جنسی جرائم – اسلامی تدابیر بمقابلہ لبرل ازم

اسلامسٹ:

معاشرے میں مرد و عورت کے غیر ضروری میل جول پر پابندی لگانے اور خواتین پر پردہ نافذ کرنے سے معاشرے میں بڑھتے جنسی ہیجان میں کمی واقع ہوگی۔

لبرل:

عورت کیوں پردہ کرے؟ اُس کا جسم اُس کی مرضی۔ وہ جیسے چاہے گھومے، جہاں چاہے جائے۔ مرد کا کام ہے کہ وہ اپنی نظر نیچی رکھے (گویا مرد نے تو آنکھیں ادھار لے رکھی ہیں، اُس کی مرضی کوئی نہیں)۔ کیا باپردہ خواتین کو ہراساں نہیں کیا جاتا؟ یہاں تو معصوم بچیوں پر بھی ہاتھ ڈال دیا جاتا ہے۔

اسلامسٹ:

فحش مواد پر حکومتی سطح پر پابندی لگانے سے معاشرے میں بڑھتی جنسی درندگی کو قابو کیا جا سکتا ہے۔

لبرل:

فحش فلمیں اور مواد کیوں بند ہوں؟ یہ بھی ایک آرٹ ہے، اِسے آرٹ کے طور پر محض تفریح کے لئے دیکھا جائے، اِس سے نفسیاتی و جنسی ہیجان لینے والے پاگل ہیں۔

اسلامسٹ:

نکاح کو آسان بنایا جائے۔ اولاد کی چھوٹی عمر میں شادیاں کی جائیں۔ مرد کثرتِ زواج کی سنت پر عمل کریں تاکہ معاشرے میں نکاح کی شرح میں اضافہ ہو اور خواتین کو تحفظ ملے اور مردوں کی جنسی تسکین کا جائز سامان ہو۔

لبرل:

کمسنی کا نکاح اور کثرتِ زواج بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں، انہیں معاشرے میں بڑھتے جنسی جرائم کے خلاف بطور تدبیر پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ خود سماجی جرائم ہیں۔

اسلامسٹ:

اولاد کی تربیت اسلامی اصولوں پر کی جائے تاکہ ان میں خدا خوفی اور حرام و حلال، گناہ و ثواب کا تصور قائم رہے۔

لبرل:

تہذیبِ جدید اب اس دقیانوسیت سے بہت آگے جا چکی۔ اب بچوں کو چھوٹی عمر سے جنسیت کی تعلیم دینی لازم ہے۔ پھر ساتھ ساتھ (جلتی پر تیل ڈالنے کے لئے) ان کی پرورش اس اصول پر کی جائے کہ وہ اپنے اعمال میں آزاد ہیں، مذہبی تعلیمات میں جو بات فردی آزادی کے خلاف ہو (یعنی نفس پر گراں گزرے) وہ ماننا ضروری نہیں۔

اسلامسٹ:

زنا بالجبر کی لعنت ختم کرنے کے لئے لازم ہے کہ زنا بالرضاء پر بھی حد بندی ہو۔ فحاشی کے اڈے بند کئے جائیں اور زنا کی جانب لے جانے والے ہر دروازے کو بند کر دیا جائے تاکہ خاندانی نظام اور اعلی اخلاقی اقدار پھلے پھولے۔

لبرل:

جیسے ایک مزدور اپنے جسم کے اعضاء استعمال کر کے محنت کرکے رزق کماتا ہے ویسے ہی ایک Sex Worker اپنے جسم کے اعضاء استعمال کر کے رزق کماتی ہے، اسے مکمل قانونی قرار دیا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ معاشرے کے فرسٹریٹد مرد ان خواتین کے پاس جا کر اپنی جنسی درندگی کو دور کریں (آخرت و خاندانی نظام درہم بھرم ہوتا ہے تو ہو)

اسلامسٹ:

سیکس ورکرز والی بات مشاہدے اور فطرت کے خلاف ہے۔ بار بار حرام کی جانب جانے سے ہیجان میں اضافہ ہوتا ہی دیکھا گیا ہے۔ جنسی جرائم میں پکڑے جانے والے مجرم بیشتر وہ ہوتے ہیں جو پہلےسے بےراہ روی میں مبتلاء ہوں۔

لبرل:

ایسا کچھ نہیں۔ جو جنسی عمل consentt سے کیا جائے وہ جرم ہے ہی نہیں، وہ بنیادی انسانی حق ہے لہذا اس پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

اسلامسٹ:

ان تمام معاشرتی ترامیم، احتیاطی تدابیر کو معاشرے میں عام کرنے کے بعد جرائم کی شرح میں واضح کمی لازم آئے گی۔ اِن تدابیر کے بعد بھی جو جرائم ہوں اُن پر اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے۔ ریپسٹ کو سرِ عام سزائے موت دی جائے، عبرت کا نمونہ بنایا جائے۔

لبرل:

تم دقیانوسی لوگ اب بھی چودہ سو سال پہلے والے معاشرے میں جی رہے ہو۔ تہذیب بہت ترقی کر چکی ہے۔ آج کا انسان جانتا ہے کہ کسی کو قتل کی سزا دینا انسانیت کے خلاف ہے۔

لبرلزم جیسے گنجلک نظریے کے پاس بالاصول نہ تو جنسی برائیوں سے نمٹنے کا کوئی فارمیولا ہے نہ ہی کوئی اقدار سوائے اِس کے کہ ہر برائی کو consent کے نام پر جائز کر دیا جائے۔

انہوں نے حجاب سے لے کر سزائے موت تک ہر اقدام کی مخالفت کرنی ہے۔ یعنی کرنا کرانا کچھ نہیں بس مذہب اور مولوی کو روتے رہنا ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں ہر طرف مادر پدر آزادی ہو۔ جہاں جنسیت کی بھرمار بھی ہو، سخت سزائیں بھی نہ ہوں اور پھر سو فیصد مرد ایسے فرشتہ صفت ہوں کہ کسی ایک سے بھی کوئی جرم صادر نہ ہو۔

اب خبردار! یہاں کوئی لبرل آ کر victim blaming کا چورن نہ بیچے۔ پوسٹ میں کہیں victim blaming نہیں کی گئی۔ احتیاطی طریقے اور اقدامات بتانا victim blaming نہیں ہوتا۔ پھر مذبیوں کا تو مستقل موقف بھی اور اسلامی تعیمات بھی یہی ہیں کہ ریپسٹ کو سزائے موت دی جائے، یہ تو لبرلوں کے پیشوائوں کی بنائی خود ساختہ ‘انسانیت’ ہی ہے جس میں ایسے درندوں کی گردن مارنا بھی انسانیت کے خلاف ہے۔

ابو ابراھیم