ایک عام آدمی کے ذھن میں یہ سوال الجھن پیدا کرنے لگتا ہے کہ پیدائشی کافر ہونے اور اسلام سے مرتد ہوکر کافر بن جانے میں آخر کیا فرق ہے ؟ وہ پوچھتا ہے کہ قانون ایک شخص کے پیدائشی کافر ہونے کو برداشت کرلیتا ہے اور اسے اپنے حدود میں امن کی جگہ عطا کرتا ہے.. وہ آخر اسی شخص کے اسلام میں داخل ہونے کے بعد پھر کافر ہوجانے کو ،یا ایک پیدائشی مسلمان کے کفر اختیار کرلینے کو کیوں برداشت نہیں کرتا ؟؟
پہلی قسم کے کافر کا کفر اس دوسری قسم کے کافر کے کفرسے اصولا کیا اختلاف رکھتا ہے کہ وہ تو قانون کی نگاہ میں مجرم نہ ہو اور یہ مجرم ہو .. ؟اس کو ذمی بناکر اس کی جان ومال کی حفاظت کی جائے اور اسے زندگی کے جملہ حقوق سے محروم کرکے تختۂ دار پر چڑھا دیا جائے ؟
اسکی ہم اوپر ریاست کی بحث میں تفصیل پیش کرچکے ہیں کہ ایک غیر (Alien) اور قانون کے باغی یا ملک کی حدود کے اندر کسی دوسرے ملک کے قانون سے وفاداری کا اظہار کرنے والے سے دنیا کی ہر ریاست فرق کرتی ہے۔ اسی طرح نہ ملنے والے (غیر )اور مل کر چھوڑ جانے والے(باغی) کے درمیان انسانی فطرت بھی فرق کرتی ہے.نہ ملنا تلخی ،عداوت اور نفرت کو مستلزم نہیں ہےمگر مل کر الگ ہوجانا قریب قریب سو فیصدی حالات میں ان جذبات کو مستلزم ہے . نہ ملنے والے کے ساتھ آپ تعاون ،دوستی ،رازداری ،لین دین ،شادی بیاہ اور بے شمارقسم کے تمدنی و اخلاقی رشتے قائم نہیں کرتے جو ملنے والوں پر اعتماد کرکے اس کے ساتھ قائم کر لیتے ہیں اس لئے نہ ملنے والا کبھی بڑے فتنے یا نقصانات کا سبب نہیں بن سکتا جن کا موجب مل کر الگ ہوجانے والا بنتا ہے ۔۔نہ ملنے والا مخالفت میں اتنا سرگرم بھی نہیں ہوتا جس قدر مل کر الگ ہوجانے والا سرگرم ہوتا ہے۔ (اس کا مشاہدہ و اندازہ سوشل میڈیا پر ملحدین مرتدین کی اسلام مخالف ایکٹویٹی سے بھی لگایا جاسکتا ہے)۔
یہی وجہ کہ انسان نہ ملنے والوں کی بنسبت ان لوگوں کے ساتھ فطرتا بالکل دوسری ہی قسم کا برتاؤ کرتا ہے جو مل کر ناصرف الگ ہوجاتے بلکہ کٹر دشمن بن جاتے ہیں۔۔ انفرادی زندگی میں اتصال کے بعد افتراق کا سلسلہ محدود ہوتا ہے اس لئے عموما کشیدگی تک پہنچ کر رہ جاتا ہے..اجتماعی زندگی میں یہ زیادہ بڑے پیمانہ پر نقصان کی موجب ہوتی ہے اس لئے فرد کے خلاف جماعت کی کاروائی بھی سخت ہوتی ہے اور جہاں الگ ہوجانے والا کوئی فرد واحد نہیں بلکہ بڑا گروہ ہوتا ہےوہاں نقصان کا پیمانہ بہت بڑھ جاتا ہے اس لئے اس کا نتیجہ لازما جنگ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ..
