ترکھانوں کا منڈا ہی کیوں ؟شاہ جی کیوں نہیں ؟

چند دن پہلے ایک سیکولرصحافی فرنود عالم نے جہاد افغانستان کے حوالے سے علماء کو تنفید کا نشانہ بنایا اور امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور غازی علم دین کے حوالے سے طنز ا لکھا کہ ہمیشہ ترکھانوں کے منڈے ہی کیوں بازی لے جاتے ہیں ؟۔اس طنزیہ تحریر کا جواب ہمارے ایک نوجوان دوست مہران درگ صاحب نے اپنے منفرد انداز میں دیا۔ انکی تحریر پیش کی جارہی ہے، تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

فرنود عالم کی بارگاہ میں!

تم جسے کہتے تھے ہنگامہ پسندی میری

پھر وہی طرز ِ غم ایجاد کیا ہے میں نے!

مجھ میں احترام آدمیت کا حوصلہ ہے کہ جو چیز مجھے مجھ سے متنفر کر دے میں اسے سہنے اور کہنے کے ضبط و ربط قائل ہوں!میں نے مضمون پڑھا! درخور اسکے جناب ِ والا آپ کی جرآت رندانہ پہ دُرود رزم بے باکانہ کو سلام ، آپ جس بھی زاویے سے واشگاف ہوتے ہونگے صد بارہا آپ صریر خامہ وارث کہلوائے جاسکتے ہونگے!نہ مجھے اس پہ کچھ تردد ھے، آپکی سطور کے بین سطور خالی ہاشیوں میں بھی کچھ بھرنا چاہتا ہوں ،

مجھے یہ نہیں معلوم پڑتا جب رسول ِ خدا کے نام شتم ہوتا ھے ،اپنی اک چھوٹی سی دکان جسکی چھت اسقدر نیچی ھے ہاتھ بڑھا کر چھوں لوں اُس بساط کے طول و ارض ہا میں بیٹھے بیٹھے لاہور کا اک پبلشر راج پال اک کتاب رونما کرڈالتا ھے !ہاں دنیاٰئے ادب میں اک دانائے ادب اک انسان کی بے ادبی کرتا ھے! قریہ و گلی میں اسے آویزاں کیے دیتا ہے! کیوں؟

میرے جون کے اچھے فرنود اس کتاب کو کھول کر پڑھنے کی ہمت رکھتے ہو؟

میرے جون کے اچھے فرنود کیا تم نے ہندو مُدیر کی پر شتم بر آویزاں ہا کتاب ” رنگیلا رسول ” پڑھی ھے؟ ؟

کہو کھول کر پڑھنے کی ہمت رکھتے ہو میرے اچھے فرنود؟

میرے اچھے فرنود تم نے “فری تھنکر” کے شاتم رسول کے مرحلہ ہا وار وہ مراسلے پڑھے ہیں ، جہاں لکھا ھے رسول اللہ ہم جنس پرست تھے؟

پّڑھنے کی ہمت رکھتے ہو میرے اچھے فرنود؟

میرے اچھے فرنود تم نے اس خائن کے وہ مکتوب پڑھے ہیں؟ جہاں کہا گیا عربی رسول کے والد نامعلوم ہیں وہ اپنے چچا امیر حمزہ کی اولاد ہیں؟

تم نے وہ زہر ِ ہلا ہل میں بجھے لفظ پڑھے ہیں کہ میرے اچھے فرنود جہاں محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو محمد کی بجائے ” مُ و د ا ” کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے کہ غم ہا !کہو نا میرے اچھے فرنود؟ ؟ تم نے وہ سطور پڑھیں ہیں اس خالد تھتھل شاتم کے وہ تمہارے نبی کے بارے میں کہتا ھے وہ پیڈو فلک لکھتا ھے؟ ؟

کہو نا میرے اچھے فرنود! تم نے وہ اوراق کھنگالے ہیں بھلے جہاں لائف آف محمد کا مصنف لکھتا ھے ، “محمد تاریکی کا شہزادہ”!

کتنی آسانی کہہ دیا! وہ امیر شریعت اک ترکھان کے لّڑکے کی ہی غیرت کو کیوں اجگار کیے جاتا ھے! کیا یہاں یہ سطر لکھنے کا اذن مانگ سکتا ہوں اچھے فرنود! رسول اللہ خدا اک مجمع میں نم ناک دیدوں سے صحابہ کی اؤڑ کتنے اذیت سے کہتے ہیں کون ھے جو کعب بن اشرف کو قتل کر دے؟

عطا اللہ شاہ بخاری کے گریباں سی جھالر میں ہاتھ رکھ تر کھان کے لونڈے کی اکساہٹ پہ دم بخود فرنود پہلا ہاتھ اپنے نبی کے گربیان میں رکھو نا یارا میں دیکھوں تو بے باکیاں ہوتیں کیا ہیں! میدان میں جب امیہ بن خلف نے للکارا تو رسول اللہ نے اشارہ کیا قریش کے سپاہی باہر نکلے تو امیہ بن خلف نے کہا ، اوو یہ کیا بھیڑ بکریاں چرانے والے ہمارے مقابل کو بھیج دیے ہو محمد ص کوئی ہمارے پلے ہماری ٹکر کا نکالو رے!

