انسانى زندگى دو مختلف شعبوں پر منقسم ہے، ايك گهر كے اندر كا شعبہ ہے اور ايك گهر كے باہر كا- يہ دونوں شعبے ايسے ہيں كہ ان دونوں كو ساتھ لئے بغير ايك متوازن اور معتدل زندگى نہيں گزارى جاسكتى- گهر كا انتظام بهى ضرورى ہے اورگهر كے باہر كا انتظام،يعنى كسب ِمعاش اور روزى كمانے كا انتظام بهى ضرورى- جب دونوں كام ايك ساتھ اپنى اپنى جگہ پر ٹهيك ٹهيك چليں گے تب انسان كى زندگى استوار ہوگى اور اگر ان ميں سے ايك انتظام بهى ختم ہوگيا يا ناقص ہوگيا تو اس سے انسان كى زندگى ميں توازن ختم ہوجائے گا-
ان دونوں شعبوں ميں اللہ تعالىٰ نے يہ تقسيم فرمائى كہ مرد كے ذمے گهر كے باہركے كام لگائے، مثلاً كسب ِ معاش اور روزى كمانے كا كام اور سياسى اور سماجى كام وغيرہ؛ يہ سارے كام درحقيقت مرد كے ذمے عائد كئے ہيں- جبكہ گهر كے اندر كا شعبہ الله اور الله كے رسول نے عورتوں كے حوالے كيا ہے كہ وہ اس كو سنبهاليں- اگر اللہ تعالىٰ كى طرف سے يہ حكم آجاتا كہ عورت باہر كا انتظام كرے گى اور مرد گهر كا انتظام كرے گا، تو بهى كوئى چوں وچرا كى مجال نہيں تهى- ليكن اگر عقل كے ذريعے انسان كى فطرى تخليق كا جائزہ ليں تو بهى اس كے سوا اور كوئى انتظام نہيں ہوسكتا كہ مرد گهر كے باہر كا كام كرے اور عورت گهر كے اندر كا كام كرے، ا س لئے كہ مرد اور عورت كے درميان اگر تقابل كركے ديكها جائے تو ظاہر ہوگا كہ جسمانى قوت جتنى مرد ميں ہے، اتنى عورت ميں نہيں اور كوئى شخص بهى اس سے انكار نہيں كرسكتا- اللہ تعالىٰ نے مرد ميں عورت كى نسبت جسمانى قوت زيادہ ركهى ہے، اور گهر كے باہر كے كام قوت اور محنت كا تقاضا كرتے ہيں- وہ كام قوت اور محنت كے بغير انجام نہيں ديے جاسكتے- لہٰذا اس فطرى تخليق كا بهى تقاضا يہى تها كہ گهر كے باہر كا كام مرد انجام دے، اور گهر كے اندر كے كام عورت كے سپرد ہوں
ليكن جس ماحول ميں معاشرے كى پاكيزگى كوئى قيمت نہ ركهتى ہو، اور جہاں عفت وعصمت كے بجائے اخلاق باختگى اور حيا سوزى كو منتہاے مقصود سمجھا جاتا ہو، ظاہر ہے كہ وہاں اس تقسيم كار اور پردہ و حيا كو نہ صرف غير ضرورى بلكہ راستے كى ركاوٹ سمجها جائے گا- چنانچہ جب مغرب ميں تمام اخلاقى اقدار سے آزادى كى ہوا چلى تو مرد نے عورت كے گهر ميں رہنے كو اپنے لئے دوہرى مصيبت سمجھا- ايك طرف تو اس كى ہوسناك طبيعت عورت كى كوئى ذمہ دارى قبول كئے بغير قدم قدم پراس سے لطف اندوز ہونا چاہتى تهى، اور دوسرى طرف وہ اپنى قانونى بيوى كى معاشى كفالت كو بهى ايك بوجہ تصور كرتا تها- چنانچہ اس نے دونوں مشكلات كا جو عيارانہ حل نكالا، اس كا خوبصورت اور معصوم نام ‘تحريك ِ آزادىٴ نسواں’ ہے- عورت كو يہ پڑهايا گيا كہ تم اب تك گهر كى چارديوارى ميں قيد رہى ہو، اب آزادى كا دور ہے اور تمہيں اس قيد سے باہر آكر مردوں كے شانہ بشانہ زندگى كے ہر كام ميں حصہ لينا چاہئے- اب تك تمہيں حكومت و سياست كے ايوانوں سے بهى محروم ركها گيا ہے، اب تم باہر آكر زندگى كى جدوجہد ميں برابر كا حصہ لو تو دنيا بهر كے اعزازات اور اونچے اونچے منصب تمہارا انتظار كررہے ہيں-
عورت بے چارى دل فريب نعروں سے متاثر ہوكر گهر سے باہر آگئى اور پروپيگنڈے كے تمام وسائل كے ذريعے شور مچا مچا كر اسے يہ باور كرا ديا گيا كہ اسے صديوں كى غلامى كے بعد آج آزادى ملى ہے، اور اب اس كے رنج و محن كا خاتمہ ہوگيا ہے- ان دل فريب نعروں كى آڑ ميں عورت كو گھسیٹ كر سڑكوں پر لايا گيا، اسے دفتروں ميں كلركى عطا كى گئى، اسے اجنبى مردوں كى پرائيويٹ سيكرٹرى كا ‘منصب’ بخشا گيا، اسے ‘اسٹينو ٹائپسٹ’بننے كا اعزاز ديا گيا- اسے تجارت چمكانے كے لئے ‘سيلز گرل’ اور ‘ماڈل گرل’ بننے كا شرف بخشا گيا، اور ا س كے ايك ايك عضو كوبرسر بازار رُسوا كركے گاہكوں كودعوت دى گئى كہ آوٴ اور ہم سے مال خريدو، يہاں تك كہ وہ عورت جس كے سر پر دين فطرت نے عزت و آبرو كا تاج ركها تها اور جس كے گلے ميں عفت و عصمت كے ہار ڈالے تهے، تجارتى اداروں كے لئے ايك شو پيس اور مرد كى تهكن دور كرنے كے لئے ايك تفريح كا سامان بن كر ره گئى!!
نام يہ ليا گيا كہ عورت كو ‘آزادى’ دے كر سياست و حكومت كے ايوان اس كے لئے كهولے جارہے ہيں، ليكن ذرا جائزہ لے كر تو ديكهئے كہ اس عرصے ميں خود مغربى ممالك كى كتنى عورتيں صدر يا وزيراعظم بن گئيں؟ كتنى خواتين كو جج بنايا گيا؟ كتنى عورتوں كو دوسرے بلند مناصب كا اعزاز نصیب ہوا؟ اَعدادوشمار جمع كئے جائيں تو ايسى عورتوں كا تناسب بمشكل چند فى لاكھ ہوگا- ان گنى چنى خواتين كو كچھ مناصب دينے كے نام پر باقى لاكهوں عورتوں كو جس بيدردى كے ساتھ سڑكوں اور بازاروں ميں گھسیٹ كر لايا گياہے، وہ ‘آزادىٴ نسواں’ كے فراڈ كا المناك ترين پہلو ہے- آج يورپ اور امريكہ ميں جاكر ديكهئے تو دنيا بهر كے تمام نچلے درجے كے كام عورت كے سپرد ہيں- ريستورانوں ميں كوئى مرد ويٹر شاذو نادر ہى كہيں نظر آئے گا، ورنہ يہ خدمات تمام تر عورتيں انجام دے رہى ہيں- ہوٹلوں ميں مسافروں كے كمرے صاف كرنے، ان كے بستر كى چادريں بدلنے اور ‘روم اٹنڈنٹ’كى خدمات تمام تر عورتوں كے سپرد ہيں- دوكانوں پر مال بيچنے كے لئے مرد خال خال نظر آئيں گے، يہ كام بهى عورتوں ہى سے ليا جارہا ہے- دفاتر كے استقباليوں پر عام طور پر عورتيں ہى تعينات ہيں- اور بيرے سے لے كر كلرك تك كے تمام ‘مناصب’ زيادہ تر اسى صنف ِنازك كے حصے ميں آئے ہيں جسے ‘گهر كى قيد سے آزادى’ عطا كى گئى ہے-
