مرتد کی واپسی اور توبہ۔۔

سوال :

جب بھى ميسر ہوتا ميں نماز كى پابندى كرتا تھا، اور پڑھائى ميں ذہين ہونے كى بنا پر انجنئرنگ كالج ميں داخلہ مل گيا، ميں الحمد للہ اللہ كى تعريف بھى كرتا تھا، اور باقى نوجوانوں كى طرح ايك خوبصورت اور احترام كرنے والى بيوى اور ترتيب والے گھر كے حصول كا بھى لالچ اور طمع ركھتا تھا، اور دن رات كثرت سے دعا كرتا، ليكن ميں امتحان ميں فيل ہو گيا جس كى بنا پر انجنئرنگ كى پڑھائى جارى نہ ركھ سكا، ميں نے محسوس كيا كہ ميں نے ظلم كيا ہے، اور ميں يہ كہنے لگا كہ فلان شخص تو نماز بھى ادا نہيں كرتا اور اللہ تعالى اس كے انجينئر بننا آسان كر ديتا ہے، اور ميں نماز كى پابندى كرنے كے باوجود كامياب نہيں ہو سكا ؟

ميں صبر نہ كر سكا ميں نے اپنے دل اور جى ميں كئى باتيں كيں جو اللہ كے دين سے خارج كرنے والى ہيں، مثلا اللہ اور دين پر سب و شتم اور خاص كر تقدير كو، اور اس كے ساتھ ميں نے كچھ مدت تك نماز ادا كرنا بھى ترك كردى اور اذان پر لبيك كہنے كو ناپسند كرنے لگا، ميرا دل نماز كے ساتھ معلق ہو گيا اور جب ميرے اندر سے غصہ ختم ہو گيا تو ادراك ہوا كہ ميں اللہ كے حق ميں بہت بڑا گناہ كيا ہے، اور مجھے خدشہ پيدا ہوا كہ كہيں مجھے اس حالت ميں ہى موت نہ آ جائے كہ اللہ مجھ سے ناراض ہو، ميں يہ سوچ كر رونے لگا اور ميں اپنى پڑھائى جارى نہ ركھ سكا كيونكہ ميں ہميشہ اپنے گناہوں ميں مشغول رہنے لگا.

ميں ايسا فتوى تلاس كرنے لگاجو مجھے راحت دے كہ آيا اللہ تعالى ميرا ايسا گناہ معاف كر ديگا جس كے متعلق اللہ كا فرمان ہے:

{ يقينا اللہ تعالى اپنے ساتھ شريك كيے جانے كو نہيں بخشتا، اور اس كے سوا جسے چاہے بخش ديتا ہے }.

ميں نے اس سلسلہ ميں دريافت كيا تو اللہ تعالى كے فرمان سے مجھے بہت خوشى اور فرحت حاصل ہوئى كہ اللہ نے فرمايا ہے:

{ كہہ ديجئے اے ميرے وہ بندو جنہوں نے اپنى جانوں پر زيادتى كى ہے تم اللہ كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ يقينا اللہ تعالى سارے گناہوں كو بخش ديتا ہے، واقعى وہ بڑى بخشش بڑى رحمت والا ہے }.

ميں نے اس آيت كے بارہ ميں معلوم كيا تو پتہ چلا كہ يہ آيت ان لوگوں كے متعلق نازل ہوئى تھى جو مسلمان نہ تھے اور انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ آيا ان كے ليے توبہ ہے ؟

ليكن ميں تو مسلمان ہوں تو ميرى خوشى اور فرحت جلد ہى كافور ہو گئى، اور ميں نے بخشش كى اميد كھو دى، اور ميں نماز اور نوافل اور سوموار كے روزے كى جو پابندى كرتا تھا وہ باقى نہ ركھ سكا.

ميرا سوال درج ذيل ہے:

ميرى توبہ كے باوجود كيا ميں امت محمديہ كے ساتھ نہيں رہونگا، كيونكہ بخارى شريف ميں حديث مروى ہے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اللہ تعالى روز قيامت ميرى دائيں جانب سے كچھ لوگوں كو پكڑے گا تو ميں كہوں گا ميرے ساتھى ہيں… تو اللہ تعالى فرمائيگا: وہ تيرے ساتھ نہيں بلكہ يہ تو وہ لوگ ہيں جو تيرے بعد مرتد ہو گئے تھے ؟

كيا يہ صحيح ہے كہ اگرچہ ميں سچى اور پكى اور خالص توبہ بھى كروں باوجود اس كے ميں اپنے اوپر حد جارى كروانے كى استعداد بھى ركھتا ہوں چاہے ميں جو بھى كروں پھر بھى اللہ تعالى مجھے معاف نہيں كريگا، كيونكہ اللہ تعالى اپنے ساتھ شرك كرنے كو معاف نہيں كرتا ؟

