فقہ اسلامی زمانہٴ تدوین سے لے کر عصرِ حاضر تک مختلف مراحل سے گزری،اس پر متنوع انقلابات آئے،فقہ اسلامی کے طرزِ تصنیف اور طریقہٴ تدریس میں نوع بنوع تبدیلیاں واقع ہوئیں،فقہائے کرام نے ہر دور کے مطابق فقہ اسلامی کے گرانقدر ذخیرے کی تہذیب وتنقیح کی، ہر دور کے علمی مزاج و مذاق کے مطابق کتبِ فقہ کے طرزِتصنیف،اسلوبِ تحریر،ترتیب مباحث، تحریر مسائل اورتقریر ادلہ میں فقہ اسلامی کے دائرے میں رہتے ہوے مفید تبدیدلیاں کیں،یہی وجہ ہے کہ فقہ اسلامی کی طویل تاریخ پر عمیق نگاہ ڈالنے سے مختلف ادوار سامنے آتے ہیں،ان مختلف مراحل سے واقفیت اور ہر دور کی خصوصیات سے آگاہی فقہ اسلامی کے طا لب علم کے لیے انتہائی ضروری ہے،ان مختلف ادوار و مراحل میں فقہ اسلامی کا دورِ جدید مختلف وجوہات کی بنا پر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، اس مضمون میں ہم دور جدید کے فقہی ذخیرے اور اس کی متنوع خصوصیات پر ایک تحقیقی نگاہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
دور جدید کی ابتداء
فقہ اسلامی کی تاریخ کو ادوار و مراحل میں تقسیم کرنے والے کم و بیش تمام معاصر مورخین کے مطابق فقہ اسلامی کے دور جدیدکا آغاز” مجلةا لاحکام العدلیہ“ کی تصنیف سے ہوتاہے۔( تاریخ التشریع الاسلامی للقطان :ص۳۹۷،تاریخ الفقہ الاسلامی للا شقر :ص۱۸۷،المدخل الی الشریعة الاسلامیہ للدکتور الزیدان :ص۱۵۰،خلاصة التشریع الاسلامی للخلاف :ص۱۰۳)
مجلہ کی تصنیف کا پس منظر یہ تھاکہ خلافتِ عثمانیہ میں عدالتیں فقہ حنفی کے مطابق فیصلے کیا کرتی تھیں،اس نظام میں جج حضرات کو عموماً فقہ حنفی کے وسیع ذخیرے میں مطلوبہ مبحث کی تلاش اور مفتی بہ قول کی تعیین میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا،اس پر مستزاد وقت بھی کافی خرچ ہوتا۔اس کے علاوہ قدیم مصنّفین چونکہ قواعد و ضوابط کو مستقلاً ذکر کرنے کی بجاے جزئیات کے ضمن میں ذکر کرتے تھے؛اس لیے نئے مسائل کا فیصلہ کرتے وقت قواعد کااستخراج بھی انتہا ئی دقت طلب مرحلہ ہوتا،ان مشکلات کو دیکھتے ہوے خلافتِ عثمانیہ کے وزیر انصاف نے وقت کے جید فقہاء کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور معاملات و نکاح کے ابواب کو قانونی ترتیب کے مطابق دفعہ وار مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی؛چنانچہ کمیٹی نے اپنا کام شروع کیا اور سات سال کی محنتِ شاقہ کے بعد ۱۲۸۵ھ میں ایک مجموعہ تیار کیا،اس مجموعے کو ”مجلة الاحکام العدلیہ“ کا نام دیا گیا،اس کے مقدمے میں فقہ کے مختصر قانونی تعارف کے ساتھ فقہ اسلامی کے ننانوے ایسے بنیادی قواعد ذکر کیے گے، جن پر تقریباً فقہ کی پوری عمارت کھڑی ہے اور ان قواعد کا فقہ کے تمام ابواب کے ساتھ انتہا ئی مضبوط ربط ہے۔اس پر مغز کے مقدمے کے بعد سولہ مرکزی عنوانات کے تحت۱۸۵۱ دفعات میں معاملات کے تمام اہم ابواب کا ذکر کیا گیا ہے،ان تمام مسائل میں مفتی بہ اقوال لینے کی کوشش کی گئی ہے؛البتہ بعض مسائل میں حالات و زمانہ کی ضروریات کے پیشِ نظر ضعیف و مرجوح اقوال بھی لیے گئے ہیں(فقہ اسلامی،ایک تعارف : ص۱۰۹ )۔
مجلہ کی تصنیف نے واقعی فقہ اسلامی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی داغ بیل ڈال دی،اس وقت سے لے کر آج تک فقہ اسلامی پر اچھا خاصا کام ہوا اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق فقہ اسلامی کا وسیع ذخیر ہ سامنے آیا،ذیل میں اس چکا مختصرا ً ذکر کیا جاتا ہے۔
پہلی قسم :جدید قانونی طرز کے مطابق فقہ اسلامی کی ترتیب و تدوین
فقہ اسلامی کی عام کتب کا طرز اور مباحث کی ترتیب جدید قانونی کتب سے کافی مختلف ہے، کتب فقہ میں فقہاء کے اختلافات،دلائل،قواعد کی بجاے فروع و جزئیات اور عموماً راجح و مرجوح کی تعیین کے بغیر مسائل ذکر کیے جاتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کتب سے کامل استفادہ اور راجح اقوال کا انتخاب ایک ماہر اور منجھا ہوا فقیہ ہی کر سکتا ہے،مجلہ کی تصنیف کے بعد عالم اسلام میں فقہ اسلامی کی دفعہ وار ترتیب و تدوین کے رجحان میں کافی تیزی آئی،اور فقہاء نے تقنین کے جواز و عدم جواز پر طویل بحثیں کیں،اس کے ممکنہ طرق کا ذکرکیا،خاص طور پر عالم اسلام کے مایہ ناز فقیہ شیخ مصطفی الزرقاء نے ”المدخل الفقہی العام“ میں تقنین کے حوالے سے مفصل اور پر مغز بحث کی ہے۔( ص۲۶۹/۱)
ذیل میں اس حوالے سے چند مفید کاوشوں کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے :
۱- سعودی عرب کے معروف عالم شیخ احمد بن عبد اللہ القاری نے سعودی حکومت کے ایماء پر فقہ حنبلی کے معاملات کے ابواب کو دفعہ وار مرتب کیا،یہ مجموعہ ”مجلة الا حکام الشرعیہ علی مذہب الامام احمد بن حنبل الشیبانی“کے نام سے موسوم ہوا،اس کی کل دفعات تقریباً ۲۳۸۴ہیں۔
