دو انسانوں کے درمیان ہر رشتے کے صرف دوہی سرے نہیں ہوتے، بلکہ تین کو نے ہوتے ہیں۔ تیسرے کو نے پر اگر خدا ہو تو وہ رشتہ اخلاقی ہوتا ہے اور اگر ریاست ہو تو رشتہ قانونی ہوتا ہے۔
قانونی ہوتے ہی انسانی رشتے کا ہر طرح کی اقدار سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ کوئی انسانی رشتہ بیک وقت قانونی اور اخلاقی نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ اخلاقی رشتوں کا اصل دائرہ خونی رشتے اور ہمسائیگی ہے۔ اچھی معاشرت انہی اخلاقی رشتوں سے وجود میں آتی ہے۔ اگر سارے انسانی رشتے قانونی ہوجائیں تو معاشرت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اخلاقیات معاشرے کا مسئلہ ہے اور قانون ریاست کا۔ ریاست گلی اور گھر کے دروازے تک پھیلی ہوتی ہے اور اگر ریاست بیڈ روم میں بھی آجائے تو اس کا مطلب ہے کہ اخلاقی معاشرہ ختم ہوگیا ہے اور قانونی معاشرہ قائم ہوگیا ہے۔ قانونی معاشرے میں انسانی رشتے مزاج اور مفاد کے تابع، اخلاق سے لاتعلق اور شائستگی سے پر ہوتے ہیں۔ اخلاقی معاشرے میں ہر وقت نگہداری کی ضرورت نہیں ہوتی، اور اقدار اور کردار اہم ہوتے ہیں۔ قانونی معاشرے میں ’’ریاستی نظر‘‘ مسلسل اور مستقل ہوتی ہے، اخلاقی کردار غیر اہم، اور عوامی ساکھ اہم ہوتی ہے۔
حال ہی میں حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے ایک قانون بنایا گیا ہے۔ اس طرح انیسویں صدی کے اوائل سے ہمارے لیے بننے والے جدید قوانین کی طویل فہرست میں ایک اور کا اضافہ ہوا ہے۔ حقوق بھلے عورتوں کے ہوں بھلے مردوں کے، ان کی حفاظت کے لیے قانون سازی ایک خوش آئند امر ہے۔ لیکن جدید قانون سازی صرف حقوق کے تحفظ کا نام نہیں ہے۔ جدید قانون سازی انسان کے نئے حقوق بناتی ہے، یعنی گھڑتی ہے، اور پھر ان نئے حقوق کو طاقت سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ جدید حقوق انسان کے لیے نہیں ہوتے بلکہ انسان حقوق کے لیے ہوتا ہے۔ جدید ریاست کے عطا کردہ حقوق انسانی ایک سانچہ ہیں جن میں عام آدمی کو ڈھال کر شہری بنایا جاتا ہے۔ چیزوں کے نئے نئے ماڈلوں کے ساتھ حقوق کے بھی نئے نئے ماڈل سامنے آتے رہتے ہیں۔ نئے انسانی حقوقی طاقت سے پیدا ہوتے ہیں، اقدار سے پیدا نہیں ہوتے ۔ جدید معاشروں میں نئے سماجی رشتے پیدا کرنے کے لیے نئے حقوق بنائے جاتے ہیں اور ان کو طاقت سے نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ کام بنیادی طور معاشی نظام کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔
مغربی معاشرے میں جدید قانون سازی کا مقصد انسانی حقو ق تحفظ نہیں تھا، بلکہ مذہب اور مذہبی اخلاقیات کے طے کردہ انسانی اور سماجی رشتوں کا خاتمہ اور نئے انسانی رشتوں کا نفاذ تھا۔ جدید قانون سازی سے ایسے نئے انسانی رشتوں کا تصور سامنے آیا جو سرمایہ داری نظام کے لیے مفید تھے۔کنبے کا باقی رہنا ہر ہر صورت میں سرمایہ داری نظام کے پیداواری رشتوں کے قطعی خلاف تھا۔ سرمایہ داری نظام کی ضرورت تھی کہ معاشرے میں انسان فرد فرد ہوجائے تا کہ اس کا شکار آسانی سے کیا جاسکے۔ ایک دوسرے سے جڑا ہوا انسان سرمایہ داری نظام کو ہرگز قابل قبول نہیں ہوتا۔ سرمایہ داری نظام کا معاشی اصول ہے: ’’ایک نوکری ایک پیٹ‘‘۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے موثر قانون سازی ہے۔ قانون سازی کرتے ہوئے ریاست کے کان اور دھیان سرمائے کی طرف اور نظر لوگوں پر ہوتی ہے۔ قانون سرمائے کے معاشی دباؤ اور ریاستی طاقت کو یک جا کردیتا ہے اور اس طرح ایک ایسا بلڈوزر بنتا ہے جس کے سامنے ہمالیہ بھی ریت کا ڈھیلا ہے۔ جدید قوانین کی مدد سے مغربی معاشرے میں کنبے کو بالکل ہی مسمار کردیا گیا اور معاشرہ ریاست میں ضم ہوگیا۔
مغرب میں حقوق نسواں کے لیے جتنی بھی قانون سازی کی گئی اس کا مقصد ازدواجی زندگی کا خاتمہ تھا۔ اگر پائیدار ازدواجی زندگی کا خاتمہ ہو جائے تو کنبہ از خود ختم ہوجاتا ہے، اور تمام انسانی رشتے قانون ہوجاتے ہیں۔ اس ’’کارنامے‘‘ سے پورے معاشرے کے سماجی رشتے بدل جاتے ہیں، اور معاشرہ ریاست کا جزو بن جاتا ہے۔ اور مذہب کی جگہ از خود ختم ہوجاتی ہے۔ شادی دو چیزوں کا نام ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ شادی نبھانی ہو تو اخلاقی ہے، توڑنی ہوتو قانونی ہے۔ مذہبی معاشرہ اور پہلو پر زور دیتا ہے اور جدید سوسائٹی دوسرے پہلو کو اہم سمجھتی ہے۔ ازدواجی معاہدے میں قانون سویا رہتا ہے اور شادی توڑنے کے وقت بیدار ہوتا ہے۔ معاشرے کے جن طبقات میں شادیاں ابھی چل رہی ہیں وہاں اخلاق شعور غالب ہے اور شادیوں کے ملبے سے جہاں سوسائٹی بن گئی ہے وہاں ہر وقت حقوق اور قانون کی شقوں پر زور ہوتا ہے۔ اگر ازدواجی قانون سازی وافر ہوجائے تو یہ ادارہ ہی ختم ہوجاتا ہے جیسا کہ مغرب میں ہوا ہے۔ مغرب میں ازدواجی قانون سازی اس قدر ہے کہ شادی میں اخلاقی رشتے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ اب بچے پیدا کرنے اور ان کی کفالت کے لیے عورت کو شادی کی ضرورت نہیں اور نہ وہ مرد کی طرف دیکھنے کی محتاج ہے۔ اگر خوش طبعی کے لیے عورت مرد شادی کرلیں تو ان کی مرضی، لیکن یہ ضروری نہیں رہی۔ یہ ترقیاتی کامیابی مغربی معاشرے نے ازدواجی قانون سازی کے ذریعے سے ہی حاصل کی ہے اور اس میں اولاد اور والدین کا رشتہ بھی فنا ہوگیا ہے۔
کچھ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جدید دنیا میں قانون سازی سرمایے کی سڑک بنانے کا اسٹیم رولر ہے۔ نسوانی حقوق اور ازدواجی قوانین کا بنیادی مقصد ہی کنبے کا خاتمہ تھا جس میں کامیابی اب مکمل ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں معاشرے مغربی ہوئے ہیں، وہاں بھی کنبے کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔ جدید ریاست کی قانون سازی مذہب کے مطابق یا خلاف نہیں ہوتی۔ یہ ان کی نہایت ہی بڑی خوش فہمی اور غلط فہمی ہے کہ جدید ریاست مذہب کے ’’خلاف‘‘ کوئی قانون پاس کرتی ہے۔ یعنی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جدید ریاست مذہب کو کوئی اہمیت دیتی ہے، اس لیے وہ اس کے ’’خلاف‘‘ قانون بناتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جدید سیکولر ریاست مذہب کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتی کہ اس کے ’’خلاف‘‘ قانون بنانے پر وقت ضائع کرے۔ جدید قانون سازی معاشرے کو ریاست میں ضم کرنے کے لیے ہوتی ہے اور ضمناً مذہب از خود ختم ہوجاتا ہے۔
