محمد ظفر اقبال
یہ زمانہ انسانی فکر اور معاشرے کی ہر سطح پر مغربی افکار اور تہذیب کے غلبے کا زمانہ ہے۔ جدید مغربی تہذیب اپنی ابتدا سے اب تک خالص مادیت کی علم بردار رہی ہے۔ مادی ترقی
It was progress which had permitted Europeans to ‘Discover’ the whole world, and progress which would explain their growing hegemony over the global horizon.۱
اس حقیقت کے بالمقابل یہ بھی امر واقعہ ہے کہ مسلمان مادی ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔ مغرب کی مادی ترقی اور فتوحات کا عروج، امت مسلمہ پر مغرب کے تسلط اور یلغار کی مسلسل اور متواترسرگرمیاں اور مسلمانوں کی استخلاف فی الارض سے محرومی نے مسلم دنیا کو عجیب و غریب صورت حال سے دو چار کر رکھا ہے۔ مسلمان اس وقت بیک وقت چار ادوار میں ایک ساتھ زندہ ہیں:
<۱>undefined مسلمانوں کا دینی و مذہبی پس منظر تقریباً ۱۵۰۰ سال قدیم ہے۔
<۲>undefined مسلمانوں کا معاشرتی ڈھانچہ کم و بیش سترھویں اٹھارویں صدی کا ہے۔
<۳>undefined مسلمان عملاً بیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔
<۴>undefined مسلمانوں کی معلومات اکیسویں صدی کی ہیں ۔
اس صورت حال نے مسلم دنیا کو عجیب مخمصے میں مبتلا کررکھا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہ حیثیت قوم مسلمان ایک شکست خوردہ دنیا کے باسی ہیں جو اپنی سمت اور مقام کے تعین میں سرگرداں ہو۔ گزشتہ ڈیڑھ صدیوں میں امت مسلمہ کے علمی نمائندوں نے زوال امت کے تعین کی جستجو میں جو تحریری سرمایہ جمع کیا ہے، اسے پڑھ کر بہ طور امت مسلم شناخت کاسوال پوری شدت کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔کیا واقعی مسلمان اپنی شناخت کا غالب حصہ کھو چکے ہیں؟ اورباقی ماندہ مسلسل کھو رہے ہیں؟ زوال امت کے اسباب اور تجزیوں کا غالب حصہ آپس میں متضاد اور متصادم معلوم ہوتا ہے۔ اور اس پوری بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد سوائے الجھاؤ کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
زوال سے دوبارہ کمال کی بازیافت کے لیے حکمت عملی اور لائحہ عمل کے حوالے سے مسلم اہل فکر و قلم بالعموم تین نقاط نظر کے حامی معلوم ہوتے ہیں:
مادّی ترقی اصل الاصول اور مذہب چند کلیات کا نام ہے: مفکرین کا پہلا طبقہ:
پہلا طبقہ قلیل افراد کے ایسے گروہ پر مشتمل ہے جس کے نزدیک مادی ترقی
یہ طبقہ مغربی افکار و تہذیب اور فکر و فلسفے کو ایک عالم گیر سچائی اور فطری حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے۔ مذہب اوردینی اخلاقیات اس طبقے کی نظر میں ازکار رفتہ باتیں ہیں، اور ذہن انسانی کی عدم بلوغت
اسلام کے دفاع اور ترویج کے لیے ترقی ایک ناگزیر ضرورت: مسلم مفکرین کا دوسرا طبقہ:
دوسرا طبقہ مخلص مسلم مفکرین کے ایسے گروہ پر مشتمل ہے جن کے نزدیک اسلام کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی غیر مشروط اور اٹوٹ ہے۔ مسلمانوں کی کامیابی اور ناکامی کا واحد پیمانہ اسلام ہے۔ اسلام کو ماننے اور اس پر عمل کا تقاضا اسلام کی ترویج، اشاعت اور اس کے عملی نفاذ سے عبارت ہے۔ امت مسلمہ کے دینی اور معاشرتی تشخص کو قائم رکھنے ، اسلام کو ریاستی سطح پر نافذ کرنے اور عسکری سطح پر مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے مادی ترقی
مغربی فکر و تہذیب کے بے شمار پہلو مثلاً سیکولرازم، قوم پرستی، اباحیت پرستی، اخلاقی بے اعتدالی، جنسی بے راہ روی وغیرہ صریحاً مسترد کردینے کے قابل ہیں۔ اس کڑی تنقید کے باوجود مادی ترقی کا ’’قفل ابجد‘‘ بہ ہر حال مغرب ہی کے پاس ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مغرب کے بے شمار پہلو لائق رد سہی، لیکن اس کے بہت سے اجزا سے استفادہ خود اسلام کے دفاع و ترویج اور ملت اسلامیہ کے تہذیبی تشخص کی ناگزیر مجبوری ہے۔ مغربی تجربات اور اکتشافات خصوصاً سائنسی علوم و فنون اور سائنسی منہاج کا اخذ و کسب بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں تعلیم و تحصیل ہی وہ راہ ہے جس پر چل کر مطلوب و مقصود میں کامیابی کا امکان ہے۔ مغرب سے علوم و فنون سے اکتساب اور استفادے کے وقت نہایت حزم اور احتیاط اور چھان پھٹک کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں خذ ما صفا و دع ما کدر کا اصول پیش نظر رہنا چاہیے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلامی مابعد الطبیعیات، علمیات اور اخلاقیات کے حصار میں ان علوم و فنون کی تحصیل کریں۔ اس طرح ان مغربی علوم و فنون کی تحصیل کے نتائج اور اثرات ہر گز وہ نہ ہوں گے جن کا اظہار مغرب سے ہوا ہے۔ ایک بار جب ان علوم فنون کی تکمیل و تحصیل ہوجائے گی تو اس وقت مسلم سائنس دانوں کو چاہیے کہ وہ مغرب کے فلسفیانہ نظریات سے دامن جھاڑ کر اسلامی مابعد الطبیعیات، علمیات اور اقدار کے زیر اثر ایسے نتائج پیدا کریں جو مغرب سے الگ ہوں۔
مادی ترقی اور سائنسی علوم و فنون اصلاً غیر اقداری
مخلص مفکرین کا یہ گروہ اسلامی علمیات پر تو گہری نظر رکھتا ہے، لیکن مغربی فکر و فلسفے پر ، الاماشاء اللہ، تجزیاتی اور تنقیدی نظر نہیں رکھتا۔
دین اور مادی ترقی دو الگ مابعد الطبیعی دائروں کے رہین: مفکرین کا تیسرا طبقہ:
تیسرا طبقہ مخلص مسلم مفکرین کے ایسے گروہ پر مشتمل ہے جو اسلامی علوم اور مغربی فکر و تہذیب کی اصلیت اور حقیقت کو اس کے بنیادی ماخذ اور سیاق و سباق کے ساتھ نہ صرف جانتا ہے، بلکہ اسلامی علوم کی روشنی میں اس کے محاکمے کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق مغربی طرز کی مادی ترقی کے حصول کے لیے صرف مغربی زبان اور سائنسی علوم و فنون کی تحصیل و تعلیم کافی نہیں ہے۔ زبان تو علوم کے ابلاغ، اظہار اور تفہیم کا محض ایک ذریعہ
انسان مرکز کائنات: مادی ترقی کے حصول کا پہلا ہدف:
اس سفر کا پہلاہدف انسان اور کائنات کا رُخ ’’خدا مرکزی‘‘سے ’’بشر مرکزی‘‘
Progress is more than just a journey or an ideal. It is modern destiny. To modern man, and those who want to share his identity, rejecting faith in progress is unbearable. Modern man is defined by progress. His self-esteem is rooted in it and it is his deepest justification for the ruthlessness he displays towards his fellow men and nature.۳
آزاد منڈی کی معیشت، ترقی کا اصلی میدان:
دوسری بات یہ کہ اسلامی مابعد الطبیعیات کے زیر اثر مادی ترقی اس لیے بھی ممکن نہیں کہ حصول ترقی کا سب سے سریع العمل اور زرخیز میدان مارکیٹ
مادّی ترقی مخصوص اقدار اور مستقل تہذیب ہی میں ممکن ہے:
تیسرا اہم ترین اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ سائنسی ایجادات اور اکتشافات ہر گز غیر اقداری
