مرد کی دیت کا زیادہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ شرعی اور انسانی حیثیت سے عورت سے افضل ہے۔ دیت ایک لحاظ سے اس نقصان کا ازالہ کرتی ہے جو قتل ہوجانے کے بعد ایک گھر کو مالی طور پر اٹھانا پڑتا ہے اور اسلامی خاندانی نظام میں کمائی کا ذمہ دار چونکہ مرد ہوتا ہے اس کے مرنے سے اقتصادی طور پر خاندان کو نقصان ذیادہ پہنچتا ہے اس لیے اس کے قتل پر زیادہ رکھی گئی ہے ۔ یہاں ایک سوال کیا جاتا ہے کہ اگر گھر کا خرچہ عورت اٹھاتی ہوتو کیا اسکی دیت پوری ہوگی ؟ جواب یہ ہے کہ عورت اگر ملازمت کرتی ہو تب بھی شرعی طور پر گھر کے خرچ کی ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے عورت پر نہیں ہے ، شریعت عورت کو یہ آزادی دیتی ہے کہ چاہے وہ اپنے پیسے گھر پر خرچ کرے یا نہیں ، اگر عورت گھر چلاتی ہے تو یہ اس کی طرف سے مرد پر احسان ہے اسکا ثواب اسکو ملے گا۔ شرعی قانون اور ذمہ داری مرد پر اپنی جگہ موجود رہے گی۔
عورت اگر قتل ہو جائے تو قتل خطاء میں اسکی نصف دیت پر اعتراض کرنے والے بتائیں کہ مقتولہ خاتون کی نصف دیت اس کی قبر میں ساتھ ہی مدفون کردی جائے گی یا بیشتر صورتوں میں اس کے خاوند کو ملے گی؟
اگر مرد کی پوری دیت یے تو کیا یہ بھی اسکی قبر میں ڈال دی جائے گی یا بیشتر صورتوں میں اسکی بیوہ کو ملے گی؟
بتائیے بظاہر نقصان مرد کو اور پورا پورا فائدہ عورت کو نہیں پہنچ رہا؟