نئى تہذيب كا عجيب فلسفہ
پروپيگنڈے كى قوتوں نے يہ عجيب و غريب فلسفہ ذہنوں پر مسلط كرديا ہے كہ عورت اگر اپنے گهر ميں اپنے اور اپنے شوہر، اپنے ماں باپ، بہن بهائيوں اور اولاد كے لئے خانہ دارى كا انتظام كرے تو يہ قيد اور ذلت ہے، ليكن وہى عورت اجنبى مردوں كے لئے كهانا پكائے، ان كے كمروں كى صفائى كرے، ہوٹلوں اور جہازوں ميں ان كى ميزبانى كرے، دوكانوں پر اپنى مسكراہٹوں سے گاہكوں كو متوجہ كرے اور دفاتر ميں اپنے افسروں كى ناز بردارى كرے تو يہ ‘آزادى’ اور ‘اعزاز’ ہے۔
پهر ستم ظريفى كى انتہا يہ ہے كہ عورت كسب ِمعاش كے آٹھ آٹھ گهنٹے كى يہ سخت اور ذلت آميز ڈيوٹياں ادا كرنے كے باوجو داپنے گهر كے كام دهندوں سے اب بهى فارغ نہيں ہوئى- گهر كى تمام خدمات آج بهى پہلے كى طرح اسى كے ذمے ہيں، اور يورپ اور امريكہ ميں اكثريت ان عورتوں كى ہے جن كو آٹھ گهنٹے كى ڈيوٹى دينے كے بعد اپنے گهر پہنچ كر كهانا پكانے، برتن دهونے اور گهر كى صفائى كا كام بهى كرنا پڑتا ہے-
عورتوں كو گهر سے باہرنكالنے كے لئے آج كل ايك چلتا ہوا استدلال يہ پيش كيا جاتا ہے كہ ہم اپنى نصف آبادى كو عضو ِ معطل بناكر قومى تعمير و ترقى كے كام ميں نہيں ڈال سكے- يہ بات اس شان سے كہى جاتى ہے كہ گويا ملك كے تمام مردوں كو كسى نہ كسى كام پر لگا كر مردوں كى حد تك ‘مكمل روزگار’كى منزل حاصل كرلى گئى ہے- اب نہ صرف يہ كہ كوئى مرد بے روزگار نہيں رہا بلكہ ہزارہا كام ‘مين پاور’ كے انتظار ميں ہيں-
حالانكہ يہ بات ايك ايسے ملك ميں كہى جارہى ہے جہاں اعلىٰ صلاحيتوں كے حامل مرد سڑكوں پرجوتياں چٹخاتے پهر رہے ہيں، جہاں كوئى چپڑاسى يا ڈرائيور كى آسامى نكلتى ہے تو اس كے دسيوں گريجويٹ اپنى درخواستيں پيش كرديتے ہيں اور اگر كوئى كلرك كى جگہ نكلتى ہے تو اس كے لئے دسيوں ماسٹر اور ڈاكٹر تك كى ڈگرياں ركهنے والے اپنى درخواستيں پيش كرديتے ہيں- پہلے مردوں كى ‘نصف آبادى’ ہى كو ملكى تعمير و ترقى كے كام ميں پورے طور پر لگا ليجئے- اس كے بعد باقى نصف آبادى كے بارے ميں سوچئے كہ وہ عضو ِمعطل ہے يا نہيں؟
