جھوٹے مقدمات اور قانون کی رٹ کا مسئلہ

اعتراضات 

1۔قانون توہین رسالت موجود ہے، ممتاز قادری کو عدالت سے رجوع کرنا چاہئے تھا

توہین رسالت کیس کی موجودہ بحث میں سب سے ذیادہ جو اعتراض اٹھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ممتاز قادری کو اپنے تئیں یہ سنگین اقدام نہیں کرنا چاہیے تھا ، اسے عدالت سے رجوع کرنا چاہئے تھا۔

تبصرہ:

جہاں تک ممتاز قادری کے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کی بات ہے تو اس سلسلے میں ایک سے زیادہ رائے ہوسکتی ہیں اور شریعتِ اسلامیہ میں بھی یہی واحد حل نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اُٹھ کر کسی صریح گستاخ کو قتل کردے، ایک اسلامی ریاست اور قانون کی موجودگی میں یہ عمل قابل تعزیر جرم قرار دیا جاتا ہے، اسکی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی گئی ہے ۔ تاہم عدالت سے رجوع کرکے آسیہ مسیح یا سلمان تاثیر کو توہین رسالت کی سزا دلوانے کا مطالبہ کرنے والے لوگ بھی خیالوں اور واہموں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اوّل تو اُنہیں معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس قانون کی تاریخ نفاذ 1992ء سے اَب تک توہین رسالت کے 986 کیس درج ہوئے ہیں، لیکن آج تک کسی کو توہین رسالت کی سزا نہیں ہوسکی۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کا ارتکاب ایسے ملعونوں کوکافرانہ قوتوں کی آنکھ کا تارا بنادیتا ہے، ان کو خصوصی پروٹوکول دیا جاتا اور کفر کا پورا طائفہ اپنا لاؤ لشکر لے کر اس کی حمایت میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ایسے بدبختوں اور ان کے خاندانوں کوعیسائی مشنری ادارے اور مغربی این جی اوز سپانسر کرتے اور ان کے تحفظ کے لئےعالمی قوتوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ آسیہ مسیح کیس میں ویٹی کن سٹی پوپ کے آسیہ کے لیے بیانات، دعا اور پاکستان پر دباؤ چند سال پہلے کی بات ہے۔

جہاں تک سلمان تاثیر کی ممکنہ براہ ِ راست توہین رسالت اور اس کی سزا کا تعلق ہے تو یہ بھی یادر ہنا چاہئے کہ پاکستان کے دستور کی دفعہ 248 کی رو سے صدر، گورنر اور وزرا کو عدالتی باز پرس سےاستثنا حاصل ہے جو شریعت ِاسلامیہ کے سراسر خلاف ہے۔ جب اسلام کی مقدس ترین ہستی سید المرسلین محمدﷺ اور آپ کی محبوب بیٹی سیدہ فاطمہ الزہرا اور خلفاے راشدین کو عدالتی باز پرس سے کوئی استثنا حاصل نہیں تو پھر مسلمانوں کا ایک ذیلی حکمران کس بنا پر قانون سے بالا تر ہونے کا استحقاق حاصل کرتا ہے؟

سلمان تاثیر کے متعلق بھی توہین رسالت کامقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی لیکن عدالت نے یہ کہہ کر رد کردی کہ سلمان تاثیر کو گورنر پنجاب کی حیثیت سے استثنا حاصل ہے۔ تفصیل اس لنک سے دیکھی جاسکتی ہے

http://www.dawn.com/news/587928/plea-for-case-against-governor-rejected-2

ہماری عدالتوں کا حال بھی یہ ہے کہ آغاز میں تو ان کو سزا دے لیتی ہیں، لیکن جونہی ان پر پریشر پڑتا ہے تو اعلیٰ عدالتوں کے لئے اپنے فیصلوں پر ڈٹے رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں 1994ء میں رحمت اور سلامت مسیح کا کیس بالکل واضح ہے، جن کو سیشن کورٹ سے سزائے موت کے بعد ہائیکورٹ میں اس کی اپیل کے مراحل اس سرعت سے طے کئے گئے اور اس کے فوراً بعد ان کو بیرونِ ملک جرمنی روانہ کردیا گیا کہ مزید کسی قانونی پیش قدمی کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ اس سے پہلے یوسف کذاب کا کیس اسکو عدالتوں سے پھانسی کی سزا ہوئی اسکے بعد اسکو باہر ملک بھجوانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں جنکو دیکھتے ہوئے ایک قیدی نے جیل میں ہی اسکا کام تمام کردیا۔ جب قانون اس حد تک کمزور ہو تو سوسائٹی کیا جیل کے اندر بھی قتل ہوجاتے ہیں۔

