مذہب “مرد و عورت کے حقوق” نامی عنوان باندھ کر کسی کو حقوق نہیں دیتا، ہر کسی کو جو بھی حقوق دئیے گئے ہیں وہ ان “مخصوص تعلقات” سے وجود میں آنے والی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے عطا کئے گئے ہیں جنہیں مذھب مطلوبہ معاشرتی تعلقات کے طور پر دیکھتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی حقوق کی بنیاد شوھر، باپ، بیوی و ماں وغیرہ ہونا ہے، نہ کہ مجرد مرد یا عورت ہونا۔ جو علمی فریم ورک تعلقات کی ان جھات سے سہو نظر کرتے ہوئے مرد و عورت کو مجرد حیثیت میں حقوق دینے پر اصرار کرتا ہے وہ لازما ان تعلقات کو نیست و نابود کردیتا ہے کیونکہ اس فریم ورک میں حقوق کی تفصیلات ان مخصوص ذمہ داریوں کی ادائیگی کے تناظر میں طے ہی نہیں کی جاتیں جو ان تعلقات کی بقا کی ضامن ہو۔ حقوق بذات خود مطلوب نہیں ہوتے بلکہ مخصوص فرائض کی ادائیگی کے لئے عطا کئے جاتے ہیں۔ اگر فرائض کا تصور مختلف ہوگا تو حقوق کی تفصیلات بھی مختلف ہوگی، اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ نوکری پیشہ خواتین کا طرز زندگی جس پر فی الوقت اعتراض کرنا مقصود نہیں یہ ہوتا ہے کہ گھر و بچے صبح سے لے کر رات تک نوکروں کے حوالے ہوتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ ایسا کیوں کرتی ہیں جب کہ آپ کے شوہر بھی اچھا کماتے ہیں: تو ان میں سے بعضوں کا جواب ہوتا ہے کہ “ایک خود مختار زندگی گزارنا سب کو اچھا لگتا ہے”۔
اگر آپ انکی زندگی پر ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ بیچاری صبح سے شام تک آفس میں باس اور ھائیر مینیجمنٹ کے ڈر سے کاموں میں پسی ہوتی ہے، اپنی کولیگز کے ساتھ ہر وقت آفس مشکلات کا رونا روتی دکھائی دے گی، اور اس سب کے بعد بھی اسے لگتا ہے کہ گھر بار کی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوکر “وہ آزاد و خود مختار ہے۔” گھر کے ڈسپلن کو بار گراں سمجھنے والی عین وہی خاتون دن بھر مارکیٹ ڈسپلن اور اس کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہوتی ہے یہاں تک کہ شام کو گھر بھی اگلے روز کے کام کی ٹینشن کے ساتھ لوٹتی ہے۔ یہ سب کچھ وہ اس احساس کے ساتھ کرتی ہے کہ “میں آزاد ہوں”۔ خاندان کی تمام تر ذمہ داریوں و جکڑ بندیوں کو رد کردینے والی اس خاتون سے اگر پوچھیں کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے، تو جواب ملے گا “اس لئے تاکہ اپنے لئے میرے فری اوقات بڑھ جائیں”۔ لیکن ان مزید فری کئے گئے لمحات میں وہ کہاں ہوتی ہے؟ “مارکیٹ” میں۔ یہ آزادی کا فریب ہے۔
آزادی کا فریب یہ ہے کہ یہ فرد کو روایتی معاشرت کے ڈسپلن و ذمہ داریوں کے خلاف یہ کہہ کر شہ دیتی ہے کہ اس کے بعد تم “کچھ بھی” کرنے کے لئے آزاد ہوگے۔ لیکن حقیقتا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد “تم خود کو مارکیٹ ڈسپلن میں سمو کر سرمائے کی خدمت کرنے کے لئے آزاد ہو”۔ اس کے سواء آزادی کا کوئی دوسرا مطلب نہیں۔
ڈاکٹر زاہد مغل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سوشل میڈیا پر آج لبرلز آنٹیاں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ایک کے خاوند نے دوسری کیساتھ تعلقات بنائے۔ بیوی اپنے خاوند کو تو سمجھا نہ سکی ۔ اسکی محبوبہ کو اپنی بہن اور گارڈز کیساتھ جاکر خوب پیٹ ڈالا۔ تیل چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی اور زخمی کرکے لہو لہان کر ڈالا ۔ ویڈیو بھی بنائی اور خود وائرل بھی کی ۔اب بیچاری لبرل آنٹیاں پریشان ہیں کہ کس طرح “خواتین حقوق” کا ڈھنڈورا پیٹیں۔ دونوں طرف اپنا ہی طبقہ ہے ۔ کسے مظلوم کہیں اور کسے ظالم ۔ درمیان میں کوئی “داڑھی والا “تو ہے ہی نہیں ۔ وجہ بھی اتنی شرمناک ہے کہ اس کا دفاع کس طرح کیا جا سکتا ہے ۔ لبرل طبقے کے طرز زندگی کا گھٹیا ترین روپ بھی سامنے آ رہا ہے کہ یہاں کس طرح کے تعلقات ہوتے ہیں ۔ بیوی اپنے خاوند کی محبوباؤں کو ڈھونڈتی پھرتی ہے اور وہ بھی دو سگی بہنیں ۔ جن کے ساتھ خاوند جی عیاشی کرتے پکڑے گئے اور ویڈیو بھی وائرل ہو گئی ۔جی ہاں یہ ہے روپ جو لبرل طبقے کے طرز زندگی کا ہے ۔
کمال تو یہ بھی ہے کہ کسی کا گھر اجاڑنے کی کوشش کرنیوالی بھی لبرل عورت ( جو باقاعدہ پوسٹر پکڑے عورت مارچ کا حصہ تھی) مار پیٹ کرنیوالی بھی ماڈرن عورت ۔ ویڈیو بنانے والی اور وائرل کرنیوالی بھی عورت ۔ اب “عورت کارڈ” کیسے کھیلا جائے ۔ عورت مارچ میں “میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ انہی عورتوں نے لگایا تھا۔ اب پتہ چلا ہو گا کہ جب یہ سب “سچ” ہو جاتا ہے تو پھر کتنا فساد برپا ہوتا ہے ۔ کس طرح ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات لگائے جاتے ہیں اور گھروں میں گھس پر تیل چھڑک کر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ خود ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی جاتی ہے ۔
اس سارے واقعے کا سبق یہ ہے کہ “میرا جسم میری مرضی” اور ہر ایک کو ” مرضی کی زندگی” جینے کا حق دینے کے نعرے دراصل خود لگانے والوں کے ہاں بھی کھوکھلے ہی ہیں ۔ جب خود پر پڑتی ہے تو طوفان مچا دیتی ہیں اور اپنے خاوندوں کو مرضی نہیں کرنے دیتیں بلکہ خونخوار حملہ آور بن جاتی ہیں ۔ دوسرا سبق لبرل طرز زندگی کا بدبودار روپ بھی ہے کہ جہاں اس طرح کے تعلقات اور تماشے آئے روز سامنے آتے ہی رہتے ہیں ۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ کاش ہمارے ہاں کے مغرب زدہ لبرل یہ سمجھ جائیں کہ ہمارا معاشرہ مغربی طرز زندگی اور سوچ نہیں اپنا سکتا کیونکہ یہاں کی عورت ابھی اتنی بے حس نہیں ہوئی کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاوند کی عیاشیوں کو برداشت کرتی رہے ۔ خاندانی فسادات سے بچنے کےلئے ضروری ہے کہ خاندانی طرز زندگی بھی اپنایا جائے ۔ اپنا اور اپنے خاندان کا تماشہ بنوانے کی بجائے اولادوں کو رشتوں کا تقدس سمجھایا جائے اور ایک پاکباز زندگی کا تصور دیا جائے ۔ اس سے ہی ایک بہتر معاشرتی طرز عمل جنم لے سکتا ہے ۔ خاندانوں کی عزت بچ سکتی ہے اور تماشوں سے بچا جا سکتا ہے ۔ مغرب زدہ کھوکھلے نعروں کی بجائے اپنی دینی و سماجی روایات کے تحت خاندانی تعلقات اور طرز زندگی بنانے کی ضرورت ہے۔
(جی خبر یہ ہے کہ ملک کے معروف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی دو بیٹیوں عنبر ملک اور پشمینہ ملک نے اپنے مسلح گارڈز کے ہمراہ دو ماڈل بہنوں عظمی خان اور ہما خان کے گھر گھس کر انہیں مارا پیٹا ۔ زخمی کیا اور تیل چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش بھی کی ۔ اس سارے واقعے کی ویڈیو بنوائی اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا .)
محمد عاصم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک صاحب نے لکھا کہ مغربی عورتیں اسکرٹ پہنتی ہیں، دو چیتھڑے بدن پر لٹکا کر گھومتی ہیں لیکن انھیں کوئی نہیں دیکھتا اور وہاں امن و سکون ہے!
اگر ایسا ہے تو پھر شاید مغرب میں سارے نامرد رہتے ہوں گے، مگر ایسا ہے نہیں، حقائق تو کچھ اور بتاتے ہیں، یورپی یونین میں ایک تہائی خواتین جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں، امریکہ میں بھی یہی عالم ہے، وہ جو دس دس سال کی کنواری مائیں ہیں، وہ انہی نامردوں کی ہوس کا نتیجہ ہیں نا. ٹھیک کہا نا میں نے؟
شاید آپ جان بوجھ کر مغرب کی جنسیت، درندگی، فحاشی اور بے راہروی سے نظریں چرانا چاہتے ہیں، مجھے صرف پاکستان اور امریکہ میں غیر قانونی اور غیر شرعی (عیسی علیہ السلام کی شریعت پر چلنا بھی شریعت ہی کہلائے گی) تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اعداد و شمار کا ایک تقابلی چارٹ دکھا دیجیے، کیا تناسب نکلےگا؟ پاکستان جہاں بیشتر عورتیں دوپٹہ صرف گلے میں ہی لٹکائے پھرتی ہیں، یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ نام کا بھرم بھی آپ کا بھرم رکھنے کو کافی ہے. اس کے بعد آپ اپنے پڑوس میں جھانک کر دیکھیے کہ بالی وڈ نے ہالی وڈ کے نقش قدم پر چل کر اپنے معاشرے میں کیا کیا جلوے بکھیرے ہیں؟ بات صرف اتنی ہے کہ بے جا سختی اور بے جا نرمی یکساں نتائج دیتی ہے.
عرب دنیا میں بےجا سختی ہے، وہاں کا حال بھی وہی ہے جو اس وقت امریکہ کا ہے، فرق بس یہ ہے کہ امریکہ میں دھڑلے سے سب ہو رہا ہے، اور وہاں چھپ چھپا کر، مجھے تو اس وقت اپنا ملک ایک ایسی جنت نظر آتا ہے جو دو انتہاؤں کے درمیان ایک درمیانی راہ ہے، ایک سیدھا راستہ ہے، خدارا اسے اپنی فضول نظریاتی جنگوں کا تختہ مشق مت بنائیے، دوپٹہ لینا بھی پردہ ہے، چادر لٹکانا بھی پردہ ہے، برقع پہننا بھی پردہ ہے، اور اپنی نظروں کو جھکائے رکھنا بھی پردہ ہے. سیدھی باتوں کی غلط مثالیں پیش کی جائیں تو یہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا!!!!
سائرہ ممتاز
۔
******
”تہذیب جدید نے (عورت کو) قدرے دانائی بخشی ہے، لیکن مرد کی حرص وہوس نے عورت کے دکھوں کو سوا کردیا ہے۔ کل کی عورت ایک مسرور رفیقہ حیات تھی اور آج کی عورت ایک مظلوم داشتہ!
ماضی میں وہ روشنی میں اندھی آنکھوں سے چلتی تھی اور حال میں اندھی راہوں پر کھلی آنکھوں سے چل رہی ہے۔
اس کے پاس علم نہ تھا مگر حسن وجمال سے سرفراز تھی۔ وہ مکار نہ تھی مگر پاکیزگی میں بے مثال تھی۔ وہ صنف نازک تھی، مگر پھر بھی قوت سے بھرپور تھی۔ وہ اپنے وجود میں لطیف تھی مگر تقدس میں کوہِ گراں تھی۔
آج وہ ہوشیار مگر بدصورت ہے۔ تعلیم سے آراستہ لیکن ریاکار اور بے مروت ہے!
