سوال :اللہ نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت اس کی فطرت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دی جبکہ اللہ عورتوں کی فطرت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ مرد کی کسی دوسری عورت کے ساتھ شراکت سے اسے کتنی رنجش ہو گی تو پھر اس میں ایسی کیا حکمت پنہاں تھی؟ اللہ نے عورت کی فطرت اور نفسیات کو کیوں نظر انداز کیا؟
جواب: نہ صرف یہ کہ شریعت میں بلکہ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں کسی عمل کے جائز یا ناجائز ھونے کی یہ کوئی حتمی بنیاد نہیں ھوتی کہ اسکے نتیجے میں کسی بھی شخص کو امکانی طور پر کسی قسم کی رنجش یا دکھ تو نہیں پہنچے گا۔!
اگر یہ اصول مان لیا جائے تو نکاح کے بعد لڑکی کی لڑکے کے ساتھ رخصتی بلکہ نکاح ہی کے عمل پر پابندی لگادینی چاھئے۔ آخر دنیا میں وہ کونسے ماں باپ ہیں جنہیں اپنی نازونعم میں پلی بیٹی کسی کے حوالے کرتے رنجش نہیں ھوتی؟
اور دنیا کی وہ کونسی لڑکی ھے جسے اپنا گھر چھوڑ کر پرائے گھر جاتے رنجش نہیں ھوتی؟
اور لڑکے کی ماں، جس نے اپنے لاڈلے کو پال پوس کر بڑا کیا ھوتا ھے، کیا اسے اپنا بیٹا کسی کے ساتھ شئیر کرتے کوئی رنجش نہیں ھوتی؟
تو اس سارے عمل کا مطلب کیا یہ سمجھا جائے کہ لوگ شادی کے عمل سے ‘رنجور’ ان لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے نیز یہ انہیں خواھشات پورا کرنے کا آلہ سمجھ رھے ہیں؟
اسکول، کالج و یونیورسٹیوں میں کتنے ہی طلبا ہر سال فیل ھوجاتے ہیں، تو کیا انہیں کوئی رنجش نہیں ھوتی؟
کیا نوکری کے انٹرویو کے بعد نوکری نہ ملنے والے امیدوار کو کوئی رنجش نہیں ھورہی؟
تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اساتذہ فیل ھونے والے طلبا کو انسان نہیں سمجھتے نیز انٹرویو کرنے والی کمپنیاں رد کئے جانے والے امیدواروں کو انسان نہیں سمجھتیں؟
کیا لوگوں کی رنجش کی وجہ سے اس سارے عمل کو روک دیا جائے؟
یہ نت نئی اور مہنگی قسم کی گاڑیاں جو ہر طرف رواں دواں ہیں کیا امیروں کو انہیں استعمال کرتا دیکھ کر غرباء کو رنجش نہیں ھوتی؟
یہ مہنگے کھانوں کے ریسٹورانٹس اور عالی شان گھر کیا کسی کے ارمانوں کا خون نہیں کرتے؟
تو کیا مطلب، یہ گاڑیاں چلانے والے اور ان ریسٹورانٹس میں کھانے والے لوگ ان غریبوں کو انسان نہیں سمجھتے؟
کیا کسی علاقے میں گاڑیوں کی تیز رفتار آمد ورفت کو ممکن بنانے کیلئے ایک ہائی وے بن جانے سے پیدل چلنے والوں کو کوئی تکلیف نہیں ھوتی (کہ انہیں اب بلا وجہ پیدل پل پر چڑھ کر سڑک کراس کرنا پڑتی ھے)۔
ذرا سوچتے جائیے، یہ عمل کہاں تک جاسکتا ھے۔
الغرض کسی عمل کے جائز یا ناجائز ھونے کی یہ سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں کہ اس سے امکانی طور پر کسی کو رنجش ھوسکتی ھے، اگر یہ اصول مان لیا گیا تو زندگی محال ھوجائے گی۔
