اسلام ایک ابدی مذہب ہے،اس میں قیامت تک آنے والے مسائل کاحل ہے،یہ دین خداکی طرف سے آیا ہوا آخری دین ہے ارشاد خداوندی ہے:” اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ”(آل عمران:۱۹) اس دین کا امتیاز جہاں ابدیت ودوام اور ہر عہد میں قیادت ورہبری کی صلاحیت ہے وہیں اسکا بڑا وصف جامعیت، مسائل زندگی میں تنوع کے باوجود رہنمائی اورتوازن واعتدال کے ساتھ ان کا حل بھی ہے،خلوت ہویاجلوت، ایوان سلطنت ہو یا فقیر ومحتاج کا،خانۂ بے چراغ حاکم ہو یا محکوم،دیوان قضاء کی میزان عدل ہویاادب وسخن کی بزم ہو،حق وباطل کا رزم ہویاخدا کی بندگی اوراس کے حضور آہ سحرگا ہی ہو،حیات انسانی کا کونسا ایسا شعبہ ہے جس کو اس نے اپنے نورہدایت سے محروم رکھاہے،اورزندگی کا کونسا عمل ہے جس کا سلیقہ اس دین نے نہیں سکھایا۔لیکن منطقی طور پر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ زمانہ اور وقت تو ایک جگہ اور ایک کیفیت پر ٹھہرنے والی چیز نہیں ہے، اس میں مسلسل تغیر رونما ہوتا رہتا ہے، انسانی سوسائٹی تغیر اور ارتقا کے مراحل سے پیہم گزر رہی ہے اور دنیا کے احوال وظروف میں تبدیلیاں انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، پھر اس مسلسل اور پیہم تغیر پذیر دنیا اور سوسائٹی میں نئے احوال وظروف سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انسانی معاشرہ کی راہ نمائی کا نظام کیا ہے؟ اور سلسلہ وحی مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک آنے والے انسانوں کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ رشتہ کیسے قائم رہے گا؟
مغرب نے تو یہ کہہ کر اس سارے قضیے سے پیچھا چھڑا لیا ہے کہ انسانی سوسائٹی اب بالغ ہو گئی ہے اور اپنا برا بھلا خود سمجھنے لگی ہے اس لیے اسے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی ڈکٹیشن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہی، اب اس کے فیصلے خود اس کے ہاتھ میں ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی اکثریت جو چاہے اور انسان کی اجتماعی عقل وخرد جو سمجھے، وہی حرف آخر ہے اور اسے مزید کسی نگرانی اور چیک کی حاجت نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ بات کہنا اور اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کسی مرحلہ میں بھی آسمانی تعلیمات سے بے نیاز نہیں رہ سکتی اور انسانی معاشرہ کو شخصی، طبقاتی یا اجتماعی طور پر کبھی بھی یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ وحی الٰہی سے لا تعلق ہو کر اپنے فیصلوں میں غیر مشروط طور پر آزاد ہو اس لیے قیامت تک انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کے لیے آسمانی تعلیمات کا تسلسل ضروری ہے۔
قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت وتعلیمات دونوں تاریخ کے ریکارڈ پر محفوظ حالت میں موجود ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان میں انسانی زندگی کو قیامت تک پیش آنے والے حالات ومسائل کی تفصیلات موجود نہیں ہیں اور نہ ہی موجود ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے بعد میں رونما ہونے والے حالات وواقعات اور مشکلات ومسائل کے حوالہ سے انسانی معاشرہ کو قرآن وسنت کے دائرہ کا پابند رکھتے ہوئے جزئیات وفروعات میں حالات ومواقع کی مناسبت سے قرآن وسنت کی اصولی راہ نمائی کی روشنی میں عقل وقیاس کے ساتھ فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور اسی اختیار کو شریعت کی اصطلاح میں ’’اجتہاد‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے ذریعہ بدلے ہوئے حالات وادوار میں شریعت کے اصل منشاء ومقصد کوسامنے رکھ کر نوپید اورتغیر پذیر جزئیات ومسائل اورذرائع ووسائل کی بابت رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے،اجتہاد اس کا نام نہیں ہے کہ شارع کے نصوص کو محدود کردیا جائے اور اپنی رائے وخواہش کے دائرہ کو وسیع کیاجائے،بلکہ اجتہاد کے ذریعہ درحقیقت نصوص اورشارع کی ہدایات وتعلیمات کے اطلاق کو وسیع کیاجاتا ہے،اوران صورتوں کو بھی آیات وروایات کے ذیل میں لایا جاتا ہے جن کا نصوص میں صراحت کے ساتھ ذکر نہ آیا ہو،مثلاً حدیث میں ہے کہ: ایک شخص نے روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا تو اس کو کفارہ اداکرنے کا حکم دیا گیا۔ (بخاری، باب اذا جامع فی رمضان، حدیث نمبر:۱۸۰۰) اس حدیث سے صراحتاً روزہ میں صرف جماع ہی کی وجہ سے کفارہ واجب ہونا معلوم ہوتا ہےلیکن فقہاء نے اپنے اجتہاد کے ذریعہ اس حکم کے دائرہ کو ان لوگوں تک بھی وسیع کیا ہے جو قصدًاخوردونوش کے ذریعہ روزہ توڑدیں، اجتہاد کی روح اور اس کی اصل اسپرٹ یہی ہے کہ اس کے ذریعہ نصوص کی صریح واضح ہدایات کے دائرہ عمل کو ان مسائل تک بڑھایا جائے جن کی بابت صریح احکام موجود نہیں ہیں۔
اجتہاد اور اسکے اصول
اجتہاد کے لغوی معنی کسی کام کی تکمیل میں اپنی تمام ترقوت صرف کرنے کے ہیں: (الاحکام فی اصول الاحکام:۴/۱۶۹) فقہا اور اصولیین کے نزدیک اجتہاد نام ہے غیرمنصوص مسائل اور واقعات کے شرعی احکام معلوم کرنے کے لیے اس درجہ انتہائی کوشش صرف کرنے کا کہ اس کے بعد مزید تحقیق وجستجو کا امکان باقی نہ رہے۔ (الاحکام فی اصول الاحکام:۴/۱۶۹)
چنانچہ شرعاً ’’اجتہاد‘‘ اس کوشش کو کہتے ہیں جو کوئی مجتہد سطح کا عالم دین کسی ایسے دینی مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے کرتا ہے جس میں قرآن و سنت کا کوئی واضح حکم موجود نہ ہو۔ خود جناب نبی اکرمؐ بھی اجتہاد کیا کرتے تھے کہ اگر کسی مسئلہ میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی اور فیصلہ کرنا ضروری ہو جاتا تو اپنی صوابدید پر فیصلہ فرما دیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ وحی جاری تھی اور بعض فیصلوں پر اللہ رب العزت کی طرف سے گرفت بھی ہو جاتی تھی جن میں سے کچھ کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے، اس لیے رسول اللہؐ کے کسی اجتہادی فیصلہ کے بعد اس کے خلاف وحی نازل نہ ہونے کی صورت میں بارگاہ ایزدی سے اس کی توثیق و تصدیق ہو جاتی تھی۔ اور اس خاموش توثیق کے ساتھ حضورؐ کے فیصلوں کو وحی کی حیثیت حاصل ہو جاتی تھی اور اسی وجہ سے حدیث و سنت کو ’’وحی حکمی‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔
حضرات صحابہ کرامؓ کا معمول یہ تھا کہ قرآن کریم اور سنت نبویؐ میں کوئی فیصلہ واضح نہ ہوتا تو وہ قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کرتے تھے۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں لکھا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو وہ کتاب اللہ میں اس کا حکم تلاش کرتے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے تھے۔ اگر کتاب اللہ میں حکم نہ ملتا تو رسول اللہؐ کی سنت میں حکم معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر انہیں خود کوئی ایسی سنت یاد نہ ہوتی تو صحابہ کرامؓ سے دریافت کرتے تھے کہ انہیں اس کے بارے میں رسول اللہؐ کا کوئی ارشاد معلوم ہو تو بتائیں۔ اور اس طرح کوشش کے بعد بھی اگر رسول اکرمؐ کا کوئی فیصلہ نہ ملتا تو پھر سرکردہ اور صالح افراد کو جمع کر کے مشورہ کرتے تھے اور اس کی روشنی میں فیصلہ فرما دیتے تھے۔
صحابہ کرامؓ چونکہ براہ راست چشمہ نبوت سے فیض یاب تھے اور جناب نبی اکرم ﷺ کے مزاج اور سنت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے اجتہاد کے حوالہ سے کسی واضح درجہ بندی، اصول وضوابط اور دائرہ کار کے تعین کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ البتہ صحابہ کرامؓ نے اس بارے میں اپنے طرز عمل کے ساتھ ایسے اصول قائم کر دیے تھے جو بعد میں مجتہدین کے لیے راہ نما بن گئے۔ چنانچہ امام بیہقیؒ نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کا معمول یہ تھا کہ کسی معاملہ میں فیصلہ کرتے وقت اگر قرآن و سنت سے کوئی حکم نہ ملتا تو حضرت ابوبکرٌ کا کوئی فیصلہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اور اگر ان کا بھی متعلقہ مسئلہ میں کوئی فیصلہ نہ ملتا تو پھر خود فیصلہ صادر کرتے تھے۔ اور امام بیہقیؒ نے ہی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے نام حضرت عمر بن الخطابؓ کا یہ خط بھی نقل کیا ہے جو انہوں نے امیر المومنین کی حیثیت سے تحریر فرمایا تھا کہ:’’جس معاملہ میں قرآن و سنت کا کوئی فیصلہ نہ ملے اور دل میں خلجان ہو تو اچھی طرح سوچ سمجھ سے کام لو اور اس جیسے فیصلے تلاش کر کے ان پر قیاس کرو، اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور صحیح بات تک پہنچنے کا عزم رکھو۔‘‘اسی طرح امام بیہقیؒ نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے ایک خطبہ کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ تمہارے پاس جو معاملہ درپیش ہو اور اس میں قرآن اور سنت نبویؐ کا کوئی فیصلہ نہ ملے تو یہ دیکھو کہ اس سے پہلے نیک بندوں نے اس کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے؟ اور فیصلہ نہ ملے تو پھر اپنی رائے سے اجتہاد کرو۔چنانچہ ان اکابر صحابہؓ کے ارشادات اور فیصلوں کی روشنی میں اجتہاد کے راہنما اصول یہ ہیں:
• قرآن کریم یا سنت رسولؐ کا حکم جس مسئلہ میں واضح ہے اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔
• قرآن و سنت میں واضح حکم نہ ملے تو سابقہ مجتہدین اور صالحین کے فیصلوں کی پیروی کی جائے۔
• سابقہ مجتہدین اور صالحین کا بھی کوئی فیصلہ نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کیا جائے۔
• اپنی رائے سے اجتہاد کا معنٰی یہ نہیں کہ جیسے چاہے رائے قائم کر لی جائے۔ بلکہ قرآن کریم، سنت نبویؐ، اور ماضی کے مجتہدین کے فیصلوں میں زیر بحث مسئلہ سے ملتے جلتے مسائل و معاملات تلاش کیے جائیں اور ان پر قیاس کر کے نئے مسائل میں فیصلے کیے جائیں۔
صحابہ کرامؓ کے بعد تابعین کا دور آیا تو ’’اجتہاد‘‘ کے لیے باقاعدہ اصول و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔ ’’اجتہاد‘‘ کے اس عمل کو ہرکس وناکس کی جولان گاہ بننے سے بچانے کے لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے اصول وقوانین طے کیے جائیں، دائرہ کار کی وضاحت کی جائے، درجہ بندی اور ترجیحات کا تعین کیا جائے اور اہلیت وصلاحیت کا معیار بھی طے کر لیا جائے تاکہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور نئے پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کا یہ مقدس عمل بازیچہ اطفال بننے کے بجائے صحیح رخ پر منظم ہو اور امت کی فکری وعملی راہ نمائی کا موثر ذریعہ ثابت ہو اور مذکورہ ’’راہنما اصولوں‘‘ کی روشنی میں بیسیوں مجتہدین نے قواعد و ضوابط مرتب کر کے ان کے مطابق اجتہادی کاوشوں کا آغاز کیا۔ چنانچہ بیسیوں مجتہدین اور ائمہ کرامؒ نے اس کے لیے انفرادی واجتماعی محنت کی اور کم وبیش تین سو برس تک عالم اسلام کے مختلف حصوں اور امت کے مختلف گروہوں میں جاری رہنے والے متنوع علمی مباحث کے نتیجے میں کئی منظم فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے۔ تابعین میں سے حضرت امام ابوحنیفہؒ ، تبع تابعین میں سے حضرت امام مالکؒ اور ان کے بعد حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے وضع کردہ اصولوں کو امت میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی اور ان کی بنیاد پر فقہی مکاتب فکر تشکیل پائے۔ ان مجتہدین نے صحابہ کرامؓ کے حوالہ سے مذکورہ بالا راہنما اصولوں کے ساتھ ایک اور اہم اصول کا اضافہ کیا جو اس عمل کا فطری اور منطقی تقاضا تھا کہ اجتہاد کا حق ہر شخص کو حاصل نہیں ہے۔ بلکہ وہی شخص یہ حق استعمال کر سکے گا جس کو قرآن کریم پر، سنت رسولؐ پر، عربی زبان پر، اور ماضی کے اجتہادات پر مکمل عبور حاصل ہو۔ کیونکہ اس کے بغیر اجتہاد کے دائرے کو ملحوظ رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