وہ دن کب آئے گا جب جس دن حسن وآگہی، شوخی وپاکیزگی اور جسم کی لطافت اور روح کی قوت، عورت کے اجزائے ترکیبی ہوں گے۔
اگر عورت کی زندگی کا ایک رُخ نہایت روشن اور دوسرا اتنا تاریک ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ معاشرے میں روباہ صفت اور بھیڑیا نما مردوں کی اکثریت ہے۔
یہ عجیب وغریب نسل نیند اور بیداری کے درمیان جی رہی ہے۔“
(خلیل جبران)
٭٭٭٭٭٭٭
تفنن برطرف ، میں عورت کے باشعور ہونے کی پر زور حامی ہوں ۔ ہمارے معاشرے کی فرسودہ روایات نے اور غیر ضروری ظالمانہ بندھنوں اور رکاوٹوں نے عورت کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ہمارے یہاں اپنے لیے سوچنے اور جینے کی کوشش خواہ وہ حدود کو پامال نہ بھی کرتی ہو ایک جرم اور داغ ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ بہت سی چیزیں عورت کو نہیں کرنی چاہییں اگرچہ ان کی مذہبی طور پر ممانعت نہ بھی ہو تو چونکہ وہ کم از کم ہمارے معاشرے کے چلن کے خلاف ہیں اس لیے عورت کی بدنامی ہوگی۔اس سے گھٹن اتنی بڑھی ہےکہ اب ہر طرف بغاوت نظر آتی ہے۔ایسے میں عورت نے خود کو اسی طرح تیار کیا ہے جیسے سروائول کے لیے لڑنے والا کوئی بھی جاندار کرتا ہے۔ اور آج کی عورت کا شعور پہلے کے مقابلے میں بہت ترقی یافتہ ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہوا کہ اس ہماہمی میں مرد کا سمجھنا سمجھانا کہیں کھو گیا۔ اس کو مزاجا اور طبعا اگر سنبھالنے والا بنایا گیا تھا تو اس کو اس ساری بدلتی ہوئی صورتحال کے ادراک اور تعامل کے لیے تیار کرنا اور ہونا چاہیے۔ مگر عموماً یہی دیکھتے ہیں کہ شادی کے بارے میں اور موقع پر لڑکیاں جس طرح کی میچور گفتگو کرتی ہیں ، لڑکے اتنا کہہ دیتے ہیں کہ گھر والے کر رہے سب ۔ ہمارا کیا دخل۔جھگڑے ہوتے ہیں تو احمقانہ انداز میں ایک طرف کو جھک کر ڈیل کرتے ہیں۔
دوسری بات! اپنی اعلی سوچ میں اخلاص کا بھی جائزہ لیتے رہیں۔ آدرشی لوگ عموماً “چاکلیٹی ہیرو “ اور “ کیٹ میڈلٹن” والی زندگیاں نہیں رکھتے۔ خواب قربانی مانگتے ہیں۔ سمجھوتہ کرلیجیے۔
اور ایک آخری بات ۔ کیا ہماری مائیں ساری کی ساری بالکل ہی احمق تھیں؟کسی مستقل نوعیت کے انتہائی اہم اور انتہائی حساس تعلق کو نبھانےکے لیے کبھی وقت، برداشت، قربانی، سمجھوتوں اور حکمت کی ضرورت بھی ہوا کرتی تھی۔
کیا ہم ساری چیک لسٹ پہلے ہی پوری کر لیں گے ؟ یا کچھ خون پسینہ بھی دیں گے؟
جویریہ سعید
٭٭٭٭٭٭٭
ایک روایتی مسلم معاشرے میں ایک عام پچاس سال کی خاتون نانی یا دادی بن کر اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ خوشگوار وقت سے محظوظ ہوتی ہے اور اپنی زندگی کے سنہرے سال اپنے خاندان اور اپنے پیاروں کے درمیان گزار رہی ہوتی ہے
آج کے مغربی معاشرے میں ایک عام پچاس سال کی عورت بہت مضبوط اور آزاد کیریئر وومن (یعنی پیشہ ور خاتون) ہوتی ہے جو ویک اینڈ پر اعضاءمخصوصہ کی شکل کے ہیٹ (ٹوپیاں) پہن کر مردوں کی سرپرستی کے خلاف مارچ کرتی ہے اور پھر “گھر” کی طرف واپس لوٹتی ہے جہاں پر اس کا بغیر شوہر ، بغیر بچوں اور بغیر پوتوں اور نواسے نواسیوں کے ایک خالی اپارٹمنٹ اس کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے، واپس پہنچ کر وہ نیٹ فلکس (کیبل ٹی وی) کے آگے بیٹھ کر سستی شراب گلے میں اتارتی اور ڈپریشن کی ادویات پھانک لیتی ہے
مسلم فیمنسٹس کو غور سے دیکھنا چاہیے کہ ان کے انتخاب اور ترجیحات ان کو کس طرف لے کر جا رہی ہیں ، یہ آپ کا مستقبل ہے ! آپ کو میری بات پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں ، بس اپنے ارد گرد ہی دیکھ لیں ، اپنی آنکھیں کھولیں ! یہ سب بظاھر خوش باش نظر آنے والی ہم جنس پرست عورتیں اور مردوں کی رہبری سے نفرت کرنے والی ایکٹوسٹ عورتیں آپ کو سوشل میڈیا پر ایسی نظر آئیں گی جیسے وہ اپنی زندگی کا بھرپور مزہ لے رہی ہیں ، لیکن بند دروازوں کے پیچھے یہ نفسیات کے ڈاکٹروں کے نسخوں پر ادویات پھانک رہی ہوتی ہیں کہ کسی طرح ان کو اپاہج کر کے رکھ دینے والی ڈپریشن اور نفسیاتی بیماریاں قابو میں رہیں
کیا کسی کو ان عورتوں کی پروا بھی ہے ؟ کیا کسی کو پروا ہے کہ یہ عورتیں ہمیشہ سے زیادہ ڈپریشن کی شکار اور خودکش خیالات کی حامل ہیں ، جبکہ کہنے کو یہ بڑی آزاد خود مختار اور “روشن خیال” خواتین بنی پھرتی ہیں
دانیال حقیقت جو ، ترجمہ عثمان ای ایم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نکاح کا تصور، مذہب کا معجزہ
یہ مذہب کا معجزہ ہے کہ وہ انسان کو، مردو و عورت دونوں کو، نوع اور تمدن کے لیے قربانی پر آمادہ کرتا ہے اور اس خود غرض جانور کو آدمی بنا کر ایثار کے لیے تیار کر دیتا ہے۔ وہ خدا کے بھیجے ہوئے انبیا ہی تھے جنھوں نے فطرت کے منشا کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر عورت اور مرد کے درمیان تعلق اور تمدنی تعاون کی صحیح صورت، نکاح کی تجویز کی۔ انہیں کی تعلیم و ہدایت سے دنیا کی ہر قوم اور روئے زمین کےہر گوشے میں نکاح کا طریقہ جاری ہوا۔ انہیں کے پھیلائے ہوئے اخلاقی اصولوں سے انسان کے اندر اتنی روحانی صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ اس خدمت کی تکلیفیں اور نقصانات برداشت کرے۔ ورنہ حق یہ ہے کہ ماں اور باپ سے زیادہ بچے کا دشمن اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ انہیں کے قائم کیے ہوئے ضوابطِ معاشرت سے خاندانی نظام کی بنا پڑی۔ جس کی مضبوط گرفت لڑکیوں اور لڑکوں کو اس ذمے دارانہ تعلق اور اس اشتراکِ عمل پر مجبور کرتی ہے۔ ورنہ شباب کے حیوانی تقاضوں کا زور اتنا سخت ہوتا ہے کہ محض اخلاقی ذمہ داری کا احساس کسی خارجی ڈسپلن کے بغیر ان کو آزاد شہوت رانی سے نہ روک سکتا تھا۔ شہوت کا جذبہ بجائے خود اجتماعیت کا دشمن (anti-social) ہے۔ یہ خود غرضی، انفرادیت اور انارکی کا میلان رکھنے والا جذبہ ہے۔ اس میں پائیداری نہیں، اس میں احساسِ ذمہ داری نہیں، یہ محض وقتی لطف اندوزی کے لیے تحریک کرتا ہے۔ اس دیو کو مسخر کر کے اس سے اجتماعی زندگی کی، اس زندگی کی جو صبر و ثبات، محنت و قربانی، ذمے داری اور پیہم جفا کشی چاہتی ہے، خدمت لینا کوئی آسان کام نہیں۔ وہ نکاح کا قانون اور خاندان کا نظام ہی ہے جو اس دیو کو شیشے میں اتار کر اس سے شرارت اور بد نظمی کی ایجنسی چھین لیتا ہے اور اسے مرد و عورت کے اس لگاتار تعاون و اشتراکِ عمل کا ایجنٹ بنا دیتا ہے جو اجتماعی زندگی کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان کی تمدنی زندگی ختم ہو جائے۔ انسان حیوان کی طرح رہنے لگیں اور بالآخر نوعِ انسانی صفحۂ ہستی سے ناپید ہو جائے۔
( سید مودودیؒ)
*******
” کہا جاتا ہے کہ ناجائز صنفی تعلقات کو روکنے کے لئے عورتوں اور مردوں کے درمیان حجابات حائل کرنا اور معاشرت میں ان کے آزادانہ اختلاط پر پابندیاں عاید کرنا دراصل ان کے اخلاق اور ان کی سیرت پر حملہ ہے ، اس سے یہ پایا جاتا ہے کہ گویا تمام افراد کو بدچلن فرض کرلیا گیا ہے اور یہ کہ ایسی پابندیاں لگانے والوں کو نہ اپنی عورتوں پر اعتماد ہے نہ مردوں پر ــــــ بات بڑی معقول ہے ، مگر اسی طرزِ استدال کو ذرا اور آگے بڑھایئے ــــــ ہر قُفل جو کسی دروازے پر لگایا جاتا ہے گویا اس امر کا اعلان ہے کہ اس کے مالک نے تمام دنیا کو چور فرض کیا ہے۔ ہر پولیس کا وجود اس پر شاہد ہے کہ حکومت اپنی تمام رعایا کو بدمعاش سمجھتی ہے۔ ہر لین دین میں جو دستاویز لکھوائی جاتی ہے وہ اس امر کی دلیل ہے کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کو خائن قرار دیا ہے۔ ہر وہ انسدادی تدبیر جو ارتکابِ جرائم کی روک تھام کے لئے اختیار کی جاتی ہے اس کے عین وجود میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ان سب لوگوں کو امکانی مجرم فرض کیا گیا ہے جن پر اس تدبیر کا اثر پڑتا ہو۔ اس طرزِ استدلال کے لحاظ سے تو آپ ہر آن چور ، بدمعاش ، خائن اور مشتبہ چال چلن کے آدمی قرار دیے جاتے ہیں ، مگر آپ کی عزتِ نفس کو ذرا سی ٹھیس بھی نہیں لگتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف اسی ایک معاملہ میں آپ کے احساسات اتنے نازک ہوگئے ہیں۔ “
پردہ سیدمودودی ؒ
******
مسلم تہذیب میں ہر قسم کی دولت ایک ذمہ داری ہے، جس میں آپ کا حصہ صرف اپنی معقول ضروریات کے لحاظ سے ہی ہے۔ باقی آپ کے ارد گرد موجود لوگوں کا حصہ ہے جس کو ایڈمنسٹر کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اسلام نے یہ ذمہ داری مرد کی مقرر کی ہے لہذا مرد قانونی طور پر ذمہ دار ہے بیوی بچوں کی کفالت کا جبکہ بیوی کروڑ پتی بھی ہو، تب بھی شوہر یا بچوں پر ایک پیسہ بھی خرچ کرنا اس پر واجب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت کے شرعی ترکے میں فرق رکھا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خاتون بچوں کی کفالت میں حصہ نہیں ڈال سکتی یا کاروبار یا ملازمت نہیں کرسکتی، سب کرسکتی ہے، لیکن اس کا قانونی یا شرعی یا سماجی فرض نہیں ہے۔
اس کے برعکس نئی نسل کی پرورش اور تربیت اور انہیں ضروری محبت دینا عورت کی ذمہ داری مقرر کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ مرد کو بھی اس میں حصہ ڈالنا ہوتا ہے لیکن یہ بنیادی ذمہ داری عورت کی مقرر کی گئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک نسلِ نو کی پرورش اور تربیت اتنی بڑی ذمہ دادی ہے کہ اسے محض ریاست یا معاشرے پر نہیں چھوڑا جاسکتا، بچے کو پیار سے بوسہ ریاست نہیں دے سکتی، گر کر چوٹ لگ جانے پر اسے گلے سے لگا کر لاڈ معاشرہ نہیں کرسکتا۔ یہ کام ماں ہی کرسکتی ہے اور اگر آپ آزادی کے نام پر ماں ہی دور کردیں تو بچوں میں لازماً بہت کچھ ادھورا رہ جائے گا اور ٹوٹی پھوٹی نفسیاتی طور پر تباہ حال، جذباتی طور پر ٹوٹی شکستہ شخصیات معاشرے میں آئیں گی۔
اسی طرح خود میاں اور بیوی کی جذباتی ضروریات ہوتی ہیں جو بڑھاپے تک رہتی ہیں۔ بڑھاپے میں اولاد کی ماں باپ کے حوالے سے کئی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جو بہترین اولڈ ایج ہوم بھی نہیں نبھا سکتے۔ آزادی کے کسی متبادل تصور کی بنیاد پر تجربے کرتے کرتے آپ خاندان کو گرا تو دیں گے لیکن رفتہ رفتہ معاشرہ بھی ساتھ ہی گرے گا۔
اسی طرح اسلام نے حقوق اور ذمہ داریوں کے اپنے مفہوم کے لحاظ سے ہر معاملے میں حقوق کی برابری ہی برتی ہے۔ ہاں کسی اور مفہوم کے اعتبار سے وہ برابری عدم برابری لگ سکتی ہے۔ آپ اس سارے بندوبست سے یا اسلام کے تصور حقوق و فرائض سے اختلاف کرسکتے ہیں، آپ سوال کر سکتے ہیں کہ مرد کو کفالت اور عورت کو پرورش کی ذمہ داری کیوں دی گئی لیکن آپ کے یہ سارے اعتراضات ایک متبادل تصورِ انسان، تصورِ حقوق، تصورِ فرائض، تصورِ آزادی کے تحت ہی ہوں گے، جو فیمینزم کے مخصوص پس منظر سے ابھر رہے ہوں گے، کسی اور سبجیکٹویٹی سے آرہے ہوں گے۔
– احمد الیاس
٭٭٭٭٭٭٭٭
فطرت اور عورت دونوں تخلیق کی علامت ہیں۔ نیچر میں کلچر کے بیچ پڑتے ہیں اور عورت سے محبت کی کونپل پھوٹتی ہے۔ انسان کے اچھے اور صحتمند مستقبل کا انحصار انہی دو “تخلیق کاروں” کی فلاح پر ہے لہٰذا انکے حقوق کی خاص حفاظت ہونی چاہیے۔ایک حدیث میں عورت،خوشبو اور نماز کو سامانِ پسندیدگی کہا گیا ہے۔ فطرت کی ایک مصنوع اگر خوشبو ہے تو عورت اس خوشبو کی سب سے بڑی تجسیم ہے اور دونوں ملکر تخلیق کا اہم ترین منبع ہیں۔ لاریب ان دونوں کے حقوق کی پاسداری ہی انہیں توازن صحت اور اعتدال پر قائم رکھ سکتی ہے۔ عورت اور فطرت میں بڑی مماثلت ہے اس لیے انکی تخریب کے نتائج بھی یکساں طور پر انتہائی خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔
قدیم روایتی انسان، جسکی زندگی الوہی ہدایت کے مطابق حقوق اور حدود کی پاسداری میں بسر ہوتی تھی، کا فطرت کی طرف رویہ وہ تھا جو اسکا اپنی منکوحہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ اگر اس سے راحت، لذت اور احساسِ جمال پاتا تھا تو جواباً اسکے حقوق کی بھی اتنی ہی ذمہ داری لیتا تھا۔ اسکے بر عکس تحریکِ تنویر کے پروردہ جدید انسان کا فطرت کی طرف رویہ وہ ہوگیا یے جو کسی کا طوائف کی طرف ہوتا ہے: وہ اس سے لذت کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینا چاہتا ہے مگر بدلے میں اسے چند سکوں کے علاوہ کچھ نہیں دینا چاہتا نا عزت نہ وقار نہ احترام۔ اسی طرح آجکا انسان فطرت کے خزانوں کا بھی آخری حد تک استحصال کر لینے کے درپے ہے مگر اسکے حقوق کی پاسداری کا کوئ احساس اسکے اندر نہیں ہے۔ نتیجتاً آج فطرت بھی انسان کے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہے جو طوائف معاشرے کے ساتھ کرتی ہے۔
عزیز ابن الحسن
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فیمنسٹ سکالر امینہ جمال نے جماعت اسلامی کی خواتین کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا کہ لبرل فیمنسٹ تو مذہبی قسم کی خواتین کو صرف مظلوم، مجبور اور مردوں کی خادمائیں قرار دیتے ہیں لیکن یہ انکی بہت بڑی غلطی ہے وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان خواتین کی اپنے عقائد اور ایمان کے ساتھ کس قسم کی وابستگی ہےاور پاکستان میں مذہبی خواتین جس طرح منظم اندا ز سے کام کررہی ہیں فیمنسٹ حلقے اپنی بیش بہا فارن فنڈنگ کے باوجود انکو کبھی بھی شکست نہیں دے سکتے۔ اسی طرح حمیرا اقتدار نے بھی جماعت اسلامی اور جماعت الدعوۃ کے وومن ونگز کا مطالعہ کیا اوراپنے ریسرچ پیپر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سیاسی تجزیہ کیلئے مذہبی بیانیہ ایک جائز کیٹیگری ہے اور اس میں خواتین کا کردار قابل فہم ہے اور مذہبی خواتین، فیمنسٹ خواتین سے کسی طور پر کم باشعور نہیں ہیں۔ خواتین کے حقوق اور موجودہ دور کی تہذیب و ثقافت میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کرنے سے بخوبی واقف ہیں لیکن وہ مشرقی تہذیبی فریم ورک کے اندر رہ کر کام کر رہے ہیں لیکن خواتین کے حقوق کی وہ تنظمیں جو باہر کے فنڈز سے چلتی ہیں ان پر یہ پریشر ڈالا جاتا ہے کہ وہ باہر کے ایجنڈے پر کام کریں اور انہیں بار بار ڈو مور کیلئے کہا جاتا ہے۔ (وحید مراد)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستان میں کسی باقاعدہ فیمنسٹ تحریک کا کوئی وجود نظر نہیں آتا ہاں البتہ کچھ گروپس، پلیٹ فارمز، نیٹ ورکس اور اتحاد وغیرہ ضرور موجود ہیں جو خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن انہیں فیمنسٹ کہنا یا فیمنزم کی تحریک کہنا مناسب نہیں۔ جو تنظیمیں خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے خدمات وغیرہ فراہم کرتی ہیں انکا حقوق کی جدوجہد سے عام طور پر کوئی تعلق نہیں ہوتا.فیمنسٹ محقق صبا خٹک کہتی ہیں کہ یہ جو این جی اوز کی شکل میں بہت سے ادارے اور تنظیمیں نظر آ رہی ہیں یہ سب بیرونی فنڈز کی وجہ سے ہے اگر انکی بیرونی امداد بند ہو جائے تو ان میں سے کوئی بھی نظر نہیں آئے گا۔ این جی اوز کی اٹھائی ہوئی تحریک، اصل تحریک نہیں ہے۔ یہ تحریک تو یہ صلاحیت بھی نہیں رکھتی کہ اسقاط حمل یا گھریلو تشدد کے حوالے سے کوئی آزانہ سروے کر سکے اور اس سلسلے میں صحیح معلومات اکھٹی کر سکے۔ پاکستان میں اگر فیمنزم کی تحریک کہیں نظر آتی ہے تو وہ صرف کاغذی کاروائی، میڈیا چینلز یا سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے اور اس تحریک کا ایکٹو ازم محض Paid Activism ہے اور یہ تحریک جو کام کر رہی ہے وہ جوش، جذبے اور جنوں سے عاری ہے کیونکہ یہ تحریکی کام نہیں بلکہ ایک Paid Job ہے۔
