فقہ اسلامی کا دائرہ کار، ضرورت اور اہمیت

٭فقہ :٭

لغت میں لفظ فقہ کو کسی چیز کے جاننے اور سمجھنے کے معنی میں استعمال کیاجاتا تھا، بعد میں اس کا استعمال خاص علم دین کے فہم میں ہونے لگا(لسان العرب ۵/۲۴۰،) قرآن پاک میں یہی مراد ہے(توبہ: ۱۲۲) اور حدیث میں بھی یہی معنی:من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقہ فی الدین(بخاری ۱/۱۶، ومسلم ۲/۴۴، ودارمی ۱/۷۳)۔ عہد صحابہ و تابعین میں فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا جس میں ایمان و عقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے، یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ سے منقول فقہ کی تعریف ”جس سے انسان اپنے نفع و نقصان اور حقوق و فرائض کو جان لے وہ فقہ ہے“(البحرالرائق ۱/۶ ,مکتبہ ماجدیہ ,پاکستان)) اپنے اندر مذکورہ تمام چیزوں کو سموئے ہوئے ہے، مگر بعد میں جب علیحدہ طور پر ہر فن کی تدوین وتقسیم ہوئی تو ”فقہ“ عبادات و معاملات اور معاشرت کے ظاہری احکام کے لیے خاص ہوگیا.چنانچہ فقہ کی تعریف علامہ ابن خلدون کے الفاظ میں اس طرح ہے کہ ”افعال مکلفین کی بابت اس حیثیت سے احکامِ الٰہی کے جاننے کا نام ہے کہ وہ واجب ہیں یا محظور (ممنوع وحرام)، مستحب اور مباح ہیں یا مکروہ“(مقدمہ ابن خلدون ص: ۴۴۵ (دارالقلم بیروت) اس کی مزید وضاحت اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ”فقہ ملکہٴ استنباط اور دینی بصیرت کا نام ہے جس کے ذریعے احکامِ شریعت، اسرار معرفت اور مسائل حکمت سے واقفیت ہوتی ہے نیز نئے فروعی مسائل کے استنباط اور ان کی باریکیوں کا علم ہوتا ہے“(مسلم الثبوت، ص: ۷)

فقہ کی بنیاد قرآن و حدیث ہی ہیں نہ کہ محض عقل و قیاس چنانچہ علامہ مناظر احسن گیلانی فرماتے ہیں کہ: ”فقہ کے یہ معنی نہیں کہ شریعت میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ عقل کرتی ہے؛ بلکہ وہی بات یعنی نتائج و احکام کا جو روغن وحی و نبوت کے ان معلومات میں چھپا ہوا تھا، عقل کی مشین ان ہی کو اپنی طاقت کی حد تک ان سے نچوڑنے کی کوشش کرتی ہے اسی کوشش کا نام اجتہاد ہے“(ماہنامہ ”برہان“ دہلی جنوری ۱۹۴۵/، ص: ۴۲)

٭فقہ اسلام کا ارتقاء

فقہ وفتاویٰ کی بنیاد عہد رسالت ہی میں پڑ چکی تھی ،قرنِ اوّل میں جہاں امور دینیہ ودنیویہ کو حل کرنے کے لئے انفرادی و اجتماعی غور و فکر ہوتا تھا وہیں اجتماعی اور شورائی اجتہاد کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں اس مقصد کے لیے اکابرصحابہ اور فقہائے صحابہ کی ایک مستقل مجلس قائم رکھی تھی۔ تابعین کے دور میں بھی مدینہ کے فقہائے سبعہ کی ایسی ہی مثالیں ملتی ہیں، یہ اس زمانہ کا سب سے بڑا اور لائق اعتبار دارالافتاء تھا،( فقہ اسلامی اصول، خدمات اور تقاضے، ص: ۵-۶) بعد میں امام ابوحنیفہ ، امام شافعی، امام مالک ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور باقی فقہاء نے اسی منہاج و طریق کو مزید وسعت کے ساتھ اختیار کیا اور ایسی عظیم الشان اور وسیع و جامع فقہ کی بنیاد رکھی ۔ڈاکٹر حمیداللہ لکھتے ہیں :عہد رسالت کے بعد جب اسلام کی حدود بہت بڑھ گئیں، قیصر وکسریٰ کی حکومتیں اسلام کے زیر نگیں ہوگئیں، یورپ میں اندلس تک افریقہ میں مصر اور شمال افریقہ تک اور ایشیا میں ایشیائی ترکستان اور سندھ تک اسلام پھیل گیا تو اسلام کو نئے تمدن، نئی تہذیب اور نئی معاشرتوں سے سابقہ پڑا ”وسائل اور مسائل کی نئی نئی قسمیں پیدا ہوگئیں تو تابعین کے آخرعہد میں علمائے حق کی ایک جماعت نے کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر اس کے مقرر کردہ قوانین و حدود کے مطابق ایک ایسا ضابطہ حیات مرتب کرنا چاہاجو ہرحال میں مفید، ہر طرح مکمل اور ہر جگہ قابل عمل ہو۔“( تاریخ علم فقہ،ص: ۸، از ڈاکٹر حمید اللہ)

