنی نعوذبااللہ، اللہ کو عورتوں کے حقوق کا علم ہی نہیں…!!!
.. اللہ نے عورت کا وراثت میں حصہ آدھا رکھا ہے جو انکے ناانصافی ہے… یعنی نعوذبااللہ، اللہ بے انصاف ہے…!!!
.. اللہ نے بطور “اولی الامر” شوہر کی مکمل اطاعت کا حکم دیا ہے سوائے منکر کے جو انکے نزدیک “پیٹری آرکی”( patriarchy) اور “مزوجنی”(misogyny) کی بہترین مثال ہے (نعوذبااللہ)…
تو نتیجہ آخر میں اللہ اور رسول اللہ سے جان چھڑا کر الحاد کی دلدل میں دھنسنا ہی نکلے گا ناں…!!!
ان باتوں کا یہ مطلب نا لیا جائے کہ ہم نے مردانہ زیادتی اور استحصال کو بلینک چیک دے دیا ہے۔ یہاں ہمارا موضوع عورتوں یا مردوں کے حقوق کی پامالی کا رونا رونا سرے سے ہے ہی نہیں. ہمارا موضوع دراصل اس سے ایک درجہ پہلے ہے: یعنی زیادتی اور استحصال کو زیادتی اور استحصال قرار دینے کا معیار کیا ہے؟ اسلام یا فیمن ازم؟
کنفیوژن تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی عمل ان دونوں ہی پیمانوں کے مطابق غلط قرار پاتا ہے. مثلاً عورت پر بے جا پابندیاں، سختی، اس سے بے وفائی، اسے وقت نہ دینا، اسکی بات کو اہمیت نہ دینا، گھریلو تشدد، وغیرہ کی اسلام، فیمن ازم سے دو ہاتھ آگے جا کر مذمت کرتا ہے اور دس گنا زیادہ شدت سے کرتا ہے. فیمنسٹس نے سوائے تقریروں اور تحریروں کے اور کیا کر لینا ہے. عورتوں کے حقوق کیلئے قانون تو اب جا کر بننے شروع ہوئے ہیں اور آج تک بھی امریکہ جیسے ملک میں بھی عورتوں کے حقوق کا اہم ترین قانون 95 سال گزر جانے کے باوجود منظور نہیں ہو سکا…!!!جبکہ اسلام نے چودہ سو سال قبل ہی عورتوں کے حقوق اور حفاظت کے قوانین ہمیں دے دئیے تھے اور انکے حق میں اپنے ماننے والوں کو صرف دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت کی سزا سے بھی ڈرایا ہے. حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نصیحتوں میں سے ایک بیویوں کے حقوق سے متعلق تھی.خیر، بات دور نکل گئی…تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اگر کوئی عورت کسی مرد کی زیادتی کا شکار ہے تو اسے اسکا حل اسلام میں ہی ڈھونڈنا ہو گا، فیمن ازم میں نہیں.کیوں؟
کیونکہ فیمن ازم آغاز میں تو آپکا ہاتھ پکڑ کر خوب ساتھ دے گا، آپکے حق میں خوب نعرے لگوائے گا، آپکے ساتھ ساتھ چلے گا…..لیکن…. پھر وہ آپکا ہاتھ چھوڑے گا نہیں…پھر وہ غیر محسوس طریقے سے آپ کے ساتھ چلنے کی بجائے آپکو اپنے ساتھ چلاتا ایک “سلپری سلوپ” (پھسلن والی ڈھلوان) پر لے جائے گا جہاں پھر آپکو:
.. وراثت میں مرد کا دگنا حصہ بھی اپنا استحصال لگے گا
.. مرد کے مقابلے میں اپنی گواہی کا آدھا ہونا بھی زیادتی لگے گا
.. اپنے لیے نظر نیچے رکھنے کے علاوہ پردے کے احکامات اور مرد کیلئے صرف غض بصر کا حکم بھی برا لگے گا
.. مرد کیلئے تعدد ازواج اور اپنے لیے صرف ایک وقت میں ایک نکاح کی اجازت تو آپکی نیندیں اڑا دے گی
.. مرد کیلئے لونڈی سے تمتع کی اجازت لیکن عورت کیلئے غلام سے تعلق حرام ہونا بھی آپکو ناانصافی لگے گا
.. تمام انبیاء کے مرد ہونے پر بھی آپکی تیوریاں چڑھ جائیں گی
.. اور بالآخر آپ کہیں گی کہ ایسے عدل سے عاری خدا پر ایمان ہی کیوں رکھا جائے (نعوذبااللہ، استغفراللہ)
لہٰذا فیمنسٹس کے خلاف لکھنے کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں “پیٹری آرکی” اور “مِزوجِنی” کا برا نہیں سمجھتا… بالکل سمجھتا ہوں… لیکن اس لیے کہ میرا دین اسے برا کہتا ہے، نہ کہ اس لیے کہ فیمن ازم کے مطابق یہ برا ہے…!!!
(ڈاکٹر رضوان اسد خان)