جن کے نسب نامے نامعلوم راتوں کی عشوہ طرازیوں کی نذر ہوگئے، انہیں اپنی اوقات کے اظہار کا موقع میسر آیا تو دامنِ رسالت سے الجھ گئے۔
احترامِ انسانیت کا ایکسپائر منجن بیچنے والے گٹر دماغوں کوجب اپنی ہی لفظی جگالیوں سے ابکائی آنے لگی تو اپنا منہ یثرب کی وادیوں کی طرف موڑ دیا۔
رواداری کے مجہول فارمولے تخلیق کرنے والے اذہان سے فرسودگی کے بھپکے اٹھے تو ہذیان کے نشتر اسی محسن پہ چلا دیئے، جوانسانیت کی آخری ضمانت ہے۔
مگر کوئی نہیں، مفلوج دماغی کا کیا گلہ کیجیئے صاحب۔
آسودہ کائنات کے کچھ نطفہائے نا تحقیق سے بھی کیا الجھیئے صاحب۔
کوئی کتنا ہی دانش کے زیور سے آراستہ پیراستہ کیوں نہ ہوجائے۔ کسی کے سینے پہ کامیابی کے کتنے ہی تمغے کیوں نہ سجا دیئے جائیں۔ کسی کے کندھوں پہ تہذیب و شرافت کے ہزار قرینے ہی کیوں نہ جگمگاتے ہوں، مگر جب علم آفریں دماغ پہ انگورِ بے راہ رو کا ملیدہ مل دیا جائے، تو مثانے کا دباؤ اپنے ہی بستر پہ نکل جاتا ہے۔۔
بیل جواں ہوکر اگر اپنی ہی ماں کا ریپ کردے تو بات سمجھ آتی ہے، مگر اے انسان!! اے انسان۔!!!
ہوتا ہے ۔ ہوتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا کوئی پہلا واقعہ نہیں صاحب۔
بیش قیمت جہالت تو وہی ہوتی ہے جس کا ظہور دانشکدوں سے ہو۔ کیا خون کے بازار میں جذبات کی تجارت کیلئے ضروری ہے کہ براہ راست احمدِ مرسلﷺ کے گریبان پہ ہاتھ ڈالا جائے؟
ہم کیا کریں؟تمہارے ہی رنگ میں رنگ جائیں؟
ہماری مجبوری تو دیکھئے کہ اپنے نبی کا بدلہ تمہارے نبی سے نہیں لے سکتے۔ اپنے چچا جو لگتے ہیں۔ رنج کاایک سامان ہے، بس وہی کررہے ہیں۔ وہی کریں گے۔
فرنود عالم