آپ نے کہا عطااللہ شاہ کے نعرہ دیا تھا !

میں دیکھ رہا ہوں میرے سامنے امی عائشہ کھڑی ہیں ، رو رہیں ہیں اور مجھ سے کہہ رہیں ہیں کہ محمد ص کے نام لیوا موجود ہیں اور راج گوپال زندہ ھے؟ ؟؟یوں اس پہ تر کھان کا لونڈا اٹھا اسکی دکان میں گھس کر چٹختا ہوا خنجر اسکی پشت تلک مین نستعلیق کرڈالا!

اس مرد آتش کا ایمان یوں تو نا ماپا جائے ، آدھی سے زیادہ عمر تو اس سید ذادے نے جیلوں میں گزاری ، بابا جان کہا کرتے تھے (عمر کا)سن ستر تھا شاید ، مظفر گڑھ میں میدان سجا ہوا تھا شاہ جی اپنے ساتھ ٹوکہ رکھا کرتے تھے جو انکا نشان تھا، ابھی سٹیج پہ چڑھے دس منٹ ہی بولے ہونگے کہ پولیس نے گرفتار کرکے اتار لیا ، جیل میں بند کردیا ، مقدمہ چلا ، اک عرصہ بعد پھر رہائی ہوئی ، جوں جیل سے نکلے سیدھا مظفر گڑھ پہنچے ،اسی جگہ ویسا ہی کٹھ جمع تھا ، پنڈال ہنوذ ویسے ہی قائم تھا سٹیج ویسے ہی سجا ہوا تھا ،چڑھے ٹوکہ لہرایا ، بولے .. ” ہاں تو میں کہہ رہا تھا ”

جہاں تقریر روکی اتنے عرصہ سیدھا وہیں پہنچے اسی لفظ سے آغاز کیا ، اور تقریر ختم ہونے تلک دوبارہ گرفتار ہو چکے تھے!

میرے جون کے اچھے فرنود کہتے ہو ترکھان کا لونڈا ہی کیوں؟ شاہ جی کیوں نہیں ، شاہ جی کو سانس تو لینے دیتے درخور ترکھانوں کے منڈے ہی منڈیر پہ چڑھنے پڑے !

دین میں ترکھان موچی سید محمد کا برابر ہی سگا لگتا ھے ،وقت جاتا تھا کہ اسی اسی مملکت ِالباکستان کے خواجہ ناظم الدین گونر جنرل تھے! لاہور کا میدان تھا! عوام میں گھمسان کا رن تھا ، ایڑیاں اٹھا اٹھا سٹیج پہ نظریں جمائی ہوئی ترکھانوں کی اولادیں تھیں، اسی “برین واشر ” شاہ جی نے مائیک سیدھا کیا! مخصوص طرز کی ٹوپی پہنا کرتے تھے! بڑے انہماک سے سیدھے ہاتھ سے ٹوپی اتار دونوں ہاتھوں می‍ں تھام کر عوام کی طرف لہرائی بولے!

“”خواجہ یہ میری ٹوپی آجتلک کسی کے آگے نہیں جھکی ، لے یہ ٹوپی میں تیرے میں قدموں مٰیں رکھتا ہوں ، میں تیرے کتے نہلاؤں گا خواجہ ، اے خواجہ میرے سائیں کی عزت بچا لے خواجہ میں تیرے کتے نہلاؤں گا خواجہ میرے سائیں! میرے سائیں کی عزت بچا لے خواجہ! “”

مجمہ تھا کہ دھاڑ دھاڑ روئے چکے جاتا تھا ، شاہ جی تھے کہ کہے جاتے تھے میرے سائیں کی عزت بچا لے خواجہ!قانون کو اردس کیے جاتے تھے قانون نے وہی سے گرفتار کروایا سیدھا جیل برد ہوٰئے! پھر کیوں نا ترکھانوں موچیوں کے منڈے آویں ،!

