عورت ہمیشہ سے تاریخِ انسانی کی صنفِ مظلوم رہی۔وہ مختلف تہذیبوں میں مختلف مسائل کا شکار رہی۔مشرق میں اسے مرد کے دامن تقدس کا داغ سمجھا جا تا رہا ۔روما میں اسے گھر کا اثاثہ جانا گیا۔یونان میں اسے شیطان کا لقب ملا اور یہودیت میں ا سے لعنتِ ابدی کا مستحق گر دانا گیا۔کلیسا نے اسے باغِ انسانیت کا کانٹا تصور کیا اور یو رپ میں اسے خدا ئی میں شریک مانا گیا مگر اسلام کا تصور ان سب سے جدا اور حقیقت پر مبنی اور فطرت کے ہم آہنگ تھا ‘ہے اور رہے گا۔ اس نے مرد اور عورت کو اکائی اور وحدت تصور کیا۔انھیں حقوق اور اجر وثواب اور عذاب وپاداش میں یکساں قرار دیا مگر ان کی فطرت کے موافق ان کے میدان کار الگ الگ رکھے۔مگر جب یہ تعلیمات نظروں سے اوجھل ہو نا شروع ہوگئیں تو پچھلی صدی کے اوائل میں عورت اور اس کے مسائل پھر سے اجا گر ہوئے اور اُن کو Issueبنایا گیا۔مظلوم‘مقھور‘مجبور اوربنیا دی حقوق سے محروم جس میں تعلیم‘صحت ‘زندگی‘شادی ‘ را ئے کی آزا دی ‘فیصلہ سا زی جیسے اہم امور شامل ہیں۔اِنھی نا انصافیوں اور حقو ق سے محرومیوں نے تحریکِ آزا دی نسواں کی داغ بیل ڈالی ‘جس نے آخر کار عورت کو مزید محرومیوں کا شکار کر دیا ہے۔
عورت کو اپنے حقوق سے آشنا کرا نے کے لیے کچھ بین الاقوامی کا نفرنسیں ہوئیں تا کہ عورت کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ اُس میں تعلیم‘ صحت‘ غربت‘ انسانی حقوق‘ لڑکی ‘ ذرائع ابلاغ‘ ماحول ‘ معیشت‘ ادا رہ جا تی نظام‘مسلح جا رحیت‘ فیصلہ سا زی میں شمولیت اورتشدد کے مو ضوعات شامل ہیں۔ اور ہرسال حکومتیں اس کی پابند ہیں کہ عورت کے لیے ان میدان کار میں جو کام ہو چکے ہیں اور جو ابھی با قی ہیں اور جو حکمتِ عملی تر تیب دی جا تی ہے اُس کی ایک جا مع رپورٹ اقوامِ متحدہ کو پیش کرے۔اسی طرح کا ایک معا ہدہ CEDAWہے ۔جو خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا معا ہدہ ہے۔Covention for the elimination of all types of discrimination against women.
اس کے بھی16آرٹیکل ہیں ۔BPFAاورCEDAWمیں حقوقِ نسواں کا جو عا لمی ایجنڈا دیا گیا ہے اُس کی کچھ با توں سے اتفاق کرتے ہوئے بھی اکثر ملکوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے یہاں تک کہ امریکہ جو رو شن خیالی اور اعتدال پسندی کا درس دیتا ہے ‘اُس نے بھی ان معا ہدات پر دستخط نہیں کیے ۔اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ مسلم تہذیب کے لیے اس کے اثرات کتنے تباہ کن ہوں گے۔مولانا مودودیؒ نے نصف صدی قبل مسلمان عورت کو خبر دار کیا تھا کہ معا شرت کو تباہ کر نے کے لیے اسے معا شرت کے3ستونوں ماحول‘معا شرتی اقدارا ور مذہب سے بغاوت کے لیے تیار کیا جا ئے گا۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مساوات‘ معیشت میں بہتری اور women empowermentکے خوش نما جال میں مسلمان عورت کو پھانس کر اسے بھی مغربی عورت کی طرح تنہائی کے عذاب کا شکار اور محبتوں اور حفاظتوں کے حصار اور محبوب ترین رشتوں سے کا ٹا جا رہا ہے۔
عالمی ایجنڈے کے بنیادی اہداف
1۔ مخلوط معا شرت
2۔ مساوات‘ معا شی تر قی اورwomen empowermentکے نام پر مسلمان عورت کو گھر سے با ہر نکالا
