بیوی کو مارنے کی اجازت اور قرآن

غیر مسلموں کا ایک طبقہ خصوصا بہت سے عیسائی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام مرد کو عورت پر ہاتھ اٹھانے اور اسے مارنے کا حق دیتا ہے ۔ یہ معترضین قران مجید سورۃ نساء کی آیت 34 کو بطور دلیل پیش کر کے اسلام کے خلاف اپنا بغض ظاہر کرتے ہیں ۔ اس تحریر کا مقصد اس مغالطے کا رد کرنا ہے ۔

سورہ النسآء آیت نمبر 34:


ٱلرِّجَالُ قَوَّٲمُونَ عَلَى ٱلنِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بَعۡضَهُمۡ عَلَىٰ بَعۡضٍ۬ وَبِمَآ أَنفَقُواْ مِنۡ أَمۡوَٲلِهِمۡ‌ۚ فَٱلصَّـٰلِحَـٰتُ قَـٰنِتَـٰتٌ حَـٰفِظَـٰتٌ۬ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ ٱللَّهُ‌ۚ وَٱلَّـٰتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهۡجُرُوهُنَّ فِى ٱلۡمَضَاجِعِ وَٱضۡرِبُوهُنَّ‌ۖ فَإِنۡ أَطَعۡنَڪُمۡ فَلَا تَبۡغُواْ عَلَيۡہِنَّ سَبِيلاً‌ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيًّ۬ا ڪَبِيرً۬ا (٣٤)

ترجمہ: مرد وعورتوں کے نگران ہیں، کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں، مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ، اور (اگر اس سے کام نہ چلے تو) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو ، (اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو) انہیں مار سکتے ہو۔ پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کاروائی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کے اوپر، سب سے بڑا ہے۔

(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)

پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قران کے کسی بھی ایک لفظ یا ایک آیت کو لے کر اس کی من مانی تشریح کرنا اور اپنا مقصد ثابت کرنے کے لیۓ اٍستعمال کرنا کوئی درست اور منطقی یاعلمی طریقہ نہیں ہے ۔ ہر آیت کو اس کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوۓ اسلامی اطوار و تعلیمات کے ساتھ ملا کر اس کا معنی سمجھنا لازم ہے ۔ اب چند باتوں پر غور کیجیۓ :

سیاق و سباق:


1: اسلام مرد و عورت دونوں کے ازدواجی تعلقات کو انکے ساتھی تک محدود کرتا ہے

2:اپنے شریک حیات کے سوا کسی سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کو سختی سے روکتا اور منع کرتا ہے ۔

3: عورت کو آہستگی سے مارنے کی اجازت بے قید اور غیر مشروط نہیں ہے بلکہ مشروط اور بالکل آخری آپشن کے طور پر ہے : آئیۓ آیت کا متن دیکھتے ہیں :” مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک خدا سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے “۔

یہ آیت وضاحت کرتی ہے کہ یہ اجازت صرف خاص حالات میں ہے یعنی جب عورت سرکشی کی اس حد تک پہنچ جاۓ کہ دیگر سب طریقے ناکام ہو جائیں اور گھر کو ٹوٹنے سے بچانے اور عورت کو سدھارنے کے لیۓ اور کوئی چارہ نہ رہے ۔ ایک دفعہ دوبارہ پڑھنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ سرکشی (نشوز)ایسی ہے کہ اس سے ایک شریف اور باوقار عورت کی عظمت مجروع ہوتی ہے۔

4: عورت کا ایسا رویہ نا صرف مرد کے لیۓ تکلیف کا باعث ہو گا بلکہ مرد کو بگاڑنے کا سبب بھی بن سکتا ہے ، اور معاشرے پر اس کے اثرات کا تصور ہر صاحب بصیرت با آسانی کر سکتا ہے ، چنانچہ ایسی حالت میں خاندان کو ٹوٹنے اور معاشرتی بگاڑ سے بچانے کے لیۓ بادل ناخواستہ اسکی آپشن رکھی گئی ہے ۔ چنانچہ یہ اجازت ایک ضرورت کے تحت اعتدال کے لیے اور اس برائی سے نجات کے لیے ہوتی ہے۔