جو نظام اور شعبے حساس ہوتے ہیں ان سے الگ ہونے والوں کو اکثر کسی نہ کسی نوعیت کی سزا ضرور دی جاتی ہےاور بارہا ان کو واپس آنے پر مجبور کیا جاتا خصوصا جو نظام جتنی زیادہ اجتماعی ذمہ داریوں کا حامل ہو اس کا اس معاملہ میں اتنا ہی زیادہ سخت رویہ ہوتا ہے. مثال کے طور پر فوج کو لے لیجئے قریب قریب تمام دنیا کے فوجی قوانین میں یہ بات مشترک ہے کہ فوجی ملازمت اختیار کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا مگر جو شخص باختیار خود فوجی ملازت اختیار کرچکا ہو اسے ملازمت پر رہنے میں لازما مجبور کیا جاتا ہے.. وہ استعفی دے تو نا قابل قبول ہے اور خود چھوڑ جائے تو مجرم ہے ..جنگ کی عملی خدمت سے فرار ہو تو سزائے موت کا مستحق ہے عام فوجی خدمات سے بھاگے تو جبس دوام تک سزا پا سکتا ہے اور جو کوئی اس بھاگنے والے کو پناہ دے یا اس کے جرم پر پردہ ڈالےتو وہ مجرم ٹھہرتا ہے یہی طرز عمل انقلابی پارٹیاں اختیار کرتی ہیں وہ بھی کسی کو اپنے اندر شامل ہونے پر مجبور نہیں کرتیں مگر جو شامل ہوکر الگ ہوجائے اسے گولی ماردیتی ہیں.
یہ معاملہ تو فرد و جماعت کے درمیان ہے اور جہاں جماعت اور جماعت کے درمیان یہ صورت پیدا ہوجائے وہاں اس سے زیادہ شديد معاملہ کیا جاتا ہے .وفاق اور تحائف کے متعلق اکثر آپ نے سنا ہوگا کہ جو ریاستیں اس قسم کے إتحاد میں شریک ہوتی ہیں ان کو شریک ہونے نہ ہونے کا اختیار تو دیا جاتا ہے مگر شریک ہوچکنے کے بعد الگ ہونے کا دروازہ ازروئے دستور بند کردیا جاتا ہےاور جہاں دستور میں اس قسم کی کوئی تصریح نہیں ہوتی وہاں بھی علیحدگی کے حق کا استعمال اکثر جنگ تک نوبت پہنچا دیتا ہے.
انیسویں صدی میں دو لڑائیاں اسی مسئلہ پر ہوچکی ہیں.پہلی لڑائی سئزرلینڈ میں ہوئی جب سن 1847ء میں سات کیتھولک ریاستوں نے کانفیڈریسی سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اس پر کانفیڈیرسی کے باقی شرکاء ان الگ ہونے والی ریا ستوں سے بر سر پیکار ہوگئے اور انھیں نے لڑکر انھیں مجبور کیا کہ پھر انکی وفاقی ریاست میں شامل ہوجائیں.دوسری لڑائی امریکا کی خانہ جنگی کے نام سے مشہور ہے۔سن 1860ء میں ممالک متحدہ کے اتحاد سے سات ریاستیں الگ ہوگئیں اور انھوں نے اپنا علیحدہ تحائف قائم کرلیا. بعد میں چار مزید ریاستیں اس جتھے میں آملیں نیز چھ ریاستوں کی رائے عام یہ تھی کہ اصولا ہر ریاست کو الگ ہوجانے کا حق حاصل ہے اور وفاقی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں زبردستی ممالک متحدہ کے وفاق میں واپس آنے پر مجبور کرے۔اس پر سن 1861ء میں وفاقی حکومت نے ان ریاستوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور تین چار سال کی شدید خونریزی کے بعد انھیں پھر اتحادمیں شامل ہونے پر مجبور کردیا.
