آج لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ اِسلام عورت کو وہ کچھ نہیں دے رہا جو مغرب دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مغرب ہمارا معیار ہے؟ وہ مغرب جس نے فرائض کو حقوق کا نام دے کر عورتوں کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں اور ترقی پذیر ممالک کو عورت کی آزادی کے نام پر اس بات پر مجبور کیاجا رہا ہے کہ ہم ویسٹرن سولائزیشن کو قبول کریں۔ دوسروں کو آزادیٔ رائے کا درس دینے والوں کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگ مغربی طرزِ زندگی کے علاوہ کسی اور طرزِ زندگی پر عمل پیرا رہیں۔
روس کے سابق وزیراعظم گوربا چوف نے اپنی کتاب ’پرسٹرائیکا‘ میں لکھا ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں افراد قتل ہوئے جس کی وجہ سے ہمارے پاس کارخانوں اور دفتروں میں افرادی قوت کی کمی ہوگئی۔ اِس افرادی قوت کی کمی کو دور کرنے کا طریقہ ہم نے یہ سوچا کہ کسی طرح بھلا پھسلا کر عورت کو دفتروں اور کارخانوں میں لایا جائے۔ ہم عورت کو مردوں کے برابر حقوق کا، مساوات کا، اور معاش کا لالچ دے کر کارخانوں اور دفتروں میں لے آئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہمارے کارخانوں اور دفتروں کا نظام تو چل گیا لیکن ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا۔ گوربا چوف نے کہا کہ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عورت کو اس کے اصل مقام، یعنی گھریلو زندگی میں کیسے واپس لے جائیں۔
امریکہ کی سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن نے ایک مرتبہ دورۂ پاکستان کے دوران مختلف سکولز اور کالجز کا دورہ کیا اور انکے مسائل سنے۔ اسلام آباد کے ایک سکول میں ایک طالبہ نے ہیلری کلنٹن سے پوچھ لیا کہ آپ کے ہاں لڑکیوں کا مسئلہ کیا ہے؟ ہیلری نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان لڑکیاں بن بیاہی مائیں بن جاتی ہیں، جس کے بعد وہ زندگی کی بہت سی الجھنوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔
مجھ سے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو کیا حقوق دیے ہیں تو میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلام نے عورت کو سب سے پہلا حق زندگی کا دیا ہے کہ اس معاشرہ میں جہاں پیدا ہونے والی لڑکی باپ کے رحم و کرم پر ہوتی تھی کہ وہ اسے زندہ رہنے دے یا زندہ ہی زمین میں دفنا دے، اسلام نے اس ظلم کا خاتمہ کر کے عورت کو دنیا میں زندہ رہنے کا حق دلوایا۔ قرآن کریم میں اس قتل کے دو اہم اسباب بیان کیے ۔ ایک ’’خشیۃ املاق‘‘ کہ فاقے کے ڈر سے بچی کو زندہ ہی دفن کر دیا جاتا تھا کہ یہ ساری زندگی دوسروں پر بوجھ رہے گی اور خود کما نہیں سکے گی۔ اور دوسرا ’’عار‘‘ ہے کہ لڑکی کا باپ ہونا عار سمجھا جاتا تھا۔ اور جس کے گھر میں بچی پیدا ہوتی تھی وہ ’’تیواریٰ من القوم‘‘ لوگوں سے چھپتا پھرتا تھا کہ کوئی اس کو بچی پیدا ہونے کا طعنہ نہ دے دے۔اسلام نےاس جرم اور باقی ساری نا انصافیوں کا خاتمہ کردیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چار بیٹیوں کی پرورش کر کے اور انہیں محبت و شفقت ، عزت و احترام اور تمام حقوق کیساتھ بسا کے دنیا کو یہ سبق دیا کہ بیٹی بھی نعمت ہوتی ہے اور عزت و احترام کی مستحق ہوتی ہے۔ اسلام کی اس تعلیم کے جو معاشرے پر اثرات آئے انکو دیوان حماسہ میں ایک عرب شاعر نے اسکی منظر کشی یوں کی
غدا الناس مذقام النبی الجواریا
جب سے یہ نبی ؐ آیا ہے ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوگئی ہیں۔
زاہد الراشدی
جس وقت یورپ میں عورت کو ناپاک سمجھا جانے کے باعث عورت پر انجیل کو ہاتھ لگانا حرام سمجھا جاتا تھا، اُس وقت قرطبہ کے صرف ایک محلے کے اندر مصحف شریف (قرآن مجید) کی ہاتھ سے خطاطی کرنے والی مسلم خواتین کی تعداد 170 تک پہچتی تھی۔ (کتاب شمس العرب تسطع على الغرب “آفتابِ عرب کی مغرب پر ضو فشانی”)
جس وقت یورپ میں اعتقاد تھا کہ کوڑھی پر خدا کی مار ہے، اور جب فرانس کے کِنگ فلپ پنجم نے 1313ء میں فرمان جاری کیا کہ ملک کے سب کوڑھی جلا دیے جائیں اُس وقت مسلمانوں کے پاس دمشق میں کوڑھ کےلیے مختص دنیا کا پہلا ہسپتال تھا، جہاں ہر قسم مریض علاج کےلیے لایا جاتا
ہمارے ’ڈارک ایجز‘ آج کل ہیں یارو، سچے دین سے دور ہو کر اور ہماری ’روشن صدیاں‘ وہ جب ہمارے ہاں آسمانی شریعت کا راج تھا ، محمدﷺ کے دین پر آنے سے دونوں جہان ملتے ہیں، اور اسے چھوڑ کر دونوں جہان ہاتھ سے جاتے ہیں۔ یعنی صرف آخرت نہیں، دنیا بھی
یہ ہے فرق پال (Paul) کے دین میں اور محمدﷺ کے دین میں
طعنہ : پدرم سلطان بود(میراباب تو سلطان ہے) بھئی دنیا یہ نہیں دیکھتی آپ کیا وہ تو دیکھتی ہیں آپ کیا ہیں ۔!
“پدرم سلطان بود” چلیےایک طعنہ ہےجب اپنےپاس کچھ نہ ہو لیکن “باپ بدلنا” اس سےبڑا طعنہ ہے۔ یعنی مغرب پر فخر جبکہ اپنےہاں خاک اڑتی ہو!
بھئی دنیا یہ نہیں دیکھتی آپ کیا تھے. وہ تو دیکھتی ہے آپ کیا ہیں۔ جی درست۔ مگر آپ کو تو دیکھنا ہے، آپ پہلے کیا تھے اب کیا ہیں!
زاہد الراشدی ، حامد کمال الدین