۲- مشہور فقیہ محمد قدوری پاشا نے احوال شخصیہ یعنی نکاح،وقف اور معا ملات کے ابواب کو فقہ حنفی کے مطابق دفعہ وار مرتب کیا اور اسے ”مرشد الحیران لمعرفة احوال الانسان“ کا نام دیا۔اس کی کل دفعات تقریباً ۱۰۴۵ ہیں۔
۳- شیخ ابو زہرہ مرحوم نے نکاح و طلاق کے مو ضوع پر ”الاحوال الشخصیہ“ کے نام سے ایک مفصل کتاب لکھی،اس کے آخر میں بھی مواد کو دفعہ وار لکھا۔
۴- مصر کے معروف عالم اور اخوان کے مشہور رہنما شیخ عبد القادر عودہ شہید نے اسلام کے نظام جرم و سزا پر ”التشریع الجنائي مقارنا با لقانون الوضعی“ کے نام سے ایک مفید و مفصل کتاب لکھی،اس کے آخر میں تمام مسائل کو دفعات کی شکل میں ذکر کیا کل دفعات تقریبا۶۸۹ ہیں۔
۵- پاکستان کی مشہور شخصیت ڈاکٹر نزیل الرحمان نے ”مجموعہ قوانین اسلام“ کے نام سے چھ جلدوں میں اردو میں ایک کتاب لکھی،جس میں تمام اہم مسائل کو دفعات کی شکل میں لکھا گیا ہے۔
۶- ہندو ستان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی طرف سے نکاح و طلاق کے مسائل دفعہ وار مرتب کیے گئے،یہ کاوش ”مجموعہ قوانین اسلامی“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کی کل دفعات تقریباً ۵۳۰ہیں۔
۷- ہندوستان کے معروف عالم قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب نے اسلام کے عدالتی نظام کو دفعات کی شکل میں مرتب کیا،اس کی کل دفعات تقریباً ۷۴۰ ہیں اپنی افادیت کی بنا پر عربی میں ترجمہ ہوکر بیروت سے بھی چھپ چکی ہے۔
دوسری قسم :فقہی موسوعات اور انسائیکلو پیڈیازکی تیاری
دورِ جدید میں فقہ اسلامی کے حوالے سے ایک رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ پوری فقہ اسلامی کو الف بائی ترتیب سے موسوعہ اور انسائیکلو پیڈیا کی شکل میں مرتب کیا جائے؛ تا کہ وہ حضرات جو فقہ اسلامی کی کتب سے ممارست نہیں رکھتے اور نہ انھیں فقہی کتب کے ابواب و مسائل کی ترتیب معلوم ہے،وہ فقہ اسلامی سے آسانی کے ساتھ استفادہ کر سکے؛چنانچہ اس سلسلے میں درج ذیل کوششیں ہوئیں ہیں:
۱- فقہی موسوعہ تیا ر کرنے کی سب سے پہلی تجویز مشہور فقیہ اور ممتاز مفکر داکٹر مصطفی سباعی کی طرف سے آئی جب وہ دمشق یونیورسٹی میں کلیة الشریعہ کے صدر بنے،انھوں نے ایک ضخیم موسوعہ تیار کرنے کا منصوبہ حکومت شام کے سامنے پیش کیا اور حکومت نے اسے منظور بھی کیا۔اس سلسلے میں شامی حکومت نے عالم عرب کے ممتاز محققین کی ایک کمیٹی تشکیل دی؛لیکن چند وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ چل نہیں سکا اور فقہی موسوعہ تیار کرنے کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا۔
۱۹۶۲ء میں حکومت مصر نے ایک موسوعہ فقہیہ تیار کرنے کا منصوبہ بنا یا،یہ موسوعہ”موسوعہ جمال عبد الناصر فی الفقہ الاسلامی“ کے نام سے موسوم کیا گیا؛چنانچہ اس موسوعہ پر باقاعدہ کا م شروع کیا گیا؛لیکن کام کی سست رفتاری کی وجہ سے ابھی تک اس کی سولہ جلدیں منظر عام پر آئی ہیں،اس موسوعہ میں مذاہبِ اربعہ کے ساتھ شیعہ،زیدیہ،،زیدیہ،اباضیہ اور ظاہریہ کے مسالک کے بیان کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
۳- فقہی موسوعہ تیار کرنے کی سب سے کامیاب کوشش وزارت اوقاف کویت کی طرف سے سامنے آئی،حکومت کویت نے ممتاز فقیہ داکٹر مصطفی الزرقا ء کی میں سر براہی ۱۹۶۶ ء میں ایک ضخیم موسوعہ کی منظوری دی؛چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس موسوعہ کی تیاری پر تیزی سے کام شروع کیا،ڈاکٹر صاحب کی محنت رنگ لائی اور تیزی کے ساتھ اس کی جلدیں منظر عام پر آنے لگیں اور اب تک اس کی پینتالیس جلدیں چھپ چکی ہیں۔بلا شبہ موضوعات کے استیعاب، اختصار و جامعیت اور تسہیل و ترتیب کے لحاظ سے عصرِ حاضر کا منفرد و ممتاز ترین کام ہے۔اس میں مذاہبِ اربعہ کے بیان کا التزام کیا گیا ہے، اسلامک فقہ اکیڈمی نے اس ضخیم موسوعہ کا اردو میں ترجمہ کیاہے، جو یقینا اردوداں حضرات کے لیے بیش بہا تحفہ ہے۔
عصرِ حاضر کے ممتاز محقق ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے صحابہ و تابعین کے اقوال فقہیہ یکجا کرنے کا منصوبہ بنا یا؛چنانچہ اس سلسلے میں اب تک صحابہ میں سے حضرت عمر،حضرت عبد اللہ بن مسعود، ام المومنین حضرت عایشہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر اور تابعین حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم نخعی و دیگر معروف تابعین کے اقوال فقیہہ فقہی ترتیب کے مطابق جمع کیا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر قلعہ جی کی یہ کوشش بلا شبہ ایک مایہ ناز و تاریخی پیشکش ہے،اس سلسلے سے صحابہ و تابعین کی فقہ ایک مرتب شکل میں سامنے آئی ہے،اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کو اس کا بہترین بدلہ عطا فرماے۔اب تک تقریباً ۱۸ موسوعات منظر عام پر آچکے ہیں۔
