کسی بھی تہذیب کا انحصار اس کے اقداری نظام پر ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی تہذیب کی ماہیت اس کے اصول کو سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی اقدار کا سمجھنا اور جاننا لازمی ہے۔ یہ زمانہ جس میں ہم رہ رہے ہیں مغربی تہذیب کے غلبہ کا زمانہ ہے۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ان اقدار کو سمجھا جائے جس پر مغربی تہذیب قائم ہے تاکہ وہ سامان مہیاکیا جاسکے جس کی بنیاد پر ہم اپنے معاشرے اور تہذیب کو مغربی تہذیب سے بچانے کی کوشش کرسکیں اور ان اقدار کو فروغ حاصل ہو جو ہماری تہذیب کا جزولاینفک ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب آخر ہے کیا؟ اور اس کی بنیادی قدریں کیا ہیں۔ مختصر طور پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ مغربی تہذیب انسان پرست (Humanist) تہذیب ہے جس کا محورو مرکز انسان اور صرف انسان ہے اور جس کی تمام تر جولانیوں کا حاصل اس دنیا میں انسان کی خدائی کا قیام ہے۔
۔آزادی :
مغربی تہذیب کے مطالعہ سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس تہذیب کی بنیادی قدر آزادی ہے۔ یہی تہذیب مغرب کی اساس اور بنیاد ہے۔ دراصل آزادی نام ہے اس بات کا کہ انسان خیروشر کے معیارات کے تعین کا نہ صرف مجاز بلکہ حق دار ہے اور اس کی انسانیت کا جوہر ہی یہ ہے کہ وہ اپنے آزادانہ متعین کردہ اقدار کو اپنا سکے اور ان کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔اس کا بہترین اظہار ہمیں مغربی مفکر کانٹ کے یہاں ملتاہے جو انسان کو End in himslef یا مقصود بالذات قرار دیتا ہے وہ ایک جگہ کہتا ہے کہ تم کوئی بھی کام یہ سوچ کر نہ کرو کہ تم ذریعہ ہو بلکہ ہر کام یہ سوچ کر کرو کہ تم ہر چیز کا مقصود ہو۔
مغربی مفکرین نے آزادی کی دو اقسام بیان کی ہیں۔
(١) آزادی کا منفی تصور (Negative Freedom )
(٢) آزادی کا مثبت تصور (Postive Freedom)
آزادی کا منفی تصور:
آزادی کا منفی تصور یہ ہے کہ معاشرہ جو ناگزیر پابندیاں لگاتا ہے اس کے باوجود انسان کے پاس ایک ایسا علاقہ بچ رہنا چاہیے جس میں وہ اپنی خدائی کا اظہار کرسکے اور اپنے متعین کردہ اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکے۔ آزادی کے منفی تصور میں اس بات سے بحث نہیں ہوتی ہے کہ انسان اس دائرہ کار میںکس قسم کی زندگی گزارے گا (شراب پیئے گا، نماز پڑھے گا، زنا کرے گا وغیرہ) بلکہ صرف منفی طور پر یہ تصور کار فرما ہوتا ہے کہ تمام ناگزیر معاشرتی جکڑ بندیوں کے درمیان ایک ایسا علاقہ ضرور ہونا چاہیے جس میں انسان جو چاہے وہ کر گزرے اور کسی دوسرے کے سامنے وہ اس معاملے میں جواب دہ نہیں ہوتا ۔ وہ اس علاقہ میں چاہے کچھ بھی کرے یہ اس کا وہ مقدس حق ہے۔ جس کے اندر کوئی دوسرا مداخلت نہیںکرسکتا۔ اس تصور کے رو سے انسان کی ذاتی زندگی میں آزادی اس کی نفسیاتی خواہشات پر ہر قسم کی قدغن سے آزادی ہے۔ انفرادی حقوق کا سارا معاملہ اس مقدس آزادی کا تحفظ ہے جس میں آزادی فکر ونظر، حق ملکیت، اظہار رائے وغیرہ کا حق شامل ہے۔ عیسائی برلن کے الفاظ ہیں:
”ان معنوں میں آزاد ہونے کا مطلب دوسروں کی کسی قسم کی مداخلت سے آزادی ہے۔ دوسروں کی مداخلت سے آزادی کا یہ علاقہ جتنا وسیع ہو گااس قدر میں زیادہ آزاد ہوںگا۔”
”یہ بہت ضروری ہے کہ کم از کم ایک ایسا علاقہ ضرور ہو جس میں کسی کو کسی بھی حالت میں مداخلت کا حق نہ ہو۔”
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا ہے وہ اچھائی اور برائی کے پیمانوں کا خالق ہے۔ لبرلزم کے تمام دھڑے اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی اختیار کا کوئی نہ کوئی دائرہ معاشرتی جکڑبندیوں سے آزاد ہو جہاں وہ اپنی خدائی کو روبہ عمل لاسکے۔ ریاست ومعاشرے کا فرض ہے کہ وہ اس دائرے کو زیادہ سے زیادہ وسعت دیں۔
برلن کے الفاظ میں:
”اکیلی آزادی جو آزادی کہلانے کی مستحق ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے طریقے کے مطابق اپنے اہداف حاصل کرنے کا اختیار ہو۔”
وہ مزید کہتا ہے کہ:
”آزادی کا یہ تصور اس منفی ہدف پر مشتمل ہے کہ انسان کے مخصوص دائرہ اختیار میں ہر قسم کی مداخلت کا قلع قمع کیا جاسکے۔”
آزادی کے اس تصور کے نتیجہ میں پبلک اور پرائیویٹ لائف کا فرق پیدا ہوتا ہے۔ آزادی کے منفی پہلو سے مراد یہ ہے کہ انسان کی نجی زندگی میں کسی کو بھی مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔ مقصود یہ ہے کہ انسان کی آزادی زیادہ سے زیادہ ممکنہ حد تک وسیع ہوتی چلی جائے تاکہ وہ اس کی خدائی میں اضافہ ہوسکے۔
منفی آزادی کے نتائج:
منفی آزادی سے جو وسیع نتائج اخلاق، معاشرت اور ریاست کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں ان پر سیرحاصل بحث کا تو یہ موقع نہیں ہے لیکن چند اشارات ناگزیر ہیں۔
١۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزادی درحقیقت کچھ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک خالی علاقہ ہے جہاں انسان جو کچھ چاہے وہ کرگزرے۔ خود آزادی کچھ نہیں ہے۔ اس کا کوئی Content نہیں ہے بلکہ اس کا Contentنفسانیت سے پر ہوتا ہے۔
٢۔ آزادی اقدار کی نفی ہے۔ کیونکہ جب آپ کہیں گے کہ آزادی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں آپ جو چاہیں کر گزریں اور جو آپ کریں وہی حق ہے تو اقدار کی بحث بے معنی ہوجاتی ہے۔ ہر شخص قدر خود متعین کرتاہے حالانکہ قدر کی تعریف ہی یہ ہے کہ جس کا پیمانہ انسان کی ذات نہیں بلکہ خارجی اور معروضی ہو۔ اگر ہر شے اور خواہش کی قدر یکساں ہے تو فی الحقیقت کسی شے کی کوئی قدر نہیں۔
٣۔ آزادی کے منفی تصور سے متصل تصور اقدار کے تعدّد یعنی Plurality of Values کا ہے۔ یعنی میری متعین کردہ قدر اور آپ کی متعین کردہ قدر برابر ہے۔
اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ ترتیب اقدار ناممکن ہے کیوںکہ ہر شخص کی متعین کردہ اقدار یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ اقدار کی فوقیت صرف ارتکاز قوت (کثرت رائے یا کثرت مال) سے قائم کی جاسکتی ہے اور اس فوقیت کا کوئی نظری جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
آزادی کا مثبت پہلو:
لبرلزم کے پاس آزادی کا کوئی مثبت معاشرتی تصور موجود نہیں ہے بلکہ وہ منفی آزادیوں کے مجموعہ ہی کو معاشرتی اور مثبت تصور گردانتے ہیں اور ان کے خیال میں معاشرہ کا فرض ہی یہ ہے کہ منفی آزادی کے مجموعہ کی زیادہ سے زیادہ بڑھوتری کے لیے تگ ودو کرے۔
لبرلزم کے برعکس کمیونییٹرین آزادی کا ایک مثبت تصور پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں عقل ہمیں بتا سکتی ہے کہ آزاد ہونے کا کیا طریقہ ہے۔ اس سلسلہ میں روسو، ہیگل اور مارکس نے مثبت آزادی کے مختلف تصورات بیان کیے ہیں۔ لیکن چونکہ ہم بنیادی طو رپر لبرل سوچ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے ہم تفصیل میں نہیں جائیں گے۔ اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ کمیونیٹیرینزم مثبت آزادی (Positive Freedom) سے وہ معاشرتی نظام مراد لیتے ہیں جس کے قیام کے نتیجہ میں انسانیت بحیثیت نوع کے خدا بن سکے۔ روسو کے مطابق خدا بن جانے کا یہ عمل (Social Contract) کے ذریعہ ایک انقلابی معاشرہ کے قیام کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے اور مارکس کے خیال میں انسانیت طبقاتی کشمکش کے ذریعہ بحیثیت نوع خدا بن سکتی ہے۔ خدا بننے کی آرزو تمام خواہشات کی تکمیل کے سو ا کچھ نہیں چنانچہ کمیونیٹرنزم جس تعقل کو بنیاد بناکر Positive Freedom کو متشکل کرنے کا دعویٰ دار ہے وہ بھی خواہشات کی غلام ہے۔ وہ بھی Rationality bounded by desire ہے اور اقدار کی آفاقی اور مستقل ترتیب کرنے سے قاصر ہے لینن نے اس بات کا اقرار کئی جگہ کیا ہے وہ کہتا ہے کہ سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جن اخلاقیات کو اپنانا چاہیے وہ ان اخلاقیات سے بالکل مختلف ہیں جو اشتراکی معاشرہ کی تعمیر کے دور میں مستحسن قرار دی جانے چاہیں یعنی کوئی مستقل اقدار موجود نہیں۔ لبرل مفکرین آزادی کے مثبت تصور کو رد کرتے ہیں اور آزادی کے حصول کا صحیح طریقہ منفی آزادی کے فروغ کو ہی گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک مثبت آزادی کی جستجو لاحاصل بلکہ خطرناک ہے کیونکہ اس سے فاشزم کے لیے راہ ہموار ہوتی ہے۔
لبرل مفکرین کے نزدیک آزاد معاشرہ میں:
(١) قوت مطلق نہیں ہوتی بلکہ حقوق مطلق ہوتے ہیں۔
(٢) فرد کی زندگی کے اردگرد ایسی غیرمصنوعی سرحدیں ہیں جو مقدس ہیں اور جنہیں کسی قیمت پر پامال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یعنی اصل مقصود ”منفی آزادی” ہے اور مثبت یا معاشرتی آزادی اس کے تحفظ کا ذریعہ ہے اور لبرل مفکرین کے یہاں مثبت سیاسی حقوق، سیاسی عمل میں شرکت، وغیرہ کا واحد مقصد ”منفی آزادی” کا تحفظ ہوتاہے ان مفکرین کے نزدیک انسانیت کی مجموعی آزادی کا تصور لغو اور صرف تخیل کی کرشمہ سازی ہے۔