’’جدید سائنس واضح طور پر مغربی ہے۔ پوری دنیا میں جہاں بھی سائنس کو اہمیت حاصل ہے وہ اپنے اسلوب اور طریق کار میں مغربی ہے۔ سائنس داں کا رنگ اور اس کی زبان خواہ کچھ بھی ہو‘‘۔۴
مغربی سائنس اور نیچرل فلاسفی: بنیادی فرق:
ممکن ہے بعض طبائع ’’مغربی سائنس‘‘ کا لفظ سن کر کچھ وحشت محسوس کریں کہ آیا سائنس بھی مشرقی یا مغربی ہوتی ہے؟ یہ امر واقعہ ہے کہ مغرب کی مادی ترقی
The essence of technology, which he names “the enframing,” reduces the being of entities to a calculative order. Hence, the mountain is not a mountain but a standing supply of coal, the Rhine is not the Rhine but an engine for hydro-electric energy, and humans are not humans but reserves of manpower. The experience of the modern world, then, is the experience of being’s withdrawal in face of the enframing and its sway over beings.۵
قبل از جدید معاشروں میں فطرت اپنے اندر ایک شان تقدیس رکھتی تھی اور جدید معاشروں میں فطرت محض ایک ’’شے‘‘
We submit to the peaceful production of the means of destruction, to the perfection of the waste, to being educated for a defense which deforms the defenders and that which they defend.۶
ٹیکنالوجی، جو جدید سائنسی ترقی اور تعیشات کا سب سے فعال مظہر ہے، کی حقیقت کے متعلق ضیاء الدین سردار لکھتے ہیں:
Technology is like fire. As long as it is under your control, you can derive benefit from it. Let it get out of hand, and you will be the first one it will destroy. And then the trees, and then the wood. And finally the earth itself.۷
اس لیے جدید سائنس کو غیر اقداری
’’حقیقت یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اپنے ساتھ ایک خاص تصور کائنات، ایک خاص طرز زیست، ایک خاص طرز عمل اور ایک خاص تصور وقت بھی لاتی ہے ۔۔۔ میں سوچ نہیں سکتا کہ اسلامی تہذیب مغربی ٹیکنالوجی کا ایک اچھا حصّہ اختیار کرے اور کہے کہ یہ اچھا اور کار آمد ہے اور دوسرا حصہ مسترد کردے اور کہے یہ برا اور بے کار ہے۔ آپ جدید ٹیکنالوجی کا جوبھی حصہ اختیار کریں و ہ اپنے ساتھ منفی اثرات بھی لائے گا‘‘۔۸
مزید کہتے ہیں:
’’مجھے ایسے حضرات سے سخت اختلاف ہے جو کہتے ہیں یورپ جاؤ وہاں بندوقیں بنانا سیکھو، واپس آؤ۔ بندوق بردار فوجیں کھڑی کرو اور باقی ہر چیز بھول جاؤ۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔در اصل تمام چیزیں اکھٹی آتی ہیں۔ بندوق سازی سے لے کر کمپیوٹر اور سیل فون بنانے کی ٹیکنالوجی تک فولاد سازی، جہاز سازی یہ سب صنعتیں آتی ہیں۔ کیوں کہ ان سب کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ ٹیکنالوجی اپنا ایک تصور کائنات رکھتی ہے اور انسان پر عائد کرتی ہے‘‘۔۹
ترقی کے فعلی محرکات اور دین کا اقداری نظام:
اسلامی مابعد الطبیعیات کے زیر اثر پروان چڑھنے والی مادی ترقی مغرب کے لیے کوئی خطرہ
مادی ترقی
Leniency bordering on approval towards such a sin, which is now perceived as the vertiable psychological engine of material progress.۱۰
مزید لکھتی ہیں:
Greed and arrogance in individual turn into prosperity and justice for nations and all mankind an invisible hand, a cunning reason that will do him humanity good even its members indulge in evil.۱۱