Jeffery Weeks یورپ کا ایک مشہور سوشل سائنٹسٹ ہے جو مغرب کے ایجنڈے پر مسلم ممالک کے اندر جدیدیت، سیکولرازم، فیمنزم، صنفی اور جنسی آزادی کے حوالے سے ہونے والے کام پر بہت گہری نظر رکھتا ہے اور اسکے مطابق ان امور کو سرانجام دینے اور انکو فروغ دینے کے پیچھے بہت بھاری مالی وظائف کارفرما ہیں اور جنکو حلال کرنے کیلئے زیادہ تر زبانی جمع خرچ ہی کیا جاتا ہے اور عملی طور پر کوئی ٹھوس کام نہیں کیا جاتا۔
وحید مراد
*********
مغربی آزادی کی قیمت :
دور حاضر میں یورپ و امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی مخلوق ہے جو تجارتی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔۔وہ اشتہاری کمپنیوں کا جز ء لا ینفک ہے ، بلکہ حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کے کپڑے تک اتروا دیئے گئے ہیں ، اسکا جسم دکھلا کے اپنی چیزیں بیچی جاتی ہیں۔۔فحش رسائل و اخبارات میں کی ہیجان انگیز عریاں تصاویر کو مارکیٹنگ کا وسیلہ کہا جاتا ہے۔۔دس فیصد عزت کی نوکریوں کو چھوڑ کر وہ عام طور پر آفس کی رونق ، گھر سے باہر بھی مردوں کے دل بہلانے کے لیے ایک ماڈل/ ایک کال گرل /ریسپشنسٹ/سیل گرل ہے ، گاہکوں کو متوجہ کرنے والی ایک منافع بخش جنس ہے ۔۔۔ ہر جگہ وہ اپنی خوبروئی ، دلفریب ادا اور شیریں آواز سے لوگوں کی ہوس نگاہ کا مرکز ہے ۔۔یہی نہیں مس ورلڈ، مس یونیورس اور مس ارتھ کے انتخابی مراحل میں عورت کے ساتھ کیا کھلواڑ نہیں ہوتا ۔۔نیز فلموں میں اداکاری کے نام پر اور انٹرنیٹ کے مخصوص سائٹ پر اس کی عریانیت کے کون سے رسوا کن مناظر ہیں جو پیش نہیں کئے جاتے۔۔۔۔اگر یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت و تکریم اور اس کے حقوق پانے کی علامت ہے تو انسانیت کو اپنے پیمانہ عزت و آنر پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔
پھر یہ سب معاملہ عورت کے ساتھ اس وقت تک ہے جب تک اس میں مردوں کیلئے کشش ، ابھرتی جوانی کی بہار ، دل ربا دوشیزگی کا جوبن اور شباب و کباب کی رونق رہتی ہے ، لیکن جب اس کے جوبن میں پژ مردگی آ جاتی ہے، اس کی کشش میں گھن لگ جاتا ہے ، بازاروں میں اس کی قیمت لگنا بند ہو جاتا ہے، اس کے ڈیمانڈ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اس کی ساری مادی چمک دمک ماند پڑ جاتی ہے تو یہ معاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے ،وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے اس کو چھوڑ دینے میں عافیت سمجھتے ہیں اور وہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہے یا پھر پاگل خانوں میں۔ وہ ظاہری طور پر خوش، خوبصورت لیکن نفسیاتی طور پر ایک بحران کا شکار ہے۔۔ اپنی ذات میں وہ بالکل تنہا اور بے سہار اہے۔۔ کہاں یہ بازاری حیثیت اور کہاں ایک بہن ، ایک بیٹی ، ماں ، پوپھی ، خالہ، دادی ، نانی کی مقدس حیثیت اور احترام ۔۔یہ کبھی اپنی مرضی سے ناچ گا اور گھوم پھر لینے کی آزادی کی قیمت ہے!۔
******
جب سے یہ نبی ؐ آیا ہے ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوگئی ہیں
مجھ سے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو کیا حقوق دیے ہیں تو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلام نے عورت کو سب سے پہلا حق زندگی کا دیا ہے کہ اس معاشرہ میں جہاں پیدا ہونے والی لڑکی باپ کے رحم و کرم پر ہوتی تھی کہ وہ اسے زندہ رہنے دے یا زندہ ہی زمین میں دفنا دے، اسلام نے اس ظلم کا خاتمہ کر کے عورت کو دنیا میں زندہ رہنے کا حق دلوایا۔ قرآن کریم میں اس قتل کے دو اہم اسباب بیان کیے ۔ ایک ’’خشیۃ املاق‘‘ کہ فاقے کے ڈر سے بچی کو زندہ ہی دفن کر دیا جاتا تھا کہ یہ ساری زندگی دوسروں پر بوجھ رہے گی اور خود کما نہیں سکے گی۔ اور دوسرا ’’عار‘‘ ہے کہ لڑکی کا باپ ہونا عار سمجھا جاتا تھا۔ اور جس کے گھر میں بچی پیدا ہوتی تھی وہ ’’تیواریٰ من القوم‘‘ لوگوں سے چھپتا پھرتا تھا کہ کوئی اس کو بچی پیدا ہونے کا طعنہ نہ دے دے۔اسلام نےاس جرم اور باقی ساری نا انصافیوں کا خاتمہ کردیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چار بیٹیوں کی پرورش کر کے اور انہیں محبت و شفقت ، عزت و احترام اور تمام حقوق کیساتھ بسا کے دنیا کو یہ سبق دیا کہ بیٹی بھی نعمت ہوتی ہے اور عزت و احترام کی مستحق ہوتی ہے۔ اسلام کی اس تعلیم کے جو معاشرے پر اثرات آئے انکو دیوان حماسہ میں ایک عرب شاعر نے اسکی منظر کشی یوں کی
غدا الناس مذقام النبی الجواریا
جب سے یہ نبی ؐ آیا ہے ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوگئی ہیں۔
زاہد الراشدی
٭٭٭٭٭
عورت کی امامت اور مساوات
ٹی وی پر ایک مباحثہ ہو رہا تھا، جس کا موضوع تھا :کیا عورت مسجد میں مردوں اور عورتوں کی مشترکہ جماعت کی امامت کر سکتی ہے؟ مباحثہ کے شرکاء میں کیی افراد تھے: انسانی حقوق کے چمپین، آزادی نسواں کے علم بردار، مسلم پرسنل لا کے ناقد_ایک ترقی پسند اور آزادی نسواں کی حامی مسلمان خاتون بھی شریک مباحثہ تھیں_اسلام کی روایتی ترجمانی کے لیے ایک مولوی صاحب کو بھی دعوت دی گئی تھی_مولوی صاحب کو چھوڑ کر سب اس بات پر متفق تھے کہ عورت بھی امامت کر سکتی ہے_اگر وہ دین دار، متقی و پرہیز گار، حافظہ و قاریہ ہے تو اسے اس منصب سے محروم کرنا اس کی حق تلفی ہے_دوسروں کے مقابلے میں آزاد خیال مسلمان خاتون کچھ زیادہ ہی بڑھ بڑھ کر بول رہی تھیں _مولوی صاحب قرآن، حدیث، سیرت، تعامل صحابہ، اجماع امت، مسلم تاریخ سے جو دلیل بھی پیش کرتے، سب اسے چٹکیوں میں اڑادیتے اور مولوی صاحب کھسیا جاتے_اچانک مولوی صاحب نے اپنے اوپر سنجیدگی طاری کی اور بڑے بھولے انداز میں بولے :مسجد میں بوڑھے، ادھیڑ عمر والے، جوان، نوعمر اور بچے سب ہوتے ہیں، دراصل اسلام یہ نہیں چاہتا کہ محلے کے ہر شخص کو ہر مہینے معلوم ہوجایا کرے کہ اس کی امام صاحبہ آج کل مینسس سے ہیں_یہ سن کر تمام شرکاء مباحثہ کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور خاتون جھینپ سی گئیں۔ (رضی الاسلام ندوی)
٭٭٭٭٭٭
فیمنسٹ لاجک: اگر مردوں کو چار شادیوں کا حق ہے تو عورت کو کیوں نہیں۔
۔
جواب: عورت کو اگر پچاس مردوں کے پاس جانے کی بھی اجازت دے دی جائے تو یہ کون سا عورت کے لئے “حق” ہوا؟ یہ بھی تو پچاس مردوں ہی کو اس سے مستفید ہونے کا لائسنس دینا ہوا۔ گویا خربوزہ چھری پر گر رہا ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ لاتعداد مردوں سے تعلق کا یہ فیمنسٹ “حق” تو بازار حسن کی عورتوں کو کب سے حاصل ہے! پھر بھی انسانیت کے ماروں کو ان سے ہمدردی ہی کرنی پڑتی ہے اور ان کے مسائل پر ڈاکیومینٹریز بنانی پڑتی ہیں۔ یہ اگر واقعی کوئی حق ہوتا تو پھر تو بازار حسن کی عورتیں “عیاشی” میں لبرل حلقوں کے نزدیک “رشک” کی نگاہوں سے دیکھی جاتیں۔
اس فیمنسٹ “دلیل” پر سلیم الفطرت لوگوں کو جو ابکائی آتی ہے، وہ بلا وجہ نہیں ہے!
مرزا احمد وسیم بیگ
٭٭٭٭٭٭
مردانہ و عورتانہ معاشرے کے خوگر دونوں غلط ہیں
– جس طرح مرد کا کسی خاتون کی طرف عجیب و غریب طرح دیکھنا یا جملہ کسنا خاتون کو پریشان (“ھیراس”) کرنا ہے اسی طرح ایک خاتون کا لباس غیر ساتر پہننا مرد میں جنسی جذبات بڑھکا کر اسے “پریشان” کرنا ہے۔ ان دونوں میں عقلا کوئی فرق نہیں۔
– “عورتانہ معاشرے” کے خوگر اس دلیل پر عرض کرتے ہیں کہ اپنی مرضی کا لباس پہننا ہر شخص کا “بنیادی حق” ہے، مرد کو چاہئے کہ وہ خود کی اصلاح کرے۔ بعینہہ “مردانہ معاشرے” کا خوگر کہتا ہے کہ کسی کو کسی بھی طرح دیکھنا یا اس کے بارے میں کسی طرح کی رائے دینا ہر شخص کا “بنیادی حق” ہے، عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرے
– “عورتانہ معاشرے” کا خوگر کہتا ہے کہ ایک مرد ایک خاتون کو کبھی سمجھ نہیں سکتا (what does it mean to be a female) کہ ایک خاتون کسی مرد کے ایسے رویے پر کیسا محسوس کرتی ہے۔ بعینہہ “مردانہ معاشرے” کا خوگر کہتا ہے کہ ایک خاتون ایک مرد کو کبھی نہیں سمجھ سکتی (what does it mean to be a male) کہ ایک مرد کسی خاتون کے ایسے رویے پر کیسا محسوس کرتا ہے۔
انسانی عقل کا آخری مسئلہ یہی ہے کہ وہ متضاد و مختلف الجہات معاملے میں ترتیب قائم کرنے سے قاصر ہوتی ہے، اس ترتیب کے لئے وہ ہمیشہ اپنے سے بیرون کسی ماخذ پر انحصار کرتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تعیین حق کے لئے نہ تو مرد ہونا معیار ہے اور نہ ہی عورت ہونا معیار ہے، معیار ان دونوں کے لئے صرف اللہ اور اس کا رسول ہے۔ اس معیار کو ترک کرنے کے بعد صرف خواہشات ہیں، قرآن نے اہل عقل (ایمان) کا موازنہ “اہل ھواء” سے کیا ہے جو بہت ہی معنی خیز ہے۔ چنانچہ نہ تو اپنی مرضی کا لباس پہننا ہی کسی شخص کا بنیادی حق ہے اور نہ ہی کسی کے بارے میں کسی بھی طرح کی رائے دینا یا اسے دیکھنا کسی کا بنیادی حق ہے، حق بس وہ ہے جو خدا اور اس کا رسول دے، اس کے علاوہ سب ظلم و باطل ہے۔ اس کائنات کے طول و عرض میں “بنیادی حق” نامی کسی شے کا کوئی وجود نہیں۔
٭٭٭٭٭
عقل ، جذبات اور سیکولر چلاکی :
“ھم سب” پر شائع ہونے والی ‘دوپٹے کے دس فوائد’ تحریر نظر سے گزری۔ تحریر کی ابتداء میں فاضل مصنفہ فرماتی ہیں کہ تحریر سے ‘زیادہ اثر کے لئے تحریر کو مذھبی و معاشرتی جذبات کو ایک طرف رکھ کر پڑھا جائے’۔ فی الوقت تحریر کے دس مندرجات پر بحث مقصود نہیں کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بھی پہلو تبصرے کے لائق نہیں۔ یہاں صرف درج بالا مطالبے پر کچھ عرض کرنا ہے۔
یہ مطالبہ عین سیکولر طرز استدلال کی بنیادی روح ہے کہ پہلے آپ مذھبی عقائد، تعلیمات و جذبات کو ایک طرف رکھ دیں پھر ہماری بات پر غور کریں۔ یعنی پہلے میں اپنی پوزیشن سے دستبردار ہوجاؤں پھر مخالف کی بات پر غور کروں۔ بھائی اپنی پوزیشن سے دستبردار ہوجانے کے بعد ظاہر ہے مجھے وہی بات معقول معلوم ہونے لگے گی جو آپ کہتے ہو، مگر اس قسم کی “داخلی معقولیت” تو دنیا کے تقریبا ہر نظرئیے میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس مطالبے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ سیکولر تعلیمات کی معقولیت ثابت کرنے کے لئے مذھبی جذبات و تعقل سے دستبرداری اور خود کو سیکولر تناظر میں رکھنا لازم امر ہے۔
آخری بات، اگر کوئی آپ کو شام میں بم و میزائل سے مارے جانے والے انسانوں کی ویڈیوز دکھاتے ہوئے کہے کہ “انسانی جذبات کو ایک طرف رکھ کر دیکھئے” تو بھلا آپ کو اس میں سوائے اس کے اور کیا دکھائی دے گا جیسے ایک شیر کسی زیبرے کا شکار کرنے کی ویڈیو میں دکھائی دیتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا مرنے والے انسانوں کا ان جذبات سے ماوراء رہ کر کیا جانے والا مشاہدہ درست و بامعنی ہوسکتا ہے؟ ایک جابر مرد کسی خاتون کو پیٹ رہا ہے اور میں آپ سے کہوں کہ “فیمنسٹ اخلاقی جذبات ایک طرف رکھ کر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی عقلیت کے تحت مشاہدہ فرمائیں” تو کیا دکھائی دے گا؟ چنانچہ بنیادی سوال یہی ہے کہ مذھبی جذبات ایک طرف رکھ دینے کے بعد جس مشاہدے کی طرف دعوت دی جارہی ہے اس کے درست ہونے کی دلیل کیا ہے؟
انسان کا مشاہدہ اس کے جذبات کے ماتحت ہے، جذبات بدل جائیں تو مشاہدہ (یعنی اس کا معنی) بدل جاتا ہے۔ معروضیت جذبات کی تطہیر سے حاصل ہوتی ہے، دماغی عقلیت (آلاتی عقلیت) کی لم ٹٹول سے نہیں۔ جو شخص مردوں کا کفن نکال کر بیچ ڈالتا ہے اسکی عقل میں نہیں جذباتی توازن میں خلل واقع ہوجاتا ہے، عقل (آلاتی) تو وہ بھی بلا کی استعمال کرتا ہے۔ یہ کہنا کہ “پہلے مذھبی جذبات ایک طرف رکھ دو” کا معنی اس کے سواء کچھ نہیں کہ جسے مذھب عقلی و بامعنی کہتا ہے پہلے اسے رد کردو۔ یہ طریقہ استدلال اپنی وضع میں نہ تو “تبلیغی” ہے اور نہ ہی “عقلی”، یہ صرف ایک “مناظرانہ چالاکی” ہے۔
٭٭٭٭٭٭
آج وہ پوچھ رہے تھے کہ کچھ معاملوں میں مرد کو بڑا اور عورت کو چھوٹا کیوں تصور کرتے ہو؟کیوں تم عورت کو پیچھے اور مرد کو آگے بڑھانا چاہتے ہو؟کیوں تم انصاف سے کام نہیں لیتے؟ کیا تم لوگوں کے نزدیک مرد اور عورت دونوں انسان نہیں ہیں؟ اگر دونوں انسان ہیں تو پھر اس تفریق کا فائدہ؟
عرض کیا جناب عورتوں سے نا انصافی کا جتنا درد آپ کے دل میں ہے اس سے کہیں زیادہ میرے دل میں ہے. اس پر گفتگو پھر سہی. لیکن یہاں آپ کے مدعا میں آپ کی دلیل غلط ہے. عورت کو “عین” مرد کے بالمقابل کھڑا کردینا یا ایسا تصور کرنا میرے نزدیک ایک انتہا پسندی ہے جو کہ مخالفین کی انتہا پسندی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے. ۔اعتدال بہت ضروری ہے یہاں.۔ کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں عورت اور مرد برابر نہیں ہوسکتے. جس طرح فوج کا سپاہی اور جرنیل. یاسلطنت کا بادشاہ اور رعایا. یا ملک کا وزیر اعظم اور عوام ایک پلڑے میں برابر نہیں ہو پاتے اس طرح عورت اور مرد کے منصب میں بھی تھوڑا بہت فرق فطرت نے رکھا ہے. ۔انسان کی ہزاروں سال کی تاریخ میں کوئی وقت بھی ایسا نہیں گزرا جب عورت مرد پر غالب رہی ہو. در اصل یہ تفریق نہیں بلکہ قدرتی امر ہے کہ ان دونوں میں مزاجی، طبعی اور نفسیاتی طور پر بھی کچھ فرق پائے جاتے ہیں.
