قدیم عرب میں ایک رواج تھا جس کو ظِہار کہتے تھے۔ ایک شخص اپنی بیوی سے غصہ ہو کر کہہ دیتا کہ ‘انتِ علیّ کظہر اُمیّ‘ (تو میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے) جو شخص ایسا کہہ دیتا اس کے متعلق سمجھا جاتا کہ اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی۔مدینہ میں یہ واقعہ ہوا کہ ایک مسلمان حضرت اوس بن صامت نے کسی بات پر اپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ کو ایسا ہی کہہ دیا۔ اب بظاہر خولہ اپنے شوہر کے لیے حرام ہو گئیں۔ ان کے کئی بچے تھے، ان کو سخت پریشانی ہوئی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور پورا قصہ بتایا۔ اس وقت تک ظہار کا حکم نازل نہیں ہوا تھا اور طریقہ یہ تھا کہ جب تک کسی معاملے میں کوئی نئی وحی نہ آتی تو پرانا رواج چلتا تھا، چنانچہ پرانے رواج کے مطابق اسے طلاق ہوگئی تھی۔ خولہؓ رسول اللہؐ کے پاس آئی کہ یا رسول اللہ! میرے خاوند نے مجھ سے یہ بات کہہ دی ہے، حضورؐ نے فرمایا کہ طلاق ہوگئی ہے۔ خولہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ ! میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ میں بوڑھی کہاں جاؤں گی؟ مجھے خاوند سے بہت محبت ہے، میں اسے چھوڑ نہیں سکتی غرض وہ بڑی لجاجت اور منت سماجت کے اندز میں رسول اکر مﷺ سے جھگڑتی رہیں اوراس بات پر اصرار کرتی رہیں کہ ان الفاظ کو طلاق نہیں کہا جاسکتا۔ حضورؐ یہی بات فرماتے جاتے کہ اس معاملے میں میرے پاس کوئی حکم ابھی تک نہیں آیا۔ جب دیکھا کہ رسول اللہ ؐ کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں آرہا تو وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں فریاد شروع کردی اے اللہ تجھ سےاپنی سب سے بڑی تکلیف اور اپنے شوہر اوس کی جدائی کےرنج و احساس کی شکایت کرتی ہوں۔ میں ایک بے بس اور ناتواں عورت ہوں اور تیرے ہی فضل وکرم کی طلب گار ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں خولہ کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گفتگو اور اللہ سے دعا اور الحاح کا یہ منظر اس قدر درد ناک تھا ہم سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اس کیفیت پر ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ رسول اللہ ﷺ پر وہی کیفیت طاری ہو گئی جو نزول وحی کے وقت ہوا کرتی تھی۔ حضرت خولہ ؓ کےلئےیہ وقت پہلے سے بھی زیادہ نازک تھا۔وہ یاس و امید کی کش مکش میں مبتلا تھیں۔ وحی کی حالت ختم ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خولہ اللہ نے تمہارا فیصلہ کر دیاہے ۔ سورۂ مجادلہ اتری جس میں ظہار کے بارے میں اسلام کا حکم بتایا گیا ۔ یہ سورہ ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے: ” اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ کے ساتھ اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی۔ اور اللہ تم دونوں کی باتیں سن رہا ہے، بے شک وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔” اس سورہ کا نام بھی مجادلہ ہے ۔اللہ نے رسول اللہ ﷺ سے ان کا مجادلہ اور جھگڑا سن کر جو حکم نازل فرمایا اس میں ان الفاظ کو حکم طلاق میں نہیں مانا گیا تھااور شوہر پر کچھ کفارہ و جرمانہ عائد کیا گیا ۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطابؓ کا زمانہ تھا، حضرت عمرؓ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بازار میں جا رہے تھے، ایک بوڑھی خاتون لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے سامنے آگئی اور آواز دی، عمر ! بات سنو۔ حضرت عمرؓ کھڑے ہوگئے۔ بڑھیا کہنے لگی، اے عمرؓ ، ایک وقت تھا کہ میں نے تم کو عکاظ کے بازار میں دیکھا تھا۔ اس وقت تم عُمیر کہے جاتے تھے۔ تم ہاتھ میں لکڑی لیے ہوئے بکریاں چراتے تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ تم عمر کہے جانے لگے۔ اور اب تم امیر المومنین کہے جاتے ہو۔ دیکھو، رعایا کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ اور یاد رکھو کہ جو شخص اللہ کی پکڑ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دور کا آدمی بھی رشتہ دار کی طرح ہوتا ہے۔ اور جو آدمی موت سے نہیں ڈرتا اس کے بارے میں ڈر ہے کہ وہ اسی چیز کو کھو دے گا جس کو پانا چاہتا ہے۔حضرت عمرؓ کے ساتھیوں نے بڑھیا کے اِس لہجے اور بات کو محسوس کیا اور کہا کہ اے اللہ کی بندی تم کس سے مخاطب ہو اور کیا کہہ رہی ہو۔ ان کے سامنے تو وہ حضرت عمرؓ تھے جن کے نام سے اسوقت کی سپرپاورز لرز ری تھی ۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں کو منع کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں بولنے دو، تم جانتے ہو یہ کون ہیں؟ یہ وہ ہیں جن کی بات اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر سنی میں زمین پر ان کی بات کیوں نہ سنوں گا، بخدا یہ اگر شام تک مجھے یہاں کھڑا رکھیں، میں یہیں کھڑا رہوں گا۔ یہ خاتون وہی خولہؓ بنت ثعلبہ تھیں جن کی آہ و بکا پر سورۃ المجادلہ نازل ہوئی تھی۔
زاہد الراشدی