٭فقہ اسلامی کا دائرہ کار

فقہ کی تعریف، موضوع اور اس کی غرض وغایت پر غور کیا جائے تو اس کا دائرہ کاربھی واضح انداز سے سامنے آجاتا ہے۔فقہ دراصل انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے اور درج ذیل شعبہائے حیات کی بابت اس فن کے ذریعہ رہنمائی ملتی ہے۔

عبادات

یعنی وہ احکام جو خدا اور بندہ کے براہ راست تعلق پر مبنی ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، قربانی، اعتکاف اور نذر عبادات میں شامل ہیں اور عبادات سے متعلق احکام خالصتاً اللہ تعالیٰ کی ہدایت ورہنمائی پر موقوف ہیں؛ اگر شریعت کی رہنمائی نہ ہوتی تو انسان اپنی عقل سے اس کو دریافت نہیں کرپاتا۔

عائلی قانون

یعنی دوآدمیوں کے درمیان غیرمالی بنیادپر تعلقات سے متعلق احکام، اس میں نکاح وطلاق، فسخ وتفریق، عدت وثبوت نسب، نفقہ وحضانت، ولایت، میراث، وصیت وغیرہ کے احکام آجاتے ہیں، قدیم فقہاء اس کے لیے مناکحات کا لفظ استعمال کرتے تھے، موجودہ دورمیں اس کو عربی زبان میں احوال شخصیہ اور اردو زبان میں عائلی قانون اور انگریزی میں پرسنل لا کہا جاتا ہے۔

معاملات

یعنی دواشخاص کے درمیان مالی معاہدہ پر مبنی تعلقات، اس میں خریدوفروخت، شرکت، رہن وکفالت، ھبہ، عاریت، اجارہ وغیرہ کے احکام شامل ہیں، آجکل اسے اردو میں تجارتی قوانین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

مرافعات

مرافعات سے مراد عدالتی قوانین ہیں،یعنی قاضی کا تقرر، شہادت ووکالت کے احکام، مقدمات کو ثابت کرنے کا طریقہ وغیرہ۔

دستوری قانون

یعنی وہ قوانین جو حکومت اور ملک کے شہریوں کے درمیان حقوق وفرائض کو متعین کرتے ہیں۔

عقوبات

جرم وسزا سے متعلق قوانین، اس میں شرعی حدود، قتل وجنایت کی سزاء اور جن جرائم کے بارے میں کوئی سزا متعین نہیں کی گئی ہے ان کی بابت سزا کا تعین، جسے فقہ کی اصطلاح میں تعزیر کہتے ہیں، شامل ہیں۔

بین ملکی قانون

یعنی دوملکوں اور دوقوموں کے درمیان تعلقات ومعاہدات اور حقوق وفرائض سے متعلق قوانین، ان کو فقہاء اسلام سیَر سے تعبیر کرتے ہیں، قانون کی دنیا میں اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب امام محمدؒ کی کتاب السیر ہے، مستشرقین کو بھی اس حقیقت کااعتراف ہے۔

اس تفصیل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فقہ اسلامی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے اور کس طرح اس نے زندگی کے تمام شعبوں کواپنے اندر سمولیا ہے، یہی وجہ ہے کہ عہدِنبوی سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے سقوط تک فقہ اسلامی نے ایشیائ، افریقہ اور یوروپ کے قابلِ لحاظ حصہ پر فرمانروائی کی ہے؛ اگر فقہ اسلامی میں ہمہ جہت رہنمائی کی صلاحیت نہیں ہوتی تو ہرگز وہ یہ مقام حاصل نہیں کرپاتی۔

