قصور کے حالیہ اندوہناک سانحے کے پس منظر میں، مذھبی اور روایتی فکر کو جدید مغربی فکر کے حامیوں کی طرف سے کئے جانے والے جنسی تعلیم/ سیکس ایجوکیشن کے پرزور تقاضوں کے بارے میں جو تحفظات درپیش ہیں انکو قبلہ عزیز ابن الحسن صاحب نے اپنے ایک مضمون میں بیان فرمایا ہے۔مصنف کے مطابق ہماری روایتی مذھبی اخلاقی تعلیم کے اندر سیکس ایجوکیشن کا جزو ہمیشہ سے شامل رہا ہے اور اس اہم جزو کیلئے ہمیں جدید دنیا سے مواد مستعار لینے کی ضرورت نہیں۔ جدید مغربی فکر جو خدا بیزاری کے محور پر گھومتی ہے، اپنے حامیوں کے بل پر سیکس ایجوکیشن کے نام پر ہمارے ہاں ایک بے مہار سماج کی تشکیل کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا سماج جو خدا بیزار فکر کا ایک عملی مظہر ہو۔ جہاں گناہ اور ثواب کا تصور ہی مٹ جائے۔ جہاں احساس گناہ کو بیماری سمجھا جائے۔ اور جہاں افراد ہر قسم کی جنسی اخلاقی پابندیوں سے مکمل آزاد ہو کر نیم حیوانی زندگی بسر کریں۔
سیکس ایجوکیشن کے پرزور حامی دوستوں نے اس مضمون پر تنقیدی تبصرے فرمائے۔ جس میں موضوع کو کم ہی چھیڑا گیا اور ادھر ادھر کی شاعرانہ باتوں پر زور رکھا گیا، جبکہ اپنی پوزیشن بھی واضح نہیں کی گئی کہ وہ کس درجے کی آزاد جنسی تعلیم کو درست سمجھتے ہیں۔ اس درست سمجھنے کے پیچھے کونسے معیارات برسر عمل ہیں؟ اور ان معیارات کا ماخذ کیا ہے؟اسی دوران ایک دوست نے سیکس ایجوکیشن کی ایک نصابی کتاب سے، جو بعد میں پتہ چلا کہ مصر کے کسی انٹرنیشنل سکول میں پڑھائی جاتی ہے اور اس پر وہاں اعتراض بھی کیا گیا، ایک صفحے کی تصویر تبصرے کے طور پر لگا دی جس میں خاندان کی مختلف قسموں کے متعلق بچوں کو تصاویر کی مدد سے سمجھایا جاتا ہے۔یوں تو کسی نصاب کے سامنے آجانے پر ہی کوئی موثر تنقید ممکن ہے تاہم اسی تصویر کو نمونہ کے طور پر اگر فرض کرلیا جائے تو کچھ ضروری نکات دونوں طرف کے بیان ہوسکتے ہیں۔
جدید فکر اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے سماج کے انتہائی مظاہر میں یہ بات سبھی کے مشاھدہ میں ہے کہ گناہ کو گناہ سمجھا نہیں جاتا۔ جیسا کہ قبلہ عزیز صاحب نے بھی اشارہ فرمایا کہ اصل مسئلہ اس فکر کے نزدیک گناہ نہیں، بلکہ احساس گناہ ہے۔اس مضمون کے ضمن میں کی جانے والی بحث، اپنی اصل میں، احساس گناہ کو بیماری سمجھنے والی “جدید” فکر اور احساس گناہ کو توبہ کی لازمی شرط سمجھنے والی مذھبی فکر کے مابین ہے۔اس تصویر میں بچوں کی تربیت کی غرض سے “خاندان” کا تصور بیان ہوا ہے۔ یہ ایک نمونہ ہے۔ اس ایک نمونے کے حوالے سے ہی اگر بات کی جائے، تو مذھبی ذہن کو بوجوہ ان میں سے چند تصورات قابل قبول نہیں ہیں۔مذھبی ذہن واضح الہامی ھدایات کی بنیاد پر ان اقسام کی چھانٹی کرتا ہے اور ایک قسم کو درست جبکہ دوسری کو غلط کہتا ہے۔
مقلدین جدیدیت کا البتہ معاملہ پیچیدہ ہے۔
