کچھ سطحی النظر متجددین مرتد کی سزا کے خلاف یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اگر دوسرے ادیان بھی اسی طرح اپنے دائرے سے باہر جانے والوں کے لیے سزائے موت کا قانون مقرر کر دیں جس طرح اسلام نے کیا ہے. تو یہ چیز اسلام کی تبلیغ کے راستے میں بھی ویسی ہی رکاوٹ بن جائیگی جیسے دوسرے ادیان کے راہ میں بنتی ہے۔
. اسکا اصولی جواب اس سے پہلے ہم دے چکے ہیں مگر یہاں ہمیں اس کا عملی جواب بھی مل جاتا ہے.معترضین اپنا اعتراض لفظ “مگر” کے ساتھ پیش کرتے ہیں. گویا کہ واقعہ یہ نہیں ہے. حالانکہ دراصل وہ چیز جسکا یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں واقعہ کی صورت میں موجود ہے۔۔ !!
دنیا میں جو دین بھی اپنی ریاست رکھتا ہے . وہ اپنے حدودِ اختیار میں اپنے ارتداد کا دروازہ بزور بند کیے ھوئے ہے. غلط فہمی صرف اس وجہ سے واقع ہوتی ہے کہ آج کل عیسائی قومیں اپنی مملکتوں میں عیسائیت سے مرتد ہو جانے والوں کو کسی قسم کی سزا نہیں دیتیں. اور ہر شخص کو آزادی عطاء کر دیتی ہیں کہ جس مذہب کو چاہے کر لے ۔اس سے یہ لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ان کے قانون میں ارتداد جرم نہیں ہے ،یہ ایک رحمت ہے جسکی وجہ سے مذہبی تبلیغ تمام رکاوٹوں سے آزاد ہے. لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ عیسائیت ان قوموں کے افراد کا محض ایک شخصی مذہب ہے ان کا اجتماعی دین نہیں ہے جن پر ان کی سوسائٹی کا نظام اور ان کے اسٹیٹ کی عمارت قائم ہو۔۔. اس لیے عیسائیت سے پھر جانے کو وہ کوئی اھمیت نہیں دیتے کہ اس پر رکاوٹ عائد کرنے کی ضرورت محسوس کریں۔. ۔
رہا ان کا “اجتماعی دین ” جس پر انکی ریاست اور سوسائٹی کی بنیاد قائم ہوتی ہے . تو اس سے مرتد ہونے کو وہ بھی اسی طرح جرم قرار دیتی ہیں. جسطرح اسلام اسے جرم قرار دیتا ہے اور اسے دبانے کےمعاملے میں وہ بھی اتنی ہی سخت ہے جتنی اسلامی ریاست سخت ہے. انگریزوں کا عالمی دین عیسائیت نہیں ہے بلکہ برطانوی قوم کا اقتدار اور برطانوی دستور و آئین کی فرمانروائی ہےجس کی نمائندگی تاج برطانیہ کرتا ہے. ممالک متحدہ امریکہ کا اجتماعی دین بھی عیسائیت نہیں ہے. بلکہ امریکی قومیت اور وفاقی دستور کا اقتداء ہے جس پر انکی سوسائٹی ایک ریاست کی شکل میں منظم ہوئی ہے . اسی طرح دوسری عیسائی قوموں کے اجتماعی دین بھی عیسائیت کہ بجائے ان کے اپنے قومی اسٹیٹ اور دستور ہیں. ان ادیان سے ان کا کوئی پیدائشی یا اختیاری پیرو ذرا مرتد ہو کر دیکھ لے . اسے خود معلوم ہو جائےگا کہ ان کے ہاں ارتداد جرم ہے یا نہیں ؟؟
اس معاملہ کو انگریز قانون کے مصنف نے خوب واضح کردیا ہے وہ لکھتا ہے کہ:
” یہاں ہم تفصیل کے ساتھ ان وجوہ کی تحقیق نہیں کرنا چاھتے ہیں جن کی بنیاد پر ریاست نے مذہب کے خلاف سزا دینے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تجربہ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بعض افعال یا طرز عمل جو مذہب میں ممنوع ہیں اجتماعی زندگی کے لئے بھی خرابی اور بدنظمی کے موجب ہوتے ہیں اس لئے یہ افعال غیرقانونی اور ان کے مرتکب مستلزم سزا قرار دئیے گئے ہیں نہ اس وجہ سے کہ وہ خدا کے قانون کو توڑتے ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں” آگے چل کر لکھتا ہے کہ