یہ بات درست ہے کہ عورت انسان ہی ہے. لیکن آپ کی یہ دلیل ان دونوں اصناف کو بالکل ایک مقام پر لا کر رکھ دینے کے لیے کافی نہیں.۔ آپ انسانیت میں مشترک ہونے کی دلیل کو تھوڑا اور کشادہ کر کے حیوانیات تک لائیے تو آپ کو گائے، بھینس، بھیڑ اور بکروں کو بھی اس میں شامل کرنا پڑے گا. آپ اپنے بقا کے لیے ان سے گوشت حاصل کرتے ہیں جو کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہے. حالانکہ حیوانیات میں انسان اور جانور سب مشترک ہیں. اسی طرح اور آگے بڑھ کر تمام جانداروں کو اس چادر میں سمیٹ لیجیے تو بقا اور آسائش سمیت زندگی کے تمام پہلو اس انصاف کے نتیجے میں متاثر ہوتے جاتے ہیں. ۔۔۔!!
در اصل یہاں انصاف کی بحث ہی بے کار ہے.یہ منصب کی بات ہے. اور اس میں حق دار کو اس کا حق دینا ہی انصاف کہلاتا ہے. جس طرح جانداروں میں حیوان اعلی منصب پر ہیں. پھر حیوانوں میں انسان ہیں اسی طرح انسانوں میں مرد کا منصب بڑا ہے. پھر مردوں میں بھی مدارج ہیں. آپ مردانگی میں مشترک تمام مردوں کو بھی ایک لکڑی سے نہیں ہانک سکتے. یہی معاملہ مرد سے عورت کے تقابل میں بھی ہے.
مزمل شیخ بسمل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جدید سیکولر تعلیمی نصاب ( Modern Secular Curricula) نے غیر مذہبی بنیادوں پر انسانی حقوق کی تلفی اور تشدد کو نارملائز کیا ہوا ہے۔ ورنہ، اگر عقل سلیم ہو اور نظر سلامت ہو تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر جس عورت کے استحصال کا رونا رو کر پروپیگنڈا کیاجاتا ہے، اسی عورت کا سب سے بڑا سوداگر لبرل مارکیٹ ہے، جسے عورت کی محافظ تصور کیا جاتا ہے۔
اس طرح آزادی چھیننے کا جو الزام مذہب پر لگایا جاتا ہے، اس حوالے سے سیکولر ریاست مذہب کو اپنے خودساختہ فریم میں ڈال کر، اس کی تقصیر کر کے اس کی بنیادی تعلیمات پر عمل کرنے کی آزادی بھی سلب کرتی ہے۔
اس طرح جسمانی، نفسیاتی, ساختیاتی اور علمیاتی تشدد کی جتنے قسمیں ہیں اگر مذہب کے ساتھ اس کا کمترین علاقہ بھی ثابت ہو جائے تو نیندیں اڑ جاتی ہیں اور طوفان برپا ہوتا ہے لیکن اگر لبرل اور سیکولر فورسز بستیاں اور ممالک اجاڑ کر لاکھوں لوگوں کو کیوں نہ قتل کر دیں اس پر کوئی اف تک نہیں، بلکہ الٹا الزام مقتول پر ہوگا کہ شاید وہ خود خنجر پر گرا ہوگا۔ اس حوالے سے ڈاکٹرز اور وکلاء کے مابین حالیہ پر تشدد واقعات بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جہاں تشدد کرنے میں عورت، مرد سے اور بوڑھا, جوان سے تشدد کرنے میں آگے رہنے کی کوشش میں تھا۔ ذرا تصور کریں اگر یہ جھگڑا کسی دو مذہبی گروہوں میں ہوتا تو پھر بھی اتنا نارمل رسپانس ہوتا۔
یہ نصاب مسلمان بچے کو یا تو اسلام سے دور کرتا ہے یا اگر وہ اسلام پر رہنا بھی چاہے تو کم تر سطح پر اس کا مذہب کرپٹ کرتا ہے۔
کسی بھی یونیورسٹی میں جا کر سروے کریں تب پتہ لگ جائے گا کہ کیسی فصل تیار ہو رہی ہے، مزے کی بات یہ ہے جتنی یونیورسٹی بہتر مشہور ہو, اتنا وہیں فصل خراب ملے گی۔ کیا طالب علم اور کیا پروفیسرز۔
*****
1۔ یہ محض خلط مبحث ہے کہ عبایہ کے بغیر بھی خاتون کا لباس ساتر ہوسکتا ہے۔ بالکل ہوسکتا ہے۔ اس سے انکار نہیں ہے۔ بحث تو اس پر ہو ہی نہیں رہی۔ بحث صرف اتنی ہے کہ خواتین کو عبایہ پہننے کےلیے حکومت کہہ سکتی ہے یا نہیں؟
2۔ اسی طرح یہ بھی محض خلطِ مبحث ہے کہ چہرے کا پردہ واجب ہے یا نہیں؟ یہاں سوال یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ کیا مخصوص حالات میں حکومت خواتین کو چادر اوڑھنے کےلیے کہہ سکتی ہے یا نہیں؟
3۔ اسی طرح یہ بھی محض خلطِ مبحث ہے کہ پردہ دار خواتین کو بھی چھیڑا جاتا ہے ، یا ان کے ساتھ بھی زیادتی کی جاتی ہے۔ کیا لاک کی گئی گاڑیاں چرائی نہیں جاتیں؟ پھر کیوں آپ گاڑی لاک کرتے ہیں؟
4۔ اسی طرح یہ بھی محض خلط مبحث ہے کہ اوباش مردوں کو سزا دینے کے بجاے خواتین کو عبایہ پہننے کےلیے کیوں کہا جارہا ہے؟ خواتین کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ یہ الگ بات ہے۔ اوباش مردوں کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے۔ دونوں باتیں اپنی جگہ اہم ہیں۔ دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے۔ دونوں میں تعارض کا کیا سوال؟
5۔ اصل بحث اس پر ہے ، اور اسی پر ہونی چاہیے، کہ “نجی زندگی”، “ذاتی مسئلہ” اور “اخلاقی پولیسنگ” جیسی تراکیب کی بنیاد پر ، جو مغربی لادینی تہذیب کی اقدار ہیں، ستر ، پردہ اور عبایہ کے تصورات کو مسترد کیا جاسکتا ہے یا ان پر تنقید کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ نیز کیا ان لادینی اقدار کی بنیاد پر حکومتی اختیار کو ناجائز قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
6۔ ان دو سوالات پر بحث ہو تو پھر لازماً یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کئی دیگر امور میں حکومت یا ادارے کی جانب سے لباس کے معاملے میں پابندیاں عائد کی گئی ہیں ، جیسے وکلا بے چاروں پر کالے کوٹ اور کالی ٹائی کی پابندی یا بحریہ یونی ورسٹی میں شلوار قمیص کی ممانعت، تو ان کو کیوں تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جارہا؟ یہاں “بداخلاقی پولیسنگ” کیوں نظر نہیں آرہی؟
7۔ اور سو سوالوں کا ایک سوال: آخر کب تک مغربی اقدار کو عالمی اقدار اور مسلّمات کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا اور ان کی روشنی میں ہماری اقدار کو جانچا پرکھا جائے گا؟
٭٭٭٭٭
خواتین کا چہرے پر میک اپ جیسے کہ گالوں پر پاؤڈر اور ھونٹوں پر سرخی وغیرہ لگاکر نیز جسم کے اعضاء کو نمایاں رکھنے والا لباس غیر ساتر پہن کر مردوں کے سامنے گھومنا، یہ سب دیدہ زیب دکھنے اور کشش پیدا کرنے کے ذرائع ہیں۔ چنانچہ جس طرح مردوں کا خواتین کو گھور کر (یعنی بھونڈی کرکے) انہیں تنگ کرنا یا ان پر جملے کسنا ناجائز اعمال و جرائم ہیں، بالکل اسی طرح خواتین کے یہ اعمال بھی ناجائز اور جرائم ہیں کہ یہ سب غیر ضروری طور پر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی شکلیں ہیں اور جدید اصطلاح میں یہ سب sexual harassment ہی کی صورتیں ہیں۔ اگر اس کا جواب یہ ہے کہ مردوں کو اپنی سوچ تبدیل کرنا چاہئے اور عورت کے ان اعمال سے پریشان نہ ہونا چاہئے نیز عورتوں پر مردوں کی سوچ بائنڈنگ حیثیت نہیں رکھتی تو پھر ایسی عورت کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنا چاہئے جو مرد کی بھونڈی وغیرہ کرنے کے حق کو برا سمجھتی ہے اور مرد پر بھی عورت کی سوچ بائنڈنگ نہیں ہوسکتی۔ اگر عورت کو اپنے لحاظ سے مرد کے بعض اعمال sexual harassment دکھائی دیتے ہیں، تو مرد کو بھی عورت کے بعض اعمال ایسے دکھائی دے سکتے ہیں۔
زاہد مغل
******
کیا پردے کو قید کہا جاسکتا ہے ؟
قید حبس خلاف طبع (طبیعت/چاہت کے خلاف قید ) کو کہتے ہیں اور جو حبس خلاف طبع نہ ہو اس کو قید ہر گز نہ کہیں گے۔ ۔ ۔مثلا باتھ روم میں آدمی اپنی مرضی سے پردہ کر کے بیٹھتا ھے، اگر ہر حبس /پردہ قید ہے تو اسے بھی کہنا چاہیے کہ آج ہم بھی اتنی دیر قید میں رہے ۔اس کو کوئی قید نہیں کہتا کیونکہ حبس طبعی ہے۔ہاں اگر باتھ روم میں کسی کو بلاضرورت بند کر دیا جاے اور باہر سے تالا لگا کر ایک پہرہ دار کھڑا کر دیا جاے اور اس سے کہہ دیا جاے کہ خبرداریہ آدمی یہاں سے نہ نکلنے پائے تو اس صورت میں بے شک یہ حبس خلاف طبع ہو گااور اس کو ضرور قید کہیں گے اور اس صورت میں بند کرنے ولے پر حبس بیجا کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔ ثابت ہوا کہ ہر حبس کو قید نہیں بلکہ حبس خلاف طبع کو قید کہتے ہیں۔۔
اعتراض کرنے والوں کو پہلے اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان عورتیں جو پردے میں رہتی ہیں ۔وہ ان کی طبیعت کے موافق ہے یا خلاف؟حبس طبع ہے یا خلاف طبع ؟اس کے بعد انکو ایسا کہنے کا حق ہے۔سب جانتے ہیں کہ پردہ مسلمان عورتوں کے لیے خلاف طبع نہیں ہے،کیونکہ مسلمان عورتوں کے لیے حیاہ امر طبعی ہے،لہذا پردہ حبس طبع ہوا اور اس کو قید کہنا غلط ہے، بلکہ اگر ان کو زبردستی بے پردہ رہنے پر مجبور کیا جائے، انکے حجاب پر پابندی لگادی جائے جیسے ‘یہ خلاف طبع بات ہوگی ۔ قید اس کو کہنا چاہیے۔ ہمارے ان ترقی پسندوں کے لیے ایسا کہنا نقصان دہ ہے ۔اس قید کے خلاف دو جملے بولنے سے بھی ان روشن خیالوں کی زبانوں پر چھالے نکل آتے ہیں۔
*****
اسلام کی نظر میں مرد و عورت کے حقوق میں مساوات کا مطلب
دونوں کے کاموں کی یکسانیت نہیں ہے۔ اس نے دونوں کے درمیان کاموں کی منصفانہ تقسیم کی ہے اور دونوں کے دائرۂ کار الگ الگ رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے دونوں کی فطری صلاحیتوں کی بھرپور رعایت کی ہے۔ عورت کے ذمے فطرت نے بچوں کی پیدائش و پرورش کا عظیم الشان کام سونپا ہے۔ وہ حیض و نفاس اور حمل و رضاعت کے مراحل سے گزرتی ہے، اسی لیے اسلام نے عورت کو گھر کے اندر کے کاموں کی ذمہ داری دی ہے اور اس کی اہم مصروفیات کو دیکھتے ہوئے اسے وسائل معاش کی فراہمی سے آزاد رکھا ہے۔ مرد کے ذمے اسلام نے گھر سے باہر کے کام رکھے ہیں اور اسے پابند کیا ہے کہ وہ عورت کی معاشی کفالت کرے اور اسے تحفظ فراہم کرے۔ خاندان کا نظام صحیح ڈھنگ سے چلنے کے لیے کاموں کی تقسیم ضروری تھی۔ اگر ہر شخص ہر کام انجام دینے لگے تو کوئی بھی نظام صحیح طریقے سے نہیں چل سکتا۔ بچوں کی پیدائش و پرورش کا کام صرف عورت ہی انجام دیتی ہے۔ اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی کہ یہ کام بھی اس سے متعلق رہتے، مزید گھر سے باہر کے کاموں کا بھی اسے پابند بنادیا جاتا۔ فیمنسٹ تحریک نے عورتوں کیساتھ یہی سب سے بڑا ظلم کیا ہے کہ اس نے حقوق اور مساوات کے نام پر انہیں مردوں کے کام بھی سونپ دیے ہیں ۔
(رضی الاسلام ندوی)
٭٭٭٭٭٭
بعض مذھبی علمیت پڑھے لکھوں، مگر جدید افکار سے متاثرین، کو جب یہ کہتے دیکھتا ہوں کہ “شریعت (مثلا عورت یا مرد سے) فلاں حق چھین لیتی ہے” تو حیرانی کے ساتھ پریشانی لاحق ہوجاتی ہے کہ مذھبی علمیت پڑھ چکنے کے بعد بھی انہیں یہ سمجھ نہ آسکی کہ حقوق متعین ہی شرع سے ہوتے ہیں، شریعت کے ذریعے حقوق چھیننے کا کیا مطلب؟ یہ جملہ فرض کررہا ہے کہ حقوق شرع سے ماوراء کہیں قطعی طور پر متعین ہوچکے ہیں کہ جنہیں بنیاد بنا کر اب طے کیا جانا ہے کہ کیا چھینا جارہا ہے۔
“حقوق از خود واضح ہوتے ہیں”
سیکولر فکر کے حامیین یہ دعوی اکثر دھراتے ہیں کہ حقوق خدا کے حکم سے ماخوذ نہیں ہوتے بلکہ حقوق از خود واضح (self-evident) ہوتے ہیں، یعنی انکے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ یہ دعوی نامکمل ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہ کن بھی ہے کیونکہ یہ سامع تک پوری بات منتقل کئے بغیر ہی فکری واردات ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔ سردست صرف ایک اہم بات نوٹ کرلیں۔
“حقوق از خود واضح ہوتے ہیں” ۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ اس دعوے کی دلیل کس کا کہنا و حکم ہے؟ جواب ہے “ھیومن” کا۔ یعنی یہ کس کا دعوی ہے کہ حق کے تعین کے لئے مجھے کسی خدا کے حکم کی ضرورت نہیں بلکہ حق کیا ہے یہ میں خود متعین کروں گا؟ “ھیومن” کا۔
تو اب یہاں دو مستقل پوزینشنز ہیں:
– ایک یہ کہ حق کا ماخذ خدا کا ارادہ و حکم ہے،
– دوسری یہ کہ حق کا ماخذ ہیومن کا ارادہ و حکم ہے۔ یہ دوسری پوزیشن انسان کا خود اپنا خدا بننے سے عبارت ہے، جو یہ پوزیشن اختیار کرے اسے ہی “ھیومن” کہتے ہیں۔
تو یہ ہے مکمل بات جو اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے۔
ڈاکٹر زاہد مغل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انسان پیدا ہونے کے بعد بہت طویل عرصہ تک محتاج ہی رہتا ہے غذا کے لئے، لمس کے لئے، محبت کے لئے اور ان جیسی بہت سی بنیادی ضروریات کے لئے۔ ان بنیادی ضروریات کی بآسانی فراہمی سے ملنے والی تسکین ایک کمزور سے گوشت کے لوتھڑے کو خواہشات کا اسیر بنانے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لیتی۔ اچھا لباس میسر ہے تو کچھ زیادہ اچھی پوشاک کی خواہش، کھانا میسر ہے تو کچھ زیادہ لذیذ کھانے کی خواہش، بنیادی تعلیم اور ہنر ہاتھ میں ہے تو کچھ اور اعلی تعلیم اور جدید ہنر سے خود کو اپڈیٹ کرنے کی چاہ۔۔۔ یہ اور ان جیسی بہت سی چیزوں کو حاصل کرنے کی مانگ ہر انسان میں وقت کے ساتھ ساتھ جنم لیتی رہتی ہے۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دوسری سر اٹھا لیتی ہے اور یہ سلسلہ تاحیات جاری رہتا ہے اسی لئے انسان کو wanting animal بھی کہا جاتا ہے۔
یہاں ضرورت اور خواہش کے درمیان فرق سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ضرورت ایک ایسی حالت کا نام ہے جس کا پورا ہونا بقا کے لیے ضروری ہے، اگر ضرورت پوری نہیں ہوگی تو زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، مثال کے طور بھوک کی حالت میں خوراک کی ضرورت، بیماری کی صورت میں علاج کی ضرورت۔ ضرورت کے برعکس خواہش ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس کو پورا اگر نا بھی کیا جائے تو بقا کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا، خوراک کی مثال لے لیجیئے، خوراک جسم کی بنیادی ضرورت ہے لیکن اچھی اور مہنگی خوراک خواہش ہے۔ مہنگی خوراک نہ ملنے کی صورت میں آپ کی بقا کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوگا۔ خطرہ اسوقت ہوگا جب آپ اپنی خواہش کو ضرورت کی حیثیت دینے لگیں۔ اور جب انسان خواہشات کو سر پر سوار کرلیتا ہے تو ایسے افراد پر مشتمل معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
ضروریات اور خواہشات کے پس منظر میں اگر ہم آزادی کی دیکھیں، تو وہ کونسی آزادی ہے جو فیمنسٹ عورت چاہتی ہے یہی کہ ہر بندش اور بندھن سے آزادی ۔ کیا ضرورت ہے یا خواہش؟ بندشیں اور پابندیاں کلچر کا حصہ ہوتی ہیں، یہ آزادیاں اور بندشیں ایک معاشرے کو مہذب بھی بنا سکتی ہیں اور تباہ بھی کر سکتی ہیں۔ ضرورت سمجھنے کی ہے کہیں ہم تحفظ فراہم کر نے کے چکر میں ظلم تو نہیں کر رہے؟ کہیں عورت آزادی کی خواہش میں خود کو تحفظ سے محروم تو نہیں کر رہی؟
ببلی شیخ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مساوات مرد و زن کا ڈھونگی نظریہ