اسکی اجازت صرف انتہائی حالات میں ہی ہے :


1:اس سزا کی اجازت آخری آپشن کے طور پر ہے : سب سے پہلے نصیحت ، تنبیہ کرنا ضروری ہے ، اگر اس کا مثبت نتیجہ نہ نکلے تو بستر علیحدہ کر لینے کا حکم ہے اور یہ صورت اس عورت کو ضرور سدھار دیتی ہے جس کے اندر ذرہ بھر بھی خیر باقی ہو ، اور اگر یہ طریقہ بھی ناکام ہو جاۓ تو تب آہستگی سے تادیبا مارنے کی اجازت ہے۔ایسے انداز میں جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنا مطلقاً منع ہے، ایک حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے ولن یضرب خیارکم یعنی اچھے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے، چنانچہ انبیاء علیہم السلام سے کہیں ایسا منقول نہیں۔

2:اگر وہ اپنی اصلاح کر لے تو اس صورت میں فرمایا : پھر تم ان پر زیادتی کا کوئی راستہ مت تلاش کرو

3: عورت کو اس کی اجازت ہے کہ اگر خاوند کے ساتھ کسی وجہ سے گزارہ اس کے لیۓ ممکن نہ رہے تو عورت خلع لے کر علیحدگی اختیار کر لے ، مگر جب تک وہ عقد نکاح میں موجود ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ خاوند کی موجودگی اور غیر موجودگی میں اسکی وفادار رہے ، مرد و زن کے باہمی تعلق کی درستگی ہی ایک خوبصورت معاشرے کی بنیاد ہے

آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ہمیں حضور ﷺ کی احادیث کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے ۔ آیت میں مذکور لفظ نشوزھن کی وضاحت خطبہ حجۃ الوداع میں بھی کی گئی ۔ چند دفعات پیش ہیں۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں خطبہ دیا تو اس میں یہ بھی فرمایا: عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ تم نے انھیں اللہ کی امان میں لیا ہے او ران کی شرم گاہیں تمھارے لیے اللہ کے کلمہ کے ذریعے حلال ہوئی ہیں۔ تمھارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمھارے بستروں پر ایسے کسی شخص کو نہ آنے دیں جسے تم نا پسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایساکریں تو انھیں ایسی مار مارو کہ اس کا جسم پر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ انھیں دستور کے مطابق کھانا کپڑا دو۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبیؐ، ۱۲۱۸)

امام ترمذی نے حضرت عمرو بن الاحوصؓ کے واسطے سے یہ خطبہ حجۃ الوداع نقل کیا ہے۔ اس کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔ اس میں ہے:مگر یہ کہ وہ کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں بستروں میں تنہا چھوڑ دو اور انھیں مارو، ایسی مار جس کا جسم پر کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔ (جامع ترمذی، ابواب الرضاع، باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجہا، ۱۱۶۳، ابواب تفسیر القرآن، سورۃ توبہ، ۳۰۸۷، حسنّہ الالبانی)

خاوند کی سرکشی کی صورتحال میں بیوی کو ایسے عمل کی اجازت کیوں نہیں دی گئی ؟


یاد رکھیے شوہر کو قانونی طور پر “دوسری” بیوی رکھنے کی اجازت ہے جب کہ عورت ایک وقت میں دو شوہر رکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی جس کی وجوہات واضح ہیں .اس کومد نظر رکھتے ہوۓ اور جسمانی برتری اور حقیقی زندگی کے حقائق کو دیکھتے ہوۓ بیوی کی شوہر کو اس طریقے سے نصیحت کرنے کے بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی .وہ پہلے معاملے کو اسی انداز میں بات چیت سے حل کرسکتی ہے اگر مسئلہ حل نا ہو تو اس کو عدالت یا خاندان کے بڑوں کے سامنے لے کر جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ  عدالتی پیچیدگیوں کی بات کرتے ہیں ۔ یہ موجودہ عدالتی نظام کا نقص ہے، نہ کہ شریعت کا۔ ایک شرعی ریاست ان مسائل کے حل کا باقائدہ انتظام کرتی ہے۔ شوہر کو ریاست کی طرف سے پابند کیا جاتا ہےاور سزا دی جاتی ہے۔

