جواب: عورت کا وراثت میں حصہ اس کی جنس کو کم تر سمجھ کر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ اس کی ایک اہم حکمت عورت اور مرد کے فرائض اور ذمہ داریوں کی تقسیم ہے ۔ مردوں کو دوہرا حصہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ مرد کے ذمہ خرچہ نفقہ ہے اور عورت کے ذمہ کسی قسم کا کوئی نفقہ خرچہ نہیں۔ عورت کو جو کچھ ملتا ہے وہ صرف اور صرف اس کا ذاتی جیب خرچ ہے ۔
خاتون جب تک نابالغ ہو، اس کا نفقہ خرچہ باپ، دادا، چچا ، بھائی وغیرہ یا ان میں سے کوئی نہ ہو تو بیت المال کے ذمہ ہے۔۔
جب وہ بالغ ہوجائے اوراس کا نکاح ہوجائے، تواس کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ ہوجاتے ہیں، نکاح کے موقع پر اسے جو حق مہر ملتا ہے، وہ بھی خالص اس کا جیب خرچ ہوتا ہے۔۔
باپ کی وفات پر اسے اپنے بھائیوں کی نسبت جو نصف جائیداد ملتی ہے وہ بھی اس کی ذاتی ملکیت اور جیب خرچ ہوگی۔۔
اگر اولاد ہوجائے اور شوہر کا انتقال ہوجائے تو شوہر کی جائیداد سے ملنے والا آٹھواں حصہ بھی اس کی ذاتی ملکیت اور جیب خرچ ہی ہوگا۔۔
اسی طرح اگر کل کلاں بیٹے یا بیٹی کا انتقال ہوجائے تو ان کی جائیداد میں سے ملنے والا چھٹا حصہ بھی اس کی جیب ہی میں جائے گا۔۔
اسلام نے عورت کو خرچ کرنے کا کہیں بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا. عورت ملازمت یا کسی کاروبار کی صورت میں کما رہی ہے تو وہ اگر اپنی مرضی سے شوہر کو اپنی کمائی میں سے کچھ دینا چاہے، اپنے بچّوں پرکچھ خرچ کرنا چاہے، یا گھر میں استعمال کرنا چاہے، تو یہ اس کی اپنی آزادانہ صواب دید پر ہے مگر یہ اس کی قانونی ذمہ داری نہیں ہے۔ عورت اپنی کمائی کی مختارِ کُل ہے اور اس پر شوہر، بچوں یا خاندان کے دوسرے افراد کی دیکھ بھال کی کوئی معاشی ذ مہ داری نہیں ہے ۔ یہ سب باپ کے ذمے ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو شادی کرنے ، مکان خریدنے، گھر کا تمام خرچ ادا کرنے ،بیوی اور بچوں کا نان نفقہ،بیوی اور بچوں کے کپڑوں، ان کی تعلیم، نوکروں کی تنخواہوں اور گھر کے دوسرے تمام اخراجات کا ذمہ دار بھی صرف مر د ہی ہے اور عورت پر ان میں سے کوئی بھی ذمہ داری عائد نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ مطالبہ کرے تو گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لیے شوہر کو نوکر بھی رکھنا پڑے گا (بشرطیکہ وہ اخراجات اُٹھا سکتا ہو)۔حتیٰ کہ اگرعورت کسی وجہ سے اپنے میکے چلی جائے اور شوہر لینے نہ جائے تو وہاں بھی رہنے اور نان نفقہ کے اخراجات شوہر کو ہی ادا کرنا پڑتے ہیں ۔ طلاق کی صورت میں بھی عدّت کے ایام میں عورت کے اخراجات کی ذمہ داری اسلام شوہرپر ڈالتا ہے اور عدت ختم ہوتے ہی عورت کو دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے ۔بیوی کو باپ کے گھر لے جانا اور اس کے اخراجات برداشت کرنا بھی شوہر کے ذمے ہے۔
ان اخراجات کے علاوہ مختلف قسم کے معاشی اور معاشرتی اُمور کا سامنا کرنا، تقریبات، جنازے، شادیاں ، صلح وغیرہ اور بے شمار دیگر امورسر انجام دینا بھی مرد کی ذمہ داری ہے اور ان سے متعلق تمام اخراجات بھی اسی کے ذمے ہیں۔
عورت کے مال اور کمائی پر تو قانونی حق صرف اسی کا ہے،جب کہ مرد کے مال اور کمائی میں خاندان کے کئی افراد کانہ صرف حق ہے بلکہ مرد پر اس کی ادایگی فرض ہے۔ عورت اگر بیٹی ہے تو معاشی ذمہ داری باپ کی، بہن ہے تو بھائی کی، دونوں میں سے کوئی نہیں تو قریب ترین مردو ں (مثلاً چچا وغیرہ )کی ، ماں ہے تو بیٹوں کی اور بیوی ہے تو شوہر کی۔
ذمہ داریوں کی اس تقسیم کو جاننے کے بعدایک معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وراثت میں عورت کے مقابلے میں مرد کا حصہ کیوں زیادہ رکھا گیا ہے . ایک طرف اسلام نے عورت پر یہ احسان کیا ہے کہ اس پر کوئی معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی دوسری طرف اس کے لیے نہ صرف وراثت میں حصہ مقرر کیا، بلکہ اس کے لیے سرمایے کے حصول اور اس کے تحفظ کے کئی ذرائع متعین کیے اور اسے اپنے اس ’محفوظ سرمایے‘ کے استعمال میں کلّی طور پر خود مختار بھی بنا دیا۔ حتیٰ کہ اس کے شوہر پر بھی یہ پابندی لگا دی کہ وہ بیوی کی اجازت کے بغیر اس کا سرمایہ استعمال نہیں کر سکتا،جب کہ بیوی ضرورت کے مطابق شوہر کے مال سے خرچ کر نے کی مجاز ہے۔ اگر مردوں اور عورتوں کی معاشی، معاشرتی اور دوسری ذمہ داریوں اور پوری صورت حال کو سامنے رکھیں تو اس یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام میں وراثت کی تقسیم جنس کی بنیاد پر نہیں بلکہ مخصوص ذمہ داریوں کی وجہ سے انتظامی بنیاد پر ہے اور وراثت کی یہ تقسیم عین عدل و انصاف کا تقاضا ہے ۔