مساوات:
لبرلزم کا تصور مساوات اس کے تصور آزادی کا ساختہ پر داختہ ہے۔ ہر انسان کے متعین کردہ اہداف دوسرے انسان کے متعین کردہ اہداف کے برابر قدر وقیمت رکھتے ہیں۔
اس تصور کے مطابق ترتیب اقدار ناممکن ہوجاتی ہے۔ معاشرتی قدر وقیمت انسان کے اعمال اور اخلاص سے متعین نہیں ہوتی بلکہ مادی ترقی معاشرتی قدر وقیمت کا واحد معیار رہ جاتی ہے۔
رالس (Rawls) نے اس سلسلہ میں ایک عمدہ مثال دی ہے وہ کہتاہے کہ ایک شخص اگر متعین رقبہ میں ہیروئن کو ختم کرنے کا ہدف طے کرتا ہے اور دوسرا شخص اسی رقبہ میں گھاس کی پتیوں کو گننے کا ہدف مقرر کرتا ہے تو لبرلزم کے نزدیک یہ دونوں اہداف یکساں معاشرتی اہمیت اور قدر وقیمت رکھتے ہیں۔
معاشرہ کو دو طرح سے معاشرتی ادارتی حیثیت دی جاتی ہے۔ (١) قانونی طو رپر (٢) سیاسی طور پر۔
سیاسی طو رپر ہر شخص کا ووٹ برابر ہے چاہے وہ نمازی ہے یا زانی یا شرابی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قانونی اعتبار سے ہر شخص کی آزادی کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس میں مداخلت نہ کی جاسکے اور اس کی نجی حیثیت برقرار رہ سکے۔
اسلام مساوات کے اس تصور کو رد کرتا ہے۔ تمام اقدار کی یکساں اہمیت نہیں ہے بلکہ خدا کی قائم کردہ مطلق ترتیب ہے کہ جس میں ردوبدل نہیں کیا جاسکتا۔ جو شخص تقویٰ میں، محبت رسول میں بڑھا ہو اہے وہی افضل ہے۔ کوئی شرابی وزانی نہ تو نمازی کے برابر ہوسکتا ہے نہ اس کے ووٹ کی قدروقیمت نمازی کے ووٹ کے برابر ہوسکتی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
”جو جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ کس طرح برابر ہوسکتے ہیں۔”
عدل:
ایک لبرل معاشرہ میں عدل کا تصور یہ ہے۔
(١) ہر فرد کو اس کا حق ہوکہ وہ اپنی ذاتی اور معاشرتی اہداف کو آزادانہ طور پر (Autonomously)مقرر کرے۔
(٢) تمام اہداف کو مساویانہ معاشرتی قدر حاصل ہو ان میں کوئی ترجیحی ترتیب جائز نہیں۔
(٣) لیکن چونکہ اس ترجیحی ترتیب کے بغیر زندگی کا کاروبار نہیں چلایا جاسکتا لہٰذا اہداف میں ترتیب کا حق صرف مستقل تبدیل ہوئی اکثریتی رائے کو سونپا جاسکتا ہے۔
(٤) اس کے باوجود اکثریت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی فرد کا بنیادی فطری حق منسوخ کردے۔ فطری حق یہ ہے۔
”ہر فرد کے ساتھ مساویانہ قانونی اور اخلاقی برتاؤ کیاجائے گا خواہ اس کے عقائد،کردار، شخصیت اور میلانات کچھ بھی ہوں۔”
لبرل تصور عدل سراسر ظلم ہے کیونکہ
(١) اس تصور کے مطابق فرد کو خدا کا مقام دیا جاتا ہے فرد کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی تمام نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے جدوجہد کرے۔ خیر وشر کا بنیادی معیار نفسانی خواہشات ہیں۔
