فقہ اسلامی کی تاریخ و تدوین-ایک جائزہ

ہرعلم وفن کی تدوین اور اس کے ارتقاء بتدریج پایہ کمال کو پہونچتا ہے ،فقہ اسلامی پر بھی تدوین کے کئی مراحل گذرچکے ہیں۔علماء تاریخ فقہ کو پانچ دور میں تقسیم کرتے ہیں، پہلا دور اس کی نشوونما اور ابتداء کا ہے جس کا سلسلہ ۱۰ھء تک جاری رہا، دوسرا دور اس کی وسعت کا ہے جس کی مدت عہد صحابہ سے ۴۱ھء تک رہی ہے، تیسرا اور چوتھا دور اس کی پختگی و کمال اور تدوین کا ہے ۔ تیسرا دور صغارِ صحابہ کے دورسے دوسری صدی ہجری کی ابتدا تک رہا ہے اور چوتھا دور چوتھی صدی ہجری کے تقریباً نصف تک رہا۔ پانچویں دور میں فقہ اسلامی کا دورِ تقلید شروع ہوجاتا ہے،اور عہد نبوی سے بُعد کی بنا پر لوگوں میں اسلاف جیسی فقاہت اور فقہ اسلامی میں درک و کمال باقی نہیں رہتا ہے، اس لیے عام طور پر لوگ ائمہ اربعہ کے فقہی مکاتب کے پیرو ہوجاتے ہیں۔

٭فقہ اسلامی کا پہلا دوراور اس کی خصوصیات٭

1. آپﷺ کی رسالت ونبوت سنہ۶۱۰ء سے شروع ہوتی ہے اور وفات سنہ۱۰ھ مطابق سنہ۶۳۲ء میں ہوئی ،اس دور میں فقہ اسلامی کا سرچشمہ قرآن تھا، آپﷺ کے ارشادات اور آپﷺکی مکی ومدنی زندگی کے حالات وواقعات قرآن کریم کی تشریح کی حیثیت رکھتے تھے،الغرض دورِنبوت میں فقہ اسلامی کا تمام ترمدار وحی پر تھا، چاہے وحی متلو قرآن کریم ہو یاغیرمتلو احادیث مبارکہ۔(مقدمہ درمختار:۱/۶)

2. قرآن وحدیث کی بنیاد براہِ راست فرمانِ باری پر ہے، فرق یہ ہے کہ قرآن مجید میں الفاظ ومعانی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور حدیث میں الفاظ اور تعبیر رسول اللہﷺ کی طرف سے ہےپس قرآن وحدیث کا سرچشمہ ذاتِ خداوندی ہے اور واسطہ رسول اللہﷺ کا ہے، اس لیے اس کے ذریعہ جوعلم حاصل ہوگا وہ معصوم ہوگا، یعنی غلطیوں اور خطاؤں سے محفوظ اور اجتہاد کے ذریعہ جواحکام اخذ کیے جاتے ہیں، ان میں خطاء کا احتمال موجود ہوتا ہے اور جب محفوظ طریقہ علم موجود ہوتوغیر محفوظ اور غلطی کا احتمال رکھنے والے ذریعہ علم کی ضرورت نہیں رہتی اسی لیے عہدِ نبوی میں احکامِ فقہیہ کا مدار کتاب وسنت پرتھا۔


3. یوں تو طلوع اسلام کے ساتھ ہی فقہ اسلامی کا آغاز ہوگیاتھا؛ لیکن چوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں لوگ انتہائی سادہ، اور ضروریات محدود تھیں، اسی وجہ سے فقہائے صحابہ کی توجہات اس کی تدوین کی طرف مبذول نہ ہوسکیں، پھر حالات کے تقاضے کے پیش نظر فقہائے مدینہ نے تدوین فتاویٰ کی داغ بیل ڈالی اور فقہائے کوفہ نے فتاویٰ و قضایا کے جمع و ترتیب پر زور دیا.

4. چنانچہآپﷺ کے دور میں موجودہ زمانہ کی طرح فقہ اسلامی مدون نہیں ہوا تھا، جس طرح بعد میں فقہاء کرام نے ہرمسئلہ کی تحقیق وتفتیش کرکے اس کے ارکان وشرائط اور آداب وسنن کی وضاحت کردی ،یہ تحدید زمانۂ نبوت میں نہیں ملتی ہے، آپﷺ سے جو عمل جس طور پر صادر ہوتا، صحابہ کرام بعینہ بغیر کمی وبیشی کے اپنالیتے، مثال کے طور پر آپﷺ کو جس طرح وضو کرتے اور نماز پڑھتے دیکھا صحابہ نے اسے اپنالیا،انہوں نے اس بات کی تحقیق وجستجو نہیں کی کہ وضو میں کتنے ارکان اور کیا کیا ہیں؟ نماز میں کون فرض ہے؟ کون واجب اور کون سنت ہے؟۔(تاریخ الفقہ الاسلامی:۴۱)


٭فقہ اسلامی کا دوسرا دور اور اس کی خصوصیات٭

یہ خلفاءِراشدین اور کبارِ صحابہ کرامؓ کا دور ہے ،نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد سنہ ۱۱ھ سے خلفاء راشدین اور دیگر کبار صحابہ کا دور شروع ہوتا ہے اور یہ دور سنہ۴۰ھ میں اختتام کو پہونچتا ہے، آپﷺ کی وفات کے بعد فتوحات اسلامی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا، بالخصوص حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں توہرروز کوئی نہ کوئی علاقہ مملکتِ اسلامیہ میں داخل ہو، صحابہ کرام “بلغوا عنی ولو آیہ” (ابوداؤد:۲/۵۱۳) کے تحت اسلام کا پیغام پہونچانے کے لیے چہاردانگِ عالم میں پھیل گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا دوسری اقوام سے اختلاط بڑھتا گیا، بعض عجمی اقوام دامن اسلام میں آئیں اور نئے نئے مسائل وواقعات درپیش ہونے لگے ،صحابہ کرامؓ کو ان حوادث اورواقعات کا حکم شرعی معلوم کرنے اور جاننے کی فکر لاحق ہوئی؛ چنانچہ خلفاءراشدین اور کبارِ صحابہ جو فتویٰ دینے کی اہلیت رکھتے تھے ،قرآن وحدیث کی طرف رجوع ہوئے اور قرآن وحدیث کے قواعد وجزئیات کو سامنے رکھ کراحکام شرعی بیان کرنا شروع کیا، جو حکم قرآن وحدیث میں مذکور نہ ہوتا تو آپس میں مشورہ کرتے اور اجتہاد واستنباط سے کام لیتے، اس شورائی اور اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ بہت سے مسائل حل ہوئے۔ (ترمذی:۲/۹۵) حضرت ابوبکرؓ و عمر خود بھی اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ جن مسائل کے بارے میں قرآن وحدیث کی کوئی نص موجود نہ ہو، ان میں اہم شخصیتوں کوجمع کیا جائے اور ان سے مشورہ کیا جائے اور اگروہ کسی بات پرمتفق ہوجائیں تواس کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ (سنن دارمی:۱/۵۳، باب الفتیا ومافیھا من الشدۃ)