برصغیر کی ماضی قریب کے تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ اس قانون کی غیرموجوگی یا غیر مؤثر ہونے کے دوران قانون کو ہاتھ میں لے کر گستاخِ رسول کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ اس قانون کی عدم تاثیر مسلم عوام کو کسی گستاخ رسول کا خاتمہ خود کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ غاز ی علم الدین شہید کے ہاتھوں واصل جہنم ہونے والا لاہور کا راج پال ہو یا کراچی کا نتھو رام، اُن کا قتل انہی حالات میں ہوا جب یہ قانون موجود نہیں تھا۔اور سلمان تاثیر کے حالیہ قتل کے پیچھے بھی اس قانون کے غیرمؤثر ہونے کی بنیادی وجہ موجود ہے۔ یہی بات قانون توہین رسالت جناب محمد اسمٰعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب میں بھی لکھی:

”قانون توہین رسالت ان تمام لوگوں کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت ہے جن کے خلاف فردِ جرم ثابت نہ ہو۔ورنہ ماضی میں بھی مسلمان سرفروشوں نے ایسے موقعوں پر قانون کو ہاتھ میں لیا اور گستاخانِ رسول کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس قانون کے پاکستان میں نافذ ہونے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایسے ملزم کی سزا کا معاملہ افراد کے ہاتھوں کے بجائے عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آجائے گاجو تمام حقائق اور شہادتوں کابغور جائزہ لےکر جرم ثابت ہونے کے بعد ہی کسی ملزم کو مستوجب ِسزا قرار دے گی۔”

جناب قریشی صاحب نے قانون سازی ہوجانے کے بعد اس امر کو پاکستان کے لئے خوش کن قرار دیا ہے لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں قانون سے کھلم کھلا مذاق کیا جاتا ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی سرعام توہین کی جاتی ہے۔یہاں تو قانون موم کی ایسی ناک ہے جس کو ہرطرف موڑا جاسکتا ہے۔این آر او کے فیصلے سے کیا گیا مذاق ایک کھلی حقیقت ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کے روز ق لیگ کے ایم این اے وقاص اکرم سے کیپٹل ٹاک میں انٹرویو کیا گیا، ان کے چچا بھی اسی طرح اپنے محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے۔وقاص اکرم جو برسراقتدار ایم این اے ہیں ، کا کہنا تھا کہ سالہا سال کے عدالتی عمل کے بعد ہماری عدالتوں نے تمام مجرموں کو بری کردیا اور ہم اپنے چچا کے قاتلوں کو سزا دلوانے سے قاصر ہیں۔ اس سے بڑھ کر پاکستان کے نظامِ عدل کا اور نوحہ کیا ہوسکتا ہے؟

اس ساری بحث سے ہمارا مقصد قانون کو ہاتھ میں لینے کی ہر حال میں تائید کرنا نہیں ، (گستاخ رسول سے نبٹنے کا اولی طریقہ اسے قانون کے کٹہرے میں لانا ہی ہے)بلکہ ہمارا مقصد قانونی اداروں میں ان خامیوں کی نشاندہی کرنا ہے جن کی وجہ سے لوگ اپنے طور پر ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، سلمان تاثیر کا قتل بھی موجودہ عدالتی نظام کے غیرمؤثر ہونے کی دلیل اور عوام کے اس پر بے اعتمادی کا استعارہ ہے۔ اگر پاکستان کے نظامِ عدل میں یہ قوت ہوتی اوروہ شریعت ِاسلامیہ کی رہنمائی پر کاملاً استوار ہوتا تو واقعتاً آج ممتاز قادری کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت قطعاً پیش نہ آتی اور اسلامیانِ پاکستان شاتمان رسول کو اس عدالتی نظام سے سزا دلوانے کاہی راستہ اختیار کرتے۔