۵- ہندوستان کے معروف عالم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ”قاموس الفقہ“ کے نام سے اردو میں ایک جامع فقہی موسوعہ ترتیب دیا ہے،جو چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے،اس کے شروع میں فقہ کے تعارف و تاریخ پر ایک مفصل مقدمہ بھی شامل ہے۔رحمانی صاحب کا یہ عظیم کام ممتاز اہلِ علم سے خراج تحسین وصول کر چکا ہے۔
۶- نامور عالم ڈاکٹر احمد علی ندوی نے معاملات سے متعلق قواعد و ضوابط فقہیہ کو ایک موسوعہ کی شکل میں جمع کیا ہے،یہ موسوعہ تین ضخیم جلدوں میں ”موسوعة القواعد و الضوابط الفقیہ الحاکمة للمعاملات“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔اس میں معاملات سے متعلق مذاہب اربعہ کے قواعد و ضوابط الف بائی ترتیب سے ذکر کیے گئے ہیں۔
۷- ممتاز محقق محمد صدقی بن احمد البورنو نے پوری فقہ اسلامی کے تمام قواعد و ضوابط کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا؛چنانچہ یہ موسوعہ ”موسوعہ القواعد الفقیہ“ کے نام سے تیرہ ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آیاہے،محقق بورنو کے اس عظیم الشان کارنامے کی افادیت اہلِ علم پر مخفی نہیں ہے۔
۸- معروف محقق ڈاکٹر سعدی ابو جیب نے ”موسوعة الجماع فی الفقہ الاسلامی“ کے نام سے تین ضخیم جلدوں میں ایک منفرد موسوعہ تیار کیا ہے،جس میں صحابہٴ کرام،ائمہٴ اربعہ و دیگر فقہاء کے متفقہ و اجماعی مسائل فقہی ترتیب کے مطابق جمع کیے ہیں۔اس ضخیم موسوعہ میں تقریباً نوہزار سے زائد اجماعی مسائل ذکر کیے گئے ہیں۔
۹- فلسطین کے محقق ڈا کٹر عبد الرحمن العقبی نے اجماعاتِ صحابہ کو جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس سلسلے میں اب تک تیرہ جلدیں تیار ہوچکی ہیں،اس ضخیم موسوعة میں مصنف نے ان تمام مسائل کو جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے،جن پر صحابہ کا اجماع منعقد ہوا ہے،خواہ اصولِ دین سے متعلق ہوں یا فروع دین سے۔اس منفرد و ممتاز کارنامے پر مصنف یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔معروف ویب سائٹ ”ملتقی اہل الحدیث“کے مطابق یہ کتاب عنقریب چھپ جائیگی۔
۱۰– عصرِ حاضر کے نامور فقیہ جمال الدین العطیہ نے ”تجدید الفقہ الاسلامی“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے،اس کے آخر میں مصنف نے ایک ضخیم موسوعہ تیار کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے،جس میں عنوانات اور متعلقہ کتب کی بھی اپنی استطاعت کے مطابق نشاندہی کی ہے۔ اس موسوعہ کے عنوانات اور اس کی ترتیب سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی شخص،ادارے اور ملک کا کام نہیں ہے؛بلکہ ممالکِ اسلامیہ کے نامور فقہاء مل کر اسے مرتب کر سکتے ہیں۔اگر یہ موسوعہ اسی ترتیب کے مطابق منظر عام پر آیا،تو غالباً دورِ جدید کی سب سے بڑی فقہی پیشکش ہوگی۔
تیسری قسم :فقہ و اصول فقہ کی تاریخ اور جامع تعارف پر مبنی مفید کتب
عصرِ حاضر میں فقہ اسلامی کے حوالے سے ایک مفید کام یہ ہوا ہے کہ فقہ و اصول فقہ کی مرحلہ وارتاریخ اور مکمل تعارف پر مبنی متعدد کتب سامنے آئی ہیں،جن میں عہدِ نبوت سے لے کر عصر حاضر تک فقہ و اصول فقہ کی مرحلہ وار تایخ،ہر دور کی خصوصیات،مختلف فقہی مکاتب خصوصا مذاہب اربعہ کے مناہج استنباط،ہر فقہی مکتب کے معروف فقہاء اور مشہور فقہی کتب کا تعارف اور فقہ اسلامی کے حوالے سے دیگر مفید مباحث شامل ہوتی ہیں۔یہ کتابیں عمومی طور پر ”المدخل الی الفقہ“یا ”تاریخ التشریع “کے نام سے لکھی گئیں ہیں۔ان کتب کے بعض مباحث سے اختلاف کے باوجود یہ بات ماننی پڑے گی کہ ان کتب نے فقہ اسلامی کے وسیع ذخیرے اور فقہ اسلامی کی طویل تاریخ سے آگاہی میں اہم کردار اد اکیا ہے۔جو مباحث تاریخ کی کتب میں منتشر اور بکھری ہوئی تھیں،ان کتب نے مرتب انداز اور عصری اسلوب میں اسے پیش کیا۔ذیل میں اس حوا لے سے چند اہم اور مفید کتب کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے :
۱- تاریخ التشریع الاسلامی للخضری بک: مصر کے معروف عالم و مشہور مورخ شیخ محمد خضری بک وہ پہلی شخصیت ہیں،جنہوں نے فقہ اسلامی کی مرحلہ وار تاریخ لکھنے کی بنیاد ڈالی،شیخ خضری بک نے عہد نبوت سے لے کر عصر حاضر تک فقہ کی تاریخ پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ”تاریخ التشریع الاسلامی“ نام سے لکھی،جس میں پہلی مرتبہ جدید اسلوب کے مطابق فقہ کی تاریخ کو چھ ادوار میں تقسیم کر کے ہر دور کا مفصل تعارف اپنی کتاب میں پیش کیا۔چند مقامات سے قابل اعتراض ہونے کے باوجود فقہ اسلامی کی تاریخ کے حوالے سے بنیادی ماخذ شمار ہوتی ہے۔
۲- الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی: مراکش کے معروف مالکی عالم فقیہ علامہ محمد حجوی الثعالبی کی تصنیف ہے،فقہ اسلامی کی تاریخ پر مشتمل کتب میں غالباً سب سے مفصل کتاب ہے،کتاب چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے،فاضل مصنف نے فقہ اسلامی کی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کر کے ہر جلد میں ایک دور کا مفصل تعارف پیش کیا ہے،اس کتاب میں ہر دور کے متعدد معروف فقہاء کے تراجم سمیت فقہ اسلامی کے حوالے سے نفیس مباحث شامل ہیں۔