فقہاء صحابہ

علامہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے کہ صحابہ سب کے سب صاحب فتویٰ نہ تھے اور نہ ہی ان سب سے دین کا علم حاصل کیا جاتا تھا بلکہ دین کے خصوصی معلمین حاملین قرآن تھے، جو قرآن کے ناسخ ومنسوخ ،مشابہ ومحکم اور اس کے سارے دلائل سے پوری طرح واقف تھے انھوں نے یاتونبی اکرمﷺسے براہِ راست تعلیم وتربیت حاصل کی تھی یاان جلیل القدر صحابہ سے اکتساب فیض کیا تھا جنھوں نے براہِ راست نبی اکرمﷺ سے فیض پایا تھا، ان حضرات کو اس زمانہ میں قراء کہا جاتا تھا، صحابہ کرامؓ میں ایک سو تیس افراد فقہ وفتاویٰ کی رونق تھے، جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی، ان میں سے سات صحابہ کرامؓ اپنی فقہی خدمات اور کثرت فتاویٰ کی وجہ سے مکثرین کہلاتے ہیں؛ کیونکہ ان حضرات کے فتاویٰ کثرت سے منقول ہیں، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:(۱)حضرت عمر بن خطابؓ(۲)حضرت علی بن طالبؓ(۳)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ(۴)ام المؤمنین حضرت عائشہؓ(۵)حضرت زید بن ثابتؓ (۶)حضرت عبداللہ بن عباسؓ(۷)حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ (تاریخ الفقہ الاسلامی:۶۴) جو صحابہ فقہ وفتاویٰ میں متوسط تھے اُن کی تعداد تیرہ تھی:(۱)حضرت ابوبکر صدیقؓ (۲)حضرت اُم سلمہؓ(۳)حضرت انس بن مالکؓ (۴)حضرت ابوسعید خدریؓ (۵)حضرت ابوہریرہؓ (۶)حضرت عثمانؓ (۷)حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ (۸)حضرت عبداللہ بن زبیرؓ (۹)حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ (۱۰)حضرت سعد بن ابی وقاصؓ (۱۱)حضرت سلمان فارسیؓ (۱۲)حضرت جابر بن عبداللہؓ (۱۳)حضرت معاذ بن جبلؓ، ان حضرات کے علاوہ جو صحابہؓ ہیں انہیں مقلین کہا جاتا ہے، یعنی ان حضرات سے صرف ایک یادوفتاویٰ منقول ہیں۔ (مقدمہ ابن خلدون:۴۴۶)


٭فقہ اسلامی کا تیسرا دور اور اس کی خصوصیات ٭

یہ دورپہلی صدی کے نصف سے دوسری صدی کے شروع تک ہے۔یہ اصاغرصحابہؓ اور اکابر تابعین کا دور ہے۔یہ حضرت معاویہؓ کی امارت سے شروع ہوتا ہے اور بنواُمیہ کی حکومت کے خاتمہ کے قریبی زمانہ تک کا احاطہ کرتا ہے، اس عہد میں بھی بنیادی طور پراجتہادواستنباط کا وہی منہج رہا جوصحابہ نے اختیار کیا تھاــــ اس عہد کی چند خصوصیات قابل ذکر ہیں:

1. فقہاء صحابہ کسی ایک شہر میں مقیم نہیں رہےبلکہ مختلف شہروں میں مختلف صحابہؓ کا ورود ہوا، وہاں لوگوں نے ان سے استفادہ کیا اور اس شہر میں ان کی آراء اور فتاویٰ کوقبولیت حاصل ہوئی، مدینہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ، مکہ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور ان کے تلامذہ مجاہد بن جبیرؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، طاؤس بن کیسانؒ، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور ان کے شاگردانِ باتوفیق، علقمہ، نخعیؒ، اسود بن یزیدؒ اور ابراہیم نخعیؒ، بصرہ میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ، حضرت حسن بصریؒ، حضرت انس بن مالکؓ اور ان کے شاگرد محمدبن سیرینؒ، شام میں حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ اور ان صحابہؓ سے استفادہ کرنے والے تابعین، ابوادریس خولانیؒ؛ اسی طرح مصر میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ اور ان کے بعد یزید بن حبیبؒ وغیرہ کے فتاویٰ کوبقول حاصل ہوا۔(اعلام الموقعین:۱/۲۱، اور اس کے بعد، فصل:الائمۃ الذین نشر والدین والفقہ)


2. صحابہ اور فقہاءِ تابعین کے مختلف شہروں میں مقیم ہونے کی وجہ سے فقہی مسائل میں اختلافات کی بھی کثرت ہوئی؛ کیونکہ ایک توخلافتِ راشدہ میں خاص کر حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت تک اہل علم یکجا تھے یاایک دوسرے سے قریب واقع تھے، اس کی وجہ سے بہت سے مسائل میں اتفاق رائے ہوجاتا تھا، اب عالم اسلام کا دائرہ وسیع ہوجانے، دراز شہروں میں مقیم ہونے اور ذرائع ابلاغ کے مفقود ہونے کی وجہ سے اجتماعی اجتہاد کی جگہ انفرادی اجتہاد کا غلبہ تھا، دوسرے مختلف شہروں کے خالات، رواجات، کاروباری طریقے اور لوگوں کے فکری وعملی رحجانات بھی مختلف تھے، اس اختلاف کا اثر مختلف شہروں میں بسنے والے فقہاء کے نقطہ نظر پربھی پڑتا تھا؛ اس لیے بمقابلہ گذشتہ ادوار کے، اس دور میں اختلافِ رائے کی کثرت ملتی ہے۔

3. یہ دور سابقہ ادوار سے اس اعتبار سے بھی امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس دور میں فقہی نقطۂ نگاہ سے علماء دوگروہ میں منقسم ہوگئے اور دومدرسہ فکر وجود میں آئے، ایک حجاز، وہاں کے فقہاء اہل حجاز اور اصحاب حدیث سے مشہور ہوئے، دوسرا عراق میں اوریہاں کے فقہاء اہل عراق اور اصحاب الرائے سے مشہور ہوئے۔ (فیض الباری:۱/۱۴۔ تاریخ الفقہ الاسلامی:۹۴)دونوں مدرسوں کا نہج اور طرزِتعلیم کسی قدر مختلف اور جداگانہ تھا، مدرسہ حجاز کی بنیاد کتاب وسنت کے ظاہر اور الفاظ پر تھی اور یہاں کے علماء رائے اور قیاس سے حتی الامکان اجتناب کرتے، مدرسہ عراق کے علماء اور اساتذہ نصوص کے الفاظ کے ساتھ معانی میں بھی غواصی کرتے، شریعت کے اصل منشاء کو پیش نظر رکھتے اور روایت ودرایت کو ساتھ لیکر چلتے۔(مقدمہ الموسوعۃ الفقہیۃ:۱/۲۷)

