روایت پسندوں پر ‘اکابر پرستی’ کا طعنہ :
گروہ متجدیدین اور انکے پیروکاروں کی ایک عمومی جھانسہ دینے کی نوعیت یہ بھی ھوتی ھے کہ دوران گفتگو یہ لوگ تاریخی معتبر اسلام پسندوں پر ”اکابر پرستی” کا طعنہ کس دیتے ہیں۔ یہ طعنہ کسنے کا مقصد یہ ثابت کرنا ھوتا ھے کہ ‘تم لوگ عقل استعمال نہیں کرتے بلکہ اکابرین کی طرح مکھی پر مکھی مارتے ھو، قرآن نے اس رویے کی مذمت کی ھے وغیرہ وغیرہ’۔ یعنی جو اکابرین کی رائےکو درست سمجھ رھا ھے اور ان سے اختلاف کررھا ھے وہ اکابر پرست اور بے عقل۔
یہ سب راگ الاپتے وقت ان لوگوں کا مفروضہ گویا یہ ھوتا ھے کہ عقل استعمال کرنے کا لازمی مطلب اکابرین کا رد کرنا ھے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جناب اگر کوئی شخص اپنی عقل استعمال کرکے اسی استدلال اور نتیجے کو ٹھیک پائے جو اکابرین نے پیش کیا تو اس میں ایسی برائی کی بات کیا ھے؟
کیا ضروری ھے کہ دنیا میں ہر انسان کی عقل اسی نتیجے پر پہنچے جہاں ان متجددین کی پہنچی؟
کیا لازم ھے کہ ایک معاملے کے تصفیے میں سب کی عقل کو وہی پہلو اپیل کرے جو ان متجددین کی ”جدیدیت ذدہ’ عقل کو اپیل کررہا ھے؟ آخر اپنی عقل استعمال کرکے کسی دوسرے کی رائے کو صائب سمجھنا منطق اور عقل کے کس اصول کی خلاف ورزی ھے؟
دراصل دوسروں کیلئے اکابر پرستی اور اپنے لئے عقل کا راگ الاپنے والے ان لوگوں کے کہنے کا اصل مطلب یہ ھوتا ھے کہ ”عقل کا پیمانہ ‘میری عقل’ ھے اور جو میری بات نہیں مان رہا وہ بے عقل ھے۔” مگر انہیں یاد رکھنا چاھئے کہ جس طرح یہ دوسروں پر اس بنیاد پر اکابر پرستی اور بے عقلی کی پھبتی کستے ہیں کہ وہ انکی مخصوص عقل سے برآمد ھونے والے نتیجوں کو نہیں مان رھے بالکل اسی پیمانے پر یہ متجددین بھی اکابر پرستی اور بے عقلی کے فتوے کی زد میں ھوتے ہیں (ظاھر ھے یہ بھی تو لاکھوں لوگوں کی عقل سے برآمد ھونے والے ایک استدلال اور نتیجے سے اختلاف کررھے ھوتے ہیں اور اکثر و بیشتر کسی دوسرے متجدد کی رائے کو بہتر سمجھ رھے ھوتے ہیں تو اس لحاظ سے یہ زیادہ بڑے بے عقل ھوئے)۔
ان عقل کی مالا جپنے والوں کو تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ جوہری عقل (substantive reason) تو بذات خود کسی ریفرینس پوائنٹ سے ڈیفائن ھورہی ھوتی ھے اور اگر ریفرنس پوائنٹ بدل جائے تو یہ مختلف نتیجے برآمد کرنے لگتی ھے۔ تو انہیں اپنی ‘جدیدیت ذدہ’ عقل پر اتنا ناز کیوں ھوتا ھے؟
”زمانہ تو آگے بڑھتا ھے”
روایتی مذہبی ذھن جب قرون اولی کی بات کرتا ھے تو جدید ذھن ایک چبھتا ھوا اعتراض یہ کرتا ھے کہ ”تم مولوی ہمیں پیچھے لے جانا چاھتے ھو، زمانہ ہمیشہ آگے کی جانب بڑھتا ھے، یہی قانون فطرت ھے”۔
یہ دلیل پیش کرکے یہ جدید ذھن سمجھتا ھے گویا اس نے کوئی بہت علمی دلیل قائم کرکے بس میدان مار لیا۔ مگر اپنی ہئیت میں یہ نہایت بوگس و غیر علمی دلیل ھے کیونکہ اس دلیل کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ھے گویا تبدیلی بس یونہی آتی ھے یا آرھی ھے، زمانہ گویا کسی مجرد معنی یا ھمہ جہت اطراف میں آگے بڑھ رھا ھے، مگر ایسا ہرگز نہیں۔