۳- تاریخ التشریع الاسلامی للقطان: مصر کے معروف عالم،اخوان المسلمین کے رہنما، داعی اور مشہور قاضی شیخ مناع خلیل القطان کی تصنیف ہے،یہ کتاب فقہ اسلامی کی تاریخ پر مبنی کتب کا جامع خلاصہ ہے،کتاب میں حسن ترتیب اور عبارت میں سلاست نمایاں ہے۔
۴- المدخل الفقہی العام: نامور فقیہ شیخ مصطفی الزرقاء کی تصنیف ہے،جنہوں نے فقہ اسلامی کو جدید اسلوب میں پیش کرنے کے حوالے سے قابلِ قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ ”المدخل الفقہی العام“ فقہ کی تاریخ،مذاہب فقہیہ کے تعارف،قواعد فقہیہ اور دیگر فقہی مباحث کو عصرِ حاضر کے اسلوب میں پیش کرنے کی ایک کامیاب تحقیقی اور تاریخی دستاویز ہے۔
ان کتب کے علاوہ معروف مصری عالم و فقیہ محمد سلام مدکور کی ”المدخل للفقہ الاسلامی“ مصر کے معروف مورخ اور متعدد تاریخی کتب کے مصنف الدکتور احمد شلبی کی ”تاریخ التشریع الاسلامی“ مشہورعراقی عالم الدکتور عبد الکریم زیدان کی۔”المدخل الی دراسة الشریعة الاسلامیة“ نامور مصری فقیہ عبد الوہاب خلاف کی ”خلاصة تاریخ التشریع الاسلامی“ اردن کے معروف عالم الدکتور عمر سلیمان الاشقر کی ”تاریخ الفقہ الاسلامی“ شام کے معروف عالم الدکتور عبد اللطیف صالح الفرفور کی ”تاریخ الفقہ الاسلامی“ معروف سعودی عالم الدکتور ناصر بن عقیل الطریفی کی ”تاریخ الفقہ الاسلامی“ عمان کے معروف عالم الدکتور صالح محمد ابو الحاج کی مایہ ناز کتاب ”تاریخ الفقہ الاسلامی“ معروف مصری عالم الدکتور حسین حامد حسان کی ”المدخل لدراسة الفقہ الاسلامی“ معروف سعودی یونیورسٹی جامعہ امام محمد بن سعود کے مدیر الدکتور سلیمان بن عبد اللہ بن حمود ابالخیل کی ”المدخل الی علم الفقہ“ معروف کویتی عالم الدکتور یوسف احمد محمد البدوی کی ”مدخل الفقہ الاسلامی و اصولہ“ جامعہ قطر کے دو پروفیسرز الدکتور محمد دسوقی اور امینہ الجابر کی مشترکہ کاوش”مقدمہ فی دراسة الفقہ الاسلامی“ جامعہ ازہر کے معروف استاد الدکتور محمد علی السایس کی ”نشاة الفقہ الاجتہادی و اطوارہ“ اور معروف فقیہ الدکتور علی حسن عبد القادر کی ”نظرة عامة فی تاریخ الفقہ الاسلامی“ فقہ اسلامی کی تاریخ کے حوالے سے اہم کتابیں شمار ہوتی ہیں۔
اردو میں اس حوالے سے ہندوستان کے مشہور عالم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ”فقہ اسلامی تعارف و تاریخ“پروفیسر فہیم اختر ندوی اور پروفیسر اختر الواسع کی مشترکہ کاوش”فقہ اسلامی تعارف و تاریخ“معروف عالم مولانا محمد تقی امینی کی ”فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر“مفتی عمیم الاحسان القادری کا مختصر رسالہ”تاریخ علم فقہ“ڈاکٹر سجاد الرحمن صدیقی کی ”فقہ اسلامی کا تاسیسی پس منظر“اور مایہ ناز محقق ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مشہور زمانہ خطبات”محاضراتِ فقہ“فقہ اسلامی کی تاریخ اور تعارف پر مشمتل اہم کتابیں ہیں۔
اصول فقہ کی تاریخ و تعارف کے حوالے سے شام کے معروف عالم الدکتور معروف دوالیبی کی ”المدخل الی علم اصول الفقہ“ مشہور شافعی فقیہ ڈاکٹر سعید مصطفی الخن کی مایہ ناز کتاب ”دراسة تاریخیة للفقہ و اصول الفقہ و الاتجاہات التی ظہرت فیھا“ جامعہ ازہر کے معروف پروفیسر ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل کی ”اصول الفقہ تاریخہ و رجالہ“ اور ”المدخل لدراسة اصول الفقہ“ اہم کتب شمار ہوتی ہیں؛جبکہ اردو میں اصول فقہ کی مفصل تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر فاروق حسن کا پی ایچ، ڈی کا مقالہ ”فن اصول فقہ کی تاریخ“ایک اہم کاوش ہے۔
چوتھی قسم:الفقہ المقارن یعنی فقہ و اصول فقہ کا تقابلی مطالعہ
عصرِ حاضر میں فقہ اسلامی کے مختلف مسالک اور مکاتبِ فکر کے تقابلی مطالعے کا رجحان اہلِ علم کے حلقوں میں کافی بڑھ گیا ہے،فقہ اسلامی کے مطالعے میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ فقہ اسلامی کے مختلف ابواب میں فقہاء کے بنیادی اختلافات اور اختلافی مقدمات سے آگاہی ہو۔اس رجحان کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ اسلامی کے معروف عالمی ادارے عصر حاضر کے پیدا کردہ نت نئے مسائل میں کسی خاص مکتبِ فکر کی بجائے فقہ اسلامی کے چاروں مکاتب کو سامنے رکھ کر ان مسائل کا آسان اور اقرب الی الصواب حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا فقہ اسلامی کے تقابلی مطالعے پر مفید تصانیف منظر عام پر آگئیں۔ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب نامور فقیہ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی مایہ ناز کتاب”الفقہ الاسلامی و ادلتہ“ہے جس میں مصنف نے فقہ کے تمام ابواب میں مذاہب اربعہ اور ان کے دلائل کے بیان کا اہتمام کیا ہے۔