اسلام نے عورت اور مرد میں سے طلاق کا غیر مشروط حق صرف مرد کو دیا ہے کہ وہ جب چاہے عورت کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کر دے۔ اگرچہ بلاوجہ طلاق کو شریعت میں سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کو مباح امور میں مبغوض ترین چیز قرار دیا ہے لیکن گناہ اور ناپسندیدہ ہونے کے باوجود مرد کو یہ حق بہرحال حاصل ہے کہ وہ اگر طلاق دے تو اس سے دونوں میں نکاح کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ عورت کو براہ راست اور غیر مشروط طلاق کا حق اسلام نے نہیں دیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے اس حوالہ سے کوئی حق ہی سرے سے حاصل نہیں ہے بلکہ اسے اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر اسے خاوند سے کوئی جائز شکایت ہے تو وہ شرعی عدالت یا تحکیم کی صورت میں ثالثی کونسل سے رجوع کرے اور ان دونوں اداروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اگر بیوی کی شکایت کو درست سمجھیں اور نباہ کی کوئی صورت قابل عمل نہ نظر آئے تو اس نکاح کو فسخ کر کے میاں بیوی میں تفریق کر سکتے ہیں۔ گویا فرق یہ ہے کہ مرد کو طلاق کا حق براہ راست حاصل ہے مگر عورت کو یہ حق بالواسطہ دیا گیا ہے اور خاندانی نظام کی وحدت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ترجیح ضروری اور لازمی ہے۔
اسے آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اگر دونوں فریقوں کو مساوی حقوق اور اختیارات دیے جائیں گے تو نظام نہیں چلے گا اور روز مرہ جھگڑوں اور خاندانی نظام کے ٹوٹنے کا خطرہ رہے گا۔ جس کا تلخ تجربہ مغربی معاشرہ میں ہم کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ گھریلو نظام کو صحیح طور پر چلانے کے لیے دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے کر اس کی بالادستی قائم کرنا ہوگی۔ یہ ترتیب اور ترجیح صرف خاندانی نظام میں ہی ضروری نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی نظام یا کسی ادارے کے سسٹم میں دو افراد کو برابر کے اختیارات دے کر بٹھا دیں تو اس کا حشر وہی ہوگا جو مغربی معاشرہ میں خاندانی نظام کا ہو چکا ہے۔
مغرب نے سوسائٹی کی سوچ اور خواہشات کو ہی حق و باطل کا واحد معیار قرار دے رکھا ہے وہاں شراب، زنا اور ہم جنس پرستی جیسی واضح خرابیوں کو صرف اس لیے قبول کر لیا گیا ہے کہ سوسائٹی کی اجتماعی سوچ اور خواہش یہی ہے۔ اب مغربی ملکوں میں ہیروئن جیسے نشوں کے بارے میں یہ مطالبات شروع ہوگئے ہیں کہ چونکہ سوسائٹی اسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں اس لیے اس کا قانونی جواز فراہم کرنے کے راستے تلاش کیے جائیں۔ مغرب نے شادی کو بھی محض ایک ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ قرار دے کر مذہبی تقدس اور آسمانی تعلیمات کی نگرانی سے محروم کر دیا اور اس کنٹریکٹ کے دونوں فریقوں کو مساوی حقوق دے کر دنیا کو یہ بتایا کہ ہم نے مرد و عورت کے درمیان مساوات قائم کردی ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیملی سسٹم اور خاندانی نظام مغربی معاشرہ میں تتربتر ہو کر رہ گیا . مغربی مرد اب شادی سے پہلے اور بعد کے اخراجات اور ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ اتنا خرچہ اور حقوق کی ذمہ داری اٹھاکے عورت کے ساتھ وفا کرکے اپنی ساری زندگی گزارنے کو کوئی کیسے تیار ہو جب اسے یقین ہو کہ عورت کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اسے جھوٹا کہہ دے اور پل بھر میں اسے طلاق دے کر کسی اور کے ساتھ جاسکتی ہے۔ پھر عورت ایک وقت کے کھانے جتنی سستی دستیاب ہو ، شادی کے بغیر بھی اکٹھے رہا جاسکتا ہو تو یہ بے خدا نسل شادی کے بکھیڑے ہی کیوں پالے ؟ شادی کے بغیر بھی ہر کام ہوسکتا اور ہر خواہش پوری کی جاسکتی ہے تو اس کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت کیا ہے
لطف کی بات یہ ہے کہ خاندانی نظام کے تحفظ کی بات اقوام متحدہ کا چارٹر بھی کرتا ہے اور خاندان کو ہی معاشرے کی بنیادی اکائی قرار دیتا ہے، لیکن اس نے خاندانی نظام کے لیے جو بنیادیں فراہم کی ہیں وہ نظم اور اجتماعیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بجائے فردیت (individualism) کو اس کے مقابلہ میں فروغ دیتی ہیں۔ اسلام کے نظام اور مغرب کے فلسفہ میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ اسلام اجتماعیت کی بات کرتا ہے اور اس اجتماعیت کے تحفظ کے لیے، خواہ وہ خاندان کی سطح پر ہو یا سوسائٹی کی سطح پر ہو، فرد پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فرد پابندیاں قبول نہیں کرے گا اور ہر جگہ فردیت کو بالاتر رکھنے کی کوشش کی جائے گی تو اجتماعیت کسی سطح پر بھی قائم نہیں ہو سکے گی اور نظم و ڈسپلن کہیں وجود میں نہیں آپائے گا۔
خاندانی نظام اپنے وجود اور استحکام دونوں کے لیے فرد پر پابندیوں کو ضروری قرار دیتا ہے اور باہمی رشتوں کا تقدس اور احترام بھی انہی پابندیوں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ اگر فرد اپنی خواہشات پر قدغنیں قبول نہیں کرے گا اور ناگزیر پابندیوں کو آزادی کے حق کے منافی سمجھنے لگے گا تو نہ خاندان وجود میں آسکتا ہے اور نہ ہی رشتوں کا وہ تقدس اور احترام قائم رہ سکتا ہے جسے اسلام نے صلہ رحمی کی بنیاد قرار دیا ہے۔
زاہد الراشدی