آگے بڑھنا کسی مجرد عمل کا نام نہیں بلکہ یہ ایک اقداری شے ھے کہ تبدیلی و پیش رفت ہمیشہ کسی ‘آئیڈئیل کی طرف’ ھوتی ھے۔ درحقیقت موجودہ دور ”سرمائے میں اضافے اور اسکے تکمیلی لوازمات کی سمت کی طرف آگے بڑھ رھا ھے”، اسی شے کے امکانات بڑھانے کے مواقع یہ پیدا کررھا ھے۔ ایسا نہیں کہ یہ دور ”ھرپیمانے و اطراف” میں آگے بڑھ رھا ھے (یعنی ایسا نہیں کہ جدید انسان ہر پیمانے پر آگے بڑھا ھوا ھے)۔ مثلا جدید ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت میں اور زمانہ جاہلیت کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں رھا، بلکہ یہ جدید انسان دور جاہلیت کے انسان سے دو ھاتھ زیادہ وحشی بن چکا ھے (اس جدید انسان کی منظر کشی آگے ایک پوسٹ میں تفصیل سے آئے گی )۔ جہالت کی جس گھٹا ٹوپ کا یہ جدید انسان آج شکار ھے یہ بس یونہی حادثاتی طور پر پلٹ نہیں آئی، اسکا براہ راست تعلق اس جدید نظام زندگی کے ساتھ ھے جس کی طرف یہ زمانے کو بڑھاوا دے رھا ھے۔ تو ھم کہہ سکتے ہیں کہ بے شمار پیمانوں کی بنیاد پر جدید انسان نہایت پسماندہ انسان ھے (اس معنی میں کہ یہ جہالت کے اسی گڑھے کی مزید گہری پستیوں میں جاگرا جہاں سے کالی کملی والے آقا (ص) اور اسکے اصحاب (رض) نے اسے نکالا تھا)۔
تو اصل مسئلہ اقداری ترجیحات کا ھے، اگر پیمانے بدل لئے جائیں تو تنزلی بھی ترقی دکھائی دینے لگتی ھے اور اسکا برعکس۔ مولوی جب قرون اولی کی طرف مراجعت کی بات کرتا ھے تو پیچھے جانے کی نہیں بلکہ ”آگے جانے” کی بات کرتا ھے، فرق اقداری ترجیحات کا ھے اور بس (قرون اولی رحمانی اقدار جبکہ سرمایہ دارانہ نظام شیطانی اقدار کی طرف آگے بڑھنے کا نام ھے اور بس)۔ چونکہ جدید ذھن نے گھوڑے و اونٹ کے بجائے گاڑی و جہاز پر سواری، کچے مکان کے بجاۓ ملٹی سٹوری فلیٹس، خط کے بجائے فیس بک اور موبائیل پر میسیج کرنے کو بذات خود اھم ترین اخلاقی شے مان لیا ھے، لہذا یہ ”آگے برھنے” کو انہی پیمانوں پر جانچ کر دیگر تمام تصورات جواسکی مخصوص اقداری ترجیحات کو ممکن نہیں بناتے انکا مذاق اڑا رھا ھے۔ مگر یہ بیچارہ سمجھ رھا ھے گویا میں کسی نیوٹرل مقام سے کھڑا ھوکر اشیاء کا تجزیہ کرکے انہیں اختیار یا رد کررھا ھوں (اسی لئے اپنے علاوہ سب کو اور مولوی کو بالخصوص بے عقل سمجھتا ھے)۔
جدید ذھن سے زیادہ افسوس ناک کیفیت ان مسلم مفکرین و دانشوروں کی ھے جو جدید ڈسکورس کے ”آگے بڑھنے” کی اس دلیل کے آگے سرنگوں ھوئے چاھتے ہیں۔ اس ”جدید پیمانوں پر آگے بڑھی ھوئی” دنیا کے سامنے جب یہ اسلام کو پیش کرکے دیکھتے ہیں کہ اسلام تو اسکے تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتا تو مارے شرم پانی پانی ھوکر اسلام کی مرمت کاری شروع کردیتے ہیں اور اپنے اس عمل کا نام ”اجتہاد مطلق” رکھ لیتے ہیں اور ساتھ ہی اسلاف کوکوسنے لگتے ہیں کہ وہ کون ھوتے ہیں اجتہاد مطلق کا دروازہ بند کردینے والے (اس بات کا اصل مطلب صرف یہ ھوتا ھے کہ وہ کون ھوتے ہیں اسلام کو سرمایہ داری میں ضم کرنے کا دروازہ بند کرنے والے)۔
تحریر : زاہد مغل