اس کے علاوہ مصر کے معروف عالم عبد الرحمن الجزیری کی کتاب”الفقہ علی المذاہب الاربعہ“بھی فقہ اسلامی کے تقابلی مطالعے کے لیے اہم کاوش ہے۔اسی طرح معروف فقہی موسوعات اور انسائیکلوپیڈیاز میں بھی تمام مسالک کے بیان کا التزام کیا گیا ہے۔ اصول فقہ کے تقابلی مطالعے کے حوالے سے سب سے مفصل تصنیف معروف یونیورسٹی جامعہ امام محمد بن سعود کے معروف پروفیسر ڈاکٹر عبد الکریم النملة کی مایہ ناز کتاب ”المہذب فی اصول الفقہ المقارن“ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر وہبہ الذحیلی کی کتاب”اصول الفقہ الاسلامی“ میں چاروں مذاہب کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔اردو میں ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کی طرف سے شائع کردہ کتاب ”اصول فقہ ایک تعارف“اصول فقہ کے تقابلی مطالعے کے حوالے سے مفید کتاب ہے۔
پانچویں قسم:قواعد فقہیہ اور مقاصد الشریعہ کا احیاء
فقہ و اصول فقہ کے ساتھ فقہ سے متعلق دو اہم علوم ”قواعد فقیہہ“اور ”مقاصد الشریعہ“آج کے فقہاء کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے؛کیونکہ فقہ کا ایک ادنی طالب علم بھی بخوبی جانتا ہے کہ پیش آمدہ مسائل کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے کے لیے قواعد فقہیہ اور مقاصد الشریعہ سے واقفیت ایک فقیہ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ماضی کے فقہاء نے بھی اس میدان میں اہم کتابیں تصنیف کی ہیں،علامہ شاطبی کی الموافقات،معروف شافعی فقیہ عز الدین بن عبد السلام کی قواعد الاحکام فی مصالح الانام اور علامہ ابن نجیم کی الاشباہ و النظائر ماضی کی اہم تصنیفات شمار ہوتی ہیں۔عصر حاضر میں زیادہ وسعت،جامعیت اور مرتب انداز کے ساتھ ہر دو فنون کا احیاء کیا گیا ہے۔ان دو فنون کی تاریخ،مکمل تعارف اور از سر نو ترتیب و تدوین پر مشتمل اہم اور مفید کتب سامنے آئی ہیں۔ذیل میں اس حوالے سے اہم عصری تصنیفات کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔
قواعد فقہیہ سے متعلق عصر حاضر کی اہم تالیفات
عصر حاضر میں قواعد فقہیہ پر متنوع جہات سے کام ہوا ہے،قواعد فقہیہ کی تاریخ،تعارف اور اس میدان میں قدماء کی اہم تالیفات کے تعارف کے حوالے سے عراق کے معروف عالم اور جامعہ امام محمد بن سعود کے معروف پروفیسر ڈاکٹر یعقوب الباحسین کی کتاب”القواعد الفقہیہ“جامع ترین کتاب ہے،اس کے علاوہ معروف محقق ڈاکٹر احمد علی ندوی کی مایہ ناز کتاب ”القواعد الفقہیہ، مفہومھا، نشاتھا، تطورھا“ ڈاکٹر محمد الزحیلی کا ضخیم مقالہ”القواعد الفقہیہ و تطبیقاتھا فی المذاہب الاربعہ“ ڈاکٹر عبد الوہاب ابو سلیمان کی کتاب ”النظریات و القواعد فی الفقہ الاسلامی“ معروف محقق ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد العزیز العجلان کی کتاب ”اھمیة القواعد الفقہیہ فی الفقہ الاسلامی“ بھی اہم کاوشیں ہیں۔فقہ کے اہم ابواب کے قواعد فقہیہ کو جمع کرنے کے حوالے سے مصر کے معروف عالم ڈاکٹر بکر اسماعیل کی کتاب ”القواعد الفقہیہ بین الاصالة و التوجیہ“ جس میں مصنف نے بار ہ ابواب میں فقہ کے اہم ترین ابواب کے بنیادی قواعد کو تشریح و امثلة کے ساتھ جمع کیا ہے،اسی طرح ڈاکٹر احمد علی ندوی نے ابواب المعاملات کے اہم قواعد کو تین ضخیم جلدوں میں ”موسوعة القواعد و الضوابط الفقہیہ الحاکمة للمعاملاتِ“کے نام سے جمع کیا ہے،فقہ اسلامی کے پانچ بنیادی قواعد کی تشریح کے حوالے سے معروف عالم ڈاکٹر صالح بن غانم السدلان کی ضخیم کتاب”القواعد الفقہیہ الکبری و ما تفرع منھا“ اور مجلہ کے نناوے قواعد کی تشریح،توضیح اور مصادر سے متعلق نامور فقیہ مصطفی الزرقاء کے والد احمد الزرقاء کی کتاب”شرح القواعد الفقہیہ“ اہم کتب ہیں۔قواعد فقہیہ میں اختلاف کی وجہ سے فقہاء کے اختلافات اور اس کے مسائل پر اثرات کے حوالے سے مراکش کے معروف عالم ڈاکٹر محمد الروکی کی کتاب ”نظریة التعقید الفقہی و اثرھا فی اختلاف الفقہاء“ اور شافعی فقیہ ڈاکٹر سعید الخن کی مایہ ناز کتاب”اثر الاختلاف فی القواعد الاصولیہ فی اختلاف الفقہاء“ اہم کتابیں ہیں۔ قواعد فقہیہ کے حوالے سے عصر حاضر کی سب سے بڑی اور تاریخی کاوش ”موسوعة القواعد الفقہیہ“ ہے،تیرہ جلدوں کے اس ضخیم موسوعہ کے مصنف معروف محقق ڈاکٹر صدقی البورنو ہے۔ اس میں مصنف نے حروف تہجی کے اعتبار سے پوری فقہ اسلامی کے اہم قواعد و ضوابط کو جمع کیا ہے۔ اس ضخیم موسوعہ میں چار ہزار سے زائد قواعد و ضوابط ہیں۔
مقاصد الشریعہ کے حوالے سے اہم عصری تالیفات