ان وجوہات کی بنا پر تیسرے طبقے کے مطابق مغربی ترقی کے حصول کی کوشش اور اسلام کے ساتھ وابستگی بہ یک وقت ممکن نہیں۔
اسلامی دنیا: مادّی ترقی کا حصول مغربی مفکرین کے بیانات کی روشنی میں:
یہ تو مادی ترقی کے حوالے سے اسلامی تہذیب کے علمی نمائندوں کے بیان فرمودہ خطوط اور مجوزہ احتیاطیں اور دوسرے طبقے کے خدشات، اعتراضات اور نتائج پر گفتگو تھی اس مبحث کو اگر ایک اور زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو بات زیادہ واضح ہوسکے گی۔ اہل مغرب جن سے مادی ترقی کے حصول کے لیے استفادہ کیا جائے گا، خود وہ مسلمانوں کے اس طرز عمل کو کس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آیا وہ اس تعلیم و تحصیل کو بلا کسی شرط اور قید کے مسلمانوں تک منتقل کردینے پر تیار ہیں؟کیا یہ ممکن ہے کہ مسلمان مغرب سے علوم و فنون سیکھ کر الگ ہوجائیں اور مغرب کو اس کی خبر بھی نہ ہو؟ یا انھیں مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں، عزائم، خواہشات، جذبات، احساسات کی پوری پوری خبر ہے اور وہ نہایت کڑی شرائط اور قیود کے ساتھ اہل اسلام کو مغربی علوم و فنون سے استفادے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند شواہد او ر نظائر کا مطالعہ ضروری ہے۔
مغربی مفکرین کا متفقہ اعلان: مادی ترقی اور غرب زدگی لازم و ملزوم:
مرحوم ڈاکٹر محمود غازی <سابق صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد>undefined اپنی آپ بیتی بیان فرماتے ہیں کہ:
’’آج سے چند سال پہلے جرمنی میں ایک اجتماع میں جانے کا موقع ملا۔ میرے علاوہ باقی مفکرین یورپ سے بلائے گئے تھے۔ اس اجتماع کا عنوان تھا:’’کیا اسلام مغرب اور یورپ کے لیے خطرہ ہے؟‘‘ جس کے ایک سوال کے جواب میں میں نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ اب مسلمان مفکرین اور دانش وروں کی بڑی تعداد اس بات کی نمائندگی کرتی ہے کہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی، ان کی سہولتیں یہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہونی چاہییں اور ان کو اپنانا چاہیے۔ جب کہ ان کے جومنفی پہلو ہیں مثلاً اخلاقی اقدار کے متعلق ان کے خیالات و نظریات یا سیکولرازم اور لامذہبیت یا مردوزن کی آزادی جو ان کے یہاں ہے، یہ چیزیں دنیائے اسلام کو قبول نہیں کرنی چاہییں۔ تو اس کے جواب میں اجتماع کے شرکانے تقریباً بالاتفاق میر ی بات کو مسترد کردیا اور کہا کہ ٹھیک ہے، آپ اس رویّے کو درست سمجھتے ہوں، لیکن مغرب ان شرائط پر اپنی ٹیکنالوجی سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہ ہوگا۔ انھوں نے کہا یہ ایک پورا پیکج ہے، جسے آپ کو جوں کا توں قبول کرنا پڑے گا۔ اس میںآپ کو اخذ و انتخاب
اگراس سلسلے میں مستند مغربی مفکرین کے چند ایک بیانات بہ راہ راست پڑھ لیے جائیں تو بات زیادہ واضح اور مؤکد ہوجائے گی۔
معروف مغربی ماہر معاشیات اور مؤرخ ٹائن بی لکھتا ہے:
Possibly experience has already shown that this attempt to pick and choose
معروف امریکی تجزیہ نگار اور مسلمانوں کے خلاف امریکی عسکری یلغار اور تہذیبی حملے کو جواز فراہم کرنے والا مفکر سیمویل ہن ٹنگٹن صاف لفظوں میں لکھتا ہے:
Only when Muslims explicitly accept the Western model will they be in a position to technicalize and then to develop.۱۴
ایک اور مغربی مفکر ہملٹن گب کی یہ حتمی رائے ہے کہ جدید کاری
