واضح رہے کہ حجاب کا مفہوم جو اس وقت زیر نظر ہے وہ یہ ہے کہ کسی غیر محرم مرد کے سامنے کوئی غیر محرم عورت کسی مجبوری کے بغیر اپنا چہرہ ، سر اور چھاتی وغیرہ کھلی چھوڑ سکتی ہے یا نہیں ؟ یا کم از فقط چہرہ کسی غیر محرم مرد کے سامنے بغیر کسی مجبوری کے کھلا چھوڑ سکتی ہے ؟
تو اس کا واضح سا جواب یہ ہے کہ : نہیں !!
اس ’’نہیں‘‘ کی دلیل میں چند باتیں پیش خدمت ہیں :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ۔ ﴿سورۃ الاحزاب 59﴾
اے نبی ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے ۔
یہ آیت مبارکہ اپنے مضمون اور مدعا میں بالکل واضح اور دوٹوک ہے ۔ اس کے مضامین کو درج ذیل نکات میں دیکھئے :
اس آیت میں جو حکم ہے وہ اللہ تعالی نے براہ راست نبی کریم ﷺ سے خطاب کر کے امت کو دلوایا ہے
اس آیت میں جو حکم ہے وہ ازواج مطہرات ، نبی کی بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سب کو شامل ہے ۔
اس آیت میں جو حکم حجاب ہے وہ ایسی بڑھی اوڑھنی لینے کا ہے جو پورے جسم کو چھپا دے جس میں چہرے کو چھپانا بھی داخل ہے
اس آیت مبارکہ سے جس طرح ازواج مطہرات کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم ہے ویسے ہی بلا تفریق عام مسلمان عورتوں کو بھی چہرہ ڈھانپنے کا حکم ہے جو بالکل صریح ہے ۔۔ اس میں ازواج مطہرات کی تخصیص کی کوئی وجہ ہے ہی نہیں ۔۔
اسلامی تاریخ کے تمام نامور متقدمین و متاخرین مفسرین کے اقوال اسی حقیقت پر شاہد ہیں جنہیں ہم فی الوقت اختصار کے پیش نظر ذکر نہیں کر رہے ۔ فقط دو تین حوالے ہی پیش ہیں :
امام ابن جریر الطبری جو متقدمین مفسرین میں سر خیل کی حیثیت رکھتے ہیں وہ فرماتے ہیں :
يقول تعالـى ذكره لنبـيه مـحمد صلى الله عليه وسلم: يا أيها النبـيّ قل لأزواجك وبناتك ونساء الـمؤمنـين، لا يتشبهن بـالإماء فـي لبـاسهنّ إذا هن خرجن من بـيوتهنّ لـحاجتهنّ، فكشفن شعورهنّ ووجوههنّ، ولكن لـيدنـين علـيهنّ من جلابـيبهنّ، لئلا يعرض لهنّ فـاسق، إذا علـم أنهنّ حرائر بأذى من قول.
اے نبی ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ جب وہ اپنے کسی کام سے گھر سے باہر نکلیں تو تو باندیوں جیسا لباس نہ پہنیں جس سے ان کے بال اور چہرہ کھلا رہے بلکہ اپنے چہروں پر چادر ڈال لیا کریں جس سے نمایاں ہو کہ یہ آزاد اور شریف عورتیں ہیں تاکہ کوئی فاسق ان پر کوئی آوازہ نہ کسے ۔۔
معروف مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
لما كانت عادة العربيات التبذّل، وكنّ يكشفْن وجوههنّ كما يفعل الإماء، وكان ذلك داعية إلى نظر الرجال إليهن، وتشعب الفكرة فيهن، أمر الله رسوله صلى الله عليه وسلم أن يأمرهن بإرخاء الجلابيب عليهن إذا أردن الخروج إلى حوائجهن ۔
چونکہ عرب عورتوں کی عادت بالعموم نیچ تھی اور وہ اپنے چہرے کھلے رکھا کرتی تھیں جیسا کہ وہاں کی باندیوں کا دستور تھا اور اسی سبب سے مردوں کی نظریں ان کی طرف اٹھتی تھیں اور معاملات بگڑتے تھے تو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ جب وہ اپنے کام کے لیے گھروں سے باھر نکلیں تو اپنے چہروں پر چادر لٹکا لیا کریں ۔۔
ان دو حوالوں سے یہ بات بالکل بے غبار ہو جاتی ہے کہ حجاب کا حکم فقط امہات المومنین کے ساتھ خاص نہیں تھا بلکہ عام مسلمان عورتیں بھی اس حکم میں ان کے ساتھ شامل ہیں ۔
البتہ باندیوں کا معاملہ ان سے مختلف تھا جیسا کہ اوپر کے حوالے میں بھی اشارہ ہے اور کتب فقہ میں بھی اس کی تصریحات موجود ہیں ۔۔
اب یہاں قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے اور مفسرین کی تصریحات سے یہ بات واضح ہےتو متعدد احادیث مبارکہ میں اس سے مختلف صورتحال کیوں محسوس ہوتی ہے جس کی بنیاد بنا کر عمار خان ناصر نے یہ بات کہی ہے کہ حجاب امہات المومنین کے ساتھ خاص تھا ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ تمام روایات اس مسئلے سے متعلق ہیں ہی نہیں کہ حجاب امہات المومنین کے ساتھ خاص ہے یا عام مسلمان عورتیں کے لیے بھی چہرے کے حجاب کا حکم ہے ؟ وہ روایات اس مسئلے سے غیر متعلق ہیں ۔۔
ایسے میں اگر ویسے دس بارہ ہی کیا بیس تیس احادیث بھی ذکر کر دی جائیں تو اس سے مسئلے پر کیا فرق پڑے گا ؟
وہ تمام روایات دو باتوں کی وضاحت کرتی ہیں :
1 : نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے لیے حجاب لازم تھا اور آپ جنہیں باندی کے طور پر اپنے پاس رکھتے تھے اس کے لیے یہ حجاب لازم نہ تھا ۔۔ کیوں کہ باندیوں کے احکامات آزاد عورتوں کے احکامات سے مختلف ہیں ۔ چنانچہ عمار خان ناصر صاحب کی پیش کردہ ابتدائی نو روایات سب کی سب اسی حقیقت کو بتلا رہی ہیں
2 : عام مسلمان آزاد عورتوں کے چہرے یا ہتھیلیوں کی طرف نظر کرنا بعض حالات میں مباح ہوتا ہے جبکہ کسی غیر محرم کو ازواج مطہرات کی نظر کرنا سرے سے جائز ہی نہیں رکھا گیا اور یہی ان کی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے انہیں سائر الناس پر فضیلت کی بات امام ابراہیم نخعی نے فرمائی ہے ۔ الغرض عمار خان ناصر صاحب کی طرف سے پیش کردہ امام طحاوی اور امام ابراہیم نخعی رحمہما اللہ تعالی کے حوالوں میں یہی بات بیان کی گئی ہے جو جمہور اھل علم کے مسلک کے عین موافق ہے ۔۔ مخالف نہیں ہے ۔۔
مولانا مدثر جمال