افتراق بعد الاتصال (ملنے کے بعد جدا ہونے )کے خلاف بالعموم تمام اجتماعی نظام اور بالخصوص سیاسی اور فوجی نوعیت کے نظام یہ سخت کاروائی کیوں کرتے ہیں؟
اس کے حق میں قوی ترین دلیل یہ ہے کہ جماعتی نظم اپنی کامیابی کےلئے فطرتا استحکام کا مقتضی ہوتاہے اور یہ استحکام سراسر اسی بات پر منحصر رہتاہے کہ جن عناصر کے ملاپ سے یہ نظام وجود میں آیا ہو ان کے ملاپ پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کیا جا سکے. ناقابل اعتماد متزلزل اور انتشار پذیر عناصر کا اجتماع جس کے قائم رہنے پر بھروسہ نہ کیا جاسکے اور جس کے ثابت قدم رہنے کا یقین نہ ہو ،کبھی کوئی صحیح قسم کی جماعتی زندگی پیدا نہیں کر سکتا .خصوصا جونظام اجتماعی ادارہ تمدن کی اہم خدمات کا بار اٹھانے والا ہو وہ کبھی اس خطرہ مول لینے پر آمادہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے ترکیب ایسے اجزاء سے ہو جو کسی بھی وقت پارہ پارہ ہو سکتے ہیں.. انتشار پذیر اینٹوں اورپتھروں سے بنی عمارت ویسے بھی انسانی سکونت کے لئے کوئی قابل اطمینان چیز نہیں ہوتی .کجا کہ ایک قلعہ جس پر پورے ملک کا انحصار ہو ایسے بکھر جانے والے اجزاء سے بنا ڈالا جائے.تفریحی انجمنیں ،جن کی حیثیت بچوں کے گھروندں سے زیادہ نہ ہو،افراد کی شخصی آزادی کو اپنے جماعتی وجود کے مقابلے میں ضرور ترجیح دے سکتی ہیں.لیکن کسی بڑے جماعتی مقاصد کے لئے جان جوکھوں کا کھیل کھیلنے والے اس کے لئے کبھی تیار نہیں ہوسکتے،لہذا ریاست ، فوج اور وہ پارٹیاں جو سنجیدگی کے ساتھ کسی اہم اجتماعی نصب العین کی خدمت کا پر خطر کام کرنے کے لئے بنی ہوں، اور اسی نوعیت کے دوسرے نظام اس امر پر قطعی مجبور ہوں کہ واپس جانے کے لئے اپنے دروازے بند کردیں اور اپنے اجزائے ترکیبی کو منشر ہونے سے باز رکھیں
مستحکم اور قابل اعتماد اجزاء حاصل کرنے کے لیے اس سے زیادہ کامیاب ذریعہ اور کوئی نہیں ہے کہ آنے والے کو پہلی ہی آگاہ کردیا جائے کہ یہاں سے جانے کا نتیجہ موت ہے کیوں کہ اس طرح کمزور قوت فیصلہ رکھنے والے خود ہی اندر آنے سے باز رکھیں گے.
اسی طرح موجودہ اجزاء کو بکھرنے سے باز رکھنے کا بھی قوی ترین زریعہ یہ ہے کہ جو اجزاء بکھرنے پر اصرار کریں انہیں کچل ڈالا جائے تاکہ جہاں جہاں علیحدگی کے میلانات پرورش پارہے ہیں ان کا خود بخود قلع قمع ہوجائے.
البتہ اس حقیقت کو پھر ذہن نشین کرلینا چاھئیے کہ جماعتی نظم کے لئے اس تدبیر کو صحیح قرار دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر جماعتی نظم کے لئے اس تدبیر کا استعمال برحق ہے قطع نظر اس کے کہ وہ بجائے خود صالح ہو یا فاسد
یہ چیز حق صرف اس جماعتی نظم کیلئے ہے جو اپنی زات میں صالح ہو رہا ایک فاسد نظام تو ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں اس کا وجود بجائے خود ظلم ہے اگر وہ اپنے اجزاء کو سمٹائے رکھنے کے لئے جابرانہ قوت استعمال کرے تو یہ اس سے زیادہ بڑا جرم ہے ..