ہمارے جدید لوگوں میں سراسر یا سرتاپا جدید تو اس حوالے سے شاید کوئی بھی نہیں ہیں کہ فیملی کے اس تصور کو من و عن درست جانیں یا “ماورائے مناکحت” جنسی تعلقات کو اپنی اولاد کےلئے بھی روا رکھنے کا حوصلہ رکھتے ہوں یا اس رویے کے پرچارک ہوں۔ نیم جدید ہی ہیں اکثر۔
ان نیم جدیدیوں کی نفسیات پر غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ ایک ٹرانزیشن کے فیز سے مسلسل گذرتے رہتے ہیں۔ کوئی اس ٹرانزیشن کی سیڑھی کے نچلے زینوں پر براجمان ہے کوئی اوپر والے پر۔ نیچے والے اوپر والوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں اور اوپر والے نیچے والوں پر غرّاتے ہیں۔ اس طرح کے مدارجی فرق کے باوجود بہرحال اتنی تبدیلی سبھی نیم جدیدیوں کے اندر آچکی ہوتی ہے کہ دین، اور اسلام، اور روایت کے عنوان سے جو بات بھی ہو، اس سے شدید بیزار ہوتے ہیں اور جدیدیت کے عنوان سے جو کچھ بھی سامنے آجائے اسکے آگے بچھتے چلے جاتے ہیں۔
اس بیزاری کا اظہار بھی اب تو ایک آرٹ کا درجہ اختیار کرچکا ہے، کیونکہ نیم جدید ہوتے ہیں اور نیم کی شدت بھی حسب ضرورت و ذائقہ تبدیل ہوتا رہتا ہے ـــ برملا دین کے اور روایت کے خلاف لکھنے کا تو نہ اپنے اندر وہ مطلوب شرح صدر پاتے ہیں نہ اپنے سے باہر وہ سازگار ماحول، چنانچہ زیادہ تر اشاروں اور کنایوں سے اور ادھر ادھر کی مثالوں سے نیم جدیدیت کی مذبذب مذھب بیزاری کا اظہار جاری رہتا ہے۔ ساتھ کے پڑھنے دیکھنے والے نیم حضرات اس بیانیے میں سے مذھب بیزاری کی من پسند مہک کو فوراً سونگھ لیتے ہیں اور صورت حال کے مطابق مصرع اٹھاتے یا تالیاں پیٹتے ہیں۔
دلچسپ تماشا ہوتا ہے۔
سنجیدہ جدیدیوں کو چاہئے کہ ایک تو جدیدیت کی سیڑھی کے اس زینے کا تعین کریں کہ جس پر وہ قدم رنجہ فرمائے ہوئے ہیں، کہ کس اونچائی پر واقع ہے اور آئیندہ انکے ارادے عروج کے ہیں یا صعود کے۔
“دو باپ اور ایک لے پالک بچہ” والی جدیدیت کو درست مانتے ہیں، یا اس کو ٹو مَچ کہتے ہیں۔ اس سے کم کون سے درجے کو حق سمجھتے ہیں۔ کیوں سمجھتے ہیں اور یہاں تک اترنے کی اور پھر ادھر رک جانے کی یعنی مزید نیچے نہ اترنے کی کیا وجہ بنی ہے۔ کس معیار کے تحت ادھر توقف فرما رہے ہیں؟
ایسے دوست بھی ہیں جنکی ایک ٹانگ یہاں ہماری زینب کے دیس میں ہے اور دوسری ناروے میں مثلاً۔ کمال سادگی سے یہ بات سامنے رکھتے ہیں کہ دیکھو جی یورپ میں بھی ایسی ہی جنسی تعلیم دی جاتی ہے اور ہمیں تو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ بال کی کھال چھیلنے کا شوق رکھنے والے یہ سادہ دل یہاں پر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ نصاب تو فزکس اور کیمسٹری کے بھی ہمارے اور انکے ایک جیسے رہے ہونگے، تو کیا تعلیم کا معیار بھی دونوں جگہوں پر ایک جیسا ہے؟اساتذہ ایک جیسے ہیں؟ ان اساتذہ کی تربیت ایک جیسی ہے؟ نصاب میں مستعار جنسی تعلیم کا مضمون گھسیڑ دینے سے کیا پھر راوی چین لکھے گا، تا ابد؟
