کچھ مسلمان جو خود کو “فیمنسٹ(حقوق نسواں کا حامی)” کہلاتے ہیں یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کی فیمینزم مغربی فیمینزم سے مختلف ہے۔ ‘ انکا خیال یہ ہے کہ جب مسلمان فیمینزم کے پیچھے موجود اقدار اور تصورات پر تنقید کرتے ہیں تو ، یہ تنقید صرف “مغربی فیمنزم ( حقوق نسواں)کے خلاف ہوتی ہے ۔
یہ لوگ پہلے مغربی فیمینزم کی طرف راغب ہوئے ، اور پھر لفظ فیمنزم (مغرب سے ) سے لے کو اسکی (اسلامی فیمینزم) تعریف نو کرکے اسے “مسلم فیمنزم” کہہ دیا۔ اس کے بعد شدت کے ساتھ یہ دعوی کرتے ہیں کہ مغرب سے لفظ “فیمنزم” لینے کے باوجود ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کی اور”مغربی حقوق نسواں” کی اقدار مشترک ہیں۔ اور یہ شکایت کرتے ہیں کہ فیمنزم پر تنقید کرنے والے مسلمانوں کو فیمینزم پر عمومی اطلاق نہیں کرنا چاہئے! (#NotAllFeminists )
حقوق نسواں کی مغربی جڑوں کے باوجود، اس کے اصل مغربی معنی کے باوجود ، موجودہ زمانے میں قبول شدہ ، مغرب اور عالمی سطح پر اس کے مروجہ فہم ، مغربی اسکالرز ، سیاسی کارکنان اور فلسفیوں کی پيش اہمِيَت جو باقاعدگی سے اس کے بارے میں کتابیں شائع کرتے ہیں کے باوجود ، مسلم فیمنسٹ” یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ “مسلم فیمینزم” کو اس کے پیروکاروں کے ایک چھوٹے سے جتھے نے کسی طرح سے ایک ایسے پیرائے میں بیان کیا ہے ، جو ان کے مطابق اسلام کی مخالفت نہیں کرتا اور اسی وجہ سے مسلمانوں کو اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
مسلمان اس بات پر متعجب ہیں کہ کسی مغربی اصطلاح کو قبول کرنے کا کیا فائدہ ہے، اور پھر اسلام اور فیمینزم کا ایک مرکب بنانے کا کیا فائدہ ہے۔ جب تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کو کسی اور “ازم” کی ضرورت نہیں ہے۔ تو کیا یہ عمل مزید الجھنوں اور پریشانیوں کا سبب نہیں بنے گا؟بدقسمتی سے ، جب مسلمان ان تمام امور کی نشاندہی کرتے ہیں تو “مسلم فیمنسٹ” غصے میں آ جاتے ہیں اور ان کے دفاعی جملے کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ “آپ مسلمان خواتین کے حقوق کے خلاف کیوں ہیں؟!”۔ یہ دلیل ، جو عام طور پر کی جانے والی تنقید کو روکنے کے لئے دفاعی طریقہ کار کے طور پر سب سے مقبول ہے ، حقیقت میں اتنی ہی غلط ہے جیسے یہ دلیل کہ ” آپ کمیونزم پر تنقید کرتے ہیں ثابت ہوا آپ غریب عوام اور مزدور طبقے کے حقوق کے خلاف ہیں۔
اس معاملے کی سیدھی سچی بات یہ ہے کہ غیر اسلامی فکر سے پھوٹنے والے نظریاتی ناموں کا استعمال ، ممکنہ طور پر غیر اسلامی فکر کو اسلام میں گھسنے کا موقع فراہم کرنا ہے ۔ جیسے مسلمان پہلے خود کو “فیمنسٹ” کہلوائیں، پھر اتفاقاً رائج الوقت (مغربی) تفہیم متعارف کروا دیں ، اور پھراس کے بعد بے شمار ادبی مطبوعات جو خود اپنے آپ کو فیمینسٹ اور فیمینسٹ ادب کا لیبل دیتے ہیں، کو چوری چھپے اندر داخل کر دیں۔
دوسری طرف ، ایک اور مسئلہ جس سے نام نہاد “مسلم فیمنسٹ” کا ٹاکرا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ مغرب میں مغربی عوام فیمینزم کو “مغربی فیمینزم ” نہیں کہتے ، وہ صرف اسے “فیمنزم” کہتے ہیں۔ اور کیوں نہ کہیں؟ انہوں نے ہی تو اسے ایجاد کیا ہے۔ انہوں نے اس کے معنی بيان کیے۔ اور فیمینزم کے تمام اندرونی مکاتب فکر، فیمینزم کی مُختَصَر ترین تعریف جس پر سیکولر لبرل (اور کمیونسٹ) کُلِيَہ پر متفق ہیں کہ حقوق نسواں کا مطلب “خواتین کے لئے مساوی حقوق” ہے۔ جس سے ان کا مطلب قانون کے تحت صنفی مماثلتی حالت ہے۔ جبکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ خدا کی نظر میں مردوں اور عورتوں کی روحیں برابر ہیں ، لیکن اسلامی قانون یکساں صنفی کردار یا فرائض قائم نہیں کرتا۔