ایک غیر مستند روایت :

: کچھ لوگ ایک روایت سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ایسے ہے : عمر ابن الخطاب سے روایت ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص سے یہ نہیں پوچھا جاۓ گا کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا (سنن ابو داؤد ،حدیث نمبر ٢١٤٧ .علامہ البانی نے اس کو ضعیف اور غیر مستند قرار دیا ہے ) البانی کے علاوہ ، شیخ احمد شا کر اور شعیب ارنوط نے بھی اس کو اپنی مسند احمد کی درجہ بندی میں ضعیف قرار دیا ہے. ا بن کثیر نے بھی مسند الفاروق 1/182 میں اس کی روایت کو تنقید کا نشانہ بنایا .

تہذیب یافتہ مغرب میں عورت کو مارنے اور غیرت کے نام پر قتل کی صورتحال:

سیکولر ممالک میں عورت کو اپنے پاٹنر کی طرف سے ذیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یو این وویمن کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا، کینڈا، اسرائیل، جنوبی افریقہ اور امریک میں چالیس سے ستر فیصد مقتول عورتوں کے کیس میں انکے پاٹنرز ملوث تھے ۔

فرق صرف یہ ہے کہ معاملہ جب مسلمان ملکوں میں ایسے قتل کا ہو تو یہ ہانر کلنگ کہاجاتا ہے اور جب نیو یارکر ایسا کریں تو یہ ڈومیسٹنگ یا پاٹنر وائنلس قرار دی جاتی ہے ۔

امریکہ کے دماغی اور جسمانی صحت کے محکمہ کی رپورٹ کے مطابق 2003 اور 2005 مین تقریبا آدھی مقتول خواتین اپنے پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہوئیں ۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید مولوی یا غریب بندہ ہی بیوی پر ہاتھ اٹھاتے مگر یہ ھمارے دیسی لبرل پڑھے لکھے لوگ بھی اپنی بیویوں کی پھینٹی لگانے میں کسی سے کم نہیں۔ اچھے خاصے آزاد خیال اور امیر گھرانوں میں عورتوں کی پھینٹی لگنے کا چلن ہے۔ اس کا سبب ظاہر ہے اسلامی تعلیمات نہیں ہیں ۔

خلاصہ :