” ایک زمانہ دراز تک انگریز قانون میں ارتداد یعنی عسائیت سے بالکل پھر جانے کی سزا موت تھی بعد میں یہ قانون بنایا گیا کہ اگر کوئی شخص جس نے عیسائیت کی تعلیم حاصل کی ہو یا عیسائی مذہب کی پیروکاری کا اقرار کیا ہو تحریر یا طباعت یا تعلیم یا سوچی سمجھی ہوئی تقریر کے سلسلے میں یہ خیال کرے کہ خدا ایک کے بجائے متعدد ہیں یا عیسائی مذہب کے حق ہونے یا کتاب مقدس کے من جانب اللہ ہونے سے انکار کرے تو پہلی خطاء پر وہ ملکی اور فوجی ملازمت میں داخل ہونے سے محروم کیا جائے گا اور دوسری خطاء پر اسے تین سال قید کی سزا دی جائے گی لیکن یقین کیا جاتا ہے کہ اس قانون کے تحت کبھی کسی پر مقدمہ نہیں چلایا گیا ۔(Principal Crime in Bible by Sevamourf Harris)
چند سطور کے بعد پھر لکھتا ہے کہ
“ عیسائیت انگریز قانون کا ایک جزو ہے اور اس کے خلاف کسی قاحش حملہ کا ارتکاب کرنے پر ریاست کی طرف سزا دی جاتی ہے اس جرم کی حدود میں تحریر یا تقریر کے ذریعہ خدا کی ہستی یا اس کی تقدیر کا انکار ہمارے خدا اور منجی مسیح کی اہانت اور کتب مقدسہ یا ان کے کسی جزء کا استہزاء شامل ہے۔ اس پر صرف اتنا اضافہ کرنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ اس قانون کو شاذ و نادر ہی استعمال کیا گیا ہو۔(کتاب مذکور صفحہ 26)
اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ عیسائیت (جسے وہ خدا کا قانون کہتے ہیں) چونکہ اب ملکی قانون نہیں ہے اس لئے ریاست اول تو اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو سزا دینے کا ذمہ داری اپنے سر لیتی ہی نہیں یا اگر اس بناء پر کہ ابھی تک یہ عیسائیت حکمراں افراد کا مذہب ہے وہ برائے نام اس ذمہ داری کو قبول کرتی بھی ہے تو اس کے ادا کرنے سے پہلو تہی کرتی ہے لیکن خود ملکی قانون جو ان کا اجتماعی دین ہے کیا اس کے معاملہ میں بھی ان کا طرز عمل یہی ہے؟؟؟ اس کا جواب آپ عملا پاسکتے ہیں اگر ذرا ہمت کرکے برطانوی رعایا کا کوئی فرد برطانوی حدود میں رہتے ہوئے تاج برطانیہ کے اقتدار اعلی یا سلطنت کے آئین کو تسلیم کرنے سے انکار کردے. ۔۔!!
پس درحقیقت وہ حالت تو عملا قائم ہے جس کے متعلق غلط فہمی کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا لیکن اس حالت کے قائم ہونے سے موجودہ زمانہ کی مذہبی تبلیغ میں کوئی رکاوٹ اس لئے واقع نہیں ہوتی کہ آج کل دنیا میں جتنے مذاہب کی تبلیغ جاری ہے ان میں کسی مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب میں چلے جانے سے دنیاوی مملکتوں کے اجتماعی دین میں کوئی رخناء نہیں پڑتا۔ تمام مذاہب بالفعل اس اجتماعی دین کے تابع بن کر رہتے ہیں اور ان حدود کی پابندی کرتے ہیں جس میں انہوں نے انہیں محدود کردیا ہے لہذا اس کے تابع فرمان اور مطیع امر رہتے ہوئے اگر آپ نے ایک عقیدہ و عمل چھوڑ کر کوئی دوسرا عقیدہ و عمل اختیار کرلیا تو اجتماعی دین کے نقطہ نظر سے فی الواقع آپ کے اندر کوئی فرق رونما نہیں ہوا نہ آپ نے کسی ارتداد کا ارتکاب کیا کہ وہ آپ سے بازپرس کرسکے۔ ہاں اگر آپ انکے اس’ اجتماعی دین ‘کے اعتقادا و عملا کافر بن جائیں اور کسی دوسرے اجتماعی دین کےاعتقادی مومن بن کر عملی مسلم بننے کی کوشش کریں تو آج کا ہر حکمران آپ کے ساتھ وہی کچھ کرنے کو تیار ہے جو آج سے ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا حکمران حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ کرنے کو تیار تھا ۔
“مجھے موسی کو قتل کرنے دو اور وہ اپنے بچانے کے لئے اپنے رب کو پکارے مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ تمہارا دین نہ بدل دے یا زمین میں فساد نہ پھیلادے. (سورت المومن آیت 26)