جواب :

الحمد للہ:

اول:

آپ نے جو دين اور تقدير پر سب و شتم كا ذكر كيا ہے اگر تو آپ نے زبان سے اس كى ادائيگى كى ہے تو بلاشك و شبہ آپ نے ايك عظيم جرم كا ارتكاب كيا ہے، اور وہ اسلام سے مرتد ہونا ہے، اور اس طرح آپ نے ايسا كر كے اللہ جل جلالہ كے ساتھ اچھا نہيں كيا جس نے آپ پر انعام كيا، اور آپ كو پيدا كر كے آپ كو ہدايت سے بھى نوازا، اور وہ اللہ سبحانہ و تعالى سب سے زيادہ آپ پر رحم كرنے والا ہے، ہو سكتا ہے اللہ تعالى كا آپ كو انجينئر نہ بننے دينے ميں ايك عظيم خير اور بھلائى ہو جو آپ پر اللہ كرنا چاہتا ہو، يا پھر اس ميں كوئى ايسا عظيم شر تھا جسے اللہ تعالى نے آپ سے دور كرنا چاہا، اس ليے آپ كو اسے راضى و خوشى تسليم كرنا چاہيے تھا.

اور اگر يہ چيز صرف دل ميں خيالات ہى تھے جو زبان پر نہيں لائے، اور نہ ہى دل ميں استقرار پائے، تو آپ كو جلد از جلد يہ خيالات دور كر كے اپنے اوپر اللہ كے فضل اور نعمت كو ياد كرنا چاہيے.

دوم:

آپ كا گناہ اور جرم كتنا بھى عظيم اور بڑا ہو ليكن اللہ سبحانہ و تعالى كى بخشش اور مغفرت اور حلم و بردبارى اس سے بھى بڑى ہے.

اور آپ كا گناہ كتنا بھى بڑا اور عظيم ہو پھر آپ اس گناہ سے توبہ كر ليں تو اللہ تعالى آپ كى توبہ قبول كرتے ہوئے آپ كے گناہ كو معاف كر ديگا، اور اس نے ايسا كرنے كا وعدہ بھى كيا ہے اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى اصدق القائلين ہے:

آپ نے جو آيت ذكر كى ہے وہ اللہ تعالى كا يہ فرمان ہے:

{ يقينا اللہ تعالى اپنے ساتھ شريك كيے جانے كو نہيں بخشتا اور اس كے علاوہ جسے چاہے بخش ديتا ہے }النساء ( 48 ).

يہ اس كے متعلق ہے جو شرك كرتا ہوا مر جائے اور شرك سے توبہ نہ كرے تو اللہ تعالى اسے نہيں بخشتا، ليكن جو شخص غرغرہ شروع ہونے سے قبل، اور مغرب كى جانب سے سورج طلوع ہونے سے قبل توبہ كر لے تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر كے اس كے گناہوں كو نيكيوں ميں بدل ڈالتا ہے، چاہے وہ كفر يا شرك كا مرتكب ہوا ہو، يا پھر كبيرہ يا صغيرہ گناہوں كا ارتكاب كر بيٹھا ہو، اہم يہ ہے كہ وہ سچى اور پكى توبہ كرے، اور اپنے كيے پر نادم ہو، اور آئندہ ہميشہ كے ليے وہ كام نہ كرنے كا پختہ عزم كرے.

{ سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كريں اور ايمان لائيں اور نيك كام كريں، ايسے لوگوں كے گناہوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اور اللہ بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے }الفرقان ( 67 – 70 ).

اور اس ميں كوئى فرق نہيں كہ جو اصل ميں كافر تھا اور پھر اللہ نے اسے ہدايت نصيب فرمائى تو وہ مسلمان ہو گيا، اور جو مسلمان تھا اور پھر مرتد ہو گيا ـ اللہ اس سے محفوظ ركھے ـ پھر توبہ كى اور اللہ كى طرف واپس پلٹ آيا، كيونكہ توبہ پہلے سب گناہوں كو ختم كر ديتى ہے، اور اسلام اپنے سے پہلے تمام گناہوں كو مٹا ديتا ہے.

اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان :

{ كہہ ديجئے اے ميرے وہ بندو جنہوں نے اپنى جانوں پر زيادتى كى ہے تم اللہ كى رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ يقينا اللہ تعالى سارے گناہوں كو بخش ديتا ہے، واقعى وہ بڑى بخشش بڑى رحمت والا ہے } الزمر ( 53 ).

