عورت کی کفالت کا بوجھ اسی پر ڈالنا ظلم ہے :
تصور کریں اس عورت کے بارے میں جسکا خاوند، باپ، بھائی یا بیٹا (یا کوئی دوسرا قریبی رشتہ دار) اسکی معاشی کفالت کا پورا ذمہ اٹھائے ھوئے ھے، گھر سے باہر آتے جاتے وقت اسکے تحفظ کی خاطر اسکے ساتھ ھونے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ھے، اسکی ضرورت کی ہر شے اسے گھر کی دہلیز پر مہیا کرتا ھے، اپنی عمر بھر کی کمائی ہنسی خوشی اس پر خرچ کردیتا ھے، اسے اچھا کھلاتا اور پہناتا ھے، اسکی عزت کی حفاظت کیلئے اپنی جان تک قربان کردینے کیلئے تیار رھتا ھے، اور ‘بالآخر’ (بادل ناخواستہ ہی صحیح) گھر کے معاملات بھی اسی عورت کی جھولی میں ڈال دیتا ھے (یہ تصور کہ ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام کی عورت کے پاس فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ھوتی ایک افسانہ ھے، خاندانی نظم کے اندر بچوں کی عمر ذرا زیادہ ھونے کے بعد عورت بالعموم کس قدر بااختیار ھوجاتی ھے اسکا اندازہ ہر شوھر کو ھوتا ھے )۔ یہاں جس عورت کی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا یہ کوئی تخیلاتی عورت نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں آج بھی خواتین کی غالب ترین اکثریت کم و بیش یہی زندگی گزار رھی ھے (کچھ اس خاندانی نظام کی شکست و ریخت اور کچھ مارکیٹ نظم کا حصہ بن جانے کی وجہ سے مظالم کا شکار ہیں، ان مظالم کا تعلق ہرگز خاندانی نظام کے ڈھانچے سے نہیں جیسا کہ ہمارا لبرل طبقہ جھانسا دینے کی کوشش کرتا ھے کیونکہ اس صورت میں یہ غالب ترین اکثریت بھی ان مظالم سے محفوظ نہ ھوتی)۔
اب اسکا موازنہ کریں اس عورت کی زندگی سے جو اپنی معاشی کفالت کی خود ذمہ دار ھے، گھر اور بچوں کی ذمہ داری بھی اسی کے کاندھوں پر ھے، صبح ناشتہ بھی بناتی ھے، بچوں کو تیار بھی کرتی ھے، انکے لنچ کا بندوبست بھی کرتی ھے، آفس کے جبر کو بھی برداشت کرتی ھے، باس کی باتیں بھی سنتی ھے، شام کو سب کیلئے کھانا بھی بناتی ھے، لانڈری بھی کرتی ھے۔ اگر قسمت نے یارانہ کیا تو شاید عمر بھر ساتھ نبھانے والا کوئی شوھر ہاتھ آجائے وگرنہ یہ سارا بوجھ اکیلے ہی اٹھائے پھرے گی۔ یہ نقشہ ھے جدید و ترقی یافتہ معاشروں کی غالب ترین خواتین کی زندگی کا۔ اس عورت کو اپنے تحفظ و بقا کیلئے ان پروسزز ، اشیاء و خدمات کی ضرورت ھے جنہیں مارکیٹ سے ‘خریدنا’ پڑتا ھے لہذا یہ عورت اس نظام کے تحت مجبور ھے کہ اپنی قوت خرید کو برقرار رکھنے کیلئے مارکیٹ کا حصہ بنی رھے۔ یہ اس نظام کا عورت پر جبر ھے۔
نفس معاملہ یہ ھے کہ ھیومن رائٹس اور اسپر مبنی مارکیٹ اور جمہوری نظم معاشرے کی اکائی کو فرد تک محدود (individualize) کرکے عورت کی کفالت کی ذمہ داری خود عورت کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ میں عورت پر ھونے والے بدترین مظالم میں سے عظیم تر ظلم ھے، ایک اس لئے کہ یہ اس جنس پر ایک ایسا بوجھ ڈال دینا ھے جو اسکی تخلیق کے مقصد ہی کے خلاف ھے، دوئم اس لئے کہ جدید نظام اس ظلم و شر کو عدل و خیر کے پردوں میں چھپا کر انسانوں کیلئے قابل قبول بناتا ھے (اس اعتبار سے یہ عورت کی بلا وجہ مار پیٹ کرنے سے بھی بڑا ظلم ھے کہ اس عمل کو ہر معاشرت و نظرئیے نے بہرحال برا ہی سمجھا مگر عورتوں میں پروفیشنل ازم کے فروغ کے ذریعے انکی مارکیٹائزیشن کے عمل کو آزادی و خودمختاری کے خوشنما نعروں میں پیش کیا جارہا ھے)۔ مارکیٹ نظم میں عورت اور مرد ‘فرد’ ہیں، یہاں دونوں اپنے تحفظ کیلئے غیر جذباتی و غیر شخصی ریاستی اداروں (impersonal and procedural state institutions) کے محتاج ہیں، جہاں ریاست کی پہنچ نہیں (ظاہر ھے ریاست ہر جگہ موجود نہیں ھوسکتی) وہاں طاقتور ‘اکیلا’ کمزور ‘اکیلے’ کو دبوچ لیتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ مارکیٹ نظم کے پھیلنے کے نتیجے میں ریپ (rape) کے مواقع بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں روایتی برادری نظم میں عورت کے تحفظ کا دائرہ محرم (اور بعض اوقات خاندان سے متعلقہ چند قریبی اور قابل اعتماد غیر محرم) رشتہ داروں کے گرد بنا جاتا ھے۔ یہی وجہ ھے کہ روایتی معاشرت میں ریپ کے وارداتیں انتہائی شاذونادر ھوتی ہیں کیونکہ ایک فرد (یا چند افراد) کے ہاتھ یہ موقع آجانا ہی خاصا مشکل امر ھوتا ھے کہ وہ ایک اکیلی عورت کو اس حالت میں کہیں پالے کہ اسے اپنی ھوس کا نشانہ بنا سکے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔
ان دونوں میں سے کونسی عورت زیادہ محفوظ و آسودہ زندگی گزار رھی ھے؟ آخر ان دونوں کے حال میں اس قدر فرق کیوں ھے؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ھے کہ ایک عورت اس نظم کا حصہ ھے جو خدا کی بتائی ھوئی فطری طرز معاشرت میں زندگی بسر کررھی ھے، وہ معاشرت جو محبت و صلہ رحمی کی بنیاد پر تعمیر ھوتی ھے، دوسری عورت تسکین لذات و بڑھوتری سرمایہ کی خاطر اغراض کی بنیاد پر تعمیر کی گئی معاشرت کا ایک پرزہ بنا دی گئی ھے اور جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ یہ نظام اسے فراھم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اسی لئے پہلی عورت محفوظ ھے جبکہ دوسری غیر محفوظ (vulnerable)۔ جن ‘دانشوروں’ اور ‘سکالرز’ کا خیال یہ ھے کہ موجودہ نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ یہ ظلم نہیں کرتا وہ بصیرت ہی سے محروم ہیں، انکے یہ لایعنی تجزئیے انہیں موجودہ نظام کے خلاف جہاد کرنے سے روکتے ہیں کہ انکے نزدیک یہ نظام فتنہ، ظلم و فساد فی الارض کا باعث نہیں بن رھا۔ جبکہ حقیقت یہ ھے کہ انسانی تاریخ میں تہذیب کا ایسا اجاڑ آج تک کسی معاشرتی و ریاستی نظم نے اس منظم طور پر نہ کیا ھوگا جتنا اس نام نہاد ترقی یافتہ جدید تہذیب نے کیا ھے۔
آخر اسکی وجہ کیا ھے کہ جدید انسان بہر حال اس محفوظ عورت کو غیرمحفوظ بنانے کیلئے اسے مارکیٹ کے مظالم و جبر کا شکار کرنا چاھتا اور ایسا کرنے کو عقل کا تقاضا بھی سمجھتا ھے (جیسے اس نے مرد کو اس ظلم و جبر کا شکار کرڈالا ھے)؟ اسکی وجہ یہ ھے کہ جدید انسان آزادی یعنی بڑھوتری سرمایہ کو بالذات مقصد گردانتا ھے اور اس کائنات کی ہر شے (بشمول انسان) اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ھے، لہذا عورت بھی اس اصول سے مستثنی نہیں۔ عمل تکاثر میں مہمیز اضافے کی خواہش ہی اسکی قلب کی اصل کثافت ھے۔