جب قانون موجود ہی نہ ہو، قانونی استثنا حاصل ہو یا سنگین جرم کے باوجود مظلومین کے لئے داد رسی کے دروازے بند ہوں اور انصاف میں بلاجواز تاخیر ہورہی ہو تو ایسے حالات میں توہین رسالت ایسا حساس مسئلہ ہے کہ مسلم عوام قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ غازی علم دین شہید کو بھی قانون سے داد رسی کی کوئی اُمید نہ تھی، جانے سے قبل باپ سے مکالمہ کرکے گیا اور اس کے باپ نے اس کو قتل کی سزا سے خبردار کردیا تھا، لیکن اس نے حب ِرسولﷺ میں شاتم رسول کے ایک معاون راج پال کو، جس نے ‘رنگیلا رسول ‘شائع کی تھی،قانون کو ہاتھ میں لیتےہوئےجہنم واصل کردیا۔ او ریہ ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے کہ اس نازک موقع پر لاہور میں علامہ اقبال نے مسلمانانِ برصغیر کی قیادت کی۔ قائد اعظم جو اس وقت چوٹی کے مسلم وکیل تھے، اُنہیں علم دین شہید کےاقدامِ قتل کے دفاع کے لئے انہوں نے بلایا۔ قائد اعظم لاہور ہائیکورٹ میں ایک ہی بار پیش ہوئے او روہ غازی علم دین کے دفاع کا مقدمہ تھا۔

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کوئی جیسی مرضی گستاخی کرلے ، عدالتیں اور نظام انصاف گھٹیا ترین سطح پر ہو، رذالت کی آخری حدیں بھی پار کر چکا ہو تب بھی کسی پر مقدمہ چلائے بغیر گستاخ کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ لوگ اسکا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث ایک دوسرے پر گستاخی اور کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔ اس طرح کی اجازت سے یہ بھی اک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیں گے ۔

پہلے تو یہ جان لیں کہ یہ شریعت کا حکم نہیں ہے کہ گستاخی کو ہر حال میں برداشت کیا جائے ، دور نبوی سے ایسے کئی واقعات کی مثالیں ملتی ہیں جن میں لوگوں نے حضور ﷺ کی اجازت کے بغیر اپنے طور پر شاتم کو سزا دی لیکن انکا محاسبہ نہیں کیا گیا ، اسکے علاوہ بھی بہت سے معاملات ایسے بھی ہیں جہاں اللہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی قانون نے عام شہریوں کو بھی “قانون ہاتھ میں لینے” کا اختیار دیا ہے۔ احادیث سے کچھ مثالیں حاضر ہیں:

1: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:”جس شخص نے کسی قوم کے گھر میں جھانکا اور انہوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو اس کی انکھ ضائع ہے، اس کا کوئی قصاص نہیں”(رواہ ابو داؤد وسندہ صحیح)

2: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے، جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے، جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے، جو شخص اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے”(بخاری، جامع الصغیر)

جب محض مال کی خاظر ہتھیار اٹھانے، لڑنے اور مرنے مارنے کی اجازت ہے تو ناموس محمد عربی کیا مال سے بھی گئی گذری چیز ہے؟؟؟ جب اپنے گھر میں جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے پر کوئی گناہ نہیں تو رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی کیا ہماری عورتوں جتنی بھی وقعت نہیں؟؟ احادیث و فقہ میں اس قسم کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں، سمجھنے اور ماننے والے کے لئے اتنی بھی کافی ہیں۔

جہاں تک دوسری بات کہ دیوبندی بریلوی ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیں گے’ یہ ایک غیر حقیقی اور فرضی دعوی ہے ۔یہ مسالک دو صدیوں سے اس خطے میں موجود ہیں ، پہلے دن سے ان میں یہ اختلافات موجود ہیں اور توہین رسالت کا قانون بھی شروع دن سے غیر موثر ہے، لیکن کبھی کسی فرقے کی طرف سے مخالف فرقے والوں کو گستاخ قرار دینے سے اس فرقے کی عوام نے ان کے واجب قتل ہونے کا سوچا تک نہیں، نا آج تک کسی نے اس بنیاد پر مخالف فرقے کے کسی شخص کو قتل کیا ۔ اس گستاخی کے فتوے کا مطلب گمراہ اور سخت گناہ گار ہی لیا جاتا ہے، اس لیے کبھی بات مسجد اور محافل کے بائیکاٹ سے بڑی نہیں ۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اختلافات کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو جائے ، مخالف قوتیں ان میں سے ایک کو دوسرے کے مقابل بھی لاکھڑا کر دیں’ اعلیٰ فہم رکھنے والے حضرات اسے عارضی یاوقتی حالات کا مسئلہ سمجھ کر صرف نظر کر لیتے ہیں۔ تو تکار اور غلط فہمی کا شکار نہیں ہو جاتے، جہاں بات ناموس رسالت اور ختم نبوت کی آتی ہے ،انکے آپس کے تنازع ختم ہوجاتے ہیں ، یہ ایک ہی صف میں ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں ، ممتاز قادری کا جنازہ کل پرسوں کی مثال ہے، اس جنازے میں نا کوئی بریلوی تھا اور نا دیوبندی ، نا سلفی نا مودودی، سب محمد ﷺ کے امتی تھے ۔ عشق رسول ﷺکی لڑی نے انھیں ایک ساتھ پرو دیا تھا۔۔

