اس قیامت کا ذمہ دار میں خود ہوں ۔۔

میں کل سے اس صدمے کے گنبدِ دود میں گم ہوں۔۔

اسباب کا تجزیہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے ۔۔۔

مخلوط تعلیم کی بات کروں تو خواتین کو استقبالیے پر بٹھانے والے چیخیں گے،

میڈیا کا رونا روؤں تو جدیدیت کے مشعل بردار بھاگتے ہوئے آئیں گے۔۔۔

والدین کی بے توجہی کا تذکرہ کروں تو غم ہائے روزگار کا ماتم کرنے والے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ۔

اسلام سے دوری کی بات کروں تو مذہب بیزار لبرلز آتش زیر پا ہو جائیں گے۔ ۔

اور اگر بھارتی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ہماری روحوں تک اترتے کلچر کا گریہ کروں تو امن کی آشا کا دم ٹوٹنے لگے گا۔ ۔

سو چپ ہوں، چپ ہی بھلی ہے۔ ۔

خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کر کے خوش ہونے والو خوش رہو،۔۔

جدیدیت کی روشنی سے چندھیائے ہوئے لوگو مزے کرو،۔۔

غم ہائے روزگار پر پروردگار کائنات کے شاکی لوگو کرتے رہو شکوے گلے۔۔۔

اے موم بتی بردار آزاد خیال آنٹیو جلالو موم بتیاں ان معصوم عشاق کی یاد میں۔ ۔

اور اے امن کے داعیو اے گلوبل ولیج کے باسیو ۔

تمہیں میرا سلام، خاطر جمع رکھو میں تمہارے جیسا امن پرور نہ سہی لیکن تمہارے ہوتے ہوئے اتنا بد امن ہونے کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا کہ بھارتی ثقافت کو اس حادثے کا ذمہ دار ٹھہراؤں۔۔

تو صاحبان اس قیامت کا ذمہ دار میں خود ہوں۔۔

میں ایک 14 سالہ بچے کا والد ، جو اس ظالم سماج کی دقیانوسی روایات کا امین بنا ہوا ہوں۔۔

جو مخلوط تعلیم کو قبول تو کرتا ہوں لیکن اس کے ثمرات کی برداشت کا حوصلہ نہیں رکھتا، ۔۔

جو اپنے بچوں کو ٹی وی ، کیبل ، اور انٹرنیٹ کے مے خانے تک تو لے آیا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ وہ یہاں سے تشنہ ہی لوٹ آئیں۔۔

جو اب روزگار کی مجبوریوں کا رونا بھی روتا ہوں اور گاہے ضبط تولید والی آنٹیوں کو برا بھلا بھی کہتا ہوں۔۔۔

میں مجرم ہوں جو ترقی کے اس دور میں بھی اسلام اسلام پکارنے کا ڈرامہ کرتا ہوں ۔۔….

ہماری منافقت ہی ہمارے بچے کھا رہی ہے۔۔

ہم یا تو ایک دم انگریز بن جائیں کہ اگر کبھی بیگم ہمارے لیے وقت نکال سکے تو اس کو تھینک یو بولیں ۔۔

بیٹی اپنے بچوں کے باپ سے شادی کی تقریب میں ہمیں بھی انوائٹ کر لے تو اس کیلیے اچھا سا گفٹ خرید لیں ۔۔

ورنہ دو تین کتوں کو اپنے ساتھ سلائیں اور بوڑھوں کو اولڈ ایج میں داخل کروا دیں۔۔۔۔۔ پھر مزے ہی مزے۔۔۔

نا غیرت کے نام پر قتل نا عشق کے نام پر خود کشیاں۔۔۔

راوی کو چین لکھنے کے سوا املاء ہی بھول جائے گی۔۔۔

اور یا ۔۔۔ یا پھر ۔۔۔

سیدھی طرح بندے کے پتر بن جائیں۔۔۔

خواتین کو ان کے حقوق ان کی دہلیز کے اندر پہنچانے کو مردانگی سمجھیں۔۔۔

اولاد کی اپنے حتی المقدور تعلیم و تربیت کا انتظام کریں ۔۔۔

کچی عمروں میں ان کی جسمانی اور نفسیاتی نشوونما کا بھی خیال رکھیں ان کو اپنے دین اور روایات کا علم پہچائیں۔۔۔

اور پکی عمروں کو پہنچتے ہی ان کی مرضی سے ان کے گھر بسانے کا سوچیں۔

لیکن

ہم لٹکے ہوئے ہیں الٹے یا سیدھے لیکن بہر حال معلق ہیں۔۔۔

اور بہت بری طرح معلق ہیں۔ ۔

ہماری ایک ٹانگ مذہب میں اڑی ہوئی ہے تو ایک انگلی بالی ووڈ کی منی کو بدنام کرنے پر اٹھی ہوئی ہے ۔ ۔

ایک آنکھ شیلا کی جوانی پر ہے تو دوسرے کان میں حوریا رفیق کی نعت رس گھول رہی ہے۔۔

موبائیل کی رنگ ٹون پر ہم نے شیخ السدیس کی تلاوت لگائی ہوئی ہے تو وال پیپر پر سنی لیون کی چٹیاں کلائیاں چمک رہی ہیں۔۔

ہم اب بھی کراچی کی فاطمہ اور نوروز کو عشق کے راہی سمجھ رہے ہوں گے لیکن اپنے مستعین اور سعدیہ کیلیے پھر غیرت مند باپ بن جائیں گے۔ ۔

ہم لڑکیوں کو ریسپشن پر بٹھانے کے حق میں صفحات کے صفحات کالے نیلے کر دیتے ہیں لیکن اپنی بیٹھک میں آئے ہوئے مہمانوں کیلیے چائے کی ٹرے پردے کے پیچھے سے خود پکڑ تے ہیں۔ ۔

ہم ایک طرف کم عمری کی شادی کے خلاف فائیو سٹار ہوٹل میں سیمینار منعقد کروا تے ہیں تو دوسری طرف کم عمری کے عشق کو فطری اور الہامی جذبہ گردانتے ہوئے نہیں تھکتے۔

ہم اپنی بیٹیوں کے لباس کو چست ہوتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور کبھی وہ خود چست ہو جائیں تو منہ لٹکا کے معاشرے کو برا کہنے لگ جاتے ہیں۔ ۔

رزق بزور رشوت کشید کرتے ہیں اور قصائی کے گدھا ذبح کرنے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ ۔

خود چینل وی دیکھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ بچے پیس انٹرنیشنل دیکھیں گے۔

ہم تمہ کھا کر سمجھتے ہیں کہ ڈکار خربوزے کا آئے گا۔

ہم کانٹے بیج کر پھولوں کے متمنی ہیں ۔

ہم منافق ہیں

ہم سب سے برے منافق ہیں

جو خود سے منافقت کرتے ہیں۔

یہی منافقت ہماری دشمن ہے۔

یہی منافقت ہمارے بچے کھانے والی بلا ہے۔ ۔

تحریر اکرام اعظم

بتغیر قلیل