تابعین کے عہد میں یہ دونوں طریقہ اجتہاد اور ان کے طرزِ استنباط کا تفاوت زیادہ نمایاں ہوگیا، جولوگ ظاہر حدیث پرقانع تھے وہ “اصحاب الحدیث” کہلائے اور جونصوص اور ان کے مقاصد ومصالح کوسامنے رکھ کررائے قائم کرتے تھے وہ “اصحاب الرائے” کہلائے، اصحاب الحدیث کا مرکز مدینہ تھا اور اصحاب الرحائے کا عراق اور خاص طور پرعراق کا شہرکوفہ۔ اصحاب الرائی اور اصحاب الحدیث کے درمیان دواُمور میں نمایاں فرق تھا، ایک یہ کہ اصحاب الحدیث کسی حدیث کوقبول اور رد کرنے میں محض سند کی تحقیق کوکافی سمجھتے تھے اور خارجی وسائل سے کام نہیں لیتے تھے، اصحاب الرائے اُصولِ روایت کے ساتھ اُصولِ درایت کوبھی ملحوظ رکھتے تھے، وہ حدیث کوسند کے علاوہ اس طور پر بھی پرکھتے تھے کہ وہ قرآن کے مضمون سے ہم آہنگ ہے یااس سے متعارض؟ دین کے مسلمہ اُصول اور مقاصد کے موافق ہے یانہیں؟ دوسری مشہور حدیثوں سے متعارض تونہیں ہے؟ صحابہ کا اس حدیث پرعمل تھا یانہیں؟ اور نہیں تھاتواس کے اسباب کیا ہوسکتے ہیںـدوسرا فرق یہ تھا کہ اصحاب الحدیث ان مسائل سے آگے نہیں بڑھتے تھے جوحدیث میں مذکور ہوں۔ (تاریخ الفقہ الاسلامی، للشیخ محمد علی السایس:۷۷)

حجاز کا اصحاب الحدیث کا مرکز بننا اور عراق کا اصحاب الرائی کا مرکز بننا کوئی اتفاقی امر نہیں تھا، اس کے چند بنیادی اسباب تھے، اوّل یہ کہ حجاز عرب تہذیب کا مرکز تھا، عرب اپنی سادہ زندگی کے لیے مشہور رہے ہیں، ان کی تہذیب میں بھی یہی سادگی رچی بسی تھی، عراق ہمیشہ سے دُنیا کی عظیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے اور زندگی میں تکلفات وتعیشات اس تہذیب کا جزوتھا, پھرمسلمانوں کے زیرنگین آنے کے بعد یہ علاقہ عربی اور عجمی تہذیب کا سنگم بن گیا تھا اس لیے بمقابلہ حجاز کے یہاں مسائل زیادہ پیدا ہوتے تھے اور دین کے عمومی مقاصد ومصالح کوسامنے رکھ کراجتہاد سے کام لینا پڑتا تھا یہاں کے فقہاء اگرعلمائے اصحاب حدیث کی طرح منصوص مسائل کے آگے سوچنے کوتیار ہی نہ ہوتے توآخر اُمت کی رہنمائی کا فرض کیوں کرادا ہوتا؟۔دوسرسے دبستانِ حجاز پرحضرت عبداللہ بن عمرؓ وغیرہ صحابہ کی چھاپ تھی، جن کا ذوق ظاہر نص پرقناعت کرنے کا تھااور عراق کے استاذ اول حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جیسے فقہاء تھے، جن پراصحاب الرائی کے طریقہ اجتہاد کا غلبہ تھا، اس لیے دونوں جگہ بعد کے علماء پران صحابہ کے اندرازِ فکر کی چھاپ گھری ہوتی چلی گئی۔تیسرے اکثرفرقِ باطلہ کا مرکز عراق ہی تھا، یہ لوگ اپنی فکر کی اشاعت کے لیے حدیثیں وضع کیا کرتے تھے، اس لیے علماءِ عراق تحقیق حدیث میں اُصول روایت کے ساتھ ساتھ اُصولِ درایت سے کام لیتے تھے، اس کے برخلاف علماء حجاز کووضع حدیث کے اس فتنہ سے نسبتاً کم سابقہ تھا۔


4. اسی دور میں فرقِ باطلہ کا ظہور ہوا اور سیاسی اختلاف نے آہستہ آہستہ مذہبی رنگ اختیار کرلیا۔

5. یوں تورسول اللہﷺکے عہدِ مبارک ہی سے حدیث کی جمع وکتابت کا کام شروع ہوچکا تھالیکن ایک جامع کتابی انداز پراس کی ترتیب عمل میں نہیں آئی تھی بلکہ مختلف لوگوں نے اپنی اپنی یادداشتیں لکھ رکھی تھیں۔ اب چونکہ زیادہ ترصحابہ رخصت ہوچکے تھے اور دوسری طرف فرقِ باطلہ کے نمائندوں نے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑنی شروع کردی تھیں۔اسی کو دیکھتے ہوئے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے تدوین حدیث کی طرف توجہ فرمائی اور حاملین علوم حدیث کو اس کی تدوین کا حکم دیاچنانچہ آپ کے حکم پر إبنِ شہاب زہریؒ نے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے یہ کام انجام دیا۔

6. اس دور کے اہم فقہاء وارباب افتاء کے نام اس طرح ہیں:

مدینہ:اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت ابوہریرہؓ، سعید بن مسیبؓ، عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، امام زین العابدین علی بن حسین، عبداللہ بن مسعود، سالم بن عبداللہ بن عمر، سلیمان بن یسار، قاسم بن محمدبن ابوبکر، نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر، محمدبن مسلم ابن شہاب زہری، امام ابوجعفر محمدباقر، ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان، یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعۃ الرائے رضی اللہ عنہم اجمعین۔

مکہ:حضرت عبداللہ بن عباس، امام مجاہد، عکرمہ، عطاء بن ابی رباح۔

کوفہ:علقمہ، نخعی، مسروق، عبیدۃ بن عمروسلمانی، اسود بن یزید نخعی، قاضی شریح، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر، عامر بن شراحیل شعبی رحمہم اللہ۔