آجکل ٹی وی پر “خاموشی” نام کی ایک ڈرامہ سیریل چل رہی ہے جس میں ایک بے حس باپ و بہن بھائی اور مجبور ماں کا کردار دکھایا گیا ہے۔ باپ اپنی کم آمدن کے سبب اپنی ایک بیٹی کو اپنے کسی بہت امیر کزن (جو لڑکی کا چاچا کہلاتا ہے) کے یہاں گھرداری کے لئے بعوض 30 ھزار روپے ماھوار مستقل ملازمہ کے طور پر بھیج دیتا ہے۔ چاچا تو اچھا دکھایا ہے مگر اس کی بیوی انتہائی بداخلاق و بد خو دکھائی گئی ہے جو اس لڑکی کو کام کاج کے معاملے میں سختی کے ساتھ نوکرانیوں کی طرح ٹریٹ کرتی ہے اور چاچا بیگم صاحبہ کے آگے مجبور و بے بس ہیں۔ جہاں ایک طرف لڑکی مظالم و تکالیف سہہ رہی ہے تو دوسری طرف دکھایا جارہا ہے کہ اس کے گھر والے اس کے پیسوں پر عیاشیاں اور اپنی دیرینہ خواہشات پوری کررہے ہیں۔ لڑکی کی ماں کو اگرچہ یہ سب پسند نہیں مگر وہ بیٹی کے سامنے اپنی مجبوریوں کا رونا رو کر اسے کام جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی رہتی ہے۔ یہ تمام تر مناظر اس طور دکھائے جاتے ہیں کہ کس طرح پورا گھر مل کر لڑکی کا استحصال کرکے اسکی کمائی کو لوٹ رہے ہیں۔
یہ سب دیکھتے ہوئے میرا ذھن اس طرف گیا کہ اس کیس میں اگر لڑکی کی جگہ ایک مرد یا لڑکے کو رکھ دیا جائے تو یہاں جو کچھ دکھایا جارہا ہے وہ ہمارے یہاں کا ایک نارمل معاملہ ہے، یعنی یہ تقریبا ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے کہ ایک مرد گھرانے کی ضروریات و خواہشات پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی مشکلات و تکالیف سہہ کر (بسا اوقات دیار غیر کے دھکے کھا کر) کماتا ہے اور اس میں ہمیں استحصال کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہمارا معاشرتی نظام اس امر کو مرد کی ذمہ و فرض قرار دیتا ہے (اور بجا طور پر ایسا کرتا ہے)۔
اب اس سب کو سامنے رکھئے اور مرد و زن کی مساوات پر یقین رکھنے والوں پر غور کیجئے۔ بھائی اگر دونوں برابر ہیں تو پھر ایک لڑکی کے مال پر گھر والوں کے مزے کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ اگر لڑکا کھلے دل و ذمہ داری کے ساتھ یہ سب کرسکتا ہے تو لڑکی کیوں نہیں؟ لڑکی کو اس کی ٹریننگ کیوں نہیں دی جارہی؟ اس کے اندر یہ احساس کیوں پیدا کرتے ہو کہ اگر تمہارے گھر والے تمہاری آمدن استعمال کریں تو یہ نا انصافی ہے؟ اور اگر لڑکی کے معاملے میں یہ استحصال و بے حسی کا مظاہرہ ہے تو لڑکے کے لئے کیوں نہیں؟ یا پیمانہ ایک رکھو اور یا پھر مساوات کے اس ڈھونگی نظرئیے کو ترک کرو۔ یہ میٹھا میٹھا ھپ ھپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کا کیا معاملہ اختیار کررکھا ہے؟
ڈاکٹر زاہد مغل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مغربی و مشرقی مفکرین نے مساوات کی ایک غیر معقول اصطلاح متعارف کروائی ہے کہ انسانوں کے درمیان زندگی کے ہر شعبے ميں مساوات ہونى چاہيے پھر مخالفین اسلام نے اس اصول کو لے کر اسلام پر بھی اعتراضات کیے ۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا نظریہ مساوات كا نہیں بلکہ عدل و انصاف كا ہے۔.!!
مساوات كا تقاضا ہے كہ ہر انسان کو مابين ہر جگہ برابر ٹھہرایا جائے اس سے یہ مساوات بعض جگہ ظلم بن جاتی ہے ۔ کئی لوگوں نے یہ نعرہ لگایا کہ مرد و عورت كے مابين كونسا فرق ہے ؟ انہوں نے مرد و عورت كو برابر كر ديا ہے، حتى كہ كيمونسٹ تو يہاں تك كہتے ہيں كہ حاكم اور محكوم كے مابين كونسا فرق ہے ؟ يہ ممكن ہى نہيں كہ كوئى ايك دوسرے پر تسلط رکھے اور حكمرانى كرے، حتى كہ والد اور بيٹا بھى، والد كو اپنے بيٹے پر بھى تسلط اور طاقت نہيں ہے، اسى طرح آگے بڑھے اور سماج کی ہر ترتیب کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ۔۔۔
دوسری طرف عدل كا معنى ہے كہ ہر مستحق كو اس كا حق دينا جس كا وہ مستحق ہے۔ اسى ليے قرآن مجيد ميں كبھى يہ لفظ نہيں آئے كہ اللہ تعالى تمہيں مساوات يعنى برابرى كرنے كا حكم ديتا ہے بلکہ :{ اللہ تعالى تمہيں عدل و انصاف كا حكم ديا ہے } النحل ( 91 ).{ اور جب تم لوگوں ميں كے درميان فيصلہ كرو تو عدل و انصاف كے ساتھ فيصلہ كرو }النساء ( 58 ).
اورقرآن مجيد ميں اكثر مساوات كى نفى کی گئی .{ كہہ ديجئے كيا وہ لوگ جو جانتے ہيں اور جو لوگ نہيں جانتے برابر ہيں ؟}الزمر ( 9 ).
مرد و عورت کا معاملہ بھی یہی ہے اسلام انکے مابين مساوات اور برابرى نہيں انصاف کرتا ہے ۔ اگر مساوات و برابرى كى جائے تو ان ميں ايك پر ظلم ہوگا۔. دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ، کمزوریاں ، صلاحیتیں ہیں انہی کی بناء پر ان میں حقوق و فرائض کی بھی تقسیم ہے۔
باقی شریعت کی نظر میں بحثیت انسان مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔اكثر شريعت اسلاميہ كے احكام مرد و عورت پر برابر لاگو ہوتے ، عورت بھى مرد كى طرح ہى وضوء ،غسل كرتى ، مرد كى طرح روزہ ركھتى ، زكاۃ ادا كرتى حج كرتى ، خريد و فروخت ، صدقہ كرتى ہے ۔ جہاں دونوں جنسوں ميں فرق آيا ہے ، وہاں اسلام عورت كى فطری صلاحیتوں اور كمزورى كو بھی دیکھتے ہوئے ذمہ داریاں لاگو کرتا ہے ، مثلا مردوں پر اپنے بیوی بچوں کی کفالت فرض ہے اسی طرح جہاد فرض ہے، ليكن عورتوں پر نا کمانے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور نا مسلمانوں کے لیے جہاد و قتال کے لیے نکلنے کی۔ یہاں مساوات سے عورت پر ظلم ہوتا ، اسی طرح باقی معاملات میں بھی عدل کے تقاضے کے تحت اک کو دوسرے پر فوقیت دی گئی.
شیخ صالح المنجد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ابھی بھی ہمارے معاشرے میں یہی ریت اور رواج قائم ہے کہ ایک گھر میں بھلے چھ بھائی ہوں اور ایک کام نہ کرتا ہو تو اسے نکما اور نکھٹو کہا جائے گا، کام نہ کرنے پر شرم دلائی جائے گی لیکن اگر ایک گھر میں گیارہ بہنیں بھی ہیں تو ان کا ایک بھائی سب کو اپنی ذمہ داری سمجھے گا، ان کا والد اپنی ہر بیٹی کی خواہش اور ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی جان لڑا دینا اپنا فرض سمجھتا ہے اور کبھی کہیں کسی لڑکی کو نکمی اور نکھٹو کا طعنہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی لڑکیوں کو والد یا بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے باہر نکلنے اور نوکریاں کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ایسے بھائی بھی ہیں جو اپنی بہن کی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی بیوی بچوں اور اپنی جوانی تک کو یاد نہیں رکھتے ۔ ایسے باپ ہر گلی ہر بازار میں مل جائیں گے جو اپنی بیٹیوں کی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے خجل خوار ہو رہے ہوتے ہیں، مزدوریاں اور اوور ٹائم کرتے ہیں کہ آج میری گڑیا نے بولنے والی گڑیا مانگی ہے اور مجھے وہ لے کر ہی گھر جانا ہے۔
یقینا ہمارے معاشرے میں ایک خاتون جو کسی شخص کی بیوی ہے اس کو بہت سے مسائل اور سخت حالات کا سامنا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ باقی تمام رشتوں کے تقدس پر نشان لگا دیں اور معاشرے کے باقی افراد کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیں۔ ایک عورت جو بیوی ہے اس سے باقی رشتوں بھائی، باپ اور بیٹے کے بارے سوال کیا جائے تو وہ ان پر اپنی جان نچھاور کرتی نظر آئے گی تو پھر صرف ایک بیوی اور شوہر کے رشتے کے مسائل پر بات کرنے کے بجائے تمام رشتوں اور افراد کو رگڑنا ناانصافی اور مسئلہ حل نہ کرنے کا عمدہ طریقہ ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بھائی اپنی بہنوں کا مان ہوتے ہیں، بیٹیوں کے لیے ان کے والد بادشاہ اور سپر ہیرو ہوتے ہیں اور وہ ان کی شہزادیاں ہوتی ہیں، ماوں کے لیے بہتی ناک والا کالا سیاہ بیٹا بھی چاند جیسا ہوتا ہے۔ اس لیے خدارا اپنی فضول کی برابری کی بحث اور بکواس میں معاشرے میں موجود رشتوں کے تقدس اور خوبصورتی کو گہنانے کی کوشش نہ کریں۔
خرم شہزاد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اوریہ تو بہت کمزور سی بات ہے کہ عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں دیا گیا ہے؟عرض یہ ہے کہ عنداللہ طلاق ایک مکروہ اور ناپسندیدہ چیز ہے اگرچہ جائز ہے۔ عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی صورت مطلقہ کہلانا نہیں چاہتی ہے۔ تاہم اگر میاں بیوی کے درمیان نبھاہ نہیں ہورہا۔ حقوق تلف ہورہے ہیں اور زیادتی ہورہی ہے تو ، جس طرح مہر کے ذریعے مرد عورت کو اپنے قبضے میں لیتا ہے عین اسی طرح خلع (رقم دے کر) کے ذریعے عورت مرد سے آزادی بھی حاصل کرسکتی ہے۔اور یہ معمول کی بات ہے۔
امیرجان حقانی
٭٭٭٭٭٭٭
ستر اور برہنگی سے متعلق دینی ہدایات کا مخاطب اصلا افراد یعنی مرد وزن ہیں اور ان کی اہمیت بنیادی طور پر شخصی اخلاقیات اور تہذیب نفس کے پہلو سے ہے۔ اس حیثیت سے مردوں کی آزمائش یہ ہے کہ نگاہوں اور خیالات کو پاکیزہ بنائیں، اور خواتین کی آزمائش یہ ہے کہ جسمانی حسن اور زیب وزینت کی نمائش کی جبلت کو قابو میں رکھیں۔ یعنی یہ یک طرفہ نہیں، بلکہ دو طرفہ تہذیب وتربیت کی تعلیم ہے۔ محترمہ جمائما خان نے اپنی ٹویٹ میں، غالبا اپنے سابق شوہر کے جواب میں، جو قرآن کی آیت کا ادھورا حوالہ دے کر کہا ہے کہ نگاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری مرد کی ہے، وہ بدیہی طور پر درست نہیں، کیونکہ اس سے اگلی آیت میں قرآن نے خواتین کی ذمہ داری بھی دوٹوک الفاظ میں بیان کی ہے۔
اس کا دوسرا پہلو سد ذریعہ سے متعلق ہے۔ یہاں خواتین کی انفرادی سطح پر بے احتیاطی کو جنسی جرائم کے محرک کے طور پر پیش کرنے میں کچھ خلط مبحث ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے، کسی خاتون نے غیر محتاط لباس پہنا ہو تو وہ نہ تو جنسی حملے کی دعوت ہوتی ہے اور نہ اسے ایسے کسی جرم کے جواز یا اس کی تخفیف کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ خواتین کی شخصی اخلاقیات کی سطح پر جو ذمہ داری بنتی ہے، اس کو بالکل غیر اہم قرار دیا جائے یا فی الجملہ جنسی تحریک کا سبب ہونے کے ایک بدیہی پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے۔
ہمارے نزدیک اس باب میں اصل مجرمانہ کردار تشہیر کی سرمایہ دارانہ صنعت کا ہے جو صنفی حسن اور جنسی جبلت کو ایک فروختنی چیز کے طور دیکھتی اور بیچتی ہے۔ اس مقصد کے لیے خواتین میں “ذریعہ تسکین” بننے کے احساس کی تلافی یا دفعیہ کے لیے اس طرح کے فلسفے متعارف کروائے گئے ہیں جن سے خواتین انفرادی آزادی کے التباس میں رہتے ہوئے تشہیری صنعت کی ضروریات کو پورا کرتی رہیں۔ یہ فلسفہ چونکہ مردوں کے بھی کام کا ہے، کیونکہ تشہیری صنعت انھی کے لیے تو یہ کار ثواب انجام دیتی ہے، اس لیے لبرل اخلاقیات کے عنوان سے خواتین کو اپنی آزادی کے محافظ بھی بڑی تعداد میں میسر آ جاتے ہیں۔ یوں عملا صورت حال یہ ہو جاتی ہے کہ جیسے عالمی طاقتوں کو دہشت گردی کے محرکات وأسباب کے ازالے کے بجائے صرف دہشت گردی کے خاتمے سے دلچسپی ہے، اسی طرح لبرل اخلاقیات کے حامی یہ چاہتے ہیں کہ جنسی تحریک وترغیب کی صنعت بھی اسی طرح موجود رہے، خواتین اس کے لیے بھرپور آزادی کے ساتھ خام مال بھی بنتی رہیں، ان کو انفرادی اخلاقی آداب یاد دلانے کی بھی کوئی جسارت نہ کرے، اور سارا زور صرف قانونی طاقت کے بل بوتے پر مردانہ دہشت گردی کے خاتمے پر صرف کیا جائے۔
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
عمار خان ناصر
٭٭٭٭٭
ایک اور مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کا احوال بھی جاننا چاہیے۔ جاپان میں ملازمت کی جگہ پر آنے جانے کے اوقات میں ٹرینیں کھچاکھچ بھری ہوتی ہیں اور ہجوم میں خواتین کے جسم ٹٹولے جانے کے
واقعات
روزمرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نہ حکومت کچھ کر پاتی ہے اور نہ بے چاری خواتین اس کو ایشو بنا کر پیش کر سکتی ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ اختلاط کے حدود وآداب اگر غیر اہم ہیں اور ہراسانی یا چھیڑچھاڑ صرف گھٹن کی پیداوار ہے تو جاپان کی ٹرینوں پر یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
عمار خان ناصر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
برطانیہ میں جنسی ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں خواتین کے تحفظ کے لیے موجودہ قانون سازی کو ناکافی سمجھا جا رہا ہے، تاہم برطانوی وزیر اعظم نے نئی قانون سازی کا راستہ روک دیا ہے۔ لبرل اہل دانش سے سمجھنا یہ ہے کہ ہراسانی کے جو اسباب ہمارے ہاں گنوائے جاتے ہیں، وہ برطانیہ میں نہ پائے جانے کے باوجود
واقعات
اتنے کیوں بڑھ رہے ہیں کہ فراہم کیا گیا قانونی تحفظ ہی کم پڑنے لگا ہے؟
عمارخان ناصر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اب جدید تہذیب کے سب سے طاقتور معاشرے، امریکا کے حالات ملاحظہ ہوں۔ فلاڈیلفیا میں چلتی ٹرین میں ایک وحشی سارے مسافروں کے سامنے ایک خاتون کا ریپ کرتا ہے، اور 8 منٹ تک سب بے حسی سے دیکھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریپ اور تشدد کے واقعات کے اعداد وشمار بھی
ملاحظہ
ہوں۔ معاشرتی جرائم اور خاص طور پر خواتین کے خلاف جارحیت، تمام معاشروں کا مشترک مسئلہ ہے۔ مسلم معاشروں کے سماجی مسائل کو تہذیبی بحث میں shaming کے لیے استعمال کرنے سے پہلے مغربی معاشروں کا چہرہ بھی دیکھ لینا چاہیے، اور سماج کی بہتری کی گفتگو کو ذمہ دارانہ انداز میں آگے بڑھانا چاہیے۔
عمار خان ناصر
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
علامہ اقبال نے ایک دفعہ فرمایا: جس قوم نے عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی، وہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر ضرور پشیمان ہوئی ہے- عورت پر قدرت نے اتنی اہم ذمہ داریاں عائد کر رکھی ہیں کہ اگر وہ ان سے پوری طرح عہد بر آ ہونے کی کوشش کرے تو اسے کسی دوسرے کام کی فرصت ہی نہیں مل سکتی- اگر اسے اس کے اصلی فرائض سے ہٹا کر ایسے کاموں پر لگا دیا جائے، جنہیں مرد انجام دے سکتا ہے، تو یہ طریق کار یقیناً غلط ہو گا- مثلاً عورت کو جس کا اصل کام آئندہ نسل کی تربیت ہے ٹائپسٹ یا کلرک بنا دینا نہ صرف قانون فطرت کی خلاف ورزی ہے، بلکہ انسانی معاشرے کو درہم برہم کرنے کی افسوسناک کوشش ہے-
ذکر اقبال از عبدالمجید سالک
٭٭٭٭٭٭٭
بات چونکہ نکل کھڑی ہوئی ہے، تو کیوں نہ حالیہ ماحول کی گرمی میں ماضی کا ایک دریچہ کھول دیا جائے.. جھانکئے..!