فقہ کی تاریخ کا عجیب ”اتفاق“ہے کہ مقاصد شریعت کو بطور ایک فن کے متعارف کروانے میں مالکی فقہاء کی خدمات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،خاص طور پر معروف مالکی فقیہ علام شاطبی وہ شخصیت ہیں،جنہوں نے اپنی مایہ ناز کتاب”الموافقات“لکھ کر شریعت مطہرہ کے مقاصد کو ایک زندہ جاوید فن کے طور پر متعارف کروایا۔اسی طرح مقاصد شریعت کے احیاء میں بھی مالکی فقہاء کی خدمات ”خشتِ اول“کی مانندہیں۔ مراکش کے معروف عالم ڈاکٹر احمد الریسونی نے مقاصد الشریعہ کے احیا ء کے حوالے سے تجدید ی خدمات سر انجام دی ہیں،الریسونی نے سب سے پہلے ”نظریة المقاصد عند الامام الشاطبی“ لکھ کر اما م شاطبی کے نظریہ مقاصد کو عصر حاضر کے اسلوب میں مرتب انداز میں پیش کیا۔اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو، انگلش اورفارسی تینوں اہم زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے،اس کے بعد ”مدخل الی مقاصد الشریعة“ ”الفکر المقاصدی قواعدہ و فوائدہ“اور ”من اعلام الفکر المقاصدی“ جیسی اہم کتب لکھ کر اس فن کے مختلف جوانب اور پہلووں سے علمی دنیا کو آگاہ کیا۔ اسی طرح تیونس کے معروف مالکی عالم و مفسر محمد طاہر بن عاشور نے ”مقاصد الشریعة الاسلامیہ“لکھی،جس میں فلسفہٴ مقاصد پر عصری اسلوب میں بہترین بحث کی ہے۔سوڈان کے مشہور عالم ڈاکٹر یوسف حامد العالم نے ”المقاصد العامة للشریعة الاسلامیة“کے نام سے ایک مفید کتاب لکھی۔اس کے علاوہ تیونس کے معروف مالکی فقیہ ڈاکٹر نور الدین الخادمی کی”علم المقاصد الشرعیة“ معروف مصری عالم ڈاکٹر محمد سلیم العواکی ”مقاصد الشریعة الاسلامیة“ معروف عالم ڈاکٹر جاسر عودہ کی ”فقہ المقاصد“معروف فقیہ ڈاکٹر جمال الدین العطیہ کی ”نحو تفعیل مقاصد الشریعة“ مراکش کے معروف عالم ڈاکٹر علال الفاسی کی ”مقاصد الشریعة الاسلامیة و مکارمھا“ معروف عالم محمد سعید رمضان البوطی کی ”ضوابط المصلحہ فی الشریعة الاسلامیة“ عراق کے معروف عالم ڈاکٹر طہ جابر العلوانی کی ”مقاصد الشریعة“ اور معروف مصری عالم داکٹر بکر اسماعیل کی کتاب”مقاصد الشریعة الاسلامیة تاصیلا وتفعیلا“ عصر حاضر کی اہم تصنیفات شمار ہوتی ہیں۔معروف مصری عالم ڈاکٹر محمد کمال الدین الامام نے تین ضخیم جلدوں میں ”الدلیل الارشادی الی مقاصد الشریعة الاسلامیة“کے نام سے ایک مفید کتاب لکھی ہے،جس میں مصنف نے مقاصد الشریعہ پر لکھی گئی قدیم و جدید کتب کا مفصل تعارف پیش کیا ہے۔اس ضخیم موسوعہ پر مصنف یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔عربی کی طرح اردو کا دامن بھی اس فن سے خالی نہیں ہے،اسلامک فقہ اکیڈمی نے مقاصد الشریعہ کے حوالے سے قابلِ قدر خدمات سر انجام دی ہیں،اور تقریبا اوپر ذکر کردہ اکثر کتب کا اردو ترجمہ اکیڈمی کی طرف سے شائع ہوچکا ہے، جس میں ڈاکٹر محمد کمال الدین کا تیار کردہ ضخیم موسوعہ ”الدلیل الارشادی الی مقاصدِ الشریعة“ بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی کتاب ”مقاصد شریعت “ اس موضوع پر اردو میں ایک بہترین کتاب ہے،کتاب کے آٹھ ابواب میں مصنف نے مقاصد شریعت کے مختلف پہلووں پر فاضلانہ بحث کی ہے،یہ کتاب ادارہ تحقیقات اسلامی۔اسلام آباد کی طرف سے شائع ہو ئی ہے۔
چھٹی قسم:مذاہب اربعہ کا مفصل تعارف
عصرِ حاضر میں فقہ اسلامی کے حوالے سے ایک رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ مذاہب اربعہ کے تفصیلی تعارف پر مواد تیا ر کیا جائے،جس میں مذہب کے بانی، اور اس کے براہ راست تلامذہ، ناقلینِ مذہب،اہم متون و شروح،راجح مرجوح اقوال کے ضوابط،نامور فقہاء اوراصول استنباط و استخراج کے تعارف سمیت اہم مباحث شامل ہوں۔اس رجحان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں نت نئے مسائل کے حل کے لیے ایک فقہ کافی نہیں ہے؛بلکہ مذاہبِ اربعہ کو سامنے رکھ کر عصری مسائل کا شریعت کی روشنی میں حل تلاش کیا جاتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ کسی فقہی مذہب کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے لیے اس سے متعلق بنیادی باتوں کا علم ضروری ہے۔مذاہب اربعہ کے تفصیلی تعارف کے حوالے سے درجہ ذیل عصری کاوشیں قابلِ ذکر ہیں :
۱- معروف مصری فقیہ شیخ ابو زہرہ مرحوم نے مذاہب فقہیہ کے تعارف کے حوالے سے قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں،موصوف نے ائمہٴ اربعہ کی مفصل سوانحات لکھیں ہیں،جن میں ہر امام کے تفصیلی حالات،معروف اساتذہ،مشہور تلامذہ،اہم تصنیفات،اصولِ استنباط،دلائلِ اربعہ سے متعلق اس امام کی خاص آراء اور اس کی طرف منسوب مذہب کے مختلف پہلووں اور متنوع جوانب پر تحقیقی ابحاث شامل ہیں۔ان مفصل کتب کے علاوہ شیخ ابو زہرہ مرحوم کی دو اہم کتب ”تاریخ المذاہب الاسلامیہ“ اور ”محاضرات فی تاریخ المذاہب الفقھیہ“ بھی فقہی مذاہب کے تعارف کے حوالے سے قابلِ قدر کتب ہیں۔شیخ ابو زہرہ مرحوم کے علاوہ معروف مصری ادیب احمد تیمور پاشا کی کتاب”نظرة تاریخیة فی حدوث المذاہب الاربعہ“ اور معروف مصری فقیہ اور مفتی ڈاکٹر علی جمعہ کی ”المدخل لدراسة المذاہب الفقہیہ“ اہم کاوشیں ہیں۔اردو میں اس حوالے سے بر صغیر کے معروف مورخ قاضی اطہر مبارکپوری کی کتاب”سیرتِ ائمہ اربعہ“اہم کتاب ہے۔
