مارکیٹ کا مفہوم بالمعوم place where exchange of goods and services takes place (خرید و فروخت کا مقام) لیا جاتا ھے، مگر یہ اسکی درست اور واضح (essential) تعبیر نہیں اور اسی غلط تعبیر کی بنا پر بہت سی غلط فہمیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ مارکیٹ کی اس تعبیر کی بنا پر صرف ‘دکانوں کے مجموعے کی جگہ’ (collection of shops) کو ہی مارکیٹ سمجھا جاتا ھے (‘میں مارکیٹ جا رہا ھوں’ کا جملہ دکانوں والی جگہ جاتے وقت بولا جاتا ھے، مگر ہسپتال، سکول، کالج، یونیورسٹی ڈاکٹر کے کلینک، بس و ٹیکسی کی سواری، کھانے پینے کے ریسٹورینٹس، این جی اوز وغیرھم کو ‘مارکیٹ جانا’ نہیں سمجھا جاتا)۔ مگر فی الحقیقت یہ تمام مارکیٹ نظم ہی کے اظہار ہیں کہ یہاں بھی اشیاءوخدمات کی لین دین ھوتی ھے۔
تصور مارکیٹ کی درست تفہیم کیلئے دو باتوں کو سمجھنا ضروری ھے:
1) مارکیٹ کسی مخصوص جگہ نہیں بلکہ مخصوص قسم کے تعلقات (web of relationships) کا نام ھے (جیسے ‘خاندان’ تعلقات کے تانے بانے کا نام ھے)۔ مارکیٹ ان تعلقات کو کہتےہیں جو ”لین دین” کے نتیجے میں وجود میں آئیں۔ مگر صرف اتنی ہی بات کافی نہیں کیونکہ اس اعتبار سے تو ‘خاندان’ بھی مارکیٹ نظر آنے لگے گا
2) مارکیٹ کے لین دین پر مبنی یہ تعلقات ”ذاتی اغراض” (self-interested) کی عقلیت کے تحت وجود میں آتے ہیں۔ ذاتی غرض کی یہ ذہنیت محبت و ایثار کی نفی ھے، انہی معنی میں خاندان، مذہبی گروہ و روایتی بازار مارکیٹ نہیں کہ یہ اجتماعیتیں ذاتی اغراض کی ذہنیت نہیں بلکہ محبت،صلہ رحمی، ایثار و مروت کی بنیاد پر قائم ھوتے ہیں۔
درحقیقت مارکیٹ اس معاشرت کا نام ھے جو محض ذاتی اغراض کی تکمیل کیلئے وجود میں آنے والے تعلقات کے تانے بانوں سے وقوع پزیر ھوتی ھے (market is web of relationships based on the rationality of self-interestedness)۔ ایسی معاشرت کو سول سوسائٹی بھی کہتے ہیں جو اپنی نوعیت میں بالکل جداگانہ قسم اور روایتی مذہبی معاشرت کی نفی کا نام ھے۔ درحقیقت جدید معاشرت جس میں ھم سانس لے رھے ہیں اسکا غالب ترین حصہ اسی نوع کے مارکیٹ تعلقات پر مبنی ھے۔