.
علماء سے سنا ہے،، کہتے ہیں ضروری ہے کہ نکاح سے پہلے متوقع زوجین کو چاہئے کہ ایک دوسرے کو ایک دفعہ ضرور دیکھ لیں تاکہ بعد میں بدمزگی پیدا نہ ہو..!
میرا خیال ہے کہ یہاں ‘دیکھنے’ سے مراد صرف اور صرف چہرے کا دیکھنا ہے.. امید ہے آپ بھی میرے ہم خیال ہوں گے کیونکہ باقی بدن کا دیکھنا کوئی معانی نہیں رکھتا.. کبھی کسی متوقع بیوی کے سرپرستوں کو یہ کہہ کر اپنی درگت کی ویڈیو بنوائیے گا کہ ‘میں صرف چہرہ دیکھ کر لڑکی پسند نہیں کر سکتا،، مجھے سالم جسم دکھاؤ’..!
ساری اہمیت چہرے کی ہی ہے.. چہرے کا پردہ اتار پھینکو تو وہ کشش قائم نہیں رہ پاتی جو فطرتِ انسانی میں پنہاں ہے.. اگر لڑکی والے کہیں کہ ہم سوائے چہرے کے، باقی بدن دکھا دیتے ہیں، آپ لڑکی پسند کر لیجئے.. تو آپکے پاس اُلٹے قدموں بھاگنے کے علاوہ کیا آپشن بچے گا؟ یہ فقط علاقائی روایت ہی نہیں بلکہ تقاضائے فطرت بھی ہے اور اسلام فطرت کا مذہب ہے..!
جلابیب سے مراد وہی چادریں ہیں جو چہرے پر لٹکائی جاتی ہیں،، جنہیں آپ برقعہ کہتے ہیں.. یہی مطلوب ہے شریعت کا.. اسی کی پاسداری کا اُمہات المومنین کو حکم دیا گیا تھا تو اُمت کی باقی خواتین کو کیونکر استثناء مل سکتا ہے؟ انسانی شکل میں جو درندے عورت کی عزت نوچتے ہیں،، انکی اس حیوانیت کا غالب محرک عورت کا چہرہ ہی ہے.. مغربی روشن خیالی کا پیرو ہونے کیلئے عورت کا نقاب الٹنا اوّل شرط ہے.. مَردوں کے بیچ باعثِ تسکین وہی بنتی ہے جسکا چہرہ ننگا رہے.. بدنگاہی کا پہلا فائر آنکھ سے نکل کے چہرے میں ہی پیوست ہوتا ہے..!
فرماتے ہیں: “جہاں فتنے کا اندیشہ ہو وہاں عورت کیلئے پردہ لازم ہے”..! جناب سے کوئی دریافت کرے کہ سرکار، آپ کیوں اور کس کی ایماء پہ اپنی قوم کی خواتین کو آئٹم بنانے پر تلے ہیں؟ فتنوں سے بیرونی دنیا تو دور، گھر کا اندرونی جہان بھی محفوظ نہیں،، تبھی تو دیور کو موت کہا گیا ہے.. جنابِ والا! جس سماج کو ہر لحظہ اِک نئے فتنے اور نئے دجل کا سامنا ہو،، وہاں فتنے کے اندیشے کے انتظار میں بیٹھ رہنا بجائے خود ایک فتنہ اور عقلِ سلیم کی مخالفت ہے.. آپ اپنی لبرل تبلیغ کو اپنی چاردیواری سے شروع کیجئے پھر بتائیے گا کہ عورت کس انداز میں خود کو محفوظ سمجھتی ہے.. اسلام شرم حیا کا مدرس ہے اور شرم حیا کیلئے چہرے کے نہیں بلکہ فکرِ صالحہ پہ پڑے پردے اٹھا دینے چاہئیں..!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)
٭٭٭٭٭٭٭
؎ مرد ہے اب مرد کے پیچھے ہوئی زن، زن مُرِید
پہلے ‘ہِپّی اِزم’ اور اب اس نے کی مٹّی پلِید
؎ دیکھئے ہوتی ہے کیا بےرہروی کی اِنتِہا
ہے ابھی تو اِبتِدا جس کی ‘فرائِڈ’ تھا کلِید
اور ‘فیمِینِزم’ Feminism کا نعرہ عورتوں کو حقُوق دِلوانے کا ہے… بالکل صحیح بات ہے عورتوں کو اُنکے حقوق نہیں مِل رہے پُوری طرح… مگر یہ ‘فیمینِزم’ عورتوں کے دماغ میں محض خنّاس بھرنے کا طریقہ ہے… وگرنہ دیکھ لیں کہ تُرکستان میں جو کُچھ ہُوا اُس میں ‘کمیُونِسٹوں’ نے کِس طرح ورغلا کر عورتوں کو بےغِلاف کِیا اور گھروں کے گھر طلاق دِلواکر تُڑوائے… حقُوق کا نعرہ لگا کر… اور پِھر جب وہ ‘باہر’ آگئیں تو اُن کے ساتھ جو سلُوک ہُوا وہ بھی ڈھکا چُھپا نہیں… کابُل میں جو رُوس کا سفارت خانہ تھا وہاں ہر پندرہویں دِن جہاز نئی مسلمان تُرک النسل لڑکِیاں چھوڑ جاتا تھا… کیونکہ رُوسی افسران اپنے ساتھ بِیوِیاں رکھنے کے عادی نہیں تھے…! خواتِین اور مرد حضرات کا زِندگی میں دائرہ کار مُختلِف ہے… میرے ذہن میں عورت اور مرد کی حیثیت کے بارے میں کوئی کجی نہیں… مرد حضرات جو صبح کے وقت ایک موزہ نہ مِلنے پر حواس کھو بیٹھتے ہیں وہ بچوں کو زیادہ دیر کہاں برداشت کر سکتے ہیں… کیا بچوں کی پرورش عظیم تر اور مردوں کے کام سے مُشکل تر کام نہیں ہے…!؟ مَردوں کو ‘کام’ سے ‘چھٹی’ بھی ملتی ہے جبکہ عورت کو کہاں چھٹی…!؟ خواتین کو تو بچے کی پیدائش کے بعد بھی چھٹی نہیں ہوتی… ایک آدھ گھنٹے بعد ہی نومولود کی خوراک کا بندوبست کرنا پڑتا ہے… یہ آسان کام ہے…!؟ ایک گھر معاشرے کی کلِید ہوتا ہے…! یہ بات سب بُھولتے جا رہے ہیں…! اِدھر ہی ایک دفعہ ‘احمقستان کی ملکہ عالیہ’ کا تبصرہ پڑھا… یقین مانیے بہت دکھ ہوا… مگر میں بحث میں نہیں الجھتا… چپ ہو رہا… انکا کہنا تھا “کیا ہمارا کام محض گھروں میں بیٹھ کر بچے جننا رہ گیا ہے”… بات تو کافی لامبی تھی کوئی جس کا مطلب تھا کہ ہمارا بھی کوئی ‘کیریئر’ وغیرہ ہو… کوئی ‘کام’ کر کے مریں… ترقی ہو کچھ… حالانکہ مرد اور عورت کے وجود پر غور کرنے پر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ صنف کی دو اقسام ترقی کرنے کیلئے نہیں بلکہ ‘زندگی’ کی نشو و نما اور اس کو جاری رکھنے کیلئے ہیں… دوسرے الفاظ میں ‘بچے جننے کیلئے’… اور اس کیلئے دونوں میں ایک دوسرے کیلئے کشش اور ‘ضرورت’ رکھی گئی ہے کہ دونوں میں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا… زندگی جب تک جاری رہے گی ‘ترقی’ ہوتی رہے گی… کیونکہ ترقی انسان کے وجود سے ہی ہے… وہ نہیں ہوگا تو ترقی کس نے اور کیوں کرنی ہے… اگر انسان محض ‘کیریئر’ وغیرہ کیلئے آیا ہوتا تو دو اصناف کی ضرورت ہی کیا تھی جبکہ یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ مرد طاقت میں زیادہ اور سخت کوش ہوتے ہیں… وہی خود ہی ‘ترقی’ بھی کر لیتے…! اور بچوں کی صورت میں زندگی کی نشو و نما کیلئے اور ‘گھر’ کو بنانے کیلئے جس نرم اندازی، نازک گفتاری، حساس طبعی اور گداز مزاجی (اور مختل حواسی بھی) کی ضرورت ہے اسے بھی فطرت نے عورت کو ودیعت کیا ہے… اور اس طرح خودبخود دونوں اصناف کے ‘دائرہ کار’ کا تعین ہوجاتا ہے… مرد ‘گھر’ کا بیرونی حسن ہی بڑھا سکتا ہے جبکہ ‘گھر’ کے اندرونی حسن اور سکون کی عورت ہی ضامِن ہے… میں یہ نہیں کہہ رہا کہ عورت کام ہی نہ کرے… ضرورت کے وقت کرے… کون روک رہا ہے… مگر جب ‘گھر’ اثر انداز ہو تو صرف اور صرف ‘گھر’ ہی اہمیت کا حامل ہونا چاہئے… باقی سب کچھ ثانوی ہونا چاہیے…! گھر بنانا ہی سب سے بڑا ‘کام اور کیریئر’ ہے…! میری ماما خود ڈاکٹر ہیں اور بہن شادی سے پہلے استانی رہ چکی ہیں… میرے ذہن میں دونوں اصناف کی ‘حیثیتوں’ کے بارے میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے… دونوں ہی ناگزیر ہیں… ایک دوسرے کیلئے بھی…! اپنے اپنے ‘دائرہ کار’ میں… اب جو کچھ معاشرے میں ہو رہا ہے اس میں ‘صرف’ مغربی تہذیب کی ریشہ دوانیوں کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ مشرق کے مرد بھی اِلّا ماشاءاللہ اتنے قابل ہیں کہ ‘جِتانا’ نہیں بُھولتے جو کچھ وہ گھر کو چلانے کیلئے محنت کرتے ہیں… اس سے عورت کو کمتری کا احساس ستاتا ہے… اور یہ مرد کی کم ظرفی ہی ہے جسکا بہرحال فیمِنِزم علاج نہیں ہے…!
خیر… بات کہاں نِکل گئی… اب جناب رشِید صاحب کا اکاؤنٹ تو بند ہی جا رہا ہے… اُسکی بہن کا اکاؤنٹ مجھے معلوم ہے جو سترہ اٹھارہ سال کی ہے اور اپنے بوائے فرینڈ سے حاملہ ہُوئی پِھر رہی ہے… اُس سے آج تک رشِید کا پُوچھنے کی ہمّت ہی نہیں ہوئی… اللہ اللہ خیر صلہ…!
حافظ روف الرحمن
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جی ہاں فحاشی و عریانی تو مردوں کے ذہن میں ہوتی ہے!
فیس بک پر ایک دوست کے نادر خیالات جاننے کا موقع ملا جو مندرجہ ذیل ہیں .وہ فرماتے ہیں .کہ فحاشی و عریانی عورت کے جسم یا دکھاوے میں نہیں ہوتی بلکہ مردوں کے ذہن میں ہوتی ہے۔۔
محترم صاحب کی اس بات سے متاثر ہو کے میں نے بھی ”روشن خیال ”ہونے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے .اب پہلے ہی مرحلے میں اپنی روشن خیالی کو گھر میں تو نہیں نافذ کرسکتا ، کہ گھر کی عورتوں کو کسی شو پیس کی طرح سر بازار رکھ دوں .کہ تبدیلی تو آہستہ آہستہ ہی آتی ہے .لیکن چند فوری اقدامات اس ذیل میں جو کرنے جارہا ہوں وہ پیش خدمت ہیں۔
نمبرایک:سب سے پہلے تو خواتین کو دیکھ کر جو نظریں جھکا لیا کرتا تھا .اس عادت کو تبدیل کرونگا .کہ ”مفتیان روشن خیالی ” کے مطابق حسن قدرت نے محظوظ ہونے کیلیے بنایا ہے نا کہ اسے دوسروں کی پہنچ سے محفوظ رکھنے کیلئے .سو ہر آدھ ننگی عورت جو گھر سے بن سنور کر نکلی ہی اس نیّت سے ہو کہ وہ اچھی لگے .میں انہیں مایوس نہیں کرونگا .بلکہ ان خواتین کو بھی دیکھنے کی ہر ممکن کوشش کرونگا جو قدرت کے دے ہوۓ شاہکار حسن کو ”تنگ خیالی” کے باعث پردہ میں چھپاۓ رکھتے ہیں .
نمبردو: اپنے ذہن میں آنی والی ہر فحش اور نجس بات کو قلم بند ضرور کیا کرونگا .کیوں کے جسطرح فحاشی عورت کی بے پردگی میں نہیں مرد کے ذہن میں ہوتی ہے .اسی طرح غلاظت میری تحریروں میں نہیں پڑھنے والے کے ذہن میں ہوگی .اور اسکا ذمہ دار ہر گز میں نہیں ………
نمبر تین: اپنی روشن خیالی کو عام کرنے کے لیے پوری شدت سے تاریک خیال لوگوں پر تنقید کرونگا .اور ان کی تنگ نظری کو ہر ممکن پلیٹ فارم سے اجاگر کرونگا.اور حمایت کرونگا پوری شدت سے ہر ایسی تحریک کی جو عورت کے حسن کو پردہ میں رکھنے کے خلاف ہو .جیسے حجاب پر پاپندی کا قانون .وغیرہ .اور میری اس محنت کی شدت سے آپ مجھے ”شدت پسند” نہیں کہہ سکتے کیوں کے میری یہ محنت دریافت کردہ جدید انسانی حقوق کے عین مطابق ہے .اور آپ میری انتہا پسندانہ سوچ کو ”انتہا پسندی” بھی نہیں قرار دسکتے .کیوں کے یہ ان ”انتہا پسندوں” کے خلاف ہے جو عورت کی برہنگی کو فحاشی سمجھتے ہیں .جبکہ فحاشی تو بس دیکھنے والے کے ذہن میں ہوتی ہے ……
آخر میں تمام ”روشن خیال” بھائیوں سے گذارش ہے کہ وہ ضرور اپنی بہن بیٹیوں کی تصویریں اَپلوڈ کریں .صرف روشن خیالی کی تعریف پر اکتفا نا کریں .تا کہ مجھ جیسے نئے روشن خیالوں کی حوصلہ افزائی ہو .اور ہم اس روشن خیالی کو اپنے گھر تک لے جاسکیں….