ہمارے علما قانون سازی میں مذہبی اور غیرمذہبی کی بحث اٹھا کر اصل چیزوں سے توجہ ہٹادیتے ہیں اور اس طرح وہ عین انہی قوتوں کو مضبوط کرتے ہیں جو مذہب کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ ہمارے علما نے اس نئے قانون سے جو غیر مذہبی پہلو نکالا ہے، وہ نہایت مضحکہ خیز ہے۔ جدید ریاست مذہب کا از حد احترام کرتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ دہریت یا ہم جنس پرستی یا کلچر و غیرہ کا بھی از حد احترام کرتی ہے۔ وہ قانون سازی کرتے وقت مذہب سے چھیڑ چھاڑ میں وقت ضائع نہیں کرتی۔ دراصل مذہب کے نمائندے نہایت نادان لوگ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نعرے سے کام چل جائے گا۔ نعرہ سنتے ہی جدید ریاست اپنی حکمت عملی تبدیل کرلیتی ہے ، ایجنڈا تبدیل نہیں کرتی، اور وہ قانون سازی سے اس زمین ہی کو ختم کردیتی ہے جہاں مذہب کا شجر اگتا ہے۔ مذہب کا شجر انسانی معاشرے میں اگتا ہے۔ معاشی قوتوں کی مدد سے جدید قانون سازی معاشرے کو سول سوسائٹی بنادیتی ہے، اور اس طرح مذہب کا ٹنٹا ہی نکل جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس قانون کی چند شقوں کے رد و بدل سے اگر مذہبی طبقے کو خوش کر بھی دیا جائے تو وہ اس معاشی دباؤ کا کیا علاج تجویز فرمائیں گے جو کنبے کو تیزی سے ختم کررہا ہے؟ ایسا سرمایہ دارانہ نظام جو کنبے ہی کو مٹائے جارہا ہے کیا وہ تبدیل شدہ قانون کے بعد ’’اسلامی قرار پائے گا؟ طاقت دراصل کینگروکی طرح ہوتی ہے اور قانون اس کی جھولی کا بچہ۔ ہمارے علما کی گہری بصیرت یہ کہتی ہے کہ طاقت کے کینگرو سے بکری کا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے مولانا حضرات قانون کی بہت بات کرتے ہیں، لیکن جو طاقت قانون بناتی ہے، اور جس معاشی قوت کو راستہ دینے کے لیے قانون بنایا جاتا ہے، ان کے بارے میں وہ کچھ کہنے کے روادار نہیں۔ بڑے امام صاحب کے ایک مشہور قول کا عین یہی مطلب ہے کہ سیاسی طاقت اور قانون کا ایک منبع، ایک استناد اور ایک ہدف ہونا لازمی ہے۔ اسلامی قانون کی موٹی موٹی شقیں ان پڑھ آدمی کو بھی معلوم ہوتی ہیں، اس کے لیے عالم ہونا ضروری نہیں۔ ضروری یہ ہے کہ جدید سیاسی اور معاشی طاقت کے نظام کو سمجھنے کے وسائل بھی فراہم کیے جائیں، اور قانون سے اس کا تعلق واضح کیا جائے۔ مذہبی قوانین کی بات اس تجزیے کے بعد ہی بامعنی ہوسکتی ہے۔
اگر ہم مذہب کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عادلانہ سیاسی اور معاشی نظام کی بات پہلے کرنا ہوگی اور قانون کے بارے میں وعظ کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کرنا پڑے گا۔ قانون ایک ذیلی اور ضمنی چیز ہے، کیونکہ جیسی سیاسی اور معاشی قوت ہوتی ہے، ویسا ہی قانون بناتی ہے۔ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہٹلر، سٹالن، بش اور بلیر کی ریاست اگر حدود و تعزیرات کو نافذ کردے تو کیا شرعی عدل کے تقاضے پورے ہوجائے ہیں؟
ڈاکٹر محمد دین جوہر