قادیانیوں کے حوالے سے علامہ اقبال کی رائے

مرزا غلام احمد قادیانی کا نبوت کا دعویٰ بتدریج ہوا۔ ان کی شہرت ایک مشہور مناظر کی تھی، اس لئے عام طور سے لوگ ان کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے، جب ان کی تحریروں میں مجتہد، مسیح موعود اور پھر نبوت کے دعوے جھلکنے لگے تو اہل علم ہوشیار ہونے لگے، مگر اس وقت چونکہ کتابوں کی طباعت سست تھی، تیزی سے اطلاعات منتقل نہیں ہوسکتی تھیں، اس لئے کئی نامی گرامی شخصیات کو قادیانیت کے بارے میں جلد آگہی نہ ہوسکی۔ شروع میں علامہ اقبال کی رائے بین بین تھی، انہیں لگا کہ شائد مرزا صاحب کی بعض فقہپی آرا ہی دوسروں سے مختلف ہیں، اس لئے انہوں نے ایک آدھ جگہ پر نرم سی بات بھی کی ان کے بارے میں ۔ جب اقبال پر آشکار ہوا توان جیسا عاشق رسول صل اللہ علیہ وسلم ایک جھوٹے نبوت کے دعوے دار کو کس طرح برداشت کر سکتا تھا، انہوں نے نہایت مضبوط اور قطعی لہجے میں مرزائیت کے باطل ہونے کا اعلان کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا نبی قرار دیا۔ بلکہ اقبال نے انہیں اسلام اور ہندوستان کا غدار قرار دیا۔


اس پر پنڈت نہرو نے اقبال کے نام خط لکھا، جس میں کہا کہ یہ تو مولویوں کا ایشو ہے، آپ جیسا سمجھدار، پڑھا لکھا شخص کس طرح ایسی سخت بات کر سکتا ہے قادیانی حضرات کے بارے میں ، اس پر نظر ثانی کریں۔ اقبال نے جوابی خط میں تین کمال کی باتیں کہیں۔ پہلے تو یہ لکھا کہ آپ لوگ یعنی ہندو، نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی تفہیم کر ہی نہیں سکتے ، اندازہ بھی نہیں آپ لوگوں کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام ہے۔ دوسرا رسالت اسلام کا مرکزی عقیدہ ہے، جو ختم نبوت کا قائل نہیں، وہ کافر ہے ۔ تیسری بات سے اقبال کی دانش ، دوراندیشی کا اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا اقبال کو اقبال کیوں کہتی اور مانتی ہے۔ علامہ پنڈت نہرو کو لکھتے ہیں کہ معاملہ آج کا نہیں، آج تو ہم لوگ مرزائیت کے حوالے سے دھوکا نہیں کھائیں گے، معاملہ مستقبل کا ہے۔ اگر آج اسے یعنی قادیانی گروہ کو دوسرے مسلمانوں سے الگ نہ کیا گیا تو پچاس سال بعد بہت لوگ دھوکا کھا سکتے ہیں۔ افریقہ کے کسی ملک میں کوئی غیر مسلم اپنی دانست میں مسلمان ہوا ہوگا ، مگر وہ قادیانی حضرات کے ہتھے چڑھ جائے گا اور پھر وہ بدنصیب آخری سانسوں تک اس شکنجے میں رہے گا۔ اس لئے قادیانیوں کے حوالے سے قطعی اور حتمی رائے رکھنا، اس کا اعلان کرنا انہتائی ضروری ہے تاکہ مستقبل کو محفوظ کیا جا سکے ۔


اپنی یاداشت کی بنا پر یہ فقرے لکھے ہیں، ظاہر ہے مفہوم وہی ہے، الفاظ نہیں۔ اقبال کے خطوط شائع ہوچکے ہیں، ممکن ہو تو کوئی بھائی اس کا عکس پوسٹ کر دے ۔ یہ خطوط اقبال اکیڈمی نے شائع کئے ہیں۔


یہاں پر ضروری ہے کہ دو مثالیں دے دی جائیں۔ ایک امریکہ میں کالے امریکییوں کی تنظیم نیشن آف اسلام ۔ شروع میں محمد علی نے اسلام قبول کیا، عالی جاہ محمد کی تبلیغ کے نتیجے میں۔ اپنی طرف سے وہ مسلمان ہوا، مگر عالی جاہ محمد نے ایک طرح سے خود کو نبی کے درجے میں رکھا ہوا تھا۔ بعد میں اس کا بیٹا وارث محمد نے حج کیا تو اسے اصل عقائد کا اندازہ ہوا، اس نے بعد میں جا کر اسلام کی حقیقتی تبلیغ کی ، شہباز مالکم ایکس بھی اس کی وجہ سے مسلمان ہوا اور محمد علی نے بھی اپنے عقائد درست کئے اور بعد میں حج بھی کیا۔ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنی دانست میں تو مسلمان ہوا، مگر وہ کسی باطل گروہ کے ہتھے چڑھ کر بدستور گمراہی میں ڈوبا رہا۔


دوسری مثال۔ ہمارے دوست اورمعروف سماجی کارکن آئی سرجن، پروفیسر ڈاکٹر انتظاربٹ فری آئی کیمپ لگانے برکینا فاسو گئے ۔ اس افریقی ملک کے داراالحکومت میں ایک جگہ انہیں خاصا بڑا شاندار اسلامی مرکز اور مسجد نظر آئی۔ خوشی سے وہ وہاں گئے، منتظم سے ملاقات ہوئی، معلوم ہوا کہ اچھا خاصا کام ہو رہا ہےمرکز کے تحت۔ درس قرآن، تعلیم وتربیت، ٹھیک ٹھاک چیریٹی کام ، جس کے نتیجے میں متعدد مقامی لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تفصیل معلوم کر رہے تھے تو انہیں شک سا ہوا کہ منتظم کئی باتیں گول مول بتا رہا ہے۔ تھوڑا مزید کریدا تو معلوم ہوا کہ وہ جماعت احمدیہ کا دعوتی وتبلیغی مرکز تھا۔ یورپ سے دولت مند احمدی حضرات افریقہ کے چھوٹے چھوٹے غریب ممالک میں ایسے مراکز قائم کرتے ہیں جہاں مسلمان کم ہیں اور مقامی لوگوں کوقادیانیوں کا علم نہیں۔ وہاں پر ان کی کوششوں سے نجانے کتنے لوگ قادیانی بن چکے ہیں۔ ہمیں یہاں بیٹھے قطعی اندازہ نہیں کہ کس قدر منظم انداز میں یہ سب کام ہو رہا ہے۔ اقبال کی پیش گوئی ذہن میں آتی ہے۔ اس عبقری کو علم تھا کہ اگر قادیانیوں کو واضح طور سے مسلمان امت سے الگ نہ کیا گیا تو یہ نہایت خطرناک ثابت ہوگا۔ اگر آئینی ترمیم نہ ہوئی ہوتی تو یہ برکینا فاسو والا معاملہ ہمارے ملک میں جگہ جگہ نظر آتا اور ہم سب دانت پیسنے اور خون کے گھونٹ پینے کے سوا کچھ نہ کر پاتے۔ حمزہ علی عباسی جیسے سادہ لوح لوگوں کو قطعی اندازہ نہیں کہ یہ کتنا بڑا کام ریاست پاکستان نے کر دیا ہے۔ آج مغربی قوتیں اپنی کوششوں کے باوجود بے بس ہیں ، وہ چاہنے کے باوجود قادیانیوں کو مسلم امہ کا حصہ نہیں بنا پا رہیں۔


تحریر محمد عامر ہاشم خاکوانی