حورانِ بہشتی کے قرآنی اوصاف وخصائل اور خواتین کے لیے ترغیب اور دلچسپی کے پہلو
حورانِ بہشتی“کا مصداق:
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالی جہاں کہیں بھی جنت کی خوابوں جیسی زندگی کا تذکرہ فرماتے ہیں تو وہاں پر بہت دفعہ اِن حوروں کا ذکر بھی فرماتے ہیں۔ حوروں کے اِس تذکرہ میں مردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے یکساں رغبت کا سامان موجود ہوتا ہے۔ لیکن ہم میں سے بعض لوگوں نے یہ تصور کررکھا ہے کہ شاید اِن کا تذکرہ صرف مردوں کو راغب کرنے کے لیے ہوتا ہے اور مومن عورتوں کے لیے یہ آیات واحادیث غیرمتعلقہ ہیں۔ یہیں سے پھر خواتین کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنت کے اندر مومن مردوں کو حوریں ملیں گی تو مومن عورتوں کو کیا ملے گا؟ اور ان کو جو کچھ بھی ملے گا تو اس کا تذکرہ حوروں کی طرح قرآن وحدیث میں بار بار کیوں نہیں ہے؟جنت کی باقی نعمتیں اپنی جگہ، لیکن مذکورہ غلط فہمی کی وجہ سے حورانِ بہشتی کے حسن وجمال کے تذکرے خواتین کے لیے بے لذت اور غیر متعلقہ ہوکر رہ گئے ہیں کیونکہ بقول ان کے اِن تذکروں میں کسی مرد کو ہی دلچسپی ہوسکتی ہے، کسی عورت کو نہیں۔ جو خواتین اس غلط فہمی کو زبان پر نہیں لاپاتیں، وہ بھی اِن آیات واحادیث کو دل ہی دل میں بہرحال یوں بے تاثر ہوکر سنتی ہیں کہ گویا اِن میں خواتین کے لیےشوق اور رغبت کا کوئی سامان نہیں، یہ محض مردوں کی ترغیب کے لیے ہیں اور جنت کی اِس نعمت کے بارہ میں بتلا کر بس انہی میں دلچسپی وشوق مندی پیدا کرنا مقصود ہے۔
یہ بات درست ہے کہ جنت میں رنگ اور رونق بکھیرنے والی حسینائیں اپنے دیو مالائی حسن اور غیر معمولی شخصیت کی وجہ سے اس دنیا کی حسیناؤں سے بالکل مختلف ہوں گی، بلکہ یہ بات بھی درست ہے کہ وہ سب کی سب دنیا سے گذر کر جانے والی نہیں ہوں گی اور ان میں ایک بڑی تعداد ایسی ہوگی کہ جنہیں رب العلمین نے کلمہء ”کن“ کے ساتھ کسی اور طریقہ سے وجود بخشا ہوگا اور بنا کسی دنیاوی عبادت وریاضت اور جہد ومشقت کے محض اپنے فضل واحسان سے جنت کے خوابوں جیسے مسکن کی زینت بنایا ہوگا۔ مگر یہ سمجھنا کہ قرآن وحدیث میں جہاں جہاں حورانِ بہشتی کا تذکرہ آتا ہے تو اس سے مراد بس یہی خاص طور پر پیدا کی گئی حسینائیں ہوتی ہیں، سراسر ایک غلط فہمی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اِس کے برعکس لغت، قرآن اوراحادیث وآثار کے سارے قرائن اس کی نفی کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں بنیادی طور پر حورانِ بہشتی کا مصداق وہ سب حسینائیں ہیں جو جنت میں بسائی جائیں گی، خواہ وہ کلمہء کن سے پیدا کی گئی ہوں یا دنیا کی اہلِ ایمان خواتین ہوں۔
تاہم آگے بڑھنے سے قبل ایک نہایت ضروری تمہید کو سمجھ لینا چاہئےکہ دنیا سے گذرکر جانے والی مومن خواتین کے دخولِ جنت کا کوئی منکر نہیں، امت کا اتفاق ہے کہ یہ جنت ہی میں جائیں گی۔ غلط فہمی صرف یہ سمجھنے میں واقع ہوئی ہے کہ قرآن وحدیث میں اکثر وبیشتر جن جنتی حسیناؤں کا تذکرہ آتا ہے تو ان سے مراد صرف کلمہء ”کن“ سے پیدا ہونے والی حسینائیں ہوتی ہیں اور لفظِ ”حور“ کا مصداق بھی صرف یہی ہوتی ہیں۔ غلط فہمی صرف اتنی ہی ہے اور گو بہت بڑی نہیں، مگر اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اب قرآن وحدیث میں مذکور حورانِ بہشتی کے ولولہ خیز تذکرے ہماری خواتین سے بے تعلق ہوجاتے ہیں کیونکہ کلمہء کن سے پیدا ہونے والی حورانِ بہشتی میں دلچسپی کسی مرد کو ہی ہوسکتی ہے۔ غلط فہمی پر مبنی یہ قول چونکہ بعض کتبِ تفسیر میں مذکور ہے، بعض نے اس کو ترجیح بھی دیا ہے اور پھر یہ امت میں مشہور بھی ہے تو اس لیے یہ غلط فہمی تناور ہوکر ایک درخت بن چکی ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں اسی غلط فہمی کا علمی جائزہ لینا مقصود ہے اور اس وضاحت کے ساتھ کہ خود ماضی ہی کے بعض مفسرین نے اسے ایک غلط فہمی قرار دیا ہے۔
حور سے مراد:
سب سے پہلے ”حور“ کے لغوی اطلاق کو لیجئے، یہ لفظ ”حوراء“کی جمع ہے اور ”اسمِ صفت“ ہے، اسمِ جنس نہیں۔ آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ”حور“ کا لفظ عربی زبان میں انسان، جن اور فرشتہ کی طرح کا کوئی لفظ نہیں ہے جس سے کوئی خاص نوع یا جنس کی مخلوق مراد لی جاتی ہو،بلکہ یہ لفظ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو خوب صورت، دراز قد اور صاحبِ کردار کہہ دیا جائے۔ چنانچہ اسلام کی آمد سے قبل بھی ”حور“ کا لفظ ”حسینہ“ کے معنوں میں عربوں کے ہاں مستعمل اور مروج تھا اور اُن عربوں کے ہاں مستعمل تھا جو سرے سے کسی جنت نامی چیز کو ہی نہیں مانتے تھے۔ عموما ان کی بدوی عورتیں شہری عورتوں کے لیے یہ لفظ استعمال کیا کرتی تھیں۔ لسان العرب اورتاج العروس وغیرہ (کتبِ لغت) کی عبارات کے ساتھ ساتھ امام مجاہد کے ایک تفسیری قول کو ملانے سے ہماری نظر میں ”حور“ کے مکمل معنی کچھ یوں بنتے ہیں: وہ لڑکیاں جو گوری ہوں اور جن کی آنکھوں کی جھلمل اتنی بے داغ اور پرکشش ہو کہ دیکھنے والے کی نگاہ ان آنکھوں کی تاب نہ لاسکے۔ گویا مختصر لفظوں میں ہم ”حور“ کا ترجمہ ”جادو نظر حسینائیں“ کرسکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر قرآن وحدیث میں کہیں کہیں جنتی حسیناؤں کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جنت میں دیگر نعمتوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ ”حوریں“ بھی ہوں گی تو یہاں پر اس لفظ کو اسمِ جنس بنا دینا اور بغیر کسی قرینہ کے یہ کہنا کہ اس سے مراد صرف وہ خواتین ہیں جنہیں خدا تعالی بغیر کسی دنیاوی عبادت وریاضت کے جنت عطا فرمائیں گے، کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟جب عربی زبان میں اس کے معنی مطلق ”حسینائیں“ ہیں تو قرآن وحدیث میں بھی اس لفظ کا اطلاق اسی مفہوم میں ہونا چاہئے اور ”حورانِ بہشتی“ کے اطلاق میں وہ سب حسینائیں شامل ہونی چاہئیں جنہیں پروردگار جنت کی زینت پنائے گا خواہ وہ دنیا میں آدم زاد بھی رہی ہوں یا نہ۔ چنانچہ طبری اور ابنِ کثیر نے لفظِ ”حور“ کا صرف لغوی مفہوم واضح کرنے پر اکتفاء کیا ہے اور یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ طبری اور ابنِ کثیر کسی تخصیص کے قائل نہیں کیونکہ اس لفظ کا لغوی اطلاق تعمیم کا مقتضی ہے، نہ کہ تخصیص کا۔
یہاں ضمنا یہ بات عرض کردینا بھی مناسب ہوگا کہ فیروزآبادی اور راغب اصفہانی کے بقول ”حور“ کا لفظ عربی زبان میں فی الاصل جمع مؤنث کے لیے بھی استعمال ہوتا ہےاور جمع مذکر کے لیے بھی اور بعض معاصر اہلِ علم کے مطابق ”حور“ کے قرآنی اطلاق میں بھی جمع مذکر اور جمع مؤنث دونوں کا مفہوم داخل ہے، یعنی قرآن میں جہاں اس لفظ کا اطلاق ہوا ہے تو وہاں دونوں کے حسن کی طرف اشارہ کرنا مطلوب ہے۔ زیرِ بحث اعتراضات کا دفعیہ کرنے کے لیے یہ توجیہ بظاہر بہت اچھی محسوس ہوتی ہے، لیکن مفسرین نے عام طور پر قرآن مجید میں وارد لفظِ ”حور“ کی تفسیر صرف حسین عورتوں کے ساتھ ہی کی ہے اور ہماری رائے میں یہی بات درست ہے۔ وجہ یہ کہ قرآن میں اکثر جگہ جنتی حسیناؤں کا ذکر مؤنث کے تصریحی صیغہ کے ساتھ آیا ہے اور وہ چار مقامات جہاں ”حور“ کا لفظ آیا ہے تو ان میں سے بھی دو مقامات (الرحمن، الواقعہ) کے سیاق وسباق میں مؤنث ہی کا اسلوب چل رہا ہے اور ممکن ہی نہیں کہ وہاں اسے جمع مؤنث کے ساتھ ساتھ جمع مذکر بھی قرار دیا جائے۔ ان مقامات کی تفصیل اگلے عنوان کے تحت مذکور ہے۔
قرآنی قرائن
”حور“ کا لغوی مفہوم جان لینے کے بعد خود قرآنِ مجید کے داخلی قرائن پر غور کیجئے، قرآن میں اکثر جگہوں پر جنتی حسیناؤں کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ وہاں ”حور“ کا لفظ سرے سے استعمال ہی نہیں ہوا، بلکہ مختلف الفاظ میں بس ان حسیناؤں کی سیرت وصورت، حسن ورعنائی، وجاہت وکشش اور پاکیزگی کو بیان کیا گیاہے۔ ذرا سوچئے کہ کیا اِس کے بعد بھی جنتی حسیناؤں کے اِن اوصاف وخصائل کو کلمہء ”کن“ سے پیدا ہونے والی حسیناؤں سے مخصوص کرنے کا کوئی جواز ہے؟ ہماری تحقیق کے مطابق قرآنِ مجید میں صرف چار مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالی نے ان حسیناؤں کے لیے ”حور“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور ان کے حوالہ جات یہ ہیں: ۱۔ ﴿كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاھُم بِحُورٍ عِينٍ﴾ (الدخان: 54) ۔ ۲۔ ﴿وَزَوَّجْنَاھُم بِحُورٍ عِينٍ﴾ (الطور: 20)۔ ۳۔ ﴿حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ﴾ (الرحمن: 72)۔ ۴۔ ﴿وَحُورٌ عِينٌ﴾ (الواقعہ: 22)
جبکہ تقریبا دس مقامات ایسے ہیں کہ جہاں اِن حسیناؤں کا ذکر ہوا ہے مگر وہاں حور کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا۔ دیکھئے: ۱۔ ﴿وَلَھُمْ فِيھَا أَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃ﴾ (البقرہ: 25)۔ ۲۔ ﴿وَأَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃ﴾ (آلِ عمران: 15)۔ ۳۔ ﴿لَّھُمْ فِيھَا أَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃ﴾ (النساء: 57)۔ ۴۔ ﴿ھُمْ وَأَزْوَاجُھُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَی الْأَرَائِكِ مُتَّكِؤُونَ﴾ (یس: 56)۔ ۵۔ ﴿وَعِنْدَھُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ﴾ (الصافات: 48)۔۶۔ ﴿وَعِندَھُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ﴾ (ص: 52)۔ ۷۔ ﴿ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ﴾ (الزخرف: 70)۔ ۸۔ ﴿فِيھِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْھُنَّ إِنسٌ قَبْلَھُمْ وَلَا جَانٌّ﴾ (الرحمن: 56)۔ ۹۔ ﴿إِنَّا أَنشَأْنَاھُنَّ إِنشَاء º فَجَعَلْنَاھُنَّ أَبْكَارًا º عُرُبًا أَتْرَابًا﴾ (الواقعہ: 35)۔ 10۔ ﴿وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا﴾ (النباء: 33)
احادیث وآثار
اس کے بعد اگر احادیث وآثار کو دیکھا جائے تو وہاں پر بھی کم از کم ہمیں تو ایسا کوئی قرینہ نظر نہیں آیا جس سے محسوس ہو کہ حورانِ بہشتی کا اطلاق صرف کلمہء ”کن“ سے پیدا ہونے والی حسیناؤں پر ہوتا ہے اور جنتی حسیناؤں کے تذکروں میں صرف وہی شامل ہیں یا یہ کہ یہ تذکرے صرف مردوں کی دلچسپی کے لیے ہیں۔ یوں تو قرینہء تخصیص کی ناموجودگی بذاتِ خود عدمِ تخصیص کی ایک دلیل ہے، لیکن یہاں پر کچھ ایسے قرینے ملتے ہیں جن سے الٹا اس تصورِ تخصیص کی نفی ظاہر ہوتی ہے۔ مثلا