۲- مذہب حنفی کے تعارف کے حوالے سے اردن کے معروف عالم داکٹر احمد سعید حوی کی کتاب ”المدخل الی مذہب ابی احنیفہ “اہم کاوش ہے،اس کے علاوہ جامعہ امام محمد بن سعود سے شائع شدہ ضخیم مقالہ ”المذہب الحنفی، مراحلہ و طبقاتہ، ضوابطہ و مصطلحاتہ، خصائصہ و مولفاتہ“ مذہب حنفی کے تعارف کے حوالے سے عصر حاضر کی مفصل ترین کتاب ہے۔ دو ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے حنفی مذہب کے تعارف کے حوالے سے کوئی بحث تشنہ نہیں چھوڑی ہے۔اس کے علاوہ جامعہ قطر کے پروفیسر داکٹر محمد الدسوقی کی مایہ ناز کتاب”الامام محمد و اثرہ فی الفقہ الاسلامی“ قابل ذکر کتاب ہے،اس میں مصنف نے خاص طور پر مذہب حنفی کی تدوین کے حوالے سے قابل قدر بحث کی ہے،اس کی افادیت کے پیش نظر ادارہ تحقیقات اسلامی۔ اسلام آباد کی طرف سے ”امام محمد بن حسن شیبانی اور ان کی فقہی خدمات “ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔
۳- مالکی مذہب کے تعارف کے حوالے سے ”مرکز زاید للتراث و التاریخ“ (متحدہ عرب امارات)کی طرف سے شائع شدہ مفصل کتاب”المذہب المالکی، مدارسہ و مولفاتہ، خصائصہ و سماتہ“ بہترین کاوش ہے،اس کے علاوہ ”دار البحوث للداراسات الاسلامیہ“ (دبئی) کی طرف سے شائع شدہ کتاب”اصطلاح المذہب عند المالکیہ“ مالکی مذہب کے مختلف ادوار اور ہر دور کے علمی ذخیرے کے تعارف کے حوالے سے ایک جامع کتاب ہے۔مالکی مذہب کے فقہی ذخیرے کے تعارف کے حوالے سے مراکش سے تعلق رکھنے والے عالم ڈاکٹر ابو الزبیر عباد السلام احمد کی کتاب”امہات الکتب الفقہیہ“ قابل ذکر ہے،اس میں مالکی مذہب کی تدوین کے زمانے سے لے کر عصر حاضر تک زمانی ترتیب سے اہم فقہی کتب کا تعارف شامل ہے۔مالکی مذہب کی خصوصیات سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ مالکی مذہب میں عراقی اور اندلسی دو مستقل مکاتبِ فکر پائے جاتے ہیں،اندلسی مکتب فکر کے تعار ف کے حوالے سے مراکش کی وزارتِ اوقاف کی طرف سے شائع شدہ کتاب ”المدرسة المالکیہ الاندلسیہ نشاة و خصائص“ جبکہ عراقی مکتب کی خصوصیات کے حوالے سے معروف مراکشی عالم ڈاکٹر عبد الفتاح الزنیقی کا رسالہ ”المدرسة المالکیہ العراقیہ، نشأتھا، خصائصھا و اعلامھا“ مفید کتب ہیں۔نیز عبد العزیز بن صالح الخلیفی کی ضخیم کتاب ”الاختلاف الفقہی فی المذہب المالکی مصطلحاتہ و اسبابہ“بھی اس حوالے سے ایک مفید کتاب ہے۔
۴- شافعی مذہب کے تعارف کے حوالے سے ”المدخل الی مذہب الامام الشافعی“ایک جامع کتاب ہے،یہ کتاب اردن سے معروف شافعی فقیہ ڈاکٹر سعید مصطفی الخن کے پیش لفظ کے ساتھ چھپی ہے،کتاب کے مصنف ڈاکٹر اکرم یوسف القواسمی ہے،چھ سو سے زائد صفحات کی اس کتاب میں مصنف نے فقہ شافعی کے مختلف جوانب کا جامع تعارف کرایا ہے،کتاب شافعی مذہب کے اہم ادوار،معروف فقہاء،فقہ و اصول فقہ کے ذخیرے کا زمانی ترتیب سے تعارف،فقہ شافعی کی خصوصیات واصطلاحات وغیرہ جیسے تحقیقی مباحث پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ فقہ شافعی کی کتب کے تعارف کے حوالے سے ”موسسة الرسالة ناشرون“ کی طرف سے چھپی کتاب”الخزائن السنیہ من مشاہیر الکتب الفقہیہ لائمتنا الفقہاء الشافعیہ“ اہم کتاب ہے،دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں حروفِ تہجی کے اعتبار سے فقہ شافعی کے ذخیرے کی فہرست دی ہے۔فقہ شافعی کی خصوصیات سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ فقہ شافعی میں امام شافعی کے قول قدیم و جدید کی تعیین اور اس کے اصول سے معرفت انتہائی اہم ہے،ورنہ فقہ شافعی سے واقف حضرات کو علم ہے کہ امام شافعی کے قول قدیم و جدید کی تعیین اور اس کے اصول سے کامل استفادہ نہیں ہوسکتا، اس حوالے سے سب سے مفصل کتاب ڈاکٹر لمین الناجی کا پی ایچ، ڈی مقالہ ”القدیم و الجدید فی فقہ الشافعی“ اہم ترین کتاب ہے،دو ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے قول قدیم و جدید کے اصول،مصنفات،قدیم و جدید میں ترجیح کے اصولوں پر سیر حاصل بحث کی ہے، اس کے علاوہ انڈونیشیاء سے تعلق رکھنے والے عالم ڈاکٹر احمد انحراوی عبد السلام کی ضخیم کتاب ”الامام الشافعی فی مذہبیہ القدیم و الجدید“ اہم کاوش ہے۔اسی طرح جامعہ ام القری کے پروفیسر ڈاکٹر محمد بن ردید المسعودی کی کتاب ”المعتمد من قدیم قول الشافعی علی الجدید“ اور ڈاکٹر محمد السمیعی الرستاقی کا مقالہ ”القدیم و الجدید من اقوال الامام الشافعی“ مفید کتابیں ہیں۔