اصل بات یہ ھے کہ انسانی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں، ان میں سے بعض بعض پر فوقیت رکھتے ہیں۔ بسا اوقات کسی اھم تر مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کم اھم شے کو قربان کرنا ہی پڑتا ھے۔ یہی معاملہ تعدد ازواج کا ھے۔ چنانچہ شرع نے ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی کہ اس سے پہلی بیوی یا کسی اور کو کسی قسم کی رنجش کا امکان ھے ہی نہیں بلکہ اس بنیاد پر دی ھے کہ دیگر بہت سے معاشرتی مسائل کا حل اس رنجش سے زیادہ لائق التفات ھے۔
جدید تہذیب یافتہ مغرب نے عورت کے احساسات کا کس قدر خیال رکھا ہے اسکی بھی جھللک دیکھ لیجیے ۔ غور کریں تو مغرب میں بھی تعدد ازدواج کی شکل پائی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام میں قانوناً اور فطرةً اور غیروں میں جانوروں کی طرح …
یہ گرل فرینڈ کیا ہے؟ کوئی زہرہلاہل کو قند کہہ دے تو کیا اس کی حقیقت بدل جائے گی اور قند بن جائے گا؟ نہیں! بلکہ مزید دھوکہ دہی اور فریب کا الزام لگے لگا۔یہی قول مشہور Theosophist نیت بسنت کا ہے موصوفہ اسی پوشیدہ ازدواج پر روشنی ڈالتی ہوئی یورپ کی اخلاقی باختہ حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ”مغرب میں جھوٹی اور نمائش یک زوجگی ہے بلکہ فی الحقیقت تعدد ازدواج ہے مگر کسی ذمہ داری کے بغیر۔ جب آشنا عورت سے مرد کا دل بھر جاتا ہے تواسے وہ نکال باہر کرتا ہے اور اس کے بعد وہ کسبی عورت بن جاتی ہے، کیونکہ اس کا ابتدائی محب“ اس کے مستقبل کی ذمہ داری نہیں لیتا اور وہ تعدد ازدواج والے گھر میں محفوظ بیوی اور ماں بننے کے مقابلہ میں سوگنا بدتر ہوتی ہے۔ جب ہم ہزاروں مصیبت زدہ عورتوں کو دیکھتے ہیں جو یورپ کے شہروں میں رات کے وقت سڑکوں پر ہجوم لگائے ہوئے چلتی ہیں تو ہمیں یقینا یہ محسوس کرنا پڑتا ہے کہ مغرب کو تعدد ازدواج کے سلسلے میں اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ عورت کے لئے یہ کہیں زیادہ بہتر ، کہیں زیادہ مسرت انگیز اور کہیں زیادہ عزت بخش ہے کہ وہ (اسلامی) تعدد ازدواج کے سسٹم کے تحت زندگی گزارے، وہ ایک مرد سے متعلق ہو، حلال بچہ اس کی آغوش میں ہو اور وہ عزت کے ساتھ جی رہی ہو،اس کے مقابلے میں (یورپین تعدد ازدواج) کہ اس کی عصمت دری کی جائے، وہ سڑکوں پر نکال باہر کردی جائے، بسا اوقات ایک حرامی بچہ کے ساتھ جو غیرقانونی ہو، اس کی کوئی جائے پناہ نہ ہو، کوئی اس کی فکر کرنے والا نہ ہو، اس کی راتوں پر راتیں اس طرح گزریں کہ وہ کسی بھی راہ گیر کا صیدزبوں بننے کو تیار ہو، مادریت کے شرف سے محروم سب کی دھتکاری ہوئی ہو۔ (Marriage commission report بحوالہ تعدد ازدواج: سیدحامد علی)
ڈاکٹر ”موسیولیبان“ مصنف تمدن عرب رقم طراز ہیں:
مسلمان کی جائز کثرت ازدواج یورپ کے ناجائز کثرت ازدواج سے ہزارہا درجہ بہتر ہے،اسلام پر جس دریدہ ذہنی سے نکتہ چینی کی جاتی ہے اور جس بری صورت میں اسے پیش کیا جاتا ہے وہ فرضی مہیب صورت بھی یورپ کے موجودہ معاشرہ کے آگے کچھ حقیقت نہیں رکھتی، دراصل یورپین ممالک میں عصمت عنقاء بن گئی ہے۔ (اسلام اور تعدد ازدواج)
ڈاکٹر زاہد مغل