(1)قرآن میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے: ﴿إِنَّا أَنشَأْنَاھُنَّ إِنشَاء º فَجَعَلْنَاھُنَّ أَبْكَارًا﴾ (الواقعہ: 35، 36) یعنی ”ہم ان حسیناؤں کو ایک خاص طرز سے وجود بخشیں گے اور انہیں دوشیزگی عطا کریں گے……“ اس آیت کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ صریح ارشاد صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ دنیا کے اندر جو مومن بیبیاں بوڑھی اور سن رسیدہ ہوجائیں گی، مذکورہ آیت کی رو سے اللہ تعالی انہیں بھی جنت کے اندر نئے سرے سے جوانی اور دوشیزگی عطا کریں گے۔ دیکھئے:
”ایک بڑھیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے جنت میں پہنچا دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بی بی! جنت میں بڑھیا نہیں جائے گی۔ راوی بتلاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ بڑھیا روتے ہوئے واپس پھر نے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے بتلاؤ: جنت میں بڑھیا بڑھاپا لے کر نہیں جائے گی (بلکہ جنت میں جو بھی جائے گا جوان ہوکر جائے گا) کیونکہ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: ”ہم انہیں ایک نیا جنم دے کر کنواریاں، اپنے خاوندوں کی لاڈلیاں اور عمر میں یکساں بنادیں گے۔“ (شمائل الترمذي، رقم 241۔جامع الترمذی، رقم 3296۔ البانی نے پہلی سند کو حسن قرار دیا ہے۔)
(2) اسی طرح ایک روایت ہے کہ سیدنا ابو بکرؓ کی اہلیہ حضرت ام رومانؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وفات پا گئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا: ”جو آدمی کسی حور کو دیکھنا پسند کرے تو وہ ام رومان کو دیکھ لے۔“ (الطبقات الكبرى ، ابن سعد، 8/276) اب ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں ام رومانؓ کے جنتی ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ان پر ”حور“ کا اطلاق کیا۔
(3) ایک روایت میں صحابیء رسول ابو نحیلہؓ کی ایک دعاء نقل کی گئی ہے کہ”اے پروردگار مجھے اپنا مقرب بنا اور میری ماں کو حورانِ بہشتی میں شامل فرما۔” (المعجم الكبير للطبراني، ۲۲/ 278) یعنی
(4)حسن بصری رحمہ اللہ نے نو صحابہ کرام سے یہ فیصلہ کن مضمون نقل کیا ہے کہ ”حور“ سے مراد کوئی اور ہو نہ ہو، مومن عورتیں تو ہیں ہی اور اس روایت کی سند بھی موجود ہے۔ دیکھئے: ” یعنی ”عبد الرزاق نے جعفر اور جعفر نے عباد بن عمرو سے نقل کیا ہے کہ یزید بن ابی مریم نے حسن بصری سے پوچھا کہ حوریں کیا ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہی تمہاری بوڑھیاں جن کے دانت ٹوٹ چکے ہیں، اللہ انہیں ایک نئی تخلیق عطا کرے گا۔ یزید نے جب دریافت کیا کہ یہ آپ نے کس سے سنا؟ تو یہ سن کر حسن نے اپنی آستینیں چڑھائیں اور گن گن کر نام بتانے لگے، ان میں پانچ نام مہاجرین کے اور چار انصاریوں کے تھے۔ یہی تفسیر حسن بصری سے ایک اور سند کے ساتھ بھی منقول ہے۔“ (تفسیر الصنعانی، سورہ الدخان: 54)
(5) نیز اگر حورانِ بہشتی کے تذکرے صرف مردوں کا شوقِ جنت بڑھانے کے لیے ہوتے اور عورتوں سے غیر متعلق ہوتے تو اس کی وجہ سے جو ابہامات ہماری خواتین کو لاحق ہوتے ہیں،بعینہ یہی ابہامات عہدِ نبوی کی خواتین کے ذہن میں بھی ضرور پیدا ہوتے اور وہ اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نہ کوئی سوال ضرور کرتیں۔ عہدِ نبوی کی تاریخ گواہ ہے کہ عہدِ نبوی کی خواتین کو سوال اٹھانے کی مکمل آزادی حاصل تھی اور وہ اس طرح کے سوالات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاجھجک پوچھ لیا کرتی تھیں۔ ان کے ذہنوں میں ایسا کوئی سوال پیدا نہ ہونا اور احادیث وروایات کے عظیم الشان ذخیرہ کا ایسی کسی قسم کی رویت سے یکسر خالی ہونا بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ عہدِ نبوی کی خواتین لا محالہ ”حورانِ بہشتی“ کے اطلاق میں مومن بیبیوں کو بھی شامل سمجھتی تھیں، ورنہ ان کے ذہن میں بھی یا کم از کم بعد کی کچھ صدیوں کی مومن خواتین کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا۔
مذکورہ تمام قرائن وشواہد گواہی دیتے ہیں کہ دنیا سے گذر کر جانے والی مومن خواتین پر ”حور“ کا اطلاق کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
مفسرین کے اختلافی اقوال کا جائزہ
اب تک کی گفتگو اس تناظر میں تھی کہ قرآن وحدیث میں مذکور جنتی حسیناؤں کے اوصاف وخصائل جنت ہی میں پہلا جنم لینے والی حسیناؤں سے مخصوص نہیں، بلکہ ان میں وہ جنتی خواتین بھی شامل ہیں جو دنیا کے امتحان میں مردوں کے ساتھ شریک رہی تھیں، لیکن ہم گذشتہ سطور میں عرض کر چکے ہیں کہ بعض کتبِ تفسیر میں تخصیص کے اقوال بھی موجود ہیں۔ درجِ ذیل سطور میں انہی اقوال کی تنقیح مقصود ہے، لیکن اِن اختلافی اقوال کو جاننے سے قبل ایک بار پھر یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ مومن عورتوں کے جنت میں داخلہ کا کوئی منکر نہیں، غلط فہمی صرف یہ سمجھنے میں واقع ہوئی ہے کہ قرآن وحدیث میں اکثر وبیشتر جن جنتی حسیناؤں کا تذکرہ آتا ہے تو ان سے مراد صرف کلمہء کن کے ساتھ پیدا کی جانے والی حسینائیں ہوتی ہیں۔