  1. اس اجازت کا معمولی نوعیت کی باتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یعنی مثلا سالن میں نمک کم ڈالا، صبح و شام داروغا کی طرح مسلط ساس کے ساتھ زبان درازی جیسے امور کے ساتھ اسکا کوئی تعلق نہیں۔ جب شارع نے سالن روٹی پکانے اور ساس سسر کی خدمت کرنے کی ذمہ داری بیوی پر عائد ہی نہیں کی تو بھلا انکی آڑ میں بیوی پر ہاتھ اٹھانے کا کیا شرعی جواز؟
  2. یہ مار بھی ہلکی پھلکی ہے جس کا مقصد سخت ایذا دینا نہیں۔ کسی بڑی عمر کے انسان پر معمولی نوعیت کا ہاتھ اٹھالینا بذات خود سخت ترین ناراضگی و سزا کا اظہار ہوتا ہے۔ پس سخت ضرورت میں بھی اس کی نوعیت کم سے کم ہونی چاہئے نہ یہ کہ مار مار کر عورت کو زخمی کردیا جائے۔ عورت کے ساتھ اس حیوانی سلوک کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں۔
  3. اس اجازت کا استعمال کوئی “مستقل مزاجی کے ساتھ بطور اسٹائل” اپنانے والی چیز نہیں کہ گویا “یہ تو میرا سٹائل ہے بیوی کو کنٹرول کرنے کا”، بلکہ طلاق تک نوبت پہنچنے سے قبل کسی نہایت سرکش بیوی کی اصلاح کی ایک آخری وقتی تدبیر ہے کہ شاید اس خوف سے گھر ٹوٹنے سے بچ سکے۔ اگر یہ کارگر ثابت ہو جائے تو پھر اسکے مسلسل استعمال کا کوئی جواز نہیں۔ اگر یہ خوف ہو کہ ہاتھ اٹھانے کی صورت میں جو معاملہ طلاق تک نہیں پہنچنا تھا وہ بھی وہاں تک پہنچ جائے گا تو پھر ایسی صورت میں ہاتھ اٹھانا خلاف حکمت ہے۔
  4. یہ اجازت بتدریج ہے؛ پہلے نصیحت، پھر ناراضگی و بے رخی کا آخری درجے میں اظہار اور پھر ہاتھ اٹھانا۔ یہ تماشا نہیں ہونا چاہئے کہ ادھر ہر روز مار پیٹ بھی چل رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کی تعداد میں اضافہ بھی جاری ہے۔ گویا بستر سے الگ بھی نہیں کرنا اور مارتے بھی رہنا ہے۔ یہ رویہ اپنے غصے کی تسکین کے لئے شرع کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے۔
  5. یہ اجازت اسے ہے جو پہلے خود قوامیت / سربراہی کی شرائط پوری کررہا ہو۔ یہ نہیں کہ خاوند صاحب محنت سے جی چرا کر گھر بیٹھے ہوں مگر جب بیوی گھر کا خرچ نہ ملنے پر لڑائی کرے تو اٹھ کر مارنا شروع کردیا؛ خود تو آوارگی کی راہ پر چل رہے ہیں اور بیوی نے اسکا طعنہ دے دیا تو “بدزبان” کا لیبل لگا کر مار دھاڑ شروع۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ریاست کا سربراہ اپنے اوپر عائد رعایا کی ذمہ داریاں تو پوری نہیں کررہا، ہاں جیسے ہی رعایا نے اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھائی پہنچ گیا ان پر “اپنی رٹ قائم کرنے”۔۔

اسلام میں اللہ کو امت کی اجتماعیت نہایت زیادہ عزیز ہے اور اس اجتماعیت کو توڑنے پر سخت وعیدیں ہیں. اس اجتماعیت کا سب سے پہلا پتھر میاں بیوی کا صحیح تعلق ہے جس کی بنیاد پر پھر آگے چل کر صحت مند خاندان، معاشرہ اور پھر پوری امت کھڑی ہوتی ہے.  اب جب یہ اجتماعیت امت کی بنیاد ہے تو فطری بات ہے کہ اس عظیم ترین مقصد کا حصول اگر کسی درجے میں سختی سے بھی ممکن ہو تو روا ہوگا. اس سختی کی اجازت روزمرہ کی گھریلو تکرار کے لیے نہیں ہے ۔ اس معاملے کے لیے نشوز کا لفظ استعمال کیا گہے ۔ نشوز عورت کی طرف سے وہ اعلا درجے کی سرکشی ہے جو خاندانی نظم تباہ ہونے پر منتج ہوتی ہے. اس پر ضرب کی اجازت ہے لیکن اس کی جو حدود حدیث نے بتائی ہیں اس کی رو سے عرف عام والی مار کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا

نوٹ :ہماری یہ تحریر صرف ان قارئین کے لیے ہے جن کے نزدیک خاندان کی کوئی قیمت ہے جو معاملات ، تعلقات میں کسی حد کے قائل ہیں ۔ جو دین و دنیا بیزار طبقہ ہے انکے لیے یہ توضیح بالکل نہیں ۔ بقول اک محقق ہمیں یقین ہے کہ ہم اس آیت کے حکم کو جتنا بھی لائیٹ کرلیں، یہ اس “جدید ذہن کے حلق” سے نیچے نہیں اترے گی جو یہ کہتا ہو کہ بیوی کو بیوی ہونے کے باوجود معاشقے کرنے کی شخصی آزادی ہونی چاہیے.

، استفادہ تحریر : وقار اکبر چیمہ، ڈاکٹر زاہد مغل