٭٭٭٭
عورت کی عزت کس نے کی ؟
.
ہم نے یا تم ؟
..
..ٹاک شو میں گرما گرمی ہو گئی …مولوی نے کچھ نازیبا الفاظ کہے ..گزرے برس کا قصہ ، ہنگامہ کھڑا ہو گیا …عورت کی عزت کی دہائی دی جانے لگی – میں ان دنوں اس خاتون کی فیس بک وال پر گیا – وہاں پر ہر طرح کے لوگ موجود تھے – ایسے بھی تھے جو موصوفہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے …
حیرت مگر یہ ہوئی کہ موصوفہ خاتون ان کو جو گالیاں دے رہی تھیں وہ تھذیب سے ماورا تو جو تھیں سو تھیں ..لیکن خود عورت پن کے خلاف تھیں …
جی ہاں ! موصوفہ ان کو ماں بہن کی ننگی گالیاں دے رہی تھیں …میں حیرت زدہ تھا کہ عورت کے حقوق کی پرچارک ، صبح شام چینلز پر عورت عورت عورت کی گردان کر کے نہ تھکنے والی خواتین کو بھی گالی دینے کے لیے عورت ہی نظر پڑی ….
تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو
اصل میں یہ عورت کے محافظ ہیں ہی نہیں …عورت کے بیوپاری ہیں – اس کے بدن کے تاجر ، اس کے جسم کے ساہوکار ، اس کی ادائیں فروخت کر کے روٹی اور بوتل چلانے والے –
آج بات گالی کی ہی ہو جائے ..
…میرا سوال یہ ہے کہ آج تک آپ نے کتنے مولوی دیکھے ہوں گے گالی دینے والے ؟
ہزاروں میں ایک ..جی ہاں ہزاروں بسا اوقات دسیوں ہزاروں میں ایک …دوسری طرف لبرلز کا حال دیکھئے …ان کے ہاتھ میں قوم کی تربیت تھی نا ؟؟
کیا ٹی وی چینل ان کے نہیں ؟
کیا نصاب تعلیم کی ترتیب ان کے ہاتھ میں نہیں ؟
کیا اخبارات اور میڈیا کے آکٹوپس یہ ہی نہیں ؟
کیا انٹرنیٹ پر ان کا راج نہیں ؟
کیا تعلیمی ادارے ان کے پنجہ استبداد میں نہیں ؟
کیا موسیقی کے میدان ، سٹیج ڈارموں کے مجرے ، بازار حسن کی گلیاں ، وہاں کی نازنینوں کے جسم و جان کے پیچ و خم اور گجرے کی کلیاں …سب ان کے کنٹرول میں نہیں ؟؟
تو بتائیے کس نے قوم کی تربیت کی ؟
کیوں نہ سکھایا کہ بیٹا ….
ماں کی گالی نہیں دینی …بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں بہن کی گالی نہیں دینی …. لیکن جو خود عورت کی اتنی عزت کریں کہ ان کو کسی کو برا کہنا ہو ، غصہ آ جائے تو گالی کے لیے ، فرضی بلانت کار کے لیے عورت ہی دکھائی دیتی ہیے ..وہ عورت کی عزت کیا کریں گے ….ہاں میں اس روز منتظر ہی رہا کہ متاثرہ خاتون اپنی وال پر کہیں کہ :
” تمھارے باپ کے ساتھ یہ کیا ”
…ابوبکر قدوسی
٭٭٭٭٭
“خاتون کا لباس ساتر مرد کا حق ہے”، بعض دوستوں کو اس کے معنی سمجھنے میں ابہام لاحق ہوگئے، کچھ نے عجیب و غریب معنی اخذ کرکے سوالات و اشکالات قائم کرنا شروع کردئیے تو کچھ کو اس میں پروپیگنڈے کا شوق پورا کرنے کا سامان بھی مل گیا، وہ بھی “مغربی معروضیت” کے پردوں میں۔ اصل بات کی طرف آئیے اور درج ذیل سوالات پر غور کیجئے:
– غیر محرم کے سامنے عورت پر کسی خاص قسم کے لباس کی پابندی لازم ہے یا نہیں؟ سوال اسلام کی رو سے پوچھا جارہا ہے (ممکن ہے کوئی مغربی اصولوں سے حقوق کا تعین کرتا ہو تو ان کے یہ خیالات حجت نہیں)
– اگر ایسی کوئی پابندی ہے تو اسے ڈیوٹی (duty) کہتے ہیں یا نہیں؟ (ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ تو “شرعی حکم” ہے، ہم یاد دلائیں گے کہ ڈیوٹی ہوتی ہی وہی ہے جو حکم شرع مقرر کرے)
– اب اگر یہ واقعی ڈیوٹی ہے تو کس کی؟
– اور اگر یہ کسی کی ڈیوٹی ہی ہے تو یہ غور کیجئے کہ اس ڈیوٹی کا corresponding right کس سے متعلق ہے؟
تو دوستو یہ تو ایک موٹی سی بات ہے کہ حق سے متعلق کسی کا فرض ہوتا ہے اور فرض سے متعلق کسی کا حق۔ اس میں ایسی کونسی سائنس ہے جسے سمجھنا مشکل ہے؟
درج بالا تفصیل اپنے معنی پر بالکل واضح ہے لیکن اس کے بعد بھی لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ یہ تو تم نے بتایا ہی نہیں کہ مرد کا یہ حق کس آیت میں لکھا ہے؟ حیرت اس امر پر ہے کہ یہ سوال وہ دوست بھی پوچھ رہے ہیں جنہیں یہ قبول ہے کہ “نامحرم کے سامنے لباس ساتر پہننا عورت پر شرعا لازم ہے”۔ یعنی کہ
– ایک طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نامحرم مرد کا حق ہے کہ عورت اس کے سامنے مخصوص لباس پہنے
– اور دوسری طرف سوال کئے چلے جارہے ہیں کہ یہ حق کیسے ثابت ہوا؟
کم از کم سوچ تو لیجئے کہ کیا کہہ رہے ہو؟ چنانچہ اس گفتگو میں یہ مقدمہ ثابت کرنے کے لئے کہ “خاتون کا لباس ساتر (نامحرم) مرد کا حق نہیں ہے” آپ کے پاس یہی آپشن ہے کہ آپ یہ دعوی جڑ دیں کہ نامحرم کے معاملے میں اسلام نے عورت پر کسی قسم کے لباس کی پابندی عائد ہی نہیں کی (ہمت کیجئے اور وہ بات کہئے جو دل کے قریب ہے)۔
آخری بات: اتنا ہی نہیں ہے کہ درج بالا تفصیل کی رو سے عورت کا لباس ساتر مرد کا حق ہے بلکہ یہ بات بھی درست ہے کہ مرد کا لباس ساتر بھی عورت کا حق ہے۔
یہ مقدمہ کہ جنس مخالف کا لباس ساتر مرد و عورت کا حق ہے، حکمت وغیرہ کے دیگر پہلووں سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے، یہاں اسے “کم از کم” پہلو (minimalist sense) میں موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شعور لباس
کچھ امور “آٹو پائلٹ” (auto pilot) پر رکھنے کے ہوتے ہیں۔ جسم کا کونسا حصہ، کس سے اور کس قدر چھپانا ضروری ہے، یہ ایک “احساس” کا نام ہے نہ کہ محض کسی عقلی یا فکری قضیے کا۔ احساس قائم کرنے کے لئے “عملی تعلق” استوار کرنا لازم ہوتا ہے۔ چنانچہ شعور لباس، محض کتاب میں لکھی کسی عبارت کو پڑھ لینے یا کسی جملے کو چند بار سن لینے سے حاصل نہیں ہوجایا کرتا، بلکہ یہ بچپن کی سماعت متواترہ و عملی تواتر سے حاصل ہوتا ہے اور یہ شعور فراہم کرنے کی ذمہ داری اصلا والدین کی ہے۔ ہمارے اردگرد یہ جو عریاں و بیہودہ لباس پہنے بچے و بچیاں گھومتے دکھائی دیتے ہیں، تو اس کا وبال انکے والدین کے سر پڑنے والا ہے اگر وہ اس ضمن میں اپنی ذمہ ادا نہیں کررہے، کیونکہ اپنے بچپن کی ٹریننگ کے سبب ان کی ایک اکثریت اسی لباس کو “نارمل” سمجھنے لگتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ ان کا “آٹو پائلٹ” ہی غلط سیٹ ہوچکتا ہے۔ خدا کی سکیم یہ ہے کہ اس نے ایک نسل کو دوسری نسل کے ساتھ متصل پیدا کیا ہے تاکہ ہر نسل اگلی نسل تک حق منتقل کرنے کا ذریعہ بن سکے۔ جو اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتا وہ خدا کی سکیم کو ناکام بنانے میں حصہ داربن جاتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد، یہ تمہارے لئے آزمائش کا سامان (فتنہ) ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر شخص اپنی رعایا کے لئے ذمہ دار ہے۔
٭٭٭
“شوہروں کو بیویوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہے” کے اصلاح طلب پہلو
یہ بات درست ہے کہ مرد کو قوام کی حیثیت میں بعض صورتوں میں اس کی اجازت ہے، مگر درج ذیل پہلووں کا خیال رکھنا اور ان پر عمل کرنا بھی نہایت ضروری ہے:
1) اسکی صرف “اجازت” ہے، یہ کوئی فرض، سنت یا مستحب نہیں کہ جسے زندگی میں ایک آدھ دفعہ کرنا شرع کو مطلوب ہو۔
2) اسوہ حسنہ ﷺ میں اس اجازت کو استعمال کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پس مؤمن مردوں کو چاہیے کہ اس معاملے میں بھی وہ سرکار دوعالمﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنائیں
3) اس اجازت کا معمولی نوعیت کی باتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یعنی مثلا سالن میں نمک کم ڈالا، صبح و شام داروغا کی طرح مسلط ساس کے ساتھ زبان درازی جیسے امور کے ساتھ اسکا کوئی تعلق نہیں۔ جب شارع نے سالن روٹی پکانے اور ساس سسر کی خدمت کرنے کی ذمہ داری بیوی پر عائد ہی نہیں کی تو بھلا انکی آڑ میں بیوی پر ہاتھ اٹھانے کا کیا شرعی جواز؟
4) یہ مار بھی ہلکی پھلکی ہے جس کا مقصد سخت ایذا دینا نہیں۔ کسی بڑی عمر کے انسان پر معمولی نوعیت کا ہاتھ اٹھالینا بذات خود سخت ترین ناراضگی و سزا کا اظہار ہوتا ہے۔ پس سخت ضرورت میں بھی اس کی نوعیت کم سے کم ہونی چاہئے نہ یہ کہ مار مار کر عورت کو زخمی کردیا جائے۔ واللہ عورت کے ساتھ اس حیوانی سلوک کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں
5) اس اجازت کا استعمال کوئی “مستقل مزاجی کے ساتھ بطور اسٹائل” اپنانے والی چیز نہیں کہ گویا “یہ تو میرا سٹائل ہے بیوی کو کنٹرول کرنے کا”، بلکہ طلاق تک نوبت پہنچنے سے قبل کسی نہایت سرکش بیوی کی اصلاح کی ایک آخری وقتی تدبیر ہے کہ شاید اس خوف سے گھر ٹوٹنے سے بچ سکے۔ اگر یہ کارگر ثابت ہو جائے تو پھر اسکے مسلسل استعمال کا کوئی جواز نہیں۔ اگر یہ خوف ہو کہ ہاتھ اٹھانے کی صورت میں جو معاملہ طلاق تک نہیں پہنچنا تھا وہ بھی وہاں تک پہنچ جائے گا تو پھر ایسی صورت میں ہاتھ اٹھانا خلاف حکمت ہے۔
6) یہ اجازت بتدریج ہے؛ پہلے نصیحت، پھر ناراضگی و بے رخی کا آخری درجے میں اظہار اور پھر ہاتھ اٹھانا۔ یہ تماشا نہیں ہونا چاہئے کہ ادھر ہر روز مار پیٹ بھی چل رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کی تعداد میں اضافہ بھی جاری ہے۔ گویا بستر سے الگ بھی نہیں کرنا اور مارتے بھی رہنا ہے۔ یہ رویہ اپنے غصے کی تسکین کے لئے شرع کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے
7) یہ اجازت اسے ہے جو پہلے خود قوامیت کی شرائط پوری کررہا ہو۔ یہ نہیں کہ خاوند صاحب محنت سے جی چرا کر گھر بیٹھے ہوں مگر جب بیوی گھر کا خرچ نہ ملنے پر لڑائی کرے تو اٹھ کر مارنا شروع کردیا؛ خود تو آوارگی کی راہ پر چل رہے ہیں اور بیوی نے اسکا طعنہ دے دیا تو “بدزبان” کا لیبل لگا کر مار دھاڑ شروع۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ریاست کا سربراہ اپنے اوپر عائد رعایا کی ذمہ داریاں تو پوری نہیں کررہا، ہاں جیسے ہی رعایا نے اپنے جائز حقوق کے لئے آواز اٹھائی پہنچ گیا ان پر “اپنی رٹ قائم کرنے”۔
٭٭٭٭٭
مساوات مرد و زن کا ڈھونگی نظریہ
آجکل ٹی وی پر “خاموشی” نام کی ایک ڈرامہ سیریل چل رہی ہے جس میں ایک بے حس باپ و بہن بھائی اور مجبور ماں کا کردار دکھایا گیا ہے۔ باپ اپنی کم آمدن کے سبب اپنی ایک بیٹی کو اپنے کسی بہت امیر کزن (جو لڑکی کا چاچا کہلاتا ہے) کے یہاں گھرداری کے لئے بعوض 30 ھزار روپے ماھوار مستقل ملازمہ کے طور پر بھیج دیتا ہے۔ چاچا تو اچھا دکھایا ہے مگر اس کی بیوی انتہائی بداخلاق و بد خو دکھائی گئی ہے جو اس لڑکی کو کام کاج کے معاملے میں سختی کے ساتھ نوکرانیوں کی طرح ٹریٹ کرتی ہے اور چاچا بیگم صاحبہ کے آگے مجبور و بے بس ہیں۔ جہاں ایک طرف لڑکی مظالم و تکالیف سہہ رہی ہے تو دوسری طرف دکھایا جارہا ہے کہ اس کے گھر والے اس کے پیسوں پر عیاشیاں اور اپنی دیرینہ خواہشات پوری کررہے ہیں۔ لڑکی کی ماں کو اگرچہ یہ سب پسند نہیں مگر وہ بیٹی کے سامنے اپنی مجبوریوں کا رونا رو کر اسے کام جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی رہتی ہے۔ یہ تمام تر مناظر اس طور دکھائے جاتے ہیں کہ کس طرح پورا گھر مل کر لڑکی کا استحصال کرکے اسکی کمائی کو لوٹ رہے ہیں۔
یہ سب دیکھتے ہوئے میرا ذھن اس طرف گیا کہ اس کیس میں اگر لڑکی کی جگہ ایک مرد یا لڑکے کو رکھ دیا جائے تو یہاں جو کچھ دکھایا جارہا ہے وہ ہمارے یہاں کا ایک نارمل معاملہ ہے، یعنی یہ تقریبا ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے کہ ایک مرد گھرانے کی ضروریات و خواہشات پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی مشکلات و تکالیف سہہ کر (بسا اوقات دیار غیر کے دھکے کھا کر) کماتا ہے اور اس میں ہمیں استحصال کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہمارا معاشرتی نظام اس امر کو مرد کی ذمہ و فرض قرار دیتا ہے (اور بجا طور پر ایسا کرتا ہے)۔
اب اس سب کو سامنے رکھئے اور مرد و زن کی مساوات پر یقین رکھنے والوں پر غور کیجئے۔ بھائی اگر دونوں برابر ہیں تو پھر ایک لڑکی کے مال پر گھر والوں کے مزے کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ اگر لڑکا کھلے دل و ذمہ داری کے ساتھ یہ سب کرسکتا ہے تو لڑکی کیوں نہیں؟ لڑکی کو اس کی ٹریننگ کیوں نہیں دی جارہی؟ اس کے اندر یہ احساس کیوں پیدا کرتے ہو کہ اگر تمہارے گھر والے تمہاری آمدن استعمال کریں تو یہ نا انصافی ہے؟ اور اگر لڑکی کے معاملے میں یہ استحصال و بے حسی کا مظاہرہ ہے تو لڑکے کے لئے کیوں نہیں؟ یا پیمانہ ایک رکھو اور یا پھر مساوات کے اس ڈھونگی نظرئیے کو ترک کرو۔ یہ میٹھا میٹھا ھپ ھپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کا کیا معاملہ اختیار کررکھا ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭
ہم feminism کے اس دور میں جی رہے ہیں جہاں حد درجہ میچور اور ویل اویر خواتین کے لیے “ہم پلہ” میچور حضرات میسر نہیں ہیں!