بصرہ:حضرت انس بن مالک انصاریؓ، ابوالعالیہ، رفیع بن مہران، حسن بن ابی الحسن یسار، ابوالثعثاء، جابر بن زید، محمدبن سیرین، قتادہ رحمہم اللہ۔

شام: عبدالرحمن بن غانم، ابوادریس خولانی، مکحول، قبیصہ بن ذویب، رجاء بن حیوٰہ، حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہم اللہ۔

مصر:حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ، مرثد بن عبداللہ بن البزی، یزید بن ابی حبیب رحمہم اللہ۔

یمن:طاؤس بن کیسان، وہب بن منبہ صنعانی، یحییٰ بن ابی کثیر۔


٭فقہ اسلامی کا چوتھا دور٭

یہ دور اوائل دوسری صدی تانصف چوتھی صدی تکہے۔ یہ عباسی دور کی ابتداء سے شروع ہوکر چوتھی صدی ہجری کے وسط تک محیط ہے، نہایت اہم ہے اور اسے نہ صرف فقہ اسلامی بلکہ تمام ہی اسلامی وعربی علوم وفنون کا سنہرا دور کہہ سکتے ہیں۔

اس دور کی چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں:

1. حدیث کی جمع وکتابت کا کام شروع ہوچکا تھا لیکن حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی اس کام کی تکمیل سے پہلے ہی وفات ہوگئی، اب عباسی دور میں باضابطہ حدیث کی تدوین کا کام شروع ہوا۔

2. چونکہ تدوین حدیث کے شانہ بشانہ بلکہ اس سے پہلے ہی گمراہ فرقوں اور خداناترس افراد واشخاص کی طرف سے وضع حدیث کا قبیح سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا اس لیے کچھ عالی ہمت، اہل علم نے روایت کی تحقیق کواپناموضوع بنایا اور کسی رعایت اور لحاظ کے بغیر مشکوک ونامعتبر راویوں کے احوال سے لوگوں کوباخبر کرنے کی اہم ترین ذمہ داری اپنے سرلی، یہ فن “جرح وتعدیل” کہلاتا ہے؛ اسی دور میں اس فن کی بنیاد پڑی، اس فن کے سب سے بڑے امام یحییٰ بن سعید القطانؒ (متوفی:۸۹۹) اسی عہد کے تھے؛ اسی طرح امام عبدالرحمن بن مہدیؒ (متوفی:۱۹۸ھ)، یحییٰ بن معینؒ (متوفی:۲۳۰ھ) اور امام احمد بن حنبلؒ (متوفی:۲۴۱ھ) جواس فن کے اوّلین معماروں میں ہیں؛ اسی خوش نصیب عہد کی یادگار ہیں۔

3. اس دور میں چار بڑے مکاتب فقہ وجود میں آئے اورہرمکتب فکر کے لحاظ سے فقہی کتب کی تدوین وترتیب کا سلسلہ شروع ہوا۔ (تاریخ التشریع الاسلامی:۱۶۶) صحابہؓ چونکہ مختلف علاقوں میں پھیل گئے اس لیے ہرعلاقہ کے فقہی مسالک پر ان کا اثر ہوا چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ مکہ میں رہے تو امام شافعیؒ کی فقہ پر ان کے گہرے اثرات پڑے اور آپ نےزیادہ تر انہی کی روایات پر اپنی فقہ کی بنیاد رکھی، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قیام پذیر تھے اور آپ کے علوم کے حامل حضرت ابراہیم نخعیؒ تھے تو امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کا غالب ترین حصہ انہی سے ماخوذ ہے، اسی طرح جن علاقوں میں صحابہ پہونچے وہاں ان کا منہج فکر زیادہ مشہور ہوا۔

4. اس دور میں باب وار فقہی احکام کی ترتیب کے مطابق جمع حدیث کا آغاز ہوا ؛چنانچہ بہت سے آئمہ نے أحادیث کو فقہی ترتیب کے مطابق ایک مکمل کتابی اور فنی صورت میں مرتب کیا، مدینہ میں امام مالکؒ نے، کوفہ میں امام ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ نے، بصرہ میں حماد بن سلمہ اور شام میں عبدالرحمٰن بن اوزاعیؒ نے، مکہ میں عبدالعزیز ابن جریجؒ نے اور خراسان میں عبداللہ بن مبارکؒ نے احادیث کی تدوین شروع کی۔ (مقدمہ الموسوعۃ الفقہیۃ:۱/۲۸) پھراسی دور کے وسط میں احادیث کے بڑے بڑے مجموعے صحیح اور مستند طریقہ سے مرتب ہوئے، بعض میں صرف احادیث صحیحہ کے جمع کرنے کا التزام کیا گیا اور ضعیف وغیر مستند احادیث کو اس میں جگہ دینے سے اجتناب کیا گیا اور اس سلسلہ کی مشہور کتابوں میں صحاحِ ستہ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں، جسے امت نے صحیح ترین مجموعہ تسلیم کیا ہے۔پھراس دور میں صحیح اور غیرصحیح مستند ،قوی اور ضعیف حدیث کے درمیان امتیاز کے لیے فن اسماءرجال مرتب ہوا اور اس فن پر بڑی بڑی کتابوں کی تصنیف ہوئی۔ (فیض الباری:۱/۱۴)


5. اس عہد میں قواعد فقہ اور فن اصول فقہ کا بھی وجود ہوا اور اس کی باقاعدہ تدوین وترتیب عمل میں آئی۔(تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۰۲) اس وقت اس موضوع پرجوقدیم ترین کتاب پائی جاتی ہے، وہ امام شافعی رحمہ اللہ کی “الرسالہ” ہے۔یہ نہایت اہم کتاب ہے اور ابتدائی دور کی تالیف ہونے کے لحاظ سے نہایت جامع، واضح اور مدلل تالیف ہے، جس میں قرآن مجید کے بیان کے اُصول، سنت کی اہمیت اور قرآن سے اس کا ربط، ناسخ ومنسوخ، علل حدیث، خبرواحد کی حجیت، اجماع، قیاس، اجتہاد، استحسان اور فقہی اختلافِ رائے کی حیثیت پرگفتگو کی گئی ہے۔

6. فقہی اصطلاحات کا ظہور بھی اسی دور میں ہوا، یعنی جائز وناجائز، حلال وحرام، مکروہ ومستحب، فرض، واجب وغیرہ کی درجہ بندی گوعملاً یہ درجات پہلے بھی پائے جاتے تھے۔(چراغِ راہ:۳۶۵)