ہمارے مطالعہ کی رو سے امام سیوطی نے ”تفسیر الدر المنثور“ میں شعبی کے حوالہ سے صرف وہ قول نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے جس کی رو سے ”حور“ کا مصداق کوئی اور ہو نہ ہو، مومن خواتین تو ہیں ہی اور تخصیص کا کوئی قول سرے سے نقل ہی نہیں کیا (شعبی کی عبارت چند سطروں بعد آجائے گی)، جبکہ علامہ شمس الدین محمد بن احمد الشربینی نے اپنی تفسیر ”السراج المنیر“ کے اندر صریح لفظوں میں تخصیص کے قول پر نکتہء اعتراض اٹھاتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے، جس کی عبارت بھی آئندہ سطروں میں ہم نقل کریں گے۔ اسی طرح مولانا ثناء اللہ پانی پتی نے ”تفسیرِ مظہری“ میں جو گفتگو کی ہے، اس سے بھی بظاہر یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک تخصیص کا قول مرجوح ہے۔ علاوہ ازیں تفسیرِ طبری اور تفسیر ابنِ کثیر وغیرہ میں سرے سے یہ اختلافی بحث چھیڑی ہی نہیں گئی اور نہ ہی تخصیص وتعمیم کا کوئی پہلو کہیں زیرِ بحث آیا ہے، بس لفظِ ”حور“ کا لغوی مفہوم واضح کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے اور ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ لغوی اطلاق واضح کرنے پر اکتفاء کرنا بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ حضرات تعمیم کے قائل ہیں۔
پھر جن تفاسیر میں یہ قول مذکورہے کہ ”حور“ کے اطلاق میں مومن خواتین شامل نہیں تو ان میں بھی در اصل اس قول کو ایک اختلافی واحتمالی قول کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ واحد قطعی تفسیر کے طور پر۔ نیز جن جن تفاسیر میں یہ قول مذکور ہے، ان میں سے بھی تفسیرِ جلالین، تفسیرِ قرطبی، تفسیرِ بغوی، تفسیرِ ابن قیم، اللباب فی علوم الکتاب، تفسیرِ مظہری اور تفسیرِ خازن وغیرہ میں یہ اختلافی نکتہ سورۃ الرحمن کی آیت نمبر 56اور 74کے تحت اٹھایا گیا ہے جس میں حورانِ بہشتی کی ایک صفت بتلائی گئی ہے کہ ”ان حوروں کو کسی انسان یا جن نے نہیں چھوا ہوگا۔“ توجہ طلب بات یہ ہے کہ جنتی حسیناؤں کا ذکر سورۃ الرحمن سے قبل بھی قرآن میں کئی جگہ ہوا ہے، بلکہ اگر صرف ”حور“ کے لفظ کو لے لیجئے تو یہ بھی سورۃ الرحمن سے قبل سورۃ الدخان کی آیت 54 میں اور سورۃ الطور کی آیت 20 میں ذکر ہوچکا ہے، لیکن مذکورہ کتبِ تفسیر میں سورۃ الرحمن کے اندر ہی تخصیص کے قول کا زیرِ بحث آنا اور اس سے قبل گذر جانے والے کسی متعلقہ مقام پر اس کا زیرِ بحث نہ آنا اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ مصنفین کے نزدیک اگر تخصیص کا قول قابلِ وقعت ہے بھی تو اسے صرف سورۃ الرحمن کے اندر مذکور حوروں کے تذکرہ سے متعلق ہونا چاہئے، نہ کہ قرآن وحدیث میں مذکور جنتی حسیناؤں کے تمام احوال سے، اگرچہ خود اہلِ تخصیص کے اعتراف کے مطابق علماء کی ایک جماعت اس قدر تخصیص کی بھی قائل نہیں۔
تاہم تفسیرِ رازی، ابو السعود، صنعانی، بیضاوی، روح المعانی اور روح البیان میں یہ اختلافی بحث سورۃ الدخان کی آیت 54 کے تحت چھیڑی گئی ہے اور یہ وہ سب سے پہلا مقام ہے جہاں قرآن میں ”حور“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ان چند مصنفین کے نزدیک تخصیص کے اختلاف کا تعلق ان تمام مقامات سے ہونا چاہئے جہاں ”حور“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ وہ تمام مقامات جہاں جنتی حسیناؤں کے احوال مذکور ہیں، خواہ وہاں ”حور“ کا لفظ ہو یا نہ ہو، وہ ان مصنفین کے نزدیک اس تخصیص کی لپیٹ میں ہونے چاہئیں، کسی طور درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ایسے کئی مقامات سور ۃ الدخان سے پہلے بھی قرآن میں موجود ہیں جن کی طرف اشارہ گذشتہ سطور میں کیا جاچکا ہے اور اس صورت میں تخصیص کی اختلافی بحث کو وہاں مذکور ہونا چاہئے تھا جہاں سب سے پہلے قرآن میں جنتی حسیناؤں کا ذکر آیا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔
تفاسیر کے اس تمہیدی جائزہ کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ تخصیص کے اس دوسرے قول کی بنیاد کیا ہے؟
(1) ابنِ قیم اور قرطبی کے مطابق سورۃ الرحمن کی آیت میں حوروں کی جو صفت بتائی گئی ہے کہ وہ اَن چھوئی ہوں گی، یہ صرف جنت ہی میں پہلا جنم لینے والی حسیناؤں میں پائی جاتی ہے کیونکہ مومن خواتین تو اس سے قبل دنیا میں چھوئی جاچکی ہیں۔ اس استدلال کے ضعف کو سمجھنے کے لیے صرف ایک نکتہ پہ غور کیجئے کہ سورۃ الواقعہ کی آیت35 میں جنتی حسیناؤں کو ”کنواری“ بھی فرمایا گیاہے اور گذشتہ سطور میں گذر چکا ہے کہ صحیح سند سے منقول ایک صریح حدیثِ نبوی کی رو سے وہ مومن خواتین بھی اس کے اطلاق میں شامل ہیں جو دنیا کے اندر بوڑھی ہو کر مری تھیں۔ اب اگر سن رسیدہ بوڑھیاں جنت میں جاکر کنواری ہوسکتی ہیں تو پھر ”اَن چھوئی“ کیوں نہیں؟ سورۃ الرحمن میں ذکر تو جنت والے جنم کا ہے اور اس جنم کی رو سے ظاہر ہے کہ مومن خواتین بھی جیساکہ کنواری ہوں گی، ویسا ہی اَن چھوئی بھی ہوں گی۔ جلیل القد تابعی امام شعبی نے ”الرحمن“ کی آیت کو صریحا ”الواقعہ“ کی آیت نمبر 35 پر قیاس کیا ہے۔ امام سیوطی لکھتے ہیں:
”أخرج سعيد بن منصور وابن المنذر عن الشعبي في قولہ: لم يطمثهن إنس قبلھم ولا جان؛ قال: ھن من نساء أھل الدنيا خلقھن اللہ في الخلق الآخر كما قال: إنا أنشأناھن إنشاء فجعلناھن أبكارا؛ لم يطمثھن حين عدن في الخلق الآخر إنس قبلھم ولا جان!“ (الدر المنثور۔ الرحمن: 56)
”سعید بن منصور اور ابن المنذر نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ سورۃ الرحمن کی آیت میں حوروں کی جو صفت ”ان چھوئی“ بتلائی گئی ہے، وہ جنت میں جانے والی دنیا کی خواتین سے متعلق ہے کیونکہ انہیں وہاں ایک نیا جنم ملے گا، چنانچہ سورۃ الواقعہ میں انہیں کنواری بھی کہا گیا ہے، وجہ ظاہر کہ وہ اپنے نئے جنم میں ”ان چھوئی“ ہی ہوں گی۔“