ایک شبہ کا ازالہ :
پوسٹ میں بتایا گیا کہ مارکیٹی معاشرت کیونکر عورت کی کفالت کا بوجھ اسکے کاندھوں پر ڈال کر اس پر ظلم کرتی نیز اسے غیر محفوظ کرتی ھے۔ اس پر ایک شبہ یہ وارد کیا جاتا ھے کہ موجودہ خاندانی نظم کے اندر بھی عورت پر طرح طرح کے مظالم ھوتے ہیں نیز اگر عورت بیوہ یا طلاق یافتہ ھوجائے اور اسکے باپ یا بھائی اسکی کفالت کی ذمہ داری نہ اٹھائیں یا اٹھانے لائق نہ ھوں تو اس عورت کیلئے تو مارکیٹ کا حصہ بننا ایک نعمت ھے، گویا مارکیٹ ایسی خواتین کیلئے بہترین متبادل فراہم کررھی ھے۔
مگر اعتراض کرنے والے نے خاندان کا نقشہ بس ‘ماں باپ اور بچوں’ تک محدود سمجھا، ظاھر ھے جسے خاندان بمعنی ‘برادری’ یا ‘قبیلہ’ کہتے ہیں وہ محض ان تین تعلقات کا نام نہیں بلکہ اس سےبہت وسیع تر تصور ھے۔ تو پہلی بات یہ کہ خاندانی نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ واقعی موجود ھو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت کی قوت اسکی برادری و خاندان ھوتا ھے اکیلی عورت نہیں، لہذا اسے دبوچ کر اس پر ظلم کر لینا کوئی آسان کام نہیں ھوتا۔ دوسری بات یہ کہ جو عورت بیوہ ھوجائے یا اسے طلاق ھوجاۓ تو اس کا مداوا بھی یہی نظام کردیتا ھے۔ مثلا ہمارے یہاں آج بھی اس امر کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بیوہ اور اسکے بچوں کو سہارا دینے کیلئے (اپنی تمام تر خواہشات کی قربانی دے کر) اس سے نکاح کرلیتا ھے، اگر نکاح ممکن نہ ھو تب بھی دادا یا دیگر بھائی وغیرھم ملکر خاتون خانہ اور اسکے بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے اور خاندانوں میں ہر سو پھیلی یہ مثالیں نظر نہیں آتیں، ہاں چند ظلم کرنے والے مرد نمایاں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر طلاق ھوجائے تو بھی عورت بے یارومددگار نہیں ھوجاتی (ویسے یہ بھی عجیب ذہنیت ھے کہ جدید ذہن کو طلاق کے بعد ہمیشہ عورت ہی کی فکر دامن گیر رہتی ھے، مرد اپنے بچوں کی پرورش کے حوالے سے جو پریشان ھوتا ھے وہ تو اسکے یہاں کسی کھاتے میں ہی نہیں)۔
چنانچہ مسئلہ تب پیدا ھوتا ھے جب فرد کی ان بنیادوں پر تربیت نہ کی جائے یا ممکن نہ رھے جو خاندانی نظام کے کرائسز مینیجمنٹ پروسسز کو اکٹیویٹ کرتی ھے، اور اس تربیت سازی میں بہت بڑی رکاوٹ خود جدید تعلیم و مارکیٹ سوسائٹی کا پھیلاؤ ھے جو فرد کو خود غرضی کی عقلیت و جبر قبول کرنے پر راضی کرتی ھے۔ خواہشات و ذاتی اغراض کا اسیر یہ ‘فرد’ (ھیومن) تو ماں باپ کو ہی گھر سے نکال باہر کرتا ھے، بیوہ یا مطلقہ عورت کا رونا کیا روئیں۔ گویا خاندان کا تحفظ ختم ھونے سے صرف ‘روایتی عورت’ (ماں، بہن، بیٹی، بیوی) ہی غیر محفوظ نہیں ھوتی بلکہ ‘بوڑھے’ (ماں باپ) بھی غیر محفوظ ھوجاتے ہیں۔ درحقیقت مارکیٹ یا سول سوسائٹی انفرادیت کے ہر روایتی اظہار یا تعلق کو غیر معقول و لایعنی بنا کر انکے وجود کو ‘غیر محفوظ’ کردیتی ھے۔ ایسا اس لئے کہ مارکیٹ یا سول سوسائٹی ‘مجرد فرد’ کی تکمیل اغراض کی خاطر وجود میں آنے والے تعلقات کا نظام ھے۔ اس معاشرت میں ‘اغراض سے ماوراء’ ہر تعلق غیر معتبر ھوجاتا ھے لہذا محبت و صلہ رحمی کی بنیاد پر تشکیل پانے والی اجتماعیتیں (مثلا خاندان و قبائل) تحلیل ھوجاتے ھیں۔ ھیومن رائٹس پر مبنی اس معاشرت میں ہر فرد کو اپنا ‘area of non-encroachable’ (ذاتی زندگی کے حقوق کا وہ دائرہ جس میں ‘کسی’ کی مداخلت جائز نہیں) کا تحفظ اور اس میں توسیع ہر دوسری شے سے عزیز تر ھوتی ھے، لہذا اس معاشرت میں خاندان لازما تحلیل ھوکر رھتا ھے (جس معاشرت میں ھیومن رائٹس کے نام پر بچوں کی شکایت پر ماں باپ کو عدالتوں اور تھانوں میں طلب کیا جارہا ھو بھلا وہاں خاندان باقی رہ سکتا ھے؟ ایں خیال است محال است)۔ آزادی و اغراض کا فروغ لازما رحمی رشتوں کو مخاصمت میں تبدیل کرکے رھتا ھے۔
تو خوب دھیان رھے کہ خاندانی نظام بس یونہی شکست و ریخت کا شکار نہیں ھورھا بلکہ یہ بذات خود مارکیٹ نظم کا نتیجہ ھے۔ جوں جوں مارکیٹ کا دائرہ پھیلتا ھے، روایتی معاشرت کی شکست و ریخت کا عمل تیز تر ھوجاتا ھے نتیجتا ہر روایتی تعلق (بشمول ‘روایتی عورت’) روایتی تحفظات سے محروم ھوکر غیر محفوظ ھونے لگتا ھے اور اسے اپنی آخری پناہ گاہ بادل ناخواستہ مارکیٹ میں تلاش کرنا پڑتی ھے۔ درحقیقت مارکیٹ کسی دوسرے نظام کے ستائے ھوئے لوگوں کو نہیں بلکہ خود اپنے پیدا کردہ ظلم کے مارے چند لوگوں کو اپنے اندر سموتی ھے اور بڑی اکثریت کو این جی اوز، پروفیشنل خیراتی اداروں اور سرمایہ دارانہ ریاست کے تھپیڑوں کے حوالے کردیتی ھے۔
اور پھر ذرا تصور کیجئے ان عورتوں کے بارے میں بھی جو یا تو کمانے لائق نہیں یا پھر بہت کم کماتی ہیں ۔۔۔۔ آخر یہ مارکیٹ نظام انکے ساتھ کیا کررھا ھے؟ ھوسکتا ھے آپ کہیں کہ وہ انشورنش کروائیں، مگر اسکے لئے تو رقم چاہئے جو کمائے بغیر ممکن نہیں، ھوسکتا ھے آپ کے ذہن میں یہ خیال مچل رھا ھو کہ انکی کفالت ریاست کرے گی مگر اس دنیا کی کتنی ریاستیں ہیں جنکے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اپنی ساری محروم آبادی کیلئے آمدن کا بندوبست کردے؟ تو سوال یہ ھے کہ یہ جو اتنی کثیر تعداد میں خواتین بے یارومددگار گھوم رہی ہیں ان کیلئے اس نظام میں کیا ھے؟ تو یہاں کوئی جدید ذھن کیوں یہ سوال نہیں پوچھ رہا کہ ‘اے ظالمو جب تمہارے پاس ان خواتین کے بندوبست کا کوئی نظام موجود نہیں تھا تو کیونکر تم نے خاندان کو تحلیل کرکے مارکیٹ نظم قائم کیا؟’ ۔۔۔۔۔ کیا یہ جدید ذھن کا کھلا تضاد نہیں کہ دینی طبقے سے تو دین پر عمل پیرا ھونے کیلئے پہلے ‘ہر مسئلے کا پکا پکایا متبادل’ فراہم کرنے کی شرط لگاتا ھے مگر خود اپنے نظام پر یہی سوال نہیں اٹھاتا؟
تو مارکیٹ جو بحرانوں کا شکار چند عورتوں کو سپورٹ کررھی ھے وہ بس یونہی نہیں کررہی، بلکہ معاشرے سے اسکی پوری پوری قیمت وصول کررہی ھے۔
پس کرنے کا کام خاندان کو مارکیٹ میں ضم کردینا نہیں (کہ یہ تو اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ھے) بلکہ مرد کی ‘درست تربیت’ پر توجہ دینا ھے تاکہ وہ اپنی ‘ذمہ داری’ کو پہچانے۔ مگر صرف اتنا ہی کافی نہیں، اس مارکیٹ نظم کو تحلیل کرنا اس تربیت سازی سے بھی زیادہ ضروری عمل ھے کہ اسکے بنا یہ تربیت کبھی عام نہ ھوسکے گی۔