7. بمقابلہ پچھلے ادوار کے اس عہد میں اجتہاد واستنباط کی کثرت ہوئی، اس کے دوبنیادی اسباب تھے، ایک عباسی حکومت کا علمی ذوق، عباسیوں نے جہاں بغداد جیسا متمدن شہرآباد کیا اور عقلی علوم کوعربی زبان کا جامہ پہنایا، وہیں اسلامی علوم سے بھی ان کواعتناء تھا اور خود خلفاء علمی ذوق کے حامل ہوا کرتے تھے۔یہ ان کے علمی ذوق ہی کی بات تھی کہ ہارون رشید قاضی ابویوسف سے حکومت کے مالیاتی قوانین کے موضوع پرتالیف کا طلب گار ہوتا ہے اور اسی خواہش کے نتیجہ میں ان کی معروف مقبول تالیف “کتاب الخراج” وجود میں آتی ہے۔دوسرا سبب عالم اسلام کی وسعت تھی، اب مسلمانوں کی حکومت یوروپ میں اسپین سے لے کرایشیاء میں مشرق بعید چین تک تھی، مختلف قوموں، مختلف تہذیبیں، مختلف لسانی گروہ اور محتلف صلاحیتوں کے لوگ عالم اسلام کے سایہ میں تھے اور ان میں بڑی تعداد نومسلموں کی تھی اس لیے لوگوں کی طرف سے سوالات کی کثرت تھی اور اس نسبت سے فقہی اجتہادات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع ترہوتا گیااسی عہد میں بڑے بلند پایہ، عالی ہمت اور اپنی ذہانت وفطانت کے اعتبار سے محیرالعقول علماء وفقہاء پیدا ہوئے کیونکہ اس عہد میں اسی درجہ کے اہلِ علم کی ضرورت تھی؛ پھران میں سے بعض بلند پایہ فقہاء نے مستقل دبستانِ فقہ کی بنیاد رکھی اور ان سے علمی تاثر کی وجہ سے اہلِ علم کی ایک تعداد ان کے ساتھ ہوگئی اور اس نے ان کے علوم کی اشاعت وتدوین اور تائید وتقویت کے ذریعہ مستقل فقہی مدارس کووجود بخشا، ان شخصیتوں میں سب سے ممتاز شخصیتیں ائمہ اربعہ کی ہیں۔

آئمہ اربعہ اور انکے فقہی مکاتب کا مختصر جائزہ پیش ہے۔

1. فقہ حنفی

ائمہ اربعہ جن کے مذاہب اس وقت دنیا میں رائج ہیں، ان میں امام ابوحنیفہؒ اپنے علم وفضل اور سن وسال میں سب سے مقدم تھے اور بالواسطہ یابلاواسطہ تمام ائمہ آپ کے فیض یافتہ تھے۔امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو ایک طرف تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے، جو بقیہ ائمہ میں سے کسی کو حاصل نہیں، دوسری طرف آپ عمر میں ان میں سب سے بڑے ہیں، ملاعلی قاریؒ امام ابوحنیفہؒ کے فضائل مناقب میں تحریر فرماتے ہیں:”حاصل یہ ہے کہ تابعین کا درجہ صحابہ کرامؓ کے بعد امت میں سب سے بڑھا ہوا ہے، اسی وجہ سے ہمارا اعتقاد ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کا مرتبہ ائمہ مجتہدین میں سب سے اونچا ہے اور فقہاء علوم دینیہ میں آپ سب سے بلند واکمل ہیں، آپ کے بعد امام مالکؒ کا درجہ ہے، جو تبع تابعین کی صف میں ہیں؛ پھرامام شافعیؒ کا اس لیے کہ آپ امام مالکؒ؛ بلکہ امام محمدؒ کے شاگرد ہیں؛ پھرامام احمدؒ کا جو امام شافعیؒ کے شاگرد کے درجہ میں ہیں۔ (بحوالہ مقدمہ فتاویٰ دارالعلوم:۱/۶۳)

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تلامذہ جو فقہ کی تدوین میں شریک تھے

امام ابوحنیفہؒ نے جس طریقہ سے فقہ کی تدوین کا ارادہ کیا وہ نہایت وسیع اور پُرخطر کام تھا، اس لیے انہوں نے اتنے بڑے کام کواپنی ذاتی رائے اور معلومات پر منحصر کرنا نہیں چاہا، اس غرض سے امام صاحبؒ نے اپنے شاگردوں میں سے چند نامور اشخاص کا انتخاب کیا، جن میں سے اکثر خاص خاص فنون میں ماہر تھے، مثلاً یحییٰ بن ابی زائدہ، حفص بن غیاث، قاضی ابویوسف، داؤدالطائی، ابن حبان مندل،آپ کو حدیث اور آثار میں نہایت کمال تھا، امام صاحب نے ان لوگوں پر مشتمل ایک مجلس مرتب کی اور باقاعدہ طور پر فقہ کی تدوین شروع ہوئی، امام طحاویؒ نے بسند متصل اسد بن فرات سے روایت کی ہے کہ ابوحنیفہؒ کے تلامذہ جنھو ں نے فقہ کی تدوین میں حصہ لیا تھا ان کی مجموعی تعداد چالیس تھی، جن میں یہ لوگ زیادہ ممتاز تھے:ابویوسفؒ، زفرؒ، داؤدطائیؒ، اسد بن عمرؒ، یوسف بن خالد التیمیؒ، یحییٰ بن ابی زائدہؒ ۔امام طحاویؒ نے یہ بھی روایت کی ہے کہ لکھنے کی خدمت یحییٰ سے متعلق تھی، امام طحاویؒ نے جن لوگوں کے نام گنائے ہیں ان کے سوا عافیہ، ازی، ابوعلی ، علی بن مسہر،قاسم بن معن، ابن مندل اس مجلس کے منبر رہےتھے۔ (شرح فقہ اکبر:۱۴۶)


طریقۂ تدوین


تدوین کا طریقہ یہ تھا کہ کسی خاص باب کا کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا تھا ؛اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق الرائے ہوتے تھے تواسی وقت قلمبند کرلیا جاتا؛ ورنہ نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں، کبھی کبھی بہت دیرتک بحث قائم رہتی، امام صاحب غور وتحمل کے ساتھ سب کے دلائل سنتے اور بالآخر ایسا جچاتلا فیصلہ کرتے کہ سب کو تسلیم کرنا پڑتا، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ امام صاحب کے فیصلہ کے بعد بھی آپ کے شاگردان اپنی اپنی آراء پر قائم رہتے اس وقت ان سب کے مختلف اقوال قلم بند کرلیے جاتے۔ (سیرۃ النعمان:۱۲۹)

امام ابوحنیفہ اپنی رائے کو اپنے شاگردوں پر مسلط نہیں کرتے اور نہ بغیر تحقیق ومناقشہ کے اپنی آراء لکھواتے؛ بلکہ جدید مسائل کے بارے میں پوری تحقیق کی جاتی ،مسائل کے مختلف پہلوؤں پر گہری نظر ڈالی جاتی ؛پھر بحث ومباحثہ میں تلامذہ کو پوری آزادی رائے دیتے۔ (سیرۃ النعمان:۱۳۰)