اللہ تعالىٰ نے عورت كو گهر كى ذمہ دار بنايا تها، گهر كى منتظمہ بنايا تها كہ وہ فيملى سسٹم استوار ركہ سكے، ليكن جب وہ گهر سے باہر آگئى تو يہ ہوا كہ باپ بهى باہر اور ماں بهى باہر، اور بچے اسكول ميں يا نرسرى ميں، اور گهر پرتالا پڑ گيا، اب وہ فيملى سسٹم تباہ اور برباد ہوكر رہ گيا- عورت كو تو اس لئے بنايا تهاكہ جب وہ گهر ميں رہے گى تو گهر كا انتظام بهى كرے گى اور بچے اس كى گود ميں تربيت پائيں گے، ماں كى گود بچے كى سب سے پہلى تربيت گاہ ہوتى ہے-وہيں سے وہ اخلاق وكردار سيكهتے ہيں، وہيں سے زندگى گزارنے كے صحيح طريقے سيكهتے ہيں، ليكن آج مغربى معاشرے ميں فيملى سسٹم تباہ ہوكر رہ گيا ہے، بچوں كو ماں اور باپ كى شفقت ميسر نہيں ہے، اور جب عورت دوسرى جگہ كام كر رہى ہے اور مرد دوسرى جگہ كام كررہا ہے، اور دونوں كے درميان دن بهر ميں كوئى رابطہ نہيں ہے، اور دونوں جگہ پر آزاد سوسائٹى كا ماحول ہے بسا اوقات ان دونوں ميں آپس كا رشتہ كمزور پڑ جاتا اور ٹوٹنے لگتا ہے اور اس كى جگہ ناجائز رشتے پيدا ہونے شروع ہوجاتے ہيں، اور اس كى وجہ سے طلاق تك نوبت پہنچتى ہے اور گهر برباد ہوجاتا ہے-
اگر يہ باتيں صرف ميں كہتا تو كوئى كہہ سكتا تها كہ يہ سب باتيں آپ تعصب كى بنا پر كہہ رہے ہيں ليكن اب سے چند سال پہلے سوويت يونين كے آخرى صدر ‘ميخائل گوربا چوف’ نے ايك كتاب لكهى ہے … پروسٹرائيكا۔آج يہ كتاب سارى دنيا ميں مشہور ہے اور شائع شدہ شكل ميں موجود ہے، اس كتاب ميں گوربا چوف نے ‘عورتوں كے بارے ميں’ (Status of Women) كے نام سے ايك باب قائم يا ہے، اس ميں اس نے صاف اور واضح لفظوں ميں يہ بات لكهى ہے كہ
“ہمارى مغرب كى سوسائٹى ميں عورت كو گهر سے باہر نكالا گيا، اور اس كو گهر سے باہر نكالنے كے نتيجے ميں بے شك ہم نے كچھ معاشى فوائد حاصل كئے اور پيداوار ميں كچھ اضافہ ہوا، اس لئے كہ مرد بهى كام كررہے ہيں اور عورتيں بهى كام كررہى ہيں، ليكن پيداوار كے زيادہ ہونے كے باوجود اس كا لازمى نتيجہ يہ ہواكہ ہمارا فيملى سسٹم تباہ ہوگيا اور اس فيملى سسٹم كے تباہ ہونے كے نتيجے ميں ہميں جو نقصان اُٹهانے پڑے ہيں، وہ نقصانات اُن فوائد سے زيادہ ہيں جو پروڈكشن كے اضافے كے نتيجے ميں ہميں حاصل ہوئے- لہٰذا ميں اپنے ملك ميں ‘پروسٹرائيكا’ كے نام سے ايك تحريك شروع كررہا ہوں، اس ميں ميرا ايك بڑا بنيادى مقصد يہ ہے كہ وہ عورت جو گهر سے باہر نكل چكى ہے، اس كو واپس گهر ميں كيسے لايا جائے؟ اسكے طريقے سوچنے پڑيں گے، ورنہ جس طرح ہمارا فيملى سسٹم تباہ ہوچكا ہے، اسى طرح ہمارى پورى قوم تباہ ہوجائے گى-”
تحریر تقی الدین ہلالی