يہ ہر گنہگار جو گناہ كے بعد توبہ كرلے كے ليے عام ہے، چاہے وہ اصل ميں كافر ہو، يا پھر مسلمان ہو اور مرتد ہو جائے بلكہ يہ سب معصيت و نافرمانى كرنے والے كو شامل ہے. ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” يہ آيت كريمہ سب كافر گنہگاروں وغيرہ كو توبہ كرنے كى دعوت ہے، كہ وہ اللہ كى جانب رجوع كر ليں، اور اس ميں اللہ تعالى نے خبر دى ہے كہ وہ توبہ كرنے والے اور رجوع كرنے والے كے سارے گناہ معاف كر ديتا ہے، چاہے وہ گناہ كتنے بھى ہوں، اور جتنے بھى زيادہ اور سمندر كى جھاگ كے برابر ہوں، اور اس آيت كو توبہ كے علاوہ كسى اور پر محمول كرنا صحيح نہيں، كيونكہ جو شخص توبہ نہيں كرتا اس كا شرك نہيں بخشا جاتا ” انتہى

ماخوذ از: تفسير ابن كثير ( 4 / 75 ).

اور جن لوگوں كو حوض كوثر سے دور كر ديا جائيگا اور وہاں جانے سے روك ديا جائيگا، اور ان كے متعلق روز قيامت كہا جائيگا ” انہوں نے آپ كے بعد دين ميں بدعات ايجاد كر لى تھيں ” تو يہ ان كے متعلق ہے جو توبہ نہ كريں بلكہ بدعت اور ارتداد كى حالت ميں ہى مر جائيں.

چنانچہ اگر آپ نے اللہ كى جانب رجوع كرتے ہوئے توبہ كر لى ہے، تو آپ خوش ہو جائيں اور اللہ كا شكر ادا كريں كہ اللہ تعالى نے آپ كى عمر لبمى كى حتى كہ آپ اسلام كى طرف واپس پلٹ آئے، لہذا آپ اعمال صالحہ كثرت سے كريں، اور اطاعت و فرمانبردارى مكمل كوشش اور جدوجھد كريں، تاكہ توبہ كے بعد آپ كى حالت پہلے سے بہتر اور افضل ہو جائے، اور نماز ميں سستى كرنے سے اجتناب كريں، اور نہ ہى نماز كى ادائيگى ميں تاخير كريں، بلكہ بروقت نماز كى ادائيگى ميں كوشش كريں، كيونكہ نماز كى بہت شان ہے، اور يہ بندے اور رب كے درميان واسطہ اور تعلق ہے، اور سعادت و راحت اور شرح صدر كا دروازہ ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے وہ آپ كى توبہ قبول كرتے ہوئے آپ كے گناہ معاف فرمائے.

واللہ اعلم .

سوال :مرتد اسلام ميں كيسے واپس پلٹ سكتا ہے ؟

________________________________________

اگر كوئى شخص ( نعوذ باللہ ) اسلام سے مرتد ہو جائے اور پھر دوبارہ اسلام ميں آنا چاہے تو اسلام ميں آنے كے ليے اسے كونسا طريقہ اختيار كرنا ہو گا؟

اور كيا اسلام ميں واپس پلٹنے كے ليے كوئى محدود مدت ہے ؟

جواب :

الحمد للہ :

جب كوئى شخص ( نعوذ باللہ ) اسلام سے مرتد ہو جائے اور پھر اسلام ميں آنے كا فيصلہ كرے تو اس كے ليے طريقہ يہ ہے كہ:

وہ شخص كلمہ پڑھے: لا الہ الا اللہ و ان محمدا عبدہ و رسولہ

اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں.

اور اگر اتداد كا سبب دين اسلام كے كسى حكم كا انكار ہو تو وہ اسلام ميں اس وقت تك واپس نہيں آئےگا جب تك كہ وہ انكار كردہ حكم كا اقرار نہ كر لے.

اسلام ميں واپس آنے كے ليے كوئى محدود مدت نہيں، لہذا اس كى توبہ اور اس كا اسلام ميں واپس آنا اس وقت تك قبول ہو گا جب تك موت سے قبل اس كا غرغرہ شروع نہيں ہو جاتا، اور جب اسے ممكنہ وقت كے اندر اسلام ميں واپس آنے كى توفيق مل جائے اور اس نے جس قدر بھى ممكن ہو سكے اسلامى شعائر اور احكام پر عمل كيا تو وہ شخص مسلمان شمار ہو گا.

مستفاد از

اسلام کیو اے ڈاٹ کام