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا منہج استنباط


مسائل کی تحقیق وتخریج میں امام ابوحنیفہؒ کا طریقہ اجتہاد کیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خود امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا ہے میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں؛ اگراس میں مسئلہ نہیں ملتا ہے تو سنت رسول کی طرف رجوع ہوتا ہوں اور اگر اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ملتا ہے تو پھر اقوال صحابہؓ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور جس صحابی کا قول کتاب وسنت سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے اسے اختیار کرلیتا ہوں؛ لیکن اقوال صحابہؓ کے دائرہ سے قدم باہر نہیں نکالتا؛ لیکن جب صحابہؓ کے بعد معاملہ ابراہیمؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسنؒ، عطاءؒ اور سعید ابن مسیبؒ وغیرہ تک جاتا ہے تو یہ وہ لوگ تھے جو اجتہاد کرتے تھے اور میں بھی ان کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔ (مقدمہ فتاویٰ تاتارخانیہ:۱/۱۳۔ المدخل:۱۳۹)

2. فقہ مالکی


فقہ مالکی:یہ فقہ امام دارالہجرۃ مالک بن انس کی طرف منسوب ہے، فقہ مالکی اہل سنت والجماعت کا دوسرا بڑا فقہی مسلک ہے اس کی نشوونما “مدینۃ الرسول” میں ہوئی ،جو مہبط وحی ،مسکن رسول اور ہزاروں جلیل القدر صحابہ کا ماوٰی وملجا تھا اور یہاں سے پورے حجاز میں اس کی اشاعت ہوئی؛ پھربصرہ، مصر، افریقہ، اندلس وغیرہ میں اس کو غلبہ حاصل ہوا ،امام مالک کے اصول میں سے سب سے اہم چیز علامہ ابن خلدون کے بقول اہلِ مدینہ کا تعامل تھا۔ (مناقب للمکی:۷۵)

امام مالک تقریباً پچاس سال درس وافتاء میں مشغول رہے، طلبہ اور عوام جو مسائل آپ سے پوچھتے تھے آپ کے شاگرد ان مسائل کے جوابات یاد کرلیتے یالکھ لیتے تھے، آپ کی وفات کے بعد آپ کے شاگردوں نے آپ کے جوابات اور فقہی اقوال وآراء کومدون کیا، یہ مجموعہ فقہ مالکیؒ کے نام سے مشہور ہوا۔

امام مالک رحمہ اللہ کا طریقہ اجتہاد

امام مالکؒ کا طریقہ اجتہاد اور منہج استنباط یہ تھا کہ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف مراجعت فرماتے اور اگر اس مسئلہ کی کتاب اللہ میں کوئی صراحت نہیں ملتی تو پھرآپ سنتِ رسولﷺ کی طرف متوجہ ہوتے؛ اگر اس میں بھی کوئی حکم شرعی نہیں ملتا تو پھر اقوالِ صحابہؓ، تعامل مدینہ، قیاس، اجتہاد، استحسان اور سدذرائع کی طرف متوجہ ہوتے۔ (المدخل:۱۵۶)

3. فقہ شافعی

یہ فقہ امام محمدبن ادریس شافعی کی طرف منسوب ہے، اس کی نشوونما مکہ مکرمہ میں ہوئی اور پھر اطراف واکناف عالم میں پھیل گئی اور امام شافعیؒ نے اوّلاً مالک بن انس کی خدمت میں رہ کر ان کے مناہج استنباط اور اصول استنباط وطرق اجتہاد سے خوب آگاہی حاصل کی؛ پھرامام ابوحنیفہ کے معتمد شاگردِرشید امام محمد بن الحسن الشیبانی کی صحبت میں رہ کر فقہ حنفی کے مناہج اور اس کے اصول وکلیات کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور پھر دونوں مکاتب فقہ کا نچوڑ وماحصل فقہ شافعی کی صورت میں مدون کرکے ایک نئی راہ قائم کی، آپ کی فقہ دوحصوں پرمشتمل ہے . (۱)فقہ شافعی قدیم (۲)فقہ شافعی جدید۔

فقہ شافعی قدیم فقہ شافعی کا وہ حصہ ہے جسے امام شافعی نے عراق میں آکر مرتب کیا تھا، اس میں عراقی رنگ کا غلبہ ہے، فقہ شافعی جدید یہ وہ حصہ ہے جسے آپ نے مصر میں آکر مرتب کیا تھا، اس میں حجازی رنگ کا غلبہ ہے، فقہ شافعی میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی فقہی آراء اور ان کے مناہج فکر سے بہت فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ (کشف الظنون:۲/۱۲۸۵)

امام شافعی رحمہ اللہ کا منہج استنباط

ائمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ وہ خوش بخت انسان ہیں جنھیں اپنے مناہج فکر اور اصول استنباط واستخراج کو خود مدون کرنے کا موقع ملا ہے، امام صاحب کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے، وہ بالترتیب سات ادلہ کو پیش نظر رکھ کر مسائل مستنبط کرتے تھے۔(۱)اولا کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتے اور اسے اپنے مسائل کی بنیاد بناتے (۲)اگرکتاب اللہ میں حکم نہیں ملتا تو سنت رسول کی طرف متوجہ ہوتے (۳)اگرسنت رسول میں کوئی حکم نہیں ملتا تو پھراجماع امت کا سہارا لیتے (۴)اگران تینوں میں حکم نہیں ملتا ہے تو پہلے کتاب اللہ کی روشنی میں قیاس کرتے (۵)پھرسنت رسولﷺ کی روشنی میں قیاس کرتے(۶)اجماع کی روشنی میں قیاس کرتے(۷)اور آخر میں مختلف فیہ احکام پر قیاس کرتے۔ (المدخل:۱۴۹)

4. فقہ حنبلی

فقہ حنبلی امام احمدبن حنبلؒ کی طرف منسوب ہے، امام احمدبن حنبلؒ بلند پایہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ شافعی کے سربراہ امام شافعیؒ سے فقہ میں کمال پیدا کیا اور ان کی خدمت میں رہ کر ان کے اصول اور مصادر فقہ سے پوری طرح واقفیت حاصل کی اور پھر حدیث وفقہ کے امتزاج سے ایک نئے فقہی مسلک کی بنیاد ڈالی، جو فقہ حنبلی کے نام سے موسوم ہوئی، آپ کی فقہ بہت سادہ اور زیادہ ترنصوص کے ظاہر تک محدود ہےکیونکہ آپ عقل ودرایت سے کام لینے کے زیادہ قائل نہ تھے، آپ کی فقہ کی بنیاد دراصل احادیث وآثار پر ہے، قیاس واجتہاد کو اس میں بہت کم دخل ہے ،اس لیے بعض بعض مسائل میں امام صاحب کے سات سات اقوال بھی ملتے ہیں۔(فقہ شافعی اور اس کی خصوصیات سہ ماہی بحث ونظر شمارہ:۱۴)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا طریقہ اجتہاد