3۔ مرد اور عورت کو ایک اکائی اور وحدت اور معاون کی بجا ئے ایک دوسرے کی مد مقابل قوتیں بنانا
4۔ مسلم تہذیب کا افتخار اس کے خاندانی نظام کو بکھیر دینا۔
مغربی ایجنڈے پر عملدرآمد کر نے والیN.G.O’sکا کر دار:
1۔ خاندان‘ شا دی‘ مذہب‘ مادریت عورت کی آزا دی اور تر قی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
2۔ مرد اور عورت کو ایک دو سرے کے مدمقابل قوتیں ثابت کر نا تا کہ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا جاسکے۔
3۔ معیشت میں بہتری ‘ عورت کو با اختیار بنا نے اور 33222نما ئندگی دینے کے دھوکہ میں عورت کو فریب دینا تاکہ عورت اپنے اصل کردار انسان سازی سے غافل ہو جائے۔
4۔ بہبود آبادی کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی
5۔ کم عمری کی شادی پر سزا مگر معصوم بچوں کو نصابی کتابوں کی تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے بے حیائی کی ترغیب
6۔ اسقاطِ حمل کی اجازت
7۔ عورت کو گھریلو کام کا معاوضہ بھی دیا جائے تا کہ محبت و رحمت کے جذبے نا پید ہو جائیں۔
8۔ شادی سے گریز ۔بغیر نکاح کے اکٹھے اورمخلوط ماحول میں رہنا زیادہ آسان
9۔ ہم جنس پرستی کو بطورِ حق تسلیم کروانا
10۔ آبرو با ختہ عورتوں اور مردوں کو معاشرے میں قابلِ نفرت نہ رہنے دینا۔ان کو sex worker کا نیا نام دینا۔
11۔ بچوں کو ریاست کی تحویل میں دینا۔ والدین کا کر دار کم سے کم کر نا۔
مغربی معاشرے کی موجودہ تصویر
مغرب میں مندرجہ بالا کارروائیوں کے نتیجے میں جو تصویر نطر آتی ہے وہ شا عر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی زبانی
تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں خود آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیا نہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
کے مصداق ٹوٹے خاندانوں ‘ جنس زدہ معا شرے ‘محبت‘احترام ‘ حیا اور حفظ مرا تب کے تقاضوں سے عا ری نسل کی صورت میں ظہور پذیر ہے۔امریکہ کے ایک سر وے کے مطا بق شا دی کی شر ح میں ایک ہزار میں صرف36جو ڑے قانونی طور پر شا دی شدہ ہیں ۔ملک کے مختلف حصوں میں ٹو ٹے خاندانوں کی شرح 45222ہے۔
دومغربیresearchersڈاکٹر ڈیوڈ اور ڈاکٹر بار براڈیفووائٹ ہیڈ کا سر وے:
* بغیر شا دی کے اکٹھے رہنے والے جو ڑوں کے بگاڑ کا خدشہ 20گنا زیا دہ
* ماں اور اس کے مرد دوست کے بچوں کے بگاڑ کا خدشہ 33گنا زیا دہ
* singleماں یا باپ کے بچوں کے بگاڑ کا خدشہ 14گنا زیا دہ
* اور اب ہم جنس پرستوں کو بھی قانونی جو ڑے کی حیثیت حاصل ہونے والی ہے اور وہ بچے بھی adoptکر تے ہیں۔اُن بچوں کی اخلاقی حالت کا اندا زہ ہر ذی شعور اوررجل رشید کر سکتا ہے۔
ماں اور بچے کے لیے تحفظ کے سب سے بڑے ادا رے شا دی اور خاندان ہیں۔مغربی معاشرہ میں سب سے زیا دہ مظلوم عورت اور بچہ ہیں۔اُن سے عبرت حاصل کریں اور اپنے ممالک کو ان تجربات سے بچائیں۔ما دی تر قی اور وسائل کے لحاظ سے امریکہ اور مغرب دنیا میں سب سے آگے ہیں اور خاندانی اقدار اور روایات کے لحاظ سے مسلمانو!تم سب سے آگے ہو۔اپنے اس افتخار کوختم نہ ہو نے دینا۔مغرب میں خاندانی نظام کی شکست وریخت نے معا شروں اور حکومتوں کو بے پناہ مسائل سے دو چار کیا ہے۔شکستہ خاندانوں کی امداد کے لیے بے پناہ وسائل کی ضرورت ہو تی ہے ‘بچوں کی بحالی‘جرائم سے نمٹنے کے پرو گرام ‘ منشیات کی شکار نسل کے علاج ‘جنسی تشد د کا شکار کم عمر ماؤں کی دیکھ بھال ‘ خصوصی افراد کی تعلیم وتر بیت ‘ معمر افراد کے اولڈ ہاؤسز اور عدا لتی چکروں میں اضا فے کے با عث اربوں ڈالر کا خرچ ہو رہا ہے۔
