جدید دنیا کا “آئیڈئیل” (‘خیر القرون’) اور خیرالقرون کی طرف مراجعت کی اہمیت
علم معاشیات میں مکمل مسابقت سے مراد ذاتی اغراض کی جستجو پر مبنی تعلقات سے وجود میں آنے والا ایک ایسا مسابقتی معاشرتی نظم ھے جسکے نتیجے میں سرمائے میں امکانی حد تک زیادہ سے زیادہ اضافہ ممکن ھوسکےگا۔ اس نظم کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں: ذاتی اغراض کے متلاشی بے شمار ھیومنز کا وجود، حصول سرمایہ کیلئے تعلقات بنانے اور توڑنے کی مکمل آزادی (free entry and exit)، تمام لوگوں کے پاس مکمل معلومات کی فراہمی (free and perfect information) اور سرمائے کی ترسیل اور اسکے حصول کیلئے کنٹریکٹ کی کاسٹ نہ ھونا (no transaction cost)۔ چنانچہ ماہرین معاشیات دعوی کرتے ہیں کہ مکمل مسابقت حصول سرمایہ کا وہ نظام ھے جہاں زیادہ سے زیادہ efficiency کا حصول خود بخود (بغیر کسی بیرونی، مثلاریاستی، مداخلت) ممکن ھوجاتا ھے۔
سوال پیدا ھوتا ھے کہ جب دنیا کا کوئی معاشرہ نہ صرف یہ کہ مکمل مسابقت کے نقشے پر پورا اترنا نہیں بلکہ ایسا ھونا بھی ممکن نہیں تو پھر علم معاشیات میں اس نظم کی تعلیم پر سب سے زیادہ زور کیوں دیا جاتا ھے؟ اسکا جواب یہ ھے علم معاشیات میں مکمل مسابقتی معاشرت کی تعلیم اس لئے نہیں دی جاتی کہ یہ کہیں موجود ھے بلکہ اس لئے دی جاتی ھے کہ یہ اسکا ‘مطلوب و مقصود’ (ideal-type) نظام ھے۔
آئیڈئیل کا مقصد کیا ھوتا ھے؟ اسکے تین بنیادی مقاصد ھوتے ہیں:
1) معیاری ‘پیمانے’ کی فراہمی جسکی بنیاد پر حاضر و موجود کو جانچا جاسکے (کہ وہ مطلوب سے کتنا دور یا نزدیک ھے)
2) حکمت عملی کی جہت کا تعین (کہ حاضر و موجود کو ‘کس طرف’ تبدیل کرنا ھے)
3) حکمت عملی کا لائحہ عمل و نشاندھی (کہ کس قسم کے اقدامات کرنے کی ضرورت ھے)
چنانچہ علم معاشیات کا تصور مکمل مسابقت یہ نہیں بتاتا کہ حاضر و موجود دنیا کیسی ھے بلکہ یہ بتاتا ھے کہ حاضروموجود کو کیسا بنانا ھے، یہ مطلوب سے کتنی دور ھے اور اسے مطلوبہ نظم میں تبدیل کرنے کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مثبت (positive) نہیں بلکہ ایک مثالی و معیاری (normative) تصور ھے۔ یہ تصور ریاست سے چند مخصوص نوع کے اقدامات کا تقاضا کرتا ھے (جسکی تشریح کسی دوسری پوسٹ میں کی جائے گی)۔
یہاں چند غور طلب نکات ہیں:
1) دور حاضر میں تبدیلی برائے تبدیلی نہیں آرہی جیسا کہ جدید ذہن کا خیال ھے، بلکہ ایک مخصوص آئیڈئیل (خیرالقرن) کی طرف آرہی ھے۔ چنانچہ دنیا یونہی گلوبلائزیشن کی طرف تبدیل نہیں ھورہی بلکہ اسکے پیچھے ایک مخصوص علمی ڈسکورس کار فرما ھے
2) جدید دنیا جمہوری عمل (لوگوں کی رائے) سے نہیں بلکہ مخصوص علمی ڈسکورس سے تشکیل پائی ھے اور پا رہی ھے، یہ علمیت بذات خود لوگوں کی آراء کی تشکیل سازی بھی کرتی ھے
3) دنیا کے ہر ‘نظام زندگی’ کا ایک آئیڈئیل ٹائپ ھوتا ھے جو حاصل ھوتا نہیں بلکہ حاصل ھوتا رھتا ھے (کبھی زیادہ اور کبھی کم)۔ اسلام کا بھی ایک آئیڈئیل ٹائپ ھے جسے خود سرکار (ص) نے ‘خیرالقرون’ قرار دیا
4) جو لوگ خیرالقرون کے اس بنیاد پر ناقد ہیں کہ ‘یہ ممکن نہیں’ انہیں چاہئے کہ ماہرین علم معاشیات کو مکمل مسابقت کی تعلیم دینے نیز دنیا کی تمام حکومتوں کو اسکی خاطر پالیسی سازی کے عمل سے روک دیں کہ یہ ممکن نہیں
5) پالیسی سازی ہمیشہ آئیڈئیل کے ریفرنس سے ھوتی ھے (کہ اسے کیسے حاصل کیا جائے)، جس نظرئیے کی پالیسی سازی کا عمل اسکے آئیڈئیل سے لا تعلق ھو جائے وہ کبھی منزل حاصل نہیں کرپاتا بلکہ اپنی شناخت دیگر نظامہائے زندگی میں تلاش کرنے لگتا ھے (جیسے جدید مسلم مفکرین نے کبھی اسلام کو جمہوریت کے اندر پہچانا تو کبھی سوشلزم کے ساتھ نتھی کردیا وغیرہ)۔ ایک آئیڈئیل ترک کردینے کا مطلب نیوٹرل ھوجانا نہیں بلکہ کسی دوسرے آئیڈئیل کو اختیار کرلینا ھوتا ھے اور بس
6) جو لوگ علم معاشیات (یا دیگر سوشل سائنسز) کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ گویا یہ مثبت سائنسی علوم ہیں وہ دھوکے اور وھم کا شکار ہیں، سوشل سائنسز اپنی وضع میں ‘نارمیٹو’ علوم ہیں جنکا بنیادی مقصد غیرسرمایہ دارانہ دنیا کو سرمایہ دارانہ نظم میں تبدیل کرنے کا لائحہ عمل وضع کرنا ھے (جیسا کہ مکمل مسابقت کے تصور سے واضح ھے)