وہ اصول استنباط اورمناہج استخراج جن پر امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے فقہ وفتاویٰ کی بنیاد رکھی ہے، علامہ ابن قیم حنبلی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق چار ہیں:

(۱)نصوص:امام صاحب جب کسی مسئلہ میں قرآن وحدیث کی نص پاتے تو اس کے مطابق فیصلہ فرماتے اور اس کے خلاف جواقوال وفتاویٰ ہوتے ان کا اعتبار نہیں کرتے۔ (۲)فتاویٰ صحابہؓ:اگر کسی مسئلہ میں نص نہیں ملتی اور اس مسئلہ میں کسی صحابی کا فتویٰ ہوتا، اس کو اختیار کرتے اور صحابہؓ کے اقوال کے دائرہ سے باہر نہیں نکلتے۔ (۳)اگر کسی مسئلہ میں مرفوع اور صحیح حدیث نہیں ملتی تو حدیث مرسل اور ضعیف کو اپنے فتویٰ کی بنیاد بنالیتے۔ (۴)ضرورۃ ہی قیاس سے کام لیتے۔ (المدخل:۱۶۶)

دیگر فقہی مکاتب

ائمہ اربعہ کے فقہی مکاتب ان کے طریقہ کار اور اصول فقہ کی تدوین کے ساتھ اسی دور میں بعض دیگر ائمہ مجتہدین کے فقہی مکاتب بھی وجود میں آئے ، یہ فقہاء بھی اپنی قوتِ اجتہاد اور لیاقتِ استنباط میں نہایت اعلیٰ درجہ کے حامل تھے مثلا امام ابوسعید، حسن بن یسار بصری، امام اوزاعی، امام سفیان بن سعید ثوری، امام لیث بن سعد، امام سفیان بن عیینہ، امام داؤد بن علی اصبھانی ظاہری، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ لیکن ان حضران کا مسلک مدون نہ ہوسکا، اس لیے امت مسلمہ کی اکثریت مذاہب اربعہ کی مقلد ہوئی اور قبول عام انہی ائمہ اربعہ کے مسائل مستخرج کو حاصل ہوا۔ (اعلام الموقعین:۱/۱۳۵۔۴۰)


٭فقہ اسلامی کا پانچواں دور٭

چوتھی صدی کے نصف آخر سے تیرہویں صدی ہجری کے اواخر تک ہے، یہ دورتقلید کا دور ہے اور امت کا سواداعظم تقلید شخصی کا پابند ہے چنانچہ اس دور میں بڑے بڑے علماء نے ان ائمہ کی تقلید کو اپنے لیے ضروری تصور کیا اور اس پر عمل کیا ۔ (المدخل:۱۷۱۔۱۸۲)

اس دور کی چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں:

1. اسی عہد میں شخصی تقلید کا رواج ہوا اور لوگ تمام احکام میں ایک متعین مجتہد کی پیروی کرنے لگے، تقلید کی اس صورت کومختلف اسباب کی وجہ سے تقویت پہنچی، جن کا تذکرہ مناسب محسوس ہوتا ہے:(ا)ائمہ مجتہدین کی سعی ومحنت سے فقہ اسلامی کی ترتیب وتدوین پایہ کمال کوپہنچ چکی تھی اور ان کی مساعی کی وجہ سے لوگوں کے لیے ہرطرح کے مسائل کا حل موجود تھا؛ اس لیے گذشتہ ادوار میں جس درجہ اجتہاد واستنباط کی ضرورت تھی اب اتنی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے تواس طرف لوگوں کی توجہ بھی کم ہوجاتی ہے۔(ب)بعض مجتہدین کومن جانب اللہ لائق تلامذہ اور لائق ماہرین ومتبعین ہاتھ آئے اور انھوں نے اس مجتہد کی آراء وافکار کونہایت بہتر طور پرمرتب کردیا، اس کی وجہ سے لوگوں میں ان کے اجتہادات کے تئیں قبولِ عام کا رحجان پیدا ہوگیا اور اس طرح ایک مستقل دبستانِ فقہ کی تشکیل عمل میں آگئی۔(ج) بعض قضاۃ حق اجتہاد کوجوروزیادتی اور کسی فریق کے حق میں طرف داری کا ذریعہ بنانے لگے، اس پس منظر میں حکومتیں جب کسی کوقاضی مقرر کرتیں توان کوپابند کردیتیں کہ فلاں مذہب کے مطابق فیصلہ کیا کریں؛ تاکہ فیصلوں میں یکسانیت رہے اور جانب داری کی گنجائش باقی نہ رہے؛ چنانچہ عباسی خلفاء عام طور پرفقہ حنفی پرقاضی مقرر کیا کرتے؛ اسی طرح ترکوں نے بھی عہدۂ قضاء کواحناف کے لیے مخصوص رکھا؛ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے مصر میں اور سلطان محمود سبکتگین رحمہ اللہ اور نظام الملک طوسی نے مشرقی علاقہ کی عدالتوں کوفقہ شافعی کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیا، یہ بھی تقلیدِ شخصی کی ترویج کا ایک اہم سبب بنا۔

تقلید کے رواج نے جوایک منفی اثرپیدا کیا وہ فقہی تعصب وتنگ نظری اور جدل ومناظرہ کی کیفیت کا پیدا ہوجانا ہے گذشتہ ادوار میں بھی فقہی مسائل میں اختلافِ رائے پایا جاتا تھا لیکن ایک دوسرے سے تعصب کی کیفیت نہیں تھی اور نہ اس کےلیے معرکہ جدل برپا ہوتا تھا، اس کے مختلف ادوار میں بدترین قسم کی تنگ نظری بھی وجود میں آئی، بعض لوگ اپنے امام کی تعریف میں مبالغہ کی آخری حدود کوبھی پار کرجاتے تھے اور مخالف نقطہ نظر کے حامل امام ذی احترام کی شان میں گستاخی اوربدکلامی سے بھی باز نہیں رہتے تھے، یہاں تک کہ ان مذموم مقاصد کے لیے بعض خداناترس لوگوں نے روایتیں بھی گھڑنی شروع کردیں۔ (تاریخ الفقہ الاسلامی، محمدعلی سائس:۱۳۲)

2. اس دور کے اہم امور میں سے یہ ہے کہ فقہی کتابوں کی طباعت شروع ہوئی اگر اس زمانہ میں کتابوں کی طباعت نہ ہوتی تو آج اتنی کتابیں میسر نہ ہوتیں۔ (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۸۷)