(٢) چونکہ تمام نفسانی خواہشات یکساں طور پر قدر رکھتی ہے لہٰذا اصولاً ان کو کوئی ترجیحی ترتیب نہیں دی جاسکتی عملاً چونکہ یہ ترتیب ناگزیر ہے لہٰذا اس کا حق اکثریت کو دیا جاتا ہے۔ لیکن اکثریت کو یہ حق نہیں ہے کہ فرد کے خدا ہونے کے بنیادی مفروضہ کو رد کرے۔
(٣) لبرلزم فطرت انسانی کے ادراک کا واحد ذریعہ صرف طبعی علوم (Physical Scinices) کو گردانتا ہے۔ لبرلزم کا تصور عین جہالت ہے۔ چونکہ لبرلزم کے مطابق علم کی بنیاد ایمان نہیں بلکہ ریب (doubt) ہے۔ جیسا کہ کارل پاپر(Popper) نے کہا ”صرف وہ حق ہے جس کو جھٹلایا جاسکتا ہے۔” لبرل ”علم” کے حصول کا واحد مقصد تسخیر کائنات ہے۔
(٤) جیسا کہ لبرل فلسفی خود اقرار کرتے ہیں طبعی ”علوم” کسی ضابطۂ حیات یا نظام اخلاق کی نشاندہی نہیں کرتے وہ ”value neutral” ہیں۔ لبرلزم کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ فرد کی پرستش کے باوجود وہ فرد کی داخلی زندگی اور اس کی داخلی کیفیات کا کوئی ادراک نہیں رکھتا۔ اس کا ”علم” صرف ہیئت (form) اور تعلقات (Structures) تک رسائی رکھتا ہے۔ عرفان ذات سے قاصر ہے۔ اس کی دنیا بے نور (disenchanted) ہے چونکہ لبرلزم دل کی دنیا تاریک کردیتا ہے لہٰذا وہ خدا کی موت (god is dead) کا قائل ہے۔
(٥) لبرلزم فرد کی شخصیت کو مسخ کردیتا ہے۔ وہ محبت اور عبدیت کی نفی کرکے خودغرضی کو معاشرتی اور شخصی عمل کا واحد محرک تسلیم کرتا ہے۔ لبرل معاشرہ کا نمایندہ فرد خود غرض، سفاک، مفاد پرست اور متکبر ہوتا ہے۔ اس کی تمام تر دلچسپی اس دنیا کے مادی مفادا ت پر مرکوز ہوتی ہے۔ وہ تکاثر کے مرض میںمبتلا ہوتا ہے اور محبت اور خیرخواہی کی بنیاد پر شخصی تعلقات استوار کرنے سے بتدریج قاصر ہوتا ہے۔
(٦) لبرل معاشرہ اعتماد (Trust) سے خالی ہوتا ہے وہ خیر کی کوئی مستقل تعریف کرنے سے قاصر ہے لہٰذا اشخاص کو سماجی وحدتوں میںجوڑنے کے بجائے توڑتا ہے۔ تمام بنیادی سماجی ادارے لبرل معاشرہ میں شکست ریخت کا شکار ہوتے ہیں۔ لبرل معاشرہ خاندان پر ضرب کاری لگاتا ہے۔مرد اور زن کے تعلق کی بنیاد محبت کی بجائے شہوت قرار پاتی ہے اور ہر لبرل معاشرہ لازماً جنسی بے راہ روی کو فروغ دیتا ہے۔ اخلاقی تنزل کی بدترین مثالیں لبرل معاشرہ ہی فراہم کرتی ہے۔
ظاہر ہے اسلام لبرل اقدار، تصورات معاشرت اور نظام سیاست کی مکمل نفی کرتا ہے۔ ایک لبرل جمہوری ریاست میں اسلام کے پنپنے کے مواقع بتدریج معدوم ہوجاتے ہیں خواہ وہ ریاست دستوری ہو یا فلاحی ان دونوں قسم کی لبرل ریاستوں کے خلاف انقلابی جدوجہد ناگزیر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دستوری اور فلاحی ریاستوں کو مسمار کرنے کی ایک مربوط اور جامع اسلامی انقلابی حکمت عملی مرتب کی جائے۔
آزادی اور مساوات کے تصورات کی اصل نوعیت کا ادراک عام ہو اور ان اقدار کو ”اسلامیانے اور اسلامی جمہوریت اور لبرلزم کا ایک مغلوبہ بنانے کی تمام کوششیں ترک کی جائیں۔”
علی محمد رضوی