لڑکیوں کی شادی کی مثال سامنے ہے. خواتین کے حوالے سے شعور میں اتنی بہتری آئی ہے کہ کم از کم تعلیم یافتہ سلجھے ہوے گھرانوں میں شادی کے وقت والدین لڑکیوں سے ڈسکس بھی کرتے ہیں. اور آج کی ماؤں کو اندازہ ہونے لگا ہے کہ ان کی بیٹی کو کس قسم کے بندے کی خواھش ہے. لڑکیاں پڑھ لکھ رہی ہیں تو کسی نہ کسی طرح اظہاربھی کردیتی ہیں اور عملا توقع بھی کر رہی ہوتی ہیں کہ نئے اور سب سے اہم تعلق میں ان کا ساتھی ان کی سوچ کو، شخصیت کو ان کی جذباتی اور دوسری خواہشات اور ضروریات کو سمجھے بھی اور ان کا خیال بھی رکھنے کی کوشش کرے.
مسلہ یہ ہے کہ لڑکوں کے والدین ابھی اپنے لڑکوں سے اتنی باتیں نہ کرتے ہیں اور نہ لڑکوں کو خود بھی اندازہ ہوتا ہے، اور نہ وہ اس کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ اس طرح کی سوچ کے ساتھ آنے والی ساتھی کے ساتھ وہ کس طرح ڈیل کریں گے اور اس کے لیے اور خود اپنے گھر والوں اور ماحول کے لیے کس طرح جگہ بنانے کی کوشش کریں گے.کیونکہ عموماً لڑکے تو گھر کے معاملات میں انوالو ہی شادی کے بعد اس وقت ہوتے ہیں جب دو خواتین فریقین کی جانب سے شکوے شروع ہوتے ہیں۔
ان سارے حقوق کے نعروں اور آئیڈیلزم کے حسین تصوارت کے بیچ جو چیزیں ناقابل تغیر ہیں وہ دونوں فریقین کے “مسستقل” نوعیت کے مطالبات ہیں.
لڑکے کواس طرح کی اعلی فکر اور آدرشی ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیم یافتہ، بہترین جاب اور تنخواہ کا حامل، ذاتی گاڑی و گھر کا مالک یا مستقبل قریب میں حتمی ملکیت کا یقین، خوش شکل اور “رومانٹک” ہونا چاہیے.
لڑکی کو “ایڈ جسٹنگ،” صلح جو، نرم خو، مل جل کر رہنے والی، محبت کرنے والی ہونے کے ساتھ ساتھ کم عمر، نازک اندام، حسین صورت، دلربا ، سوسایٹی میں اٹھنے بیٹھنے کے قابل تو لازمی ہونا ہی چاہیے!
میں کافی عرصے سے سمجھنا چاہ رہی ہوں کہ یہ ملغوبہ ہے؟ تضاد ہے؟ مذاق ہے؟ یا پھر ان ساری گفتگوؤں کو سننے کے بعد یہ کہہ کر اٹھ جایا کروں کہ
” تو پھر ہم “نہ” ہی سمجھیں؟”
جویریہ سعید
٭٭٭٭٭
٭٭٭
2010 کی ایک رپورٹ کا لنک ہے جس میں مغربی دنیا میں عورتوں پر ہونے والے تشدد کا سروے کیا گیا ہے۔ اس میں جان ہارنے والی بیچاریوں کی اکثریت ان بدنصیبنوں کی ہے، جن کی زندگی کا چراغ بواے فرینڈز کے ہاتھوں گل ہوا۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کون سے محمد خان شیرانی کے بیانیے نے یہ صورت حال پیدا کی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مغرب ہو یا مشرق، آج کے دور کے انسان کے ایمان کا جوہر پامال ہے، جس کے باعث اس کا اخلاق تباہ ہے۔ اللہ کے تعلق اور آخرت کی باز پرس کے احساس سے دل محروم ہے جس کے یہ سب نتائج ہیں۔
حافظ صفوان صاحب نے کشور ناہید کی ایک آزاد نظم شیئر کی تھی اہل جبہ کے خلاف۔ وہاں بندے نے یہ کمنٹ کیا کہ مولویوں کو اپنی بیویاں اتنی عزیز ہوتی ہیں کہ بس شاہ جہاں اتنی دولت پاس نہیں ہوتی کہ ان کی خاطر تاج محل بنوا سکیں۔
-سید متین احمد
٭٭٭
٭٭٭
فیس بک پر ایک دوست کے نادر خیالات جاننے کا موقع ملا جو مندرجہ ذیل ہیں .وہ فرماتے ہیں .کہ فحاشی و عریانی عورت کے جسم یا دکھاوے میں نہیں ہوتی بلکہ مردوں کے ذہن میں ہوتی ہے۔۔
محترم صاحب کی اس بات سے متاثر ہو کے میں نے بھی ”روشن خیال ”ہونے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے .اب پہلے ہی مرحلے میں اپنی روشن خیالی کو گھر میں تو نہیں نافذ کرسکتا ، کہ گھر کی عورتوں کو کسی شو پیس کی طرح سر بازار رکھ دوں .کہ تبدیلی تو آہستہ آہستہ ہی آتی ہے .لیکن چند فوری اقدامات اس ذیل میں جو کرنے جارہا ہوں وہ پیش خدمت ہیں۔
نمبرایک:سب سے پہلے تو خواتین کو دیکھ کر جو نظریں جھکا لیا کرتا تھا .اس عادت کو تبدیل کرونگا .کہ ”مفتیان روشن خیالی ” کے مطابق حسن قدرت نے محظوظ ہونے کیلیے بنایا ہے نا کہ اسے دوسروں کی پہنچ سے محفوظ رکھنے کیلئے .سو ہر آدھ ننگی عورت جو گھر سے بن سنور کر نکلی ہی اس نیّت سے ہو کہ وہ اچھی لگے .میں انہیں مایوس نہیں کرونگا .بلکہ ان خواتین کو بھی دیکھنے کی ہر ممکن کوشش کرونگا جو قدرت کے دے ہوۓ شاہکار حسن کو ”تنگ خیالی” کے باعث پردہ میں چھپاۓ رکھتے ہیں .
نمبردو: اپنے ذہن میں آنی والی ہر فحش اور نجس بات کو قلم بند ضرور کیا کرونگا .کیوں کے جسطرح فحاشی عورت کی بے پردگی میں نہیں مرد کے ذہن میں ہوتی ہے .اسی طرح غلاظت میری تحریروں میں نہیں پڑھنے والے کے ذہن میں ہوگی .اور اسکا ذمہ دار ہر گز میں نہیں ………
نمبر تین: اپنی روشن خیالی کو عام کرنے کے لیے پوری شدت سے تاریک خیال لوگوں پر تنقید کرونگا .اور ان کی تنگ نظری کو ہر ممکن پلیٹ فارم سے اجاگر کرونگا.اور حمایت کرونگا پوری شدت سے ہر ایسی تحریک کی جو عورت کے حسن کو پردہ میں رکھنے کے خلاف ہو .جیسے حجاب پر پاپندی کا قانون .وغیرہ .اور میری اس محنت کی شدت سے آپ مجھے ”شدت پسند” نہیں کہہ سکتے کیوں کے میری یہ محنت دریافت کردہ جدید انسانی حقوق کے عین مطابق ہے .اور آپ میری انتہا پسندانہ سوچ کو ”انتہا پسندی” بھی نہیں قرار دسکتے .کیوں کے یہ ان ”انتہا پسندوں” کے خلاف ہے جو عورت کی برہنگی کو فحاشی سمجھتے ہیں .جبکہ فحاشی تو بس دیکھنے والے کے ذہن میں ہوتی ہے ……
آخر میں تمام ”روشن خیال” بھائیوں سے گذارش ہے کہ وہ ضرور اپنی بہن بیٹیوں کی تصویریں اَپلوڈ کریں .صرف روشن خیالی کی تعریف پر اکتفا نا کریں .تا کہ مجھ جیسے نئے روشن خیالوں کی حوصلہ افزائی ہو .اور ہم اس روشن خیالی کو اپنے گھر تک لے جاسکیں….
٭٭٭٭
مغربی اقوام اخلاقی تنزل کے باوجود اتنی ترقی کیسے کررہی ہیں ؟ مغربی تہذیب اتنی غیر معمولی، زوردار اور متحرک کیسے ہے جب کہ وہاں ، زنا، ہم جنس پرستی، ، اقدار سے منحرف اور زبردست معاشرتی برائیوں کا شکار ہورہی ہے ۔
1۔یہ حقیقت ہے کہ جب اخلا قی زوال، خودپرستی کا عمل اور جنسی آزادی انتہا تک پہنچ جائے، جب مرد اور عورت، نوجوان اور بوڑھے جنسی لذت میں کھو جائیں تو اس کا فطری نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ قوم مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہے۔ لوگ بظاہر ان قوموں کی سیاسی ، معاشی ترقی اور خوشحالی کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن یہ بہت بڑی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوتے ہیں ۔
2۔جب تعمیری اور تخریبی قوتیں ایک ساتھ کام کررہی ہوں اور مجموعی طور پر تعمیری قوت، تخریبی قوت پر برتری رکھتی ہو تو تخریب کو بھی تعمیری عوامل میں شمار کرنا درست نہیں ہوتا ۔مثال کے طور پر ایک کامیاب بزنس مین جس نے اپنی ذہانت اور تجربے کے سہارے اعلیٰ منافع حاصل کیا ہو، وہ ساتھ ساتھ شراب پینے ، جوا کھیلنے اور اپنی زندگی کے معاملات سے لاپروا ہونے لگ جائے تو یہ اس کی فلاح و بہبود اور خوش حالی کے لیے اپنی زندگی کی جانب سے تباہ کن ہی ہوگا۔ اس کی معاشی کامیابی جس سے اسے مدد مل رہی ہوتی ہے ، یہ اعمال اسے تیزی سے نیچے کی طرف ہی لا رہے ہوتے ہیں ۔ مثبت خصوصیات کی وجہ سے بظاہروہ اگر پھل پھول رہا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ منفی قوتیں اس پر اثرانداز نہیں ہورہی ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ جوئے کی شیطانی لت ایک لمحے کے لیے اس کی زندگی میں خوش قسمتی لے آئے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شراب پینے کی عادت کیوجہ فیصلہ کرنے میں ایک مہلک غلطی اسے مکمل دیوالیہ کردے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنسی بے اعتدالی اسے قتل، خودکشی یا کسی اور مصیبت میں گرفتار کردے۔ یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ کس طرح کامیاب خوش حال لوگ ان برائیوں کا شکار ہو کر تباہ ہوئے ہیں ہیں۔
اسی طرح کا معاملہ ایک قوم کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ابتدا میں قوم تعمیری قوتوں کے ساتھ سفر کرتی ہے لیکن اس کے بعد مناسب رہنمائی کی کمی، اس کے چاروں جانب اس کی اپنی تباہی کے اسباب جمع کرنا شروع کردیتی ہے۔ کچھ عرصے کے لیے تعمیری قوتیں پہلے ہی سے حاصل شدہ قوتوں کے ساتھ جِلا پاتی رہتی ہیں، پھر ایک وقت آتا ہے کہ تخریبی قوتیں جو اس کے ساتھ کام کررہی ہوتی ہیں وہ اسے اتنا کمزور کردیتی ہیں کہ معمولی سا جھٹکا بھی سارے نظام کو زمین بوس کردیتا ہے۔
مریم جمیلہ
٭٭٭٭
لبرل بھائی جانز!
آج نیوز فیڈ میں ایک پوسٹ میری سائٹ میں آیا۔
اس میں سارے ورلڈ کی ساری کنٹریز میں سے ٹاپ ٹین کنٹریز کی ریپ کرائم رینکنگ شو کی گئی تھی۔
مطلب جو کنٹریز ریپ کرنے میں ٹاپ ٹین ہیں ۔
ان کے نیمز دیکھ کے آئی واز شاکڈ۔
ڈ یو نو کون سے کنٹریز تھے
ان میں یونائیٹید سٹیٹس کا نام بھی تھا اور سکنڈے نیوین کنٹریز بھی
بیلجیئم، ڈنمارک، سویڈن بھی ، جرمنی اور نیوزی لینڈ بھی اور اسرائیل کا تو نام بھی مت لو وہ تو ہمارا پکا دشمن ہے اور
ورلڈ کی سب بگگسٹ ڈیموکریسی انڈیا بھی ۔ (ایل او ایل)
پھر میں نے ان کنٹریز کا تھوڑا اور ڈیٹا ڈگ اپ کیا تو آئی واز شاکڈ اگین۔
میں نے دیکھا کہ پر ہیپس ان کنٹریز میں ویمن کو جینز پہننے کی پر مشن نہ ہو۔ بٹ وہاں تو ان کو اوپن پبلک میں جینز اتارنے کی بھی فل پر مشن ہے۔
اگین میں نے سوچا شاید وہاں گرلز اینڈ بوائز کے سکولز سیپریٹ ہوں ۔ لیکن وہاں تو مانٹیسوری سے ڈاکٹریٹ تک سب کا سب مکسڈ ہے۔
آئی تھاٹ کہ گرلز کا ریسیپشن پر بیٹھنا الاؤڈ نہیں ہوگا ۔ لیکن بھائی جانز ادھر تو ان کو باس کے ریٹائرنگ روم میں لیٹنے کا بھی فل ٹائم پر میشن ہے۔
مے بی ان کنٹریز میں پورٹی کا لیول بہت ہائی ہوگا جس سے لوگوں میں فرسٹریشن انکریز ہوتی ہو گی بٹ یو نو ایسا بھی کچھ نہیں۔
مے بی ان کنٹریز میں مولوی لوگز کے مدرسے ایگزسٹ کرتے ہوں جو اپنے سٹوڈنٹس کو بچپن میں کنزرویٹیو اور دقیانوسیز بنا دیتے ہوں اور وین دے گرو اولڈر وہ ریپسٹ بن جاتے ہوں۔ ارے لبرل بھائیز ایسا بھی ان کنٹریز میں کچھ نہیں بی کاز ان میں سے موسٹلی ڈونٹ بی لیو ان ری لیجن۔
ون مور تھنگ کہ بہت سے لوگز ریپ ریٹ کو کم کرنے میں اپنے کنٹریز کو پورا کنٹریبیوشن دیتے ہیں ۔ لائیک۔ ریلیشن شپ سے، گوئنگ آؤٹ سے، پراسٹیچیوشن سے ۔ ان کی پوری ٹرائی ہوتی ہے کہ اس کھیل کو ریپ کے اکاؤنٹ میں نہ لکھا جائے اس کے با وجود بھی اتنے کیس ہو جاتے ہیں جن کو بائی آل مینز ریپ ماننا ہی پڑتا ہے۔
ایوین سکول گوئنگ گرلز کی ماماز ان کے بیگز میں پروٹیکٹیو مئیرز رکھنا بالکل بھی نہیں بھولتیں۔ اب اس سے آگے تو لبرل ازم کی کون سی فارم ہوگی ۔ آئی ڈونٹ نو۔
اب ایک اور بات بتاؤں؟
میرے مائنڈ میں سڈنلی ایک اور بات آئی ہے ۔
اپنے کیپٹن نے بھی ونس یہی کہا تھا کہ سکینڈے نیوین کنٹریز میرا رول ماڈل ہیں ۔ اینڈ میں پاکستان کو اسی لائنز پر دیکھنا چاہتا ہوں۔
پھر لاسٹ ایئر اس نے اسی لائنز پر کچھ ڈیمو بھی دیئے ۔
لبرل بھائی جانز
باقی سب تو ٹھیک ہے ، پاکستان کو لبرل بنانے میں کوئی پرابلم نہیں بس میرا ایک کوئسچن ہے کہ کیا اس کا کوئی سلوشن ہے کہ یہ پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا لوگ اس لبرل ازم کی پبلک میں سٹرپنگ نہ کریں؟
بس یہ لبرل ازم کا فیس بہت گندا کرکے پبلک کو دکھاتے ہیں قسم سے وومٹنگ ہونے لگتی ہے۔
اکرام اعظم