اسی طرح تفسیر ”السراج المنیر“ میں قائلینِ تخصیص کے اس استدلال کو اسی بنیاد پر مسترد کیا گیا ہے:
”وقيل: إن الحور العين المذكورات في القرآن ھن المؤمنات من أزواج النبيين والمؤمنين، يخلقن في الآخرۃ علی أحسن صورۃ، قالہ الحسن البصري، قال ابن عادل: والمشھور أن الحور العين لسن من نساء أھل الدنيا، إنما ھنّ مخلوقات في الجنۃ لأنّ اللہ تعالی قال:لم يطمثھن إنس قبلھم ولا جانّ؛ وأكثر نساء أھل الدنيا مطموثات. انتھی. لكن مرّ أنہ لم يطمثھن بعد إنشائھن خلقاً آخر وعلی ھذا لا دليل في ذلك“ (تفسیر السراج المنیر۔ الرحمن: 72)
یعنی ”ایک قول ہے کہ قرآن میں مذکور حورانِ بہشتی سے نبیوں اور مومنوں کی مومن بیویاں مراد ہیں، انہیں آخرت میں ایک حسین وجمیل سراپا عطا ہوگا، حسنِ بصری اسی کے قائل ہیں، جبکہ ابنِ عادل کہتے ہیں: مشہور بات یہ ہے کہ حورانِ بہشتی دنیا کی عورتوں میں سے نہیں ہیں، بلکہ یہ جنت ہی میں پہلا جنم لینے والی خواتین ہیں کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ ”ان چھوئی“ ہیں اور دنیا کی اکثر عورتیں تو دنیا میں زیرِ استعمال رہی تھیں، لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان کا نیا جنم ”ان چھوا“ ہی ہوگا لہذا یہ کوئی وجہِ استدلال نہیں۔“
(2) روح المعانی کے مصنف علامہ آلوسی بھی تخصیص کے قائل ہیں، انہوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ روایات کی رو سے حورانِ بہشتی مٹی کی بجائے زعفران، مشک اور کافور سے یا پھر ملائکہ کی تسبیح سے تخلیق کی گئی ہیں، تاہم اول تو ان روایات کی استنادی حیثیت واضح نہیں، دوسرا اگر یہ سب صحیح بھی ہوں تو روایات میں جنت کے اندر حاصل ہونے والے وجود کی بات ہو رہی ہے اور جنت کے اندر دنیا کی مومن بیبیوں کو بھی ایک نیا وجود حاصل ہونا ہے، اس لیے اگر اُن کا وجود بھی جنت میں کافور وزعفران کے اسی خمیر سے اٹھایا جائے جس خمیر سے جنت میں پہلا جنم لینے والی حسیناؤں کا وجود تخلیق ہوگا اور روایات کے بیان میں دنیاکی مومن عورتیں بھی شامل ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
(3) تفسیر رازی اور ابو السعود میں ابوہریرہؓ کا قول نقل کیا گیا ہے کہ ”لسن من نساء الدنيا“ یعنی ”حوریں دنیا کی عورتوں میں سے نہیں“، تاہم اول تو ابو ہریرہؓ کے اس قول کی بھی کوئی سند معلوم نہیں، جبکہ حسن بصری نے نو صحابہ کرام سے اس کے برعکس یہ نقل کیا ہے کہ حوروں سے مراد مومن عورتیں ہیں اور اس روایت کی سند بھی موجود ہے، نیز یہی قول شعبی اور کلبی کا بھی ہے اور اگر ابوہریرہؓ کا قول ثابت بھی ہو تو اس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ جنتی حسینائیں دنیا کی خواتین جیسی نہیں۔
(4) روح البیان کے مصنف نے لکھا ہے کہ جمہور کے نزدیک دنیا کی خواتین ”حور“ کے اطلاق میں شامل نہیں،تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آخر کس بنیاد پر جمہور کی طرف اس قول کی نسبت کر رہے ہیں، ہم جان چکے ہیں کہ متقدمین میں سے صرف ابو ہریرہؓ سے یہ قول منسوب ہے لیکن وہ بھی مدعا کے اثبات کے لیےکافی نہیں۔ ہماری نظر میں زیادہ سے زیادہ تخصیص کے قول کو ایک مشہور بات کہا جا سکتا ہے جیساکہ تفسیرِ قرطبی، اللباب فی علوم الکتاب، تفسیر السراج المنیر اور التفسیر المنیر(وہبۃ الزحیلی) میں کہا گیا ہے، جبکہ کسی بات کا محض ”مشہور“ ہونا اسے یہ سند فراہم نہیں کرتا کہ جمہور اہلِ علم کا علمی نکتہء نظر بھی یہی رہا ہو۔چنانچہ ہمارے نزدیک یہ بات غلط طور پر مشہور رہی ہے اور بعد کے مفسرین میں سے اگر کئی ایک نے تخصیص کوبظاہر ترجیح دیا ہے تو وہ بھی غالبا اسی مشہور غلط فہمی کے زیرِ اثر ہے، نیز شاید کوئی مضبوط بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے ہی خود ان کے ہاں بھی عموما تخصیص کے حق میں کوئی زیادہ شدت نظر نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ”حور“ کے لغوی اطلاق کو بنا کسی دلیل کے ایک خاص جنس کی مخلوق سے مخصوص کر دینے کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔
حورانِ بہشتی کے تذکرہ میں خواتین کے لیے ترغیب و دلچسپی کے پہلو
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ”حورانِ بہشتی“ سے مراد علی الاطلاق جنتی حسینائیں ہیں (خواہ وہ دنیا کی مومن عورتیں ہوں یا کلمہء ”کن“ سے پیدا ہونے والی حسینائیں) اور ان حسیناؤں کے بارہ میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ زنانہ حسن وجمال کا مرقع بن کر مومن مردوں ہی کے پاس ہوں گی تو اب یہ سوال باقی ہی نہیں رہتا کہ مومن مردوں کے پاس تو ہ کلمہء کن سے پیدا ہونے والی حسینائیں ہوں گی اور حسن وجمال کے بتلائے گئے احوال بھی انہی کے ہیں، لہذا یہ دنیا کی مومن خواتین کہاں جائیں گی اور انہیں کیا ملے گا۔ قرآن وحدیث میں جب حورانِ بہشتی کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں صرف مردوں کو ہی یہ نہیں بتایا جارہا ہوتا کہ انہیں جنت میں دوسری نعمتوں کے ساتھ ساتھ حسینائیں بھی ملیں گی، بلکہ مومن خواتین کو بھی گویا یہ پیغام دیا جارہا ہوتا ہے کہ جنت میں آنے والی خواتین کو کس طرح ایک حسین سراپا دے کر جنتی مردوں کی بیگمات بنایا جائے گا۔ پس یہ آیات واحادیث صرف مردوں کی ترغیب کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ خواتین کے لیے بھی اِن میں دلچسپی کا پورا پورا سامان موجود ہوتا ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دنیا کی چند روزہ گوری رنگت، باسی ہوجانے والے تیکھے نقوش، خاک سے نکلنے والے سونا چاندی اور چند لمحوں بعد بے رونق ہوجانے والے سرخی پاؤڈر کے لیے صنفِ نازک بے چین رہتی ہے، انہی کے خواب اور انہی کے خیال ہماری خواتین پر طاری رہتے ہیں، انہی کی آرزو کرتے کرتے ہمارا دم نکل جاتا ہے اور ایک وقتی رفاقت کے بعد جس دلہا نے پیوندِ خاک ہوجانا ہے، اس دلہا کی دلہن بننے کے لیے اور جیسے تیسے مردوں کی بیوی بننے کے لیے ہماری کنواریاں دعائیں مانگتی ہیں اور دعائیں مانگتے ہوئے انہیں رونا بھی آتا ہے، پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ذرہ سے لے کر آفتاب تک ہر چیز کو وجود بخشنے والا پروردگار جس حسن اور جس سراپا کی تعریف کرے، جس صورت اور سیرت کو بطور ایک مثال کے پیش کرے، جس جمال اور رعنائی سے اپنی جنت کو سجائے اور پھر ایسے حسن وجمال کے پیکروں کو اپنے انعام یافتہ مثالی مردوں کے ساتھ بیاہنے کی بات کرے تو اس افسانوی اور دیو مالائی حسن کو حقیقتا پالینے کے لیے ہمارے دلوں میں کوئی شوق پیدا نہ ہو اور نہ ہی رب العلمین کے انعام یافتہ مثالی روپ اور مثالی کردار والے مردوں کے ساتھ بیاہنے کو ہمارے دل مچلیں؟
کسی بھی عورت سے معلوم کرلیجئے کہ عموما خواتین کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی ہے؟ روٹی، کپڑا اور مکان کی بات میں نہیں کرتا کہ یہ تو ضروریات ہیں اور بے شک جنت کے اندر یہ بھی اعلی ترین پیمانہ پر پوری ہوں گی۔ میں بات کر رہا ہوں لذتوں کی، خواہشات کی اور تعیشات کی۔ ان کے دائرہ میں رہتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو کسی بھی عورت کی سب سے بڑی خواہش اور سب سے اولین خواہش جو اسے پریشان کن حد تک لاحق ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی طرح میں ایک مثالی حسن کی مالک بن جاؤں، میری خوب روئی دیو مالائی ہو، میری نگاہیں صنفِ مخالف کو مبہوت کر کے رکھ دیں اور یہ کہ میرا رفیقِ حیات ایک مثالی کردار، مثالی شخصیت اور مثالی ہی روپ کا مالک ہو۔ اب ذرا حورانِ بہشتی والی آیات واحادیث کو پڑھئے، کیا ان میں صنفِ نازک کی انہی چاہتوں کی تکمیل کی بات نہیں ہورہی؟ تو اب آپ خود ہی بتائیے کہ یہ آیات واحادیث عورتوں سے غیر متعلق کیوں کر ہوئیں؟ بے شک ان میں مردوں کے لیے بھی پوری پوری دلچسپی کا سامان موجود ہے، مگریہ عورتوں کے لیے بھی غیر متعلقہ ہرگز نہیں ہیں۔ ہاں، اگر عورتوں کو لازوال حسن، بے مثال سراپا، قابلِ رشک شخصیت، نہ ختم ہونے والی جوانی، نگینہ جیسی صورت اور حسین، خلیق ومعزز رفیق کی خواہش نہیں ہے تو پھر ٹھیک ہے، اس صورت میں حورانِ بہشتی کے احوال میں واقعی ان کے لیے دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے۔
جنتی حسیناؤں کے قرآنی اوصاف وخصائل
مناسب محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر ہم ایک مفصل نظر جنتی حسیناؤں کے اوصاف وخصائل پر ڈالیں اور واضح کریں کہ اِن کے اندر مردوں کے ساتھ ساتھ کس کس طرح سے خواتین کے لیے بھی رغبت اور سبق کا پورا پورا سامان موجود ہے ۔ ہم نے یہاں بنیادی طور پر صرف ان اوصاف وخصائل کا انتخاب کیا ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور احادیث میں مذکورتفصیلی اوصاف کو اس ضمن میں کہیں کہیں صرف وضاحت کے لیے لے آئے ہیں:
۱۔ سب سے پہلی خوبی تو وہی ہے جو انہیں ”حور“ کا نام دے کر اللہ نے واضح فرمائی ہے۔ ”حور“ کے معنی ہیں: ”آنکھوں کے اندر طلسماتی کشش رکھنے والی اجلے رنگ کی حسینائیں“، خواتین سوچ لیں کہ کیا انہیں ایسا بننے کا واقعی کوئی شوق نہیں ہے؟
۲۔ ایک اور چیز ان کے بارہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ”عِین“ ہیں (الصافات: 48)، یعنی ”بڑی بڑی آنکھوں والی آہو چشم حسینائیں۔“
۳۔ ایک خصوصیت یہ بھی بتلائی گئی کہ دنیا کے اندر اگر وہ سن رسیدہ بوڑھیاں بھی تھیں تو جنت کے اندر اللہ جل شانہ انہیں پھر سےبھرپور شباب کے ساتھ کنواریاں بنا کر اٹھائیں گے(الواقعہ: 63) اور یوں ہوجائیں گی کہ گویا کبھی ان کو کسی انسان نے چھوا تک نہیں۔ (الرحمن: 65) وقت گذرنے کے ساتھ وہ مضمحل نہیں ہوں گی، بلکہ کنواریاں ہوں گی، کنواریاں رہیں گی اور کنواریوں جیسی رعنائی، کنواریوں جیسی تازگی، کنورایوں جیسی اٹھان، کنواریوں جیسے جذبے اور کنواریوں جیسی شفافیت گویا ہمیشہ برقرار رہے گی۔
۴۔ اگر کسی بہت ہی خوب صورت سراپے پر انسان کی نظر پڑے تو یوں گمان ہوتا ہے کہ گویا اس نے کوئی نگینہ دیکھ لیا ہے۔ اللہ جل جلالہ نے حورانِ بہشتی کے بارہ میں بھی ان کے اجلے اور دُھلے ہوئے حسن کو بیان کرنے کے لیے یہ تعبیر ارشاد فرمائی کہ گویا وہ کوئی داغ دھبوں سے دور، پردوں میں پڑا ہوا صاف وشفاف موتی ہیں۔ (الواقعہ: 23)
۵۔ ان حسیناؤں کا سراپا ایسا سرخ وسفید ہوگا اور ایسی بیش قیمت پوشاکیں انہوں نے پہن رکھی ہوں گی کہ ان پہ یاقوت ومرجان اور رنگ برنگی موتیوں کا گمان ہوگا(الرحمن: 58) اور ان کا بے داغ وجود گویا چھلکے میں چھپے ہوئے انڈے کی طرح ہے جو ابال کر چھیلنے سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کا گول مٹول وجود آنکھوں کو لذت وفرحت بخشتا ہے۔(الصافات: 49)