گب تصریح کرتا ہے کہ جن ممالک میں مغرب سے مستعار اور ماخوذ مادی ترقی اور صنعتی ترقی رواج پکڑ رہی ہے ان ملکوں کا بہ یک وقت مغربی تہذیب و اقدار سے محفوظ رہنا اور اس کے بالمقابل اسلامی تہذیب، اقدار اور روایات سے اپنا تعلق استوار رکھنا امر محال ہے:
A wave of antipathy, if not contempt, for everything to do with Western civilization has to late become manifest in the Arab World ۔۔۔ The plain truth of the matter that “modernization” means “westernization”. But on the other hand, it would be impossible for the Arabs
مغرب: مادی ترقی کے نتیجے میں درپیش مسائل:
متذکرہ بیانات اور شواہد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کا حصول ترک واخذ کے اصول پر تو ممکن نہیں۔ کیا اب اس کی واحد متبادل صورت وہی رہ جاتی ہے جس کا مشورہ زوال کے تجزیے کے ضمن میں مسلم مفکرین کے پہلے طبقے نے دیا تھا؟ کیا اس بات کو نظر انداز کردینا آسان ہے کہ مغرب نے اس ترقی کے حصول کی خاطرغیر شعوری طور پر ہی سہی اپنی تمام مذہبی
No! I know of no path toward a direct change of the present state of the world, assuming that such a change is at all humanly possible.۱۷
اسلامی دنیا: مادی ترقی کا حصول: چند سوالات اور حقائق:
مسلم مفکرین کے مختلف نقطہ ہائے نظر اور مغربی مفکرین کے بیانات کے مطالعے سے جو صورت حال سامنے آتی ہے اس کو سامنے رکھ کر چند نتائج اور چند سوالات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ یہ بات ہر شبہے سے بالا ہے کہ امت مسلمہ کا مجموعی مزاج، چند مستثنیات کے ساتھ، یہی ہے کہ وہ اگرچہ مغرب جیسی مادی ترقی کے خواہاں ہیں، لیکن دوسرے طرف من حیث الکل اب تک اپنے مذہبی، اخلاقی، تہذیبی اور روایتی اقدار سے بھی دست بردار ہونے کو تیار نہیں، ملٹن ویورسٹ
For the hundered years preceding the Muslim revival of the late twentieth century, the Islamic World seemed to be following a path of secularization similar to that on which the Western Christian world embarked some centuries before. Law derived from revelation had been increasingly removed from public life; religious knowledge had steadily lost ground in education; more and more Muslims who were Islamic by Culture but made ‘rational’ calculations about their lives — in much the same way as Christians formed in the secular West might to do — had come forward.۱۹
کیا کوئی قوم آزادی
ترقی اور اسلام: مجموعی مسلم دانش کا ذہنی خلجان:
یہ چند اہم اور قابل غور سوالات ہیں۔ ان سوالات کو جذبات کی سطح پر نہیں مسائل اور درپیش صورت حال کی تفہیم کی غرض سے واقعیت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ امت مسلمہ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ pre-industrialعہد میں جیتے ہوئے post-industrialمعاشرے کے مسائل اور مصائب سے آگہی اور واقفیت رکھتی ہے۔ ان سوالات و اشکالات سے قطع نظر یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ صنعتی انقلاب نے مسلم دانش ورانہ ذہن کو مجموعی طور پر تشکیک کا خوگر بنادیا ہے۔ آج کا دانش ور ذہناً مفلوج معلوم ہوتا ہے۔ اسے اسلام اور ترقی کے مابین تطبیق و تلفیق کی کوئی تسلی بخش راہ نہیں مل رہی۔ یا غالباً ان میں تطبیق کے عدم امکان نے مسلمانوں کو دانش ورانہ سطح پر’’ کیا ہورہاہے‘‘ اور ’’کیا ہونا چاہیے ‘‘کے درمیان stuck کردیا ہے۔ ماریہ سبرٹ کا ترقی کے خواہاں تیسری دنیاکے لوگوں کو دیا گیا مشورہ بہت اہم اور قابل توجہ ہے کہ :
