لکیرکھینچی جاچکی ہے۔۔۔!

 قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم پر سوچ سمجھ کر کلام کیجئے ۔


ممکن ہے آپ میں سے چند ایک اصولی بنیاد پر اس موقف کے حامی ہوں کہ ریاست کو کسی کو غیر مسلم قرار دینے کا حق نہیں، مگر یہ یاد رکھئیے کہ اس وقت اس دلیل کو سب سے زیادہ قادیانی اور قادیانی نواز حلقے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو قادیانیوں کو غیر مسلم نہیں سمجھتے، جن کے نزدیک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مسئلہ ہی نہیں، ویسے تو ایسے لوگوں میں سے بعض کے نزدیک خود رسالت بلکہ خدا کا وجود ہی کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہی لوگ اب ایک بار پھر نئے سرےسے ، ایک منظم انداز میں ایک طے شدہ مسئلے کو ، ایک متفقہ آئینی ترمیم کو ،جس کے پیچھے عوام ، اہل علم اور تمام تر دینی حلقوں کا مینڈیٹ موجود ہے، اس مسئلے کو بلکہ ایک طرح سے پنڈورا باکس کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک سوچی سمجھی، منظم کوشش ہے۔ یہ حلقہ سوچے سمجھے بغیر آگ سے کھیل رہا ہے، انہیں اندازہ ہی نہیں کہ اس طرح وہ بارود کو تیلی دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کا تمام تر نقصان قادیانی حضرات کو ہوگا کہ شدید ردعمل میں یہ نام نہاد لبرل ، سیکولر حضرات تو چپکے سے ایک طرف ہوجائیں گے، نشانہ عام قادیانی بننے کا خطرہ ہے ۔


یہ ریاست کو حق نہ دینے والی دلیل بھی عجیب وغریب ہے۔ باقی ہر کام میں فرد اور گروہ سے اختیار لے کر ریاست کو پکڑا دیا جاتا ہے، اس معاملے میں چونکہ ریاست نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس لئے انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس معاملے میں کیا کیا جائے ؟ اسی لئے مجبوراً اپنے پچھلے کئی برسوں کے معروف موقف سے رجوع کر کے ریاست پر چڑھائی کی جار ہی ہے۔ قادیانیوں والے معاملے میں قدرت نے کمال مدد کی ہے کہ ریاست نے عوام کی منتخب اسمبلی میں باقاعدہ کئی دنوں تک بحث کرا کر متفقہ طور پر یہ ترمیم منظور کی ہے ۔ تمام شرائط اس میں پوری ہوتی ہیں۔ ریاست پوری طرح شامل ہے، پارلیمنٹ میں بحث ہوئی، پارلیمنٹ بھی وہ ،جس میں پاکستانی تاریخ کی سب سے قدآور شخصیات شامل تھیں، اور جس الیکشن کے نتیجے میں وہ پارلیمنٹ بنی، وہ پاکستانی تاریخ کے سب سے فئیر الیکشن سمجھے جاتے ہیں، وزیراعظم منتخب تھا، ایک ایسا شخص جسے لبرل، سیکولر حلقے اپنا ہیرو مانتے ہیں، اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی امریکہ، اینٹی سامراج جو سمجھا اور مانا جاتا تھا۔ جس پر کہیں سے مولویوں یا مذہبی حلقوں کا اثرورسوخ نہیں بلکہ وہ شدید اینٹی ملا انسان تھا۔ ایسے شخص نے یہ ترمیم منظور کرائی ہے، جس پر کوئی اس حوالے سے انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ مزے کی بات کہ ہر معاملے میں ضیا الحق کے سائے ڈھونڈ لئے جاتے ہیں، اس وقت تو ضیا کا ایشو بھی نہیں تھا۔ اس لئے یہ واحد رائٹسٹ ، اسلامسٹ ایشو ہے، جس میں تاریخ، دلائل، منطق، قانونی تاریخ سب ان کی ساتھ کھڑے ہیں۔


اس لئے جو دوست اس حوالے سے کچھ کہنا چاہتے ہیں، ضرور بولیں، مگر سوچ سمجھ کر ، اپنے موقف کو جانچ کر لکھیں، بولیں۔ یہ سمجھ لیں کہ اگر آپ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے مخالف ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قادیانیوں کو غیر مسلم نہیں مانتے، یعنی آپ قادیانیوں کو مسلمان مانتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے قائل نہیں۔ !!