3. فقہ کے قواعد اور اصطلاحات کتابی شکل میں جمع کئے گئے۔ (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۸۷)

4. اسی عہد میں شخصی اور عائلی مسائل کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔ (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۸۷)

5. اسی عہد میں فقہی تطبیقات کی تدوین اور کتب فتاویٰ کی تالیف ہوئی گو اس کا آغاز پہلے ہی ہوچکا تھا؛ مگراس دور میں اس کی کثرت ہوگئی اس لیے جو حضرات سرکاری مفتی کی حیثیت سے کام کرتے تھے یابلند پایہ علماء جن سے عوام الناس استفادہ کرتے تھے وہ اپنے فتاویٰ کو کتابی صورت میں جمع کرتے تھے ان میں سے اکثر کتب فتاویٰ ابواب فقہی پر مرتب کی گئی ہیں۔ (تاریخ الفقہ الاسلامی:۱۹۵)

6. اس عہد میں کتبِ فتاویٰ کی اہم کتابیں تصنیف کی گئیں، مثلاً فتاویٰ تاتارخانیہ، فتاویٰ خانیہ، فتاویٰ حامدیہ، فتاویٰ ہندیہ وغیرہ۔(چراغِ راہ:۳۷۲، اسلامی قانون نمبر)

7. اسی عہد میں مجلۃ الاحکام الشرعیہ کی اشاعت بحیثیت قانون مدنی ازروئے فقہ احناف ہوئی۔

8. اسی عہد میں قانون سازی کا حلقہ بے حد وسیع ہوگیا؛ چنانچہ تمام بلاداسلامیہ میں مختلف موضوعات کے متعلق قوانین وضع ہوئے، مثلاً تجارتی قوانین، جائیداد کے قوانین، اصولی قوانین، جسے قانون اجراء اور قانونِ مرافعہ جس کو ہمارے یہاں قانونِ محکمات حقوق کہا جاتا ہے، مملکتِ عثمانیہ اور ممالکِ اسلامیہ جیسے شام، فلسطین اور عراق میں اس زور شور سے قوانین وضع ہوئے کہ قریب قریب فقہ کے تمام ابواب کے احکام میں کم وبیش قانونی تعدیل یانسخ کا عمل نظر آتا ہے۔ (چراغِ راہ:۳۷۲، اسلامی قانون نمبر)

9. اس دور کا تذکرہ نامکمل ہوگا اگراس دور کے اہم فقہاء اور اہلِ علم کا ذکر نہ کیا جائے؛ اس لیے اختصار کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

حنفیہ:

امام ابوالحسن عبداللہ بن حسن کرخی (۲۶۰۔۳۴۰)

ابوبکر جصاص رازی (م۳۷۰ھ)

ابواللیث نصربن محمدسمرقندی، امام الھدیٰ (م۳۷۳ھ)

ابوعبداللہ یوسف بن محمدجرجانی (م۳۹۸ھ)

ابوالحسن احمد قدوری (م۴۲۷ھ)

شمس الائمہ عبدالعزیز حلوانی (م۴۱۸ھ)

شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی صاحب المبسوط (م۴۸۳ھ)

ابواسحاق ابراہیم بن اسماعیل صفار (۵۷۴ھ)

ملک العلماء ابوبکر ابن مسعود کاسانی (م۵۸۷ھ)

فخرالدین حسن اوز جندی قاضی خان (م۵۹۲ھ)

علی ابن ابی بکرمرغینانی صاحب ہدایہ (م۵۹۳ھ)

بکربن علاقشیری (م۳۱۴ھ)

یوسف بن عمربن عبدالبر (م۳۸۰ھ)

ابوالولید سلیمان باجی (م۴۹۴ھ)

ابوالولید محمدبن رشد قرطبی (م۵۲۵ھ)

ابوبکر محمدبن عربی صاحب احکام القرآن (م۵۳۶ھ)

ابوالفضل قاضی عیاضی (م۵۴۱ھ)

محمدبن احمد بن محمدبن ارشد صاحب ہدایۃ المجتہد (م۵۹۵ھ)

ابومحمدعثمان فخرالدین زیلعی (م۷۴۳ھ)

محمدبن عبدالواحدکمال الدین ابن ھمام (م۷۶۱ھ)

محمدبن احمد بدرالدین عینی (م۷۶۲۔ ۸۵۵ھ)

شمس الدین محمدبن امیرالحاج حلبی (م۸۷۹ھ)

شوافع:

ابواسحاق ابراہیم مروزی (م۲۴۰ھ) ابوعلی حسین، المعروف بابن ابی ہریرہ (م۳۴۵ھ)

قاضی ابوحامد مروزی (۳۶۲ھ) محمدبن اسماعیل قفال کبیرشاشی (م۳۶۵ھ)

ابوالقاسم عبدالعزیزدارکی (۳۷۵ھ) ابوالقاسم عبدالواحد یعمری (۳۸۶ھ)

ابوعلی حسین سنجی (۴۰۳ھ) ابوحامد ابن محمداسفرائنی (م۴۰۸ھ)

عبداللہ ابن احمدقفال صغیر (م۴۱۷ھ) ابواسحاق ابراہیم اسفرائنی (م۴۱۸ھ)

ابوالطیب طاہرطبری (م۴۵۰ھ) ابوالحسن علی ماوردی (۳۵۰ھ)

ابوعاصم محمدمروزی (م۴۵۸ھ) ابواسحاق ابراہیم شیرازی (م۴۷۶ھ)

ابونصر محمدبن صباغ (م۴۷۷ھ) امام الحرمین ابوالمعالی عبدالملک جوینی (م۴۸۷ھ)

حجۃ الاسلام ابوحامد محمدعزالی (۴۵۰۔۵۰۵ھ) ابوالقاسم عبدالکریم رافعی (م۶۲۳ھ)

محی الدین ابوزکریا نووی (م۶۳۱ھ) علامہ تقی الدین سبکی (م۶۸۳۔۷۵۲ھ)

شیخ الاسلام زکریا انصاری(م۸۲۶۔۹۲۶ھ) شہاب الدین ابن حجر ہیثمی (م۹۰۹۔۹۹۵ھ)

مالکیہ:

ابوضیاء خلیل کردی (م۷۷۶ھ) ابوالحسن نورالدین اجھوری (م۹۶۷۔۱۰۶۶ھ)

محمدبن عبداللہ قریشی (م۱۱۱ھ) نورالدین عدوی (م۱۱۲ھ)

حنابلہ:

علامہ تقی الدین احمد بن تیمیہ (م۶۶۱۔۷۲۸ھ) شمس الدین ابن قیم جوزی (م۶۹۱۔۷۵۱ھ)