The third world had to develop first before even think about REAL PROGRESS.۲۰
اس سلسلے میں مغربی مابعد الطبیعیات و علمیات اور بلا تاویل اسلامی حقائق و نکات پر مسلسل اور سنجیدہ غور و فکر کے بعد امید ہے کسی ایسے نتیجے تک پہنچا جاسکے جو رومانویت اور جذباتیت سے زیادہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہو۔
حواشی
1- Jos233 Maria Sbert, “Progress” in The Development Dictionary: A Guide to Knowledge as Power,
2- Charles Singer, A Short History of Science: to the Nineteenth Century, Oxford: Clarendon Press, 1941, p. 167.
3- Jos233 Maria Sbert, op.cit., 195.
4- Ziauddin Sardar, Explorations in Islamic Science, London: Mansell Pub., 1989, p. 6.
5- Stanford Encyclopedia of Philosophy Online, s.v. “Postmodernism”, accessed Feb, 4, 2014. http://plato.stanford.edu/entries/postmodernism/
6- Herbert Marcuse, One-Dimensional Man, London & New York: Routledge, 1964, p. xxxix.
7- Ziauddin Sardar, Science, Technology and the Development in the Muslim World, London: Croom Helm, 1977, p. 128.
۸- حسین نصر/ مظفر اقبال، ’’اسلام، سائنس اور مسلمان‘‘، مشمولہ اقبالیات، جنوری-مارچ، ۲۰۰۷ء، صفحہ۱۰۔
۹- ایضاً،صفحہ۱۲۔
10-Jos233 Maria Sbert, op.cit., p. 196.
11-Ibid.
۱۲- محمود احمد غازی، ’’مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمے داریاں‘‘ مشمولہ ماہنامہ الشریعہ، مارچ ۲۰۰۵ء، صفحہ۱۲۔
13-Arnold J. Toynbee, Christianity Among the Religions of the World, New York: Charles Scribner’s Sons., 1957, p. 51.
ٹائن بی نے اپنی بعض دیگر تصانیف میں بھی اسی نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
Arnold J. Toynbee, The World and the West, New York: Oxford University Press, 1954, pp. 66-84, pp. 99-100.
Arnold J. Toynbee, Idem, Civilization on Trial, New York: Oxford University Press, 1949, pp. 184-212.
14-Samuel P. Huntington, The Clash of Civilization and the Remarking of World Order, Penguine Books, 1997, p. 74.
۱۵- ملاحظہ کیجیے:
Hamilton Gibb, Modern Trends in Islam, Chicago: Chicago University Press, 1972.
16-Hamilton A.R. Gibb, Studies on The Civilization of Islam, Lahore: Islamic Book Services, 1987, p. 331.
17-“Spiegel Interview with Martin Heidegger,” in Martin Heidegger and National Socialism: Questions and Answers, eds. G252nther Neske and Emil Kettering, trans. Harries Lisa, New York: Paragon House, 1990, p. 60.
۱۸- تفصیل کے لیے دیکھیے:
Milton Viorst, “The Shackles on the Arab Mind”, The Washington Quarterly, Spring 1998, Vol. 2, pp. 168-175.
19-Francis Robinson, “Secularization, Weber and Islam”, in Islam and Muslim History in South Asia, Delhi: Oxford University Press, 2010, p. 122.
20-Jos233 Maria Sbert, op.cit., p. 195.