اسلام اور مروجہ فیمینزم کے مابین فرق اس وقت خود انکے سامنے بھی نمایاں ہوجاتا ہے جب یہ نام نہاد “مسلم فیمنسٹ” ٹی وی پر نمودار ہوتے ہیں ، یا مذاکرات اور کانفرنسوں کا انعقاد کرتے ہیں، جہاں یہ “مغربی” فیمینسٹ بھی پہنچ جاتے ہیں اور انہیں اسلام اور مُسَلّمَہ (اصلی) فیمینزم کے مابین تضادات پر للکارتے ہیں۔ جو نکات مغربی فیمینسٹ اٹھاتے ہیں، ان میں خاندان کے سربراہ کا تصور، وراثت ، یکساں حقوق کی کمی ، اور خاندانوں میں خواتین اور مردوں کے صنفی تفریق کے علاوہ معاشی ، سیاسی / فوجی ذمہ داریوں میں صنفی فرق شامل ہیں۔ جس کے نتیجے میں “مسلم فیمنسٹ” سراسیمہ ہو کر پریشانی میں پھنس جاتے ہیں، حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور غلامانہ چاپلوسی کرتے ہوئے “مغربی” فیمینزم کی روشنی میں اسلام کی ‘تشریح نو’ کرکے ان کو اطمینان دلاتے ہیں اور ان کا غصہ ٹھنڈا کرتے ہیں۔
مغربی مروجہ معاشرے کی طرف سے “مسلم فیمنزم” کی تفشیش سے بچنے کے لئے، کچھ “مسلم فیمنسٹ” پہلو بچا کر توجہ ہٹانے والے حربے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً شکایت کریں گے کہ “مغربی فیمینزم” کے ذریعے فیمینزم کی وہ “تعریف” ان پر مسلط کی جارہی ہے جس کی وکالت “سفید فام” اور “استعمار پسند” کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دراصل یہ “مسلم فیمنسٹ” ہی ہیں، جن کی سوچ اول وقت سے ہی غلامانہ تھی۔ اس حقیقت کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے “فیمنزم” جیسی مغربی اصطلاحات اور نظریاتی شناخت کو ادھار لینے کی کوشش کی تاکہ وہ خود کو واجب التعظیم حیثیت سے پیش کریں اور سب سے پہلے اور ضرو ران دشمنان خدا کے ہاں قبولیت حاصل ہو جائے!
یہ شرمندہ مسلمان اپنی پوری طاقت کے ساتھ “فیمنزم” کی اصطلاح کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں ، کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ مغربی اصطلاحات استعمال کرکے، اپنے مقاصد کیلئے ان سے پزیرائی حاصل کر لیں، چاہے یہ اصطلاحات پہلے سے مشہور غیر اسلامی مفہوم اور نظریاتی مشاہدات رکھتی ہوں یا نہیں!
لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں ، اگر آپ کسی ملک کی کرنسی کا استعمال کرتے ہیں، تو آپ اس کی قیمت کا تعین کرنے کا حق ان کے حوالے کردیتے ہیں اور آخر کار آپ اس کی اتنی ہی قیمت ادا کرتے ہیں جتنی اس ملک نے متعین کی ہوتی ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق (مبینہ طور پر) ایک مشہور واقعہ انجیلِ مقدّس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ ہیکل میں تھے، تو (مبینہ طور پر) ان کے مخالفین نے ان سے پوچھا کہ کیا یہودیوں کو رومی کافروں کو ٹیکس ادا کرنا چاہئے جن کی سلطنت نے یہودی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے:
حضرت عیسی علیہ السلام ان کی منافقت کو جانتے تھے فرمایا۔ “تم مجھے پھندے میں پھنسانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟” پھر کہا . “میرے پاس ایک دینار لاؤ اور مجھے اس کا معائنہ کرنے دو۔” وہ سکہ لے کر آئے اور انہوں نے ان یہودیوں سے پوچھا ، “اس پر یہ کس کی تصویر ہے؟ اور کس کا نقش ہے؟ ” یہودیوں نے جواب دیا ، ” رومی بادشاہ قیصر کا۔” تب حضرت عیسی علیہ السلام نے ان سے کہا ، “قیصر کا حق قیصر کو دو اور خدا کو خدا کا حق دے دو۔” اور وہ اس پر حیرت زدہ ہو گئے۔ ’’ undefined۔
یہ ایک حیرت انگیز جواب تھا کیونکہ لوگوں نے برضا و خوشی اپنے اوپر مسلط ہونے والے(یہاں تک کہ ان کے مقدس ہیکل میں بھی)رومیوں کا سکہ اور کرنسی قبول کرلی تھی ، لیکن حیلہ سازی کر کے منافقانہ انداز میں خود کو اچھا ثابت کرنے کے لئے اسے ٹیکس بھی ادا کر رہے تھے۔جھوٹ انسانوں کا کام ہے ۔ ان سے جو بھی لیا جائے واپس لوٹانا چاہیے۔ لیکن آسمانوں اور زمین کی ہر چیز خدا کی ہے، بشمول انسانی امور ، قانون ، حقوق اور فرائض۔
لہذا جواب میں ، ہمیں محاورے والا رومن دینار پکڑ کر “مسلم فیمنسٹ” سے پوچھنا ہوگا: “کس نے فیمنزم کی اصطلاح مرتب کی ، اس پر اپنی شبیہہ ثبت کی ، اور اس کی ابتداء کی ، جسے آپ کرنسی کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟
وہ شرمندگی سے اعتراف کریں گے: “مغرب نے”
انہیں کہیں: “مغرب کو واپس دو، جو مغرب کا ہے ، اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو واپس کرو”۔
“کیا یہ زمانہٴ جاہلیت کے حکم کے خواہش مند ہیں؟ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لیے خدا سے اچھا حکم کس کا ہے؟” (قران ، المائدہ، آیت 50)
تحریر – عبداللہ اندلسی ، ترجمہ – سید علی ایمن رضوی