جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد جب سرمایہ دارانہ استعماری ریاست نے خلافت اسلامیہ کے اجتماعی نظم کو تحلیل کردیا، اس موقع پر علماء کرام کے سامنے تین آپشنز تھے
(1) استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد برپا کی جاۓ (مگر جنگ آزادی کی ناکامی سے بظاھر اسکا غیر موثر ھونا واضح ھوچکا تھا)
(2) استعمار کے ساتھ مصالحت اختیار کرکے اسلام کو اس کے علمی و اجتماعی ڈھانچے کے مطابق ڈھال کر سرمایہ دارانہ نظم میں ضم کرنے کی کوشش کی جاۓ (سرسید کے علی گڑھ نے یہ بیڑا اٹھایا)،
(3) ریاستی نظم سے علیحدگی اختیار کرکے علوم اسلامیہ کا تحفظ کیا جاۓ (نیز فرد و معاشرے کی اصلاح اور دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھا جاۓ)۔
انیسویں (اور بیسویں صدی) کے مخصوص چیلنجز کے تناظر میں علماۓ کرام نے اس تیسرے آپشن کو اختیار کرنے کا اجتہاد کیا اور کہنا پڑتا ھے کہ اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ ماضی قریب میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف دفاعی جدوجہد برپا کرنے کا سب سے کامیاب ترین اجتہاد تھا۔ اس حکمت عملی کے تحت علماۓ بریلی و دیوبند نے برصغیر پاک و ھند میں مدارس کا ایک ایسا جال بچھایا جس کے نتیجے میں پوری اسلامی علمیت (ڈسکورس) بعینہہ اپنی اصلی تاریخی صورت میں محفوظ کرلی گئ اور بیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ ڈسکورس کے خلاف جمع کیا جانے والا یہ سب سے بڑا خیر تھا۔
درحقیقت علماء کی دفاعی جدوجہد کا یہ اجتہاد ہی آج اسلامی تحریکات کو سرمایہ داری کے خلاف اقدامی جدوجہد کرنے کی بنیاد فراھم کرتا ھے۔ ایسے حالات میں کہ جب تمام مذاھب و نظریات زندگی تنویری ڈسکورس کے سامنے بری طرح پٹ چکے ھیں، علماۓ کرام کا اسلامی علمیت کو محفوظ کرلینا ہی اسلام کو وہ بنیاد فراھم کرتا جس کے بلبوتے پر آج اھل اسلام تن تنہا سرمایہ دارانہ (تنویری) ڈسکورس کا ڈٹ کر مقابلہ کررھے ہیں۔ اسی طرح اگر اصلاحی و انقلابی جماعتیں کامیابی سے ہمکنار ھوکر کوئ علاقہ حاصل کربھی لیں لیکن اگر اسلامی علوم ہی محفوظ نہ ھوں تو ریاستی عمل کو شارع کی رضا کے مطابق چلانے اور قائم رکھنے کی سرے سے کوئ بنیاد ہی باقی نہیں رھتی۔ درحقیقت علوم اسلامیہ کے تحفظ و فروغ کے بغیر ‘اسلام ریاست’ کا تصور ہی بے معنی تصور ھے کیونکہ ریاست تو ھے ہی ایک مخصوص علمیت کی بنا پر فیصلوں کے صدور اور نفاذ کا نام۔ پس اگر اسلامی علمیت ہی معدوم ھوجاۓ تو اسلامی ریاست بھلا کیسے وجود میں آسکتی ھے؟ ایں خیال است محال است۔
چنانچہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے تمام گروھوں پر لازم ھے کہ وہ علماۓ کرام کے اس حیرت انگیز حد تک عظیم الشان کارنامے پر جتنا ھوسکے اپنے رب کا شکر بجا لائیں اور عالم اسباب میں اس کارنامے کو معرض وجود میں لانے والے گروہ کی دل سے قدر کریں کہ یہ واقعی ایک حیرت انگیز کارنامہ تھا جسکی مثال اکیسویں صدی میں سواۓ مسلمانوں کے کوئ دوسرا گروہ پیش کرنے سے قاصر ھے کہ سب کی علمیتیں (اگر کچھ تھیں بھی) یا تو قصہ پارینہ ھوچکیں اور یا پھر سرمایہ دارانہ ڈسکورس میں ضم ھوکر اضمحلال کا شکار ھوگئیں۔ سچ کہا نبی صادق نے ‘انبیاء کے ورثاء تو بس علماءہی ھیں’۔
تحریر : زاہد مغل