عرض یہ ہے کہ ہمارے اپنے معروضی حالات ہیں۔ اپنا پس منظر اور اپنی لیمیٹیشنز ہیں۔ ہمیں اپنا فیصلہ اپنے اصولوں پر کرنا چاہئے۔ آپ کو بھلے پسند نہ آتا ہو، ہمارے ان اصولوں کو ہم دلیل کیساتھ دین سمجھتے ہیں۔ اور ہم انہی پر چلنے کی کوشش کرینگے ـ اسی کو بولیں گے اور اسی کو لکھیں گے۔اگر آپکو یورپ زیادہ پسند آتا ہے تو دوسری ٹانگ بھی وہیں کھینچ لیں۔
مذھبی حلقوں میں اس معاملے میں کم ازکم یہ اصولی اتفاق ہے کہ “دو باپ اور ایک لے پالک بچے” والی جدیدیت غلط ہے۔ اور ایک ٹھوس توجیہہ کیساتھ غلط ہے۔ اس کے پاس اصول کی سطح پر کم ازکم تقریباً وہ سبھی نکات موجود ہیں جو اخلاقی تعلیم، بشمول جنسی تعلیم کےلئے ضروری ہوں۔ اسکی پوزیشن بھی واضح ہے۔اس ذہن کے سرکردہ لوگ مگر، اور کاموں میں پڑ گئے ہیں اور اخلاقی تربیت کے ایک بڑے ستون کے کمزور ہونے کی وجہ سے جو انہی کی مسلسل غفلت کا نتیجہ ہے، سماج میں اُن اخلاقیات کے کوئی مظاہر نہیں نظر آتے، جن کو اسلامی کہا جاسکے۔ الا ماشاءاللہ۔
مدارس کے ماحول اور مدرس کے اخلاق میں کوئی زندگی نہیں بچی۔ جدید دور کے تقاضوں اور بدلتی ہوئی دنیا کو سامنا کرسکنے کی اہلیت مفقود ہوگئی ہے۔ اور ایک ہمہ جہتی انحطاط چھایا ہوا نظر آتا ہے ہر طرف۔جدید تعلیمی تقاضوں کیساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں۔
اب جا کے کچھ ہلچل نظر آتی ہے جسکے عملی اثرات پتہ نہیں کب سامنے آئیں، ورنہ مدارس میں چھ چھ سال قال اللہ اور قال رسول پڑھنے والا باہر آکر روٹی کمانے کے قابل نہیں ہوتا، اور اکثر کمزور اخلاقیات کا حامل بھی۔ آج بھی یہی صورت ہے۔
مجھ جیسے عام جیسے لوگوں کا یہ حال ہے کہ یہاں وہاں فیسبک پر نعرے تو مارلئے مگر اپنے گھر میں اسلامی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں۔ خود اپنا حال بے حال ہے۔ جھوٹ بولنا ذہانت کا معیار ہے۔ چوری کرنا سمجھداری ہے، رستہ روک لینا بہادری ہے اور دھوکے باز جینئیس ہے۔
تو بات یہ ہے کہ اخلاقیات کو کتابوں کے اندر مرصع الفاظ میں سجانے سے تو بات نہ بنے گی۔ باہر نکال کر اپنے اوپر لاگو کرنا پڑے گا، اپنے گھر پر نافذ کرنا پڑے گا۔ مذھبی ذہن کو ایک تصور نہیں ایک مثالی فرد بننا پڑے گا جو اردگرد لوگوں کیلئے آسانیوں اور خیر کا باعث بنتا ہو۔ جس پر اعتبار کیا جاسکتا ہو۔ جس سے لوگ اپنے آپکو محفوظ سمجھیں۔
جدید دنیا کی اصولی لامذھبیت کے مضبوط مظاہر کو، بے مہار سیکس ایجوکیشن جن میں سے ایک ہے، نعروں سے کب تک روکا جاسکے گا۔ اگر اپنی اخلاقیات کو درست مانتے ہیں تو جدید دنیا کے ماحول میں اس پر عمل کرکے بھی دکھانا پڑے گا۔ صرف نعرے نہیں بلکہ عملی مثالیں بھی، جب تک جدید لامذھبی مظاہر کے سامنے موجود نہ ہوں ـ اس سیلاب کو روکنا اور اپنی درست شناخت کو قائم رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔
تحریر خالد ولی اللہ بلغاری، بشکریہ دانش ڈاٹ پی کے