تربیت کا ماحول

میرے نانا (مرحوم) کے پاس تین گھوڑے اور دو گھوڑیاں ہوا کرتیں تھیں ، اصطبل میں الگ الگ باندھا کرتے _گھوڑوں کو سُدھانے کے لمحے وہ گھوڑوں کو ٹریننگ استھان میں گھوڑیوں سےالگ کرکے میدان میں دوڑایا کرتے ، یہ عرصہ چار ماہ پہ مشتمل ہوا کرتا تھا ، اور اس چار ماہ کے دوران وہ نئ پُشت کے گھوڑوں کو گھوڑیوں سے الگ باندھتے حتہ المقدور نگاہ بھی پڑنے نہیں دیتے تھے –

جب بھی گھوڑا بدکنے لگتا وہ منہ میں لوہے کی میخوں والی سلاخ جو گھوڑے کے منہ میں ہوتی جھٹکا دیتے اور گھوڑا اپنی نظر جھکا کے اپنے پانچ سبق باالترتیب دُھرانے لگتا ، گھوڑے کی چالیں ہوا کرتیں تھیں ، تیزگام ، رلا گام ، تیز رلا گام، چو باز گام ، جب بھی گھوڑا نفساً حکمًا بدکنے لگتا وہ چمڑے کی مہار کو مٹھیوں میں کرکے لہرا کے کھنیچتے گھوڑا قدموں پہ ہلکا سااُٹھتا اور پھر نیچے تیز گام ، رلا گام ، چوباز کے آسن میں اک دائرے میں دوڑنے لگتا

، چوباز گام میں دوڑتا ہوا گھوڑا چاروں پاؤں اٹھا کے زمیں پہ مارتا ہے ، اسکے سنبھ کی اگلی چُٹی صرف زمیں کو چھو پاتی ہے ، پانی کا گلاس لے کہ اسکی پشت پہ بیٹھ جاؤ چوباز گام میں پانی چھلکے گا بھی نہیں ، دھکے کا تصور نہیں ہوگا ، اس رفتار میں گھوڑا جوبن پہ ہوتا ہے ، جیسے چاندنی میں سمندر جوبن پہ ہوتا ہے ، اسکی رفتار اُس لمحہ ساٹھ کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی اسکا دماغ یک سو ہوتا ہے دو رائے نہیِں ہوتی اس میں سرکشی ،آلائش نہیں ہوتی ، جب دوڑتا ہے تو پاس کھڑے ہوئے کو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے سطح زمیں سے پانچ انچ اوپر کوئ شئے اڑتی ہوئ جارہی ہے – یہ ہارس پاور ہے ، اسکی توانائ اسکی نفسیات کے ساتھ باہم متصل ہے

نانا جان کہا کرتے تھے ، جہاں سڑک چلتے ہوئے چوباز گام میں دوڑتا ہوا کُمیت نسل کا گھوڑا پہلو سے گزرے تو رک جایا کرو ، کھڑے ہوکے سلام کیا کرو!

میں نے پوچھا کیوں ، بولے ، یہ شفاف سدھایا ہوا جفا کش گھوڑا ہوتا ہے ، اسکا کُمیت رنگ سب سے معتبر رنگ ہے ، اس رنگ میں رنگے گھوڑے کے ماتھے پہ سفید ٹکا ہوتا ہے ، چاروں سُنبھ سفید ہوتے ہیں ، قیامت کے دن جب انسان اٹھائے جائیں گے تو نمازی کثرت زدہ مومن ایسے کمیت رنگ کے گھوڑے کے جیسے چوباز گام میں پُل سراط سے دوڑتے چلے جائیں گے ، انکے ماتھے پہ سجدے کی سفید ہوگی ، چاروں پاؤں وضو کرد مومن کی ہتھیلیوں اور ٹخنے سفید نور میں ہونگے اجلے نمایاں.ہونگے ،جیسے گھوڑے کے چاروں سنبھ اور ماتھا!

تمہیں کیا لگتا ہے مہران ،

اسکی اسقدر ایکوریسی ،ربط کی وجہ جانتے ہو کیا ہے ؟ میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور کہنی ایڈجسٹ کرکے ہاتھ اپنی سفید مونچھوں تک لائے ، دونوں ابرو اٹھا کے استفسار کیا –

میں نے پوچھا ، وجہ کیا ہے؟

بولے-

“اسے اسکی تربیت کے دنوں میں اسے مخلوط نہ کرنا –

جنس مخالف کو مخالف ہی رکھنا اس کو اسکے ربط تک آسانی سے لے آیا ،

جنید بغدادی سے پوچھا گیا – ایں مرشدی ، کیا مرد عورت کو پڑھا سکتا ہے ، دونوں اکھٹے پڑھ سکتے ہیں ،

کہا –

اگر پڑھانے والا بایزید بسطامی ہو ، پڑھنے والی رابعہ بصری ہو ،جس جگہ پڑھایا جا رہا ہو وہ بیتُ اللہ ہو جو کچھ پڑھایا جا رہا ہو کلام ُ اللہ ہو پھر بھی اجازت نہیں ہے __!

بات رویے کی ہے شیر سے ہل چلاواؤ گے کسان تو مرے گا ہی –

یہ طریق تعلیم اپنی ذُریت کے تناسب میں موم بتی ہے آپ کہتے ہیں یہ روشن ہوری ہے میں کہتا ہوں پگھل رہی، ختم ہو رہی ہے –

مجھے حیرت نہیں ہوئ کہ جب میں نے سنا مخلوط ادارے کے دو نو خیز بچوں نے رومانس کی آڑ میں خود کو گولیاں مار کے خودکشی کرلی __

جو اس تہذیب کے موافق تھا ،وہی ہوا ، ہوتا آیا ہے ہوتا رہے گا وہ خبر پڑھتے ہوئے مجھے لگا جو بو گے وہی کاٹو گے یہ موقولہ فرسودہ ہو گیا – اب جسطرح سے بو گے اُسطرح سے کاٹو گے -مگر جب ہم اس مسئلہ کا حل تختہ سیاہ پہ سفید چاک سے لکھتے ہیں تو کل عالم کی روشن خیالی ایک بلب میں سمٹ کر ہماری آنکھیں چندھیانے پہ نستعلیق ہو جاتی ہے!

عقل بھی اک گھوڑا ہے اسکو دوڑانے سے پہلے اسکی تربیت نیوٹریل ماحول مانگتی ہے اسکی نفسیات کے ساتھ مکمل انصاف مانگتی ہے!

ساحر لدھیانوی نے کہا تھا!

نیک مادام! بہت جلد وہ دَور آئے گا

جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں گے

اپنی ذلت کی قسم! آپ کی عظمت کی قسم!

ہم کو تعظیم کے میعار پرکھنے ہوں گے

ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے، لیکن

ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیا بخشی ہے

ہم نے ہر دور میں ‌محنت کے ستم جھیلے ہیں

ہم نے ہر دور کے ہاتھوں ‌کو حنا بخشی ہے

لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل؟

لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں‌ گے

میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی

میں جہاں ‌ہوں، وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے

تحریر مہران درگ