ایک صاحب فرماتے ہیں کہ “میرا جسم، خدا کی مرضی” کا نعرہ اس وجہ سے غلط ہے کہ خدا کی مرضی کا تعین مرد ہی تو کرتے ہیں۔
یہ بات بظاہر خوشنما لگتی ہے اور مجھے سو فی صد یقین ہے کہ صاحبِ تحریر نے خود اس بات کی حقیقت پر غور نہیں کیا ورنہ اس خوشنما بات کے اندر چھپے ہوئے الحاد و کفر کو پہچاننے میں انھیں دقت نہ ہوتی۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے جیسے کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک شوقیہ لبرل دوست نے فرمایا تھا کہ خدا خود آکر اپنی مرضی بتائے تو مانوں۔ کچھ خیال آیا کہ کیا یہ وہی بنی اسرائیل والی بات ہوگئی یا نہیں جب انھوں نے سیدنا موسی علیہ السلام سے کہا تھا کہ لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ؟ (ہم ہر گز تیری بات نہیں مانیں گے جب تک ہم اللہ کو علانیہ دیکھ نہ لیں!)
ان دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ پہلے وہ اس بات کا تعین کرلیں کہ وہ یہ بات کس مقام پر کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں؟ کیا وہ مسلمان کی حیثیت سے سوال کررہے ہیں ، یا اسلام سے باہر کھڑے ہو کر ایک “غیر جانبدار” پوزیشن لے رہے ہیں؟ اگر یہ دوسری بات ہے تو پھر بحث کا زاویہ مختلف ہوگا لیکن اگر آپ مسلمان ہو کر یہ سوال کررہے ہیں تو پھر یہ سوال بنتا نہیں ہے کیونکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ نہ صرف یہ مانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں جن کے ذریعے نے اللہ نے اپنی مرضی کا اظہار ہمارے لیے حتمی طور پر کردیا ہے بلکہ یہ بھی مانتے ہیں کہ آپ کے بعد کسی رسول نے نہیں آنا ، اس لیے تاقیامت اللہ تعالیٰ کی یہ مرضی انسانوں کےلیے روزِ روشن کی طرح عیاں رہے گی (جسے حدیثِ مبارک میں لیلھا کنھارھا ، اس کی رات اس کے دن کی مانند ہے ، سے تعبیر کیا گیا ہے)۔ چنانچہ کسی مسلمان کےلیے یہ فرض کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ اللہ کی مرضی انسانوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئی ہو۔ وہ بحیثیت مسلمان یہ مانتا ہے کہ لوگوں سے فہم میں غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن بحیثیتِ مجموعی مسلمان امت کبھی اللہ کے قانون کے فہم میں غلطی نہیں کرسکتی ۔
ہاں، اگر فیشن کے مطابق “غیر جانبداری” اور “معروضیت” دکھانی مجبوری ہے ، تو بات الگ ہے۔ پھر سوال صرف یہی نہیں رہے گا کہ خدا کی مرضی کا اظہار کیسے ہوتا ہے ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی ہوگا کہ خدا کی مرضی انسانوں کے امور میں متعلق ہے بھی یا نہیں؟
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی!
ڈاکٹر مشتاق احمد