حرم کی و دیر کی سیاست ھے

اور سب فیصلے ہیں نفرت کے

میرے اک دیرینہ دوست تھے ظل حیسن نام تھا شعیہ تھے ، میں نے پوچھا میاں کیوں چھلنی ہوئے جاتے ہو ، کہنے لگے ، میں کسی کے ایمان کو انچی ٹیپ لے کر ماپنے سے تو رہا ہاں میرا صبر جب حد سے خوگر ہوا میں کوٹنے لگتا ہوں خود کو ، میں کیا کروں مجھ سے وہ درد سہا نہیں جاتا وہ غم میں کہاں اتاروں! میں خود کو نوچنے لگتا ہوں!

بڑھ رہا ھے درد کا دورانیہ

یہ یقیناً چیخ پہ اکسائے گا

اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں ، ایک عورت ستاون ڈیل کا درد برداشت کر سکتی ھے ، یعنی اسکی چھ ہڈیاں اک ساتھ ٹوٹیں ، نفسیاتی درد طنابیں ہلا دیتا ھے ، اچھے فرنود کاش اجتہاد میں خودکشی ہی حلال کردیں کہ احترام آدمیت میں شاتم کی بجائے اپنے ہی گلے پہ چھری رکھ تراش ڈالی جاویں!جب سہا نہ جائے تو کہاں جائیں!

مجھے آجتلک اس وقت کا انتظار ھے جب دنیائے ادب و مہذب قوانین ہا میں یہ شق رکھی جائے کے کسی بھی انسان کی تذلیل واجب القتل ھے!رسول کے واسطے ہی نہ سہی چلو اسی نام نہاد انسانیت کے اسٹیک ہولڈرز ہی کے واسطے ہی سہی احترام آدمیت کے واسطے ہی سہی اس جرم شتم کو قتل کی سزا ہی کردو ، جو رام کو گالی دے جو جیسس کو گالی دے جو بدھا کو گالی دے وہ مجرم ِ انسانیت ھے اسکا جرم قتل سے بھی بڑا رکھو!

انسان مر جائے تو بچھتی ھے صف ماتم

کردار مر جائے تو کیوں ماتم نہیں ہوتا؟ ؟

شب و روز دن رات کے آنے جانے میں ، میں دیکھتا ہوں رسول اللہ کو گالیاں دی جاتیں کچھ بیاں کی ہیں کچھ بیاں کرنے سے قاصر ہوں! جگر پھٹے تو کہاں جائیں ترکھانوں کے لڑکے ، جرم کیا ھے جو ہمیں یوں تو تڑپایا جاوے! اے صریر خامہ وارث کچھ نہیں کر سکتے تو خودکشی حلال کر دو کہ مر جائیں پھر بلا سے قانون کی حرمت کے صدقے بھلے شاتم کو اپنے ہی ہاتھوں سے آب حیات بھر بھر پلائے جاویں !

یادیں ہیں یا بلوا ھے

چلتے ہیں چاکو مجھ میں

تمہید افغانستان پہ اتری تو یہ فقرہ جو آپ نے رقم کیا کہ اک رٹا رٹایا جملہ آویزاں کیاجاتا رہا جب علما کرام کی اولادیں بن بتائے جہاد پر پہنچیں تو وہ بیٹوں کی تصویریں نکال کر کماندانوں سے پوچھتے کہ ، آغا ایں پسر ما کجا است! آغا ہمارے یہ بیٹے کہاں ہیں؟ یہ تطبیق پچاس لاکھ افغانوں پہ صادر آتی ھے؟ کیا واقعی؟بو جہل پہ معاذ و معوذ کی ماؤں نے تو رسول اللہ کو نہ کہا تھا، آغا ایں پسر ما کجا است؟

عبداللہ ابن زبیر رض کی لاش تین دن دار پہ لٹکی رہی انکی ماں اسما رض کا گزر ہوا دیکھ کر حیرت سے بولی ! ابھی شاہ سوار سواری سے نہیں اترا؟؟ کربلا میں تو کسی نے نہ کہا ، آغا ایں پسر ما کجا است؟ ہاں جب وزیرستان سے طابوت پولین کو لوٹتے ہیں انکی مائیں تصویریں لے کر ٹاک شوذ میں کیوں نہیں کہتیں ، آغا ایں پسر ما کجا است؟

ملک ممتاز قادری رح کی نسبت آج اقبال نہیں تو کیا اقبال کی کمند ڈالتے ہوئے حق بجانب ہوں

“اسی باتاں کردے رہ گئے ملکاں دا منڈا بازی لے گیا ”

یوں لگتا ھے کہ مولائے روم نے فرنود سے ملکوں کے منڈے کا آخری ملاقاتی جواب کہا ہو جیسے!

پتا ھے ..

یہاں سے بہت دور ..

صحیح اور غلط کے اُس پار

ایک میدان ھے

میں وہاں ملوں گا تجھے !

(رومی)

میں ہنر مند ِ رنگ ہوں میں نے

خون تھوکا ھے داد پائی ھے

مہران درگ