عورت کو اس کے بنیا دی کر دار اور اس کی (The Job)یعنی انسان کو تخلیق کر نے اور اسے انسا نیت کی معراج پر پہنچا نے کے فر یضے سے نکال کر عورت اور معا شرے دونوں کے ساتھ ظلمِ عظیم ہوا ہے۔عورت اور اس کے بچے کا بہترین مفاد اِ سی میں ہے کہ شا دی اور خاندان کے ادارے کو مضبوط بنایا جا ئے اور اِن کے تقدس کو بحال کیا جائے۔
عورت نسلِ نوکی معمار ہے اور وہ دوہرا کر دار ادا کر تی ہے ۔ اس کا ایک کر دا ر گھر میں ماں ‘ بہن ‘ بیوی اور بیٹی کا ہے اور دو سرے کر دار مین وہ معا شرے کی تہذیب و تر قی میں بھر پور حصہ لیتی نظر آتی ہے ۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ معا شرے کا حسن ‘ وقار اوراستحکام کا راز ماؤں کی پُر خلوص جدو جہد اور لازوال قر با نی میں پنہاں ہے۔ اگر چہ اسلامی معا شرے میں عو رت اپنے ہر روپ مین ہر لحاظ سے قابلِ تحسین واکرام میں مرا تب پر فائز ہے ۔مگر ماں کی صورت میں اسے جو مر تبہ اور عزت ملی ہے نوعِ نسواں کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔اِ س عظمت ‘فوقیت ومرتبے کی بنیا دی وجہ وہ عظیم المرتبت ذمہ دا ری ہے جو ایک ماں ‘ممتا کی شکل میں ادا کر تی ہے ۔ماں ہی قوم کی معمار ہو تی ہے اور یہ ماں ہی ہو تی ہے جو ایک مصور کی طرح محبت ‘ رحمت ‘ شفقت ‘ مو دت ‘ اور ہمدر دی سے رنگوں کا کام لے کر زندگی کے کینوس میں رنگ بھر تی چلی جا تی ہے۔
آج مغربی معاشرے میں ماں انسان سا زی کی بنیا دی ذمہ دا ریوں سے بے نیاز ہو چکی ہے ۔ وہ اس کو اپنے لیے اعزاز اور رحمت کیے بجا ئے ایک بوجھ اور ایک ذمہ دا ری سمجھتی ہے ۔بچے کو فخر و انسباط سے دنیا میں لانے اور انسان بنا نے کے بجا ئے کبھی اس کا اسقاط کر دیتی ہے ۔کبھی معصوم روح کو گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا جا تا ہے۔اور کبھی ڈے کیئر سنٹر کے حوا لے کر دیا جاتا ہے۔ گھر سے اسے وہ محبت نہیں ملتی جو ایک ممتا سے ملنی چا ہیے۔اس لیے مغربی معاشرہ میں ایسی نسل معرض وجود میں آئی جو والدین کے ہو تے ہوئے یتیموں کی طرح زندگی بسر کر تے ہیں۔ سڑ کوں پر راتیں گزا رتے ہیں ۔جسمانی تشدد کا شکار رہتے ہیں۔سا ئے کی طرح زندگی بسر کر تے ہیں۔ اور زندہ در گور ہو کر موت کی تا ریکیوں میں گم ہو جا تے ہیں۔
مرد اور عورت اس کائنات کی اکائی ہیں ۔وہ ایک دو سرے کی معا ونت سے ایک دو سرے کی تکمیل کر تے ہیں اور اِن دو صنفوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کر نا انسا نیت کے ساتھ ساتھ اِن دونوں پر بھی ظلم ہے ۔نہ عورت مرد کے بغیر کچھ کر سکتی ہے اور نہ مرد ہی عورت کی رفاقت اور معا ونت کے بغیر کچھ کر سکتا ہے‘ چا ہے وہ انفرا دی معاملات ہوں یا اقوام کے اجتما عی معاملات ۔مسلمان عورت کو وہ تمام حقوق از خود ہی حاصل ہوجاتے ہیں جب وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں دل وجان سے لگ جا تی ہے جو اُس کی فطرت کا تقاضا بھی ہے۔
سمیعہ راحیل قاضی