کسی عورت کو اس کا شوہر تین بار طلاق دے دے تو وہ اس پر حرام ہوجاتی ہے اب وہ چاہے بھی تو اسکے ساتھ دوبارہ شادی نہیں کرسکتا ۔اسلام اس مطلقہ عورت کو آزادی دیتا ہے کہ وہ بے نکاحی ہوکر گھر نہ بیٹھ رہے، بلکہ دوسری شادی کرے ۔ اگر عورت کا دوسرے شوہر سے بھی نباہ نہ ہوسکے یا شو ہر مرجائے تو وہ اسکے بعد بھی نکاح کر سکتی ہے _ اسے آزادی ہے کہ وہ چاہے کسی تیسرے مرد سے نکاح کرے یا چاہے تو پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرلے۔ اس معاملے میں اسلام نے عورت کی عزّت نفس کا خیال رکھا ہے پہلا شوہر اس سے زبردستی نکاح نہیں کرسکتا، عورت کی مرضی ہو تبھی اسے نئے مہر کے ساتھ اپنے نکاح میں لے سکتا ہے، عورت کا دوبارہ اس طرح پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجانے کو حلالہ کہتے ہیں۔ھر اگر وہ اسے(تیسری مرتبہ) طلاق دے دے تو اب وہ اس کے لیے حلال نہیں جب تک وہ عورت اس کے سوا کسی اور سے نکاح نہ کرے۔ (سورۃ البقرہ، آیت230) ۔ معلوم ہوا کہ حلالہ عورت کی عزّت کی پامالی اور اس کے بنیادی انسانی حقوق کی نفی نہیں، بلکہ ان کی حفاظت ہے ۔ ہاں اگر دوسرا نکاح اس شرط پر کیا گیا ہو کہ دوسرا شوہر اسکو لازمی طلاق دے گا تاکہ وہ دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کرسکے سخت گناہ ہے، حدیث میں ایسا کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے ۔
تین طلاقوں کے بعد اسی مرد کو دوبارہ نکاح کی اجازت نا دینے کی حکمت کیا ہے ؟ :
جب تیسری طلاق کی نوبت آ پہنچے تو اب یہ وہ طلاق ہے کہ جس کے بعد خدا کا یہ حکم ہے کہ اس مرد کا رجوع اس تین طلاق دی ہوئی عورت (مطلقہ ثلاثہ) سے نہیں ہوسکتا، اس لیے جانبین (میاں بیوی) کو کہا جاتا ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق تک توتمہارا رجوع آپس میں ممکن تھا، اب تیسری طلاق کے بعد رجوع نہ ہوسکے گا، تو اس قانون کے مقرر ہونے سے وہ دونوں سدھر جائیں گے، کیونکہ جب مرد کو یہ تصور ہوگا کہ تیسری طلاق اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان بالکل جدائی ڈالنے والی ہے تو وہ طلاق دینے سے باز رہے گا، کیونکہ جب شوہر کو اس بات کا علم ہوگا کہ اب تیسری طلاق کے بعد یہ عورت مجھ پر دوسرے شخص سے شرعی نکاح ،پھر طلاق اور عدت کے بغیر حلال نہ ہوسکے گی، اور پھر دوسرے شخص سے اس عورت کے نکاح کا ٹوٹنا بھی یقینی نہیں ،اور دوسرے نکاح کے بعد بھی جب تک دوسرا خاوند اس کے ساتھ صحبت نہ کرچکے ،اور اس کے بعد یا تو دوسرا خاوند مرجائے ،یا وہ عورت کواپنی رضاسے طلاق دے دے اور وہ عورت عدت بھی گزارے تب تک پہلا شوہر اس کی طرف رجوع نہ کرسکے گا، تو اس وقت مرد کو اس رجوع کی نااُمیدی کے خیال سے اور ان کے محسوس کرنے سے ایک دور اندیشی (فہم وفراست) پیدا ہوجائے گی اور وہ خدا تعالیٰ کے ناپسند ترین مباحات یعنی طلاق کے واقع کرنے سے باز رہے گا۔
اسی طرح جب عورت کو بھی اس عدمِ رجوع (رجوع نہ ہوسکنے)کی واقفیت ہوگی تو عورت کے اَخلاق بھی درست رہیں گے اور اس سے ان کی آپس میں اصلاح ہوسکے گی۔
پس اتنی سخت رکاوٹوں کے بعد پہلے خاوند کی طرف رجوع جائز ہونے کی وجہمذکورہ بیان سے واضح اورظاہرہے کہ اس میں نکاح کی عزت وعظمت ،نعمت الہی کا شکر ، نکاح میں ہمیشگی اورقطع تعلقی نہ ہونا ملحوظ ہے، کیونکہ جب شوہر کو عورت کی جدائی سے اس کے وصل ثانی(دوسرے ملاپ) تک اتنی رکاوٹیں درمیان میں حائل ہونے والی متصور ہوں گی تو شوہر تیسری طلاق تک نوبت نہیں پہنچائے گا۔
(إعلام الموقعین عن رب العالمین، ابن القیم)