یہ ایک واضح منطقی نتیجہ نکلتا ہے، جو پھر اخذ کیا جائے تو برا نہ مانئیے گا۔ آپ ہمارے نبی کے خلاف کیمپ میں شامل ہوجائیں، جھوٹے نبی کے لشکر کو کمک پہنچائیں، دینی حلقے کی کئی عشروں کی محنت، عوامی حلقوں کے نصف صدی سے زیادہ احتجاج کو ایک منٹ میں زیرو کرنا چاہیں گے تو بھیا ہم آپ پر پھول تو نہیں برسائیں گے۔ طنز کے تیروں ، کٹیلے جملوں کا آپ کو سامنا تو کرنا پڑے گا۔


روز حشر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ نے کیا منہ دکھانا ہے، یہ تو آپ کا اپنا معاملہ ہوگا، لیکن دنیا میں ہم ان شااللہ اپنے آقا، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان، عزت، عظمت کا دفاع کریں گے۔ واللہ ہم ایسا کریں گے ، اپنی تمام تر صلاحیتیں، اپنی قوتیں، اپنا سب کچھ اس میں لگا دیں گے۔


یہ نہیں ہوسکتا کہ مغربی ایجنڈے پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی ترمیم ختم ہوسکے۔ ہماری زندگیوں میں ان شااللہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس رب کی قسم ، جس کے قبضے میں ہماری جانیں ہیں، ہم اس معاملے میں لڑیں گے ، اپنی آخری سانسوں تک، اپنے لہو کی آخری بوند تک۔ یہ کھلی لڑائی ہے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے طے ہوگیا۔ اسے دوبارہ زیر بحث لانا، اس مسئلے کو اٹھانا، سوال کرنا دراصل ایک نیا فتنہ جگانے کے برابر ہے ۔


ہاں کوئی یہ چاہتا ہے کہ قادیانیوں کو حقوق ملیں، ان کے ساتھ زیادتی نہ ہو، اس حوالے سے بات کی جائے تو یہ ایک الگ ایشو ہے۔ اس پر بات ہوسکتی ہے، سنی جا سکتی ہے، مگر ایسا کرنے والے کو پہلے یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم مانتا ہے، آئینی ترمیم کو مانتا ہے۔ تب ہی اس کی قادیانیوں کے حقوق کے حوالے سے بات کی کوئی اہمیت بنتی ہے۔ ورنہ وہ بھی اسی قادیانی، قادیانی نواز قبیلے کا ایک سپاہی ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ چونکہ، چناچہ، اگر ،مگر کے ذریعے وہ خود کو قادیانیوں سے الگ نہیں کر سکتا ہے۔ جس نے ایسا کرنا ہے، کھل کر کرنا ہوگا۔


لکیر کھینچی جا چکی ہے۔ اور یہ لکیر قادیانیوں نے خود کھینچی ہے۔ حبیب خدا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا معاملہ وہ واضح لکیر ہے ،جو دو لشکروں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ جس کی مرضٰ جہاں کا رخ کر لے۔ لیکن اب یہ نہیں ہوسکتا کہ منافقت کا سہارا لے کر قادیانیوں کا دست وبازو بنتے ہوئے کام کیا جائے اور ساتھ ہی اہل مذہب سے یہ امید رکھی جائے کہ وہ انہیں طعنہ نہیں دیں گے، بدستور عزت وتکریم کرتے رہیں گے۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔


عامر ہاشم خاکوانی