۶۔ وہ ”کواعب“ ہوں گی (النباء: 33)، یعنی ان کی چھاتیوں پر جوانی کے دلکش ابھاروں کی گولائی ایک متناسب اٹھان کے ساتھ ظاہر ہوگی جیساکہ ابتدائے بلوغت میں ہوتا ہے۔ (دیکھئے؛ روح المعانی) ایسی صفات کے بارہ میں کچھ کہتے سنتے ہوئے، ممکن ہے کہ ہم شرمائیں، لیکن کیا اس بات میں کوئی شک ہوسکتاہے کہ مرد عورتوں کو ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں اور عورتیں خود اپنے آپ کوبھی؟
۷۔ وہ ”خیرات حسان“ یعنی ”ملکہ حسن“ ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق اور خوش اطور بھی ہوں گی۔ (الرحمن: 70)
۸۔ ایک صفت ان کی یہ ارشاد فرمائی کہ وہ ”عُرُب“ ہوں گی (الواقعہ: 37) جس کے معنی عربی لغت کی رو سے کچھ یوں کیے جاتے ہیں کہ وہ لڑکیاں جو اپنے مردوں کی محبوب ہوں، ناز وانداز کے سارے اسلوب جانتی ہوں، ان کی اداؤں میں ایک گرمجوشی اور دلربائی ہو، اپنے مردوں پر خود بھی فدا ہوں، ہنسنے اور ہنسانے والی ہوں، شیریں گفتار ہوں اور اپنے مردوں کی لاڈلی ہوں، بالفاظِ دیگر نسوانی خوبیوں کا ایک خوب صورت مرقع ہوں۔ اردومیں اس کا ترجمہ ”لاڈلی ومحبوب“ بھی گویا اسی لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں دل اٹکانے کے سارے قرینے ضمنا آجاتے ہیں۔ قرآنی بیان کی رو سے حورانِ بہشتی گویا دل اٹکانے کے قرینوں میں محاورتا نہیں، بلکہ حقیقتا طاق ہوں گی۔
۹۔ اپنے رفیقوں کی ہم عمر ہوں گی۔ (ص: 52)
۰۱۔ وہ ”مطہرۃ“ یعنی ”غلاظتوں اور نجاستوں سے پاک“ ہوں گی۔ (البقرہ: 25) واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ماہواری کے ایام عورت کے لیے کتنی کوفت کے ایام ہوتے ہیں، جبکہ جنت کے بارہ میں یہ بتایا جارہا ہے کہ وہاں اس کوفت کا نام ونشان بھی نہیں ہوگا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی رو سے ماہواری تو در کنار، وہاں بول وبراز کی حاجت بھی نہیں ہوگی۔ (تفسیر ابنِ کثیر)
۱۱۔ ایک بات جو تقریبا ہر جگہ کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ حسینائیں جنتی مردوں کے پاس ہوں گی اور ان کی زوجیت میں ہمیشہ رہیں گی۔
۱۲۔ وہ ”مقصورات فی الخیام“ ہوں گی، یعنی اپنے مردوں کی نظر میں بازار کا شوپیس بنانے کی نہیں، بلکہ ایک قابلِ حفاظت اور سنبھال کر رکھے جانے کی چیز ہوں گی اور ”پردہ نشین“ ہوں گی۔ (الرحمن: 72) حورانِ بہشتی کی اس خصلت میں ہر باحیاء عورت کے لیے سامانِ رغبت کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ہے، سبق یہ کہ جن بیبیوں نے جنت میں جا کر حیاء کے قرینوں کو مد نظر رکھنا ہے، کیا دنیا کے اندر وہ بے حیاء ہوکر گلیوں اور بازاروں میں اپنے حسن کو نیلام کریں گی؟ باقی یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ جنت کے اندر قیدی بن کر رہیں گی اور نہ ہی یہ کہ دنیا میں جنتی عورتوں کو گھر کا قیدی بن کر رہنے کا حکم ہے، نہیں! بلکہ یہ کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں گی باپردہ ہوں گی، غیر مردوں کی نگاہوں سے مستور ہوں گی اور اپنے شوہروں میں ہی عزت، لذت اور راحت کے سارے سامان مجتمع پائیں گی۔
1۳۔ ایک صفت یہ بتلائی گئی کہ وہ ”قاصرات الطرف“ ہوں گی۔ اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ اول یہ کہ اپنے شوہروں کے سوا کسی کی طرف ان کی نگاہیں نہیں اٹھیں گی، یعنی جنت میں خدا تعالی ہر ایک مرد کو ایسا حسن عطا فرمائیں گے، متعلقہ تمام حوروں کے لیے اپنے اپنے شوہر اتنے حسین کردیے جائیں گے اور ہر ایک حسینہ کا اپنے اپنے مرد سے متعلق تاثر اتنا قوی ہوگا کہ نگاہ کسی اور طرف موڑنے کو سرے سے جی ہی نہیں چاہے گا، چنانچہ ایک روایت کے مطابق وہ اپنے شوہر سے کہے گی: ”وعزّۃ ربي وجلالہ وجمالہ، إن أری في الجنۃ شيئا أحسن منك، فالحمد للہ الذي جعلك زوجي، وجعلني زوجَك“ (تفسیر ابنِ جریر، الرحمن: 56) یعنی ”مجھے اپنے رب کی عزت، عظمت اور جمال کی قسم، جنت میں تم سے زیادہ حسین چیز مجھے کوئی اور نظر نہیں آتی، شکر ہے اس رب کا جس نے تجھ کو میرا اور مجھ کو تیرا رفیق بنایا۔“
یہ ”قاصرات الطرف“ کی ایک تفسیر ہے اور عربی محاورہ کی رو سے درست ہے، جبکہ ایک دوسری تفسیر کے مطابق ”قاصرات الطرف“ کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے مردوں کی نگاہ کو اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیں گی، گویا ان کے سراپا میں ایسی بجلیاں بھری ہوں گی جو دیکھنے والے کی نگاہ کو جکڑ لیں گی اور اِدھر اُدھر کا ہوش نہیں رہنے دیں گی اور ہر عورت اپنے خاوند کے لیے ایسی ہی ہوگی۔ ”قاصرات الطرف“ کا یہ معنی بھی عربی محاورہ کی رو سے درست ہے اور بعض مفسرین نے اسے اختیار کیا ہے۔ (دیکھئے: روح المعانی) سو یہ لفظ اپنی ایک تفسیر کی رو سے عورت کے حسن کو بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے دیکھنے والے کی نگاہوں کو جکڑ لیں گی اور ادھر ادھر کا ہوش نہیں رہنے دیں گی، جبکہ دوسری تفسیر کی رو سے خاوند کے حسن کو بیان کرتا ہے کہ وہ ان کے سوا کسی کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گی۔ قرآن میں اس جگہ ایک قطعی الدلالہ لفظ استعمال فرمانے کی بجائے ظنی الدلالہ یا یوں کہیں کہ ذو معنی لفظ استعمال فر ما کر گویا دونوں کے غیر معمولی حسن کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔
حورانِ بہشتی کے مذکورہ اوصاف کے اندر خواتین غور کریں اور پھر سوچیں کہ کیا یہ اوصاف وخصائل ان سے غیر متعلقہ ہیں اور اِن میں اُن کے لیے کیا واقعی کوئی سبق اور کوئی رغبت نہیں ہے اور کیا ان اوصاف میں صرف مردوں کو رغبت ہوتی ہے یا پھر عورت بھی خود کو ایسا ہی دیکھنا چاہتی ہے؟
جنتی مردوں کا حسن وجمال
ذہن میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ قرآن وحدیث میں چلئے، جنتی حسیناؤں کے اوصاف وخصائل تو موجود ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ ان میں خواتین کو بھی رغبت ہونی چاہئے، لیکن سوال یہ ہے کہ خود ان مردوں کے حسن وجمال کا کوئی تذکرہ کیوں نہیں ہے جنہوں نے عورتوں کا رفیق بننا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی گذارش تو یہ ہے کہ ”قاصرات الطرف“ کا پہلا مفہوم جو ابھی بیان ہوا، وہ در اصل جنتی مردوں ہی کے حسن کی طرف اشارہ کرتا ہے، چنانچہ متعلقہ ایک روایت بھی ابھی بیان ہوئی ہے جس میں جنتی عورت اپنے خاوند کی تعریف کرتی ہے۔ نیز ایک اور روایت کی رو سے جنتی مردوں کی آنکھیں سرمگیں ہوں گی، سراپا بالوں کے بغیر ہوگا اور چہرہ پر ڈاڑھیاں نہیں ہوں گی۔ (جامع الترمذی، رقم 2359) نیز ایک حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ جنت کے اندر ایک بازار ہوگا، اس بازار میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں لگی ہوں گی، انسان کو جو تصویر اچھی لگے گی اس میں داخل ہوگا اور ویسا ہی سراپا لے کر باہر آجائے گا۔ (جامع الترمذی، رقم 2550)
قرآن میں ارشاد ہے کہ وہ ریشم کے بیش قیمت لباس میں ملبوس ہوں گے اور انہوں نے سونا، چاندی و موتیوں کے جڑاؤکنگن پہن رکھے ہوں گے۔ (الحج: 23، الانسان: 21) نیز ان کے چہرے روشن وچمکدار ہوں گے (آلِ عمران: 106) ان کے چہرے کھلتے ہنستے اور بارونق ہوں گے (عبس: 38، 39) اور ان پر ایک بشاشت، تازگی، شگفتگی اور تمتماہٹ دیکھی جاسکے گی۔ (القیامہ: 22) وہ نعمتوں کا جہان ہوگا جس میں وہ ٹھہرے ہوں گے، اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے اور ان کے چہروں پر خوشحالی کے جلوے ہوں گے۔ (المطففین: 24) یہ صفات جنتیوں کی ہیں اور عورت ومرد دونوں کو شامل ہیں لہذا اِن سے جنتی مردوں کی سیرت، صورت اور وجاہت کا اندازہ بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
تاہم اگر چاہا جائے کہ مردوں کے حسن وجمال کو بیان کرنے کے لیے بھی ویسی ہی رنگین تشبیہات ملیں جیسی جنتی حسیناؤں کے لیے وارد ہیں تو وہ شاید نہ مل سکیں کیونکہ رنگین اور مترنم تشبیہات عموما ہر زبان میں زنانہ حسن کے لیے ہوتی ہیں اور انہی سے کلام میں وہ ترنم پیدا ہوتا ہے جس میں مردوں وعورتوں دونوں کو دلچسپی ہوتی ہے۔ نیز جنتی حسیناؤں کا ذکر خصوصیت کے ساتھ شاید اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ مومن خواتین جنت کو صرف مردوں کی جگہ نہ سمجھیں اور نہ ہی مرد اپنے آپ کو وہاں تنہا سمجھیں۔
نیز یہ بات سچ ہے کہ قرآن وحدیث میں جنت کی بہت بلیغ تصویر کھینچی گئی ہے لیکن درحقیقت جنت سننے کی نہیں، دیکھنے کی چیز ہے اور دیکھنے سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ اس کی لذتوں اور ذائقوں کے جتنے پہلو ہمارے سامنے بیان ہوئے ہیں، وہ سب کے سب در اصل اجمالی خاکہ ہیں اور جنت کا جہاں بس انہی پہلؤوں میں محصور نہیں۔ قرآن وحدیث ہی کی نصوص سے یہ بات پوری صراحت اور بداہت کے ساتھ ثابت ہے۔ارشادِ ربانی ہے کہ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی تمنا دل کرتے ہیں اور آنکھوں کی لذت کا سامان بھی مہیا ہوگا۔ (الزخرف: 71) ایک اور جگہ فرمایا کہ کوئی نہیں جانتا کہ جنتیوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان پردۂ غیب میں پڑا ہوا ہے۔ (السجدہ: 17) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ”میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ تو کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گذرا۔“ (صحیح البخاری، رقم 3244)
آخری بات
بعض لوگ حورانِ بہشتی کے تذکرہ کو دنیاوی تلذذ اور جگت بازی کا ذریعہ بناتے ہیں، حالانکہ جنت کی نعمتوں کا تذکرہ اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی دنیا کی پوجا چھوڑ کر اللہ کی پوجا اختیار کرے، اپنے سجدوں کو طویل کردے، کم زوروں پر رحم کھائے، زندگی کی روش بدلے اور دنیاوی خواہشات کی بجائے اخروی مقاصد کا اسیر بنے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اپنی یاد سے ہمارے دلوں کو معمور فرما دیں، اپنے لیے جینے مرنے کا سلیقہ سکھا دیں اور ایسا بنا دیں کہ جنت کو پانے کے ہم قابل ہوسکیں۔
گذشتہ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ”حور“ کا لفظ قرآن وحدیث میں بالعموم تمام جنتی حسیناؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے (خواہ وہ کلمہ کن سے پیدا ہونے والی ہوں یا دنیا کی مومن عورتیں) اور اس کا معنی ”جاذبِ نظر حسینائیں“ ہے۔ نیز قرآن وحدیث میں جہاں جنتی حسیناؤں کا تذکرہ آتا ہے تو اسے صرف کلمہء کن کے ساتھ پیدا ہونے والی حسیناؤں سے متعلق سمجھنا (یا مومن مردوں کو بھی ساتھ شامل کرد ینا) ایک تکلف ہے۔مزید یہ کہ ان تذکروں میں مومن خواتین کے لیے بھی رغبت کا پورا پورا سامان موجود ہوتا ہے اور اس پہلو کو اجاگر کرنا ہی قرآن کی صحیح ترجمانی کا ایک لازمی تقاضا ہے۔واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مولانا محمد عبد اللہ شارق