٭فقہ اسلامی ضرورت

انسان کی مکمل زندگی میں عقائد،عبادات،معاملات اور معاشرت وغیرہ سے متعلق شرعی احکام ومسائل ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ،قرآن،حدیث اور صحابہ وغیرہ کے اقوال میں بکھرے پڑے ہیں،اب ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں ہر مسئلہ بلاواسطہ قرآن،حدیث اورآثار صحابہ وغیرہ سے خود ہی تلاش کرلوں گا یہ ایک ناممکن اوربے حد دشوار ہے اس کے ناممکن ہونے کی وجوہات بہت ساری ہیں مثلاً:(۱)انسان کی اپنی اپنی لامتناہی مصروفیات (۲)شریعت کے تمام احکام عربی زبان میں ہیں اور ہر انسان عربی زبان سے واقف نہیں ہوتا اور ہوتا بھی ہے تو اس کے معانی مختلف ہونے کی وجہ سے صحیح معنی تک اس کا پہنچنا دشورا ہوتا ہے (۳)شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں جو آیات قرآني اور احادیثِ صحیحہ سے صراحۃ ثابت ہیں لیکن بعض احکام ایسے ہیں کہ جن میں کسی قدر ابہام واجمال ہے اور بعض آیات واحادیث ایسی ہیں جو چند معانی کا احتمال رکھتی ہیں اورکچھ احکام ایسے ہیں جو بظاہر قرآن کی کسی دوسری آیت یا کسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتی تووہاں اجتہاد واستنباط سے کام لینا پڑتا ہے اور خود زبان نبوت سے اس کی تائید وتصویب بھی ہوتی ہے (ترمذی، باب ماجاء فی القاضی کیف یقضی،حدیث نمبر:۱۲۴۹)

اجتہاد واستنباط ہرايك كےبس كی بات نہیں ،ایسے موقع پر عمل کرنے والے کے لیے الجھن اوردشواری یہ پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنا عمل شریعت کے مطابق کیسے بنائے؟ کس پر عمل کرے اورکونسا راستہ اختیار کرے؟اسی الجھن کی وجہ سے خود صحابہ کرام حضورﷺ کی موجودگی میں بلاواسطۂ نبی قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ كچھ خاص صحابہ کرام حضورﷺ کے پاس جاکر قرآنی تعلیمات مستقل طورپر سمجھا کرتے تھے۔(الاتقان:الفصل فی شرف التفاسیر، النوع الثامن والسبعون:۲/۴۶۸، شاملہ) اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر شخص قرآن وحدیث سے بغیر کسی واسطے کے کوئی مسئلہ اپنے لیے تجویز نہیں کرتا تھا بلکہ جو عالم صحابہ کرام تھے ان سے مسئلہ معلوم کرکے عمل کیا کرتا تھا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا رہا۔ بعض حضرات ہر زمانے میں ایسے رہے جو قرآن وحدیث کے علوم میں ماہر، فہم وبصیرت میں اعلی، تقویٰ اورطہارت میں فائق اورحافظہ وذکاوت میں اوقع تھے لوگ ان ہی سے مسائل معلوم کرکے عمل کرتے ۔

دوسری صدی ہجری اجتہاد واستنباط اور تحقیق مسائل کے شباب اور اس کے ارتقاء وکمال کا عہد ہے، کتنے ہی اولوالعزم فقہاء اور مخلص وحوصلہ مند مجتہدین ہیں جنہوں نے اس عہد میں احکام شریعت کے استنباط میں اپنی شبانہ روز محنتین صرف کردیں اور اپنے خونِ جگر سے علم وتحقیق کے چراغ کو روشن کیا اور امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا؛ لیکن اتفاقی طور پر بہت سے مجتہدین کے فتاویٰ واجتہادات محفوظ نہیں رہ سکے اور ان کوایسے شاگرد میسر نہیں آئے جو ان کے علمی وفکری آثار کو محفوظ رکھتے اور جن لوگوں کے فتاویٰ مرتب ہوئے اور ان کو قبول عام حاصل ہوا؛ لیکن رفتہ رفتہ وہ مفقود ہوتے چلے گئے؛ حتی کہ پانچویں صدی ہجری کے اختتام تک ان کی فقہ کا عملی زندگی سے رشتہ ٹوٹ گیا اور ان کے متبعین بھی نہیں رہے۔ائمہ اربعہ وہ مجتہدین ہیں جن کی فقہ کو من جانب اللہ بقاء حاصل ہوا اور جو گیارہ بارہ سو سال سے عملی طور پر قائم ونافذ ہے، ان مکاتب فقہ میں شخصیتوں کا تسلسل رہا ہے اور ہرعہد میں اس کے تقاضوں کے مطابق علم وتحقیق کا کام انجام بھی پاتا رہا ہے اور پورے طور پر ان سب کے آراء واجتہادات مرتب ومدون بھی ہیں، زندگی کا کوئی شعبہ ان مذاہب اربعہ میں تشنہ نہیں رہا، ہرشعبۂ حیات میں ان چاروں مکاتب میں امت کے لیے رہنمائی موجود ہے.