اگر فرقے کی بنیاد پر مقدمات بڑھ بھی جائیں تو اس قانون کا یہ سقم ایک چھوٹے سے اضافی قانون کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ توہین رسالت کی ایف آئی آر کاٹنے کےلیے کسی ایسی کمیٹی کا این او سی لازمی ٹھہرا دیا جائے جس میں تمام مسالک کے علماء کی نمائندگی ہو۔ اس طریقے سے؛ ایک مسلک کے کسی جذباتی آدمی کا دوسرے مسلک کے کسی آدمی کے خلاف ’’قانون ناموسِ رسالت‘‘ کا ناحق سہارا لینا خودبخود خارج از امکان ہو جاتا ہے۔ یہ بآسانی ہو سکتا ہے۔ اس مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور اس اتنی سی بات کو خود اِس قانون ہی کو ختم کرنے کےلیے ایک ’وجہ‘ قرار دینا فنکاری کے سوا کچھ نہیں۔

2۔توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات کا مسئلہ

اعتراض : اس قانون کے ذریعے بے گناہ لوگوں پر مقدمہ کیا جاتا ہے اور انکو سزا دلوائی جاتی ہے اس لیے اس میں ترمیم کی جانی چاہیے ۔

تبصرہ :

اس اعتراض کی بنیاد جہالت ہے، غلط مقدمات كے سدباب كے لئے موٴثر قانونِ تعزيرات موجود ہے- قانونِ تعزيرات كى دفعہ 194 كى رو سے اگر كوئى شخص كسى بے گناہ كو سزائے عمرقيد يا سزائے قتل دلانے كے ارادے سے غلط بيانى كرے يا جهوٹى شہادت دے تو اس كو عمر قيد كى سزا مقرر ہے- اور اگر كسى شخص پر سزائے موت لاگو ہوجائے اور بعد ميں ثابت ہو كہ اس كى وجہ جهوٹى شہادت تهى تو ايسے جهوٹے گواہ ياگواہوں كو سزائے موت دى جائے گى- اگر قانونِ توہين رسالت كا غلط استعما ل ہوتا ہے تو گورنمنٹ يہاں اس تعزيراتى قانون پر عمل درآمد سے گريزاں کیوں ہے- عدالت بهى از خود نوٹس لے كر ايسے افراد كو قرارِ واقعى سزا دے سكتى ہے جو توہين رسالت كے نام پر جهوٹے مقدمات ميں لوگوں كو ملوث كرتے ہيں-

مزید یہ مسئلہ صرف توہین رسالت کے قانون کے ساتھ ہی نہیں ہے دوسرے سنگين جرائم کے قوانین کا بھی ملك ميں جهوٹے مقدمات كے ذريعہ غلط استعمال ہورہا ہے ۔ ہماری جیلوں میں ایسے ہزاروں افراد موجو د ہیں جن کا نام قتل کے مقدمات میں محض دشمنی کی بنیاد پر ڈالا گیا ، لیکن کبھی اس بنیاد پر ان قوانین پر کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ ان کی آڑ میں جھوٹے مقدمات درج ہوتے ہیں اس لیے ان قوانین کو یا ان جرائم کی قانونی سزاؤں کو ہی ختم کردیا جائے۔

دیکھا جائے تو توہین رسالت کا قانون الزام لگنے کے بعد قانون کی حرکت سے ملزم کو نقصان پہنچانے سے بچاتا ہے اور اسے جان و مال کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے لوگ قانون نافد کرنے والے اداروں کی اصلاح کے بجائے اس قانون کے ختم کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ اگر یہ قانون ختم کر دیا گیا تو پھرمعاملات ریاست کی بجائے شہریوں کے ہاتھ میں ہوں گے اور اس سے ذیادہ مسائل پیدا ہونگے ۔

استفادہ تحریر: توہین رسالت کی سزا پر اُٹھائے جانیوالے اعتراضات از ڈاکٹر حسن مدنی، قانونِ توہين رسالت ميں ترميم كے مضمراتاز محمد اسماعیل قریشی، ، افلحت الوجوہ از احسن خدامی