۵- فقہ حنبلی کے تعارف پر عصرِ حاضر میں وقیع کام ہوا ہے، زمانہ تدوین سے لے کر عصر حاضر تک فقہ حنبلی کے فقہاء اور ان کی تصانیف کے تعارف پر مشتمل مفصل کتاب”معجم المصنفات الحنابلہ“ہے،آٹھ جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں فقہ حنبلی کے بارہ صدیوں کے فقہی ذخیرے اور علماء کا جامع تعارف شامل ہے۔کتاب کے مصنف مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عبد اللہ بن محمد الطریقی ہیں۔معروف حنبلی فقیہ ڈاکٹر بکر بن عبد اللہ ابو زید نے ”المدخل المفصل الی فقہ الامام احمد بن حنبل و تخریجات الا صحاب“کے نام سے دو جلدوں میں ضخیم کتاب لکھی ہے، جس میں تفصیل سے فقہ حنبلی کا تعارف شامل ہے۔دمشق کے معروف عالم علامہ عبد القادر بن بدران کی کتاب”المدخل الی مذہب الامام احمد بن حنبل“فقہ حنبلی کے تعارف کے حوالے سے ایک جامع کتاب ہے۔فقہ حنبلی کی کتب اور مخصوص اصطلاحات کے حوالے سے ڈاکٹر عبد الملک بن عبد اللہ کی کتاب ”المنھج الفقہی العالم للعلماء الحنابلة و مصطلحاتہم فی مولفاتہم“ اور جامعہ ملک عبد العزیز کے پروفیسر ڈاکٹر سالم کی ضخیم کتاب ”مصطلحات الفقہ الحنبلی و طرق استفادة الاحکام من ألفاظہ“ اہم کاوشیں ہیں
ساتویں قسم :فقہ اسلامی اور معاصر قانون کا تقابلی مطالعہ
عصر حاضر میں مغرب عسکری،اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے دنیا کی غالب قوت ہے،اس غلبے کا نتیجہ یہ ہے کہ فکری میدان میں بھی مغربی افکار اور نظریات کی بالادستی ہے اور عالم اسلام کے بیشتر ممالک میں نظام حکومت و سیاست مغربی قوانین کے مطابق ہے،ان ممالک کے دساتیر میں اسلامی قوانین کی آمیزش کے باوجود مغربی قوانین اور اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کے اصولوں کا غلبہ ہے۔برصغیر میں انگریز ایک طویل عرصے تک قابض رہے،اس لیے یہاں انگریزی قوانین اور برطانوی طرز فکر سے مرعوبیت مقتدر طبقے پر چھائی ہے،جبکہ افریقی اور بعض عرب ممالک پر فرانس نے ایک لمبے عرصے تک قبضہ جمائے رکھا،جس کے نتیجے میں وہاں فرانسیسی قوانین اور افکار سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ مرعوب ہے۔اسلامی طرز فکر کی مغلوبیت اور مغربی افکار کے غلبے کی وجہ سے اسلامی قوانین کے بارے میں عالم اسلام کا مقتدر طبقہ ذہنی کشمکش اور فکری اضطراب کا شکار ہوگیا،اس فکری بے چینی کے نتیجے میں اسلامی قوانین کے بارے میں متنوع اشکالات اور مختلف اعتراضات پیدا ہوئے،اس لیے معاصر فقہاء اور اصحاب فکر و نظر کے حلقوں میں یہ رجحان پیدا ہوا کہ اسلامی طرز حیات یعنی فقہ اسلامی اور مغربی قوانین کا ایک تقابلی جائزہ لیا جائے،جس میں فقہ اسلامی کے محاسن اور خوبیوں کو آشکارا کیا جائے۔چنانچہ عصر حاضر میں فقہ اسلامی اور اس کے مختلف ابواب کا معاصر قانون سے تقابل پر مفید تصنیفات منظر عام پر آئی ہیں۔ذیل میں اس حوالے سے چند اہم تصانیف کا ایک مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے :
۱- معروف فقیہ علی علی المنصور نے فقہ اسلامی اور عصری قوانین کے اجمالی تقابل اور خاص طور پر فقہ الاسرة(نظا م نکاح و طلاق )اور فقہ السیر یعنی اسلام کے بین الا قوامی قانون کے تقابلی جائزے پر”مقارنات بین الشریعة الاسلامیة و القوانین الوضعیہ “کے نام سے ایک جامع کتاب لکھی ہے ۔
۲-معروف مصری عالم ڈاکٹر سید عبد اللہ نے فقہ مالکی اور فرانسیسی قوانین کے تقابلی جائزے پر مشتمل ایک ضخیم کتاب”المقارنات التشریعہ بین القوانین الوضعیہ و التشریع الاسلامي“ کے نام سے لکھی ہے،چار جلدوں کی اس مفصل کتاب میں مصنف نے تفصیل سے معاصر طرز کے مطابق فقہ مالکی اور فرانسیسی قوانین کا تقابلی جائزہ لیا ہے،مصنف نے اس کتاب میں اسلوب یوں اختیار کیا ہے کہ دفعہ وار تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں،ایک دفعہ فرانسیسی قوانین سے لے کر پھر التشریع الاسلامی کا عنوان باندھ کر اس دفعہ سے متعلق فقہ اسلامی کی تعلیمات پیش کرتے ہیں۔
۳- مصری عالم احمد ابو الفتح نے فقہ المعاملات اور مصری قوانین کے تقابل پر دو جلدوں میں ضخیم کتاب ”المعاملات في الشریعة الاسلامیة و القوانین المصریہ “کے نام سے ایک مفید کتاب لکھی ہے۔
۴-اخوان کے رہنما اور معروف عالم اور فقیہ ڈاکٹر عبد القادر عودہ شہید نے فقہ الجنایات کے تقابلی جائزہ پر مشتمل ”التشریع الاسلامي الجنائی مقارنا بالقانون الوضعي“کے نام سے ایک جامع کتاب تصنیف کی ہے،چار جلدوں کی اس ضخیم کتاب میں فقہ الجنایات اور معاصر قوانین جرم و سزا کا بہترین تقابل پیش کیا گیا ہے،عودہ شہید کی یہ کتاب نہ صرف مصر بلکہ عالم اسلام کے ممتاز محققین سے خراج تحسین وصول کر چکی ہے۔
۵-مشہور فقیہ خاص طور پر قضا کے حوالے سے قابل قدر تصنیفات کے مصنف محمد مصطفی الزحیلی نے ”التنظیم القضائي في الفقہ الاسلامی دراسة مقارنة“کے نام سے ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے،جس میں خاص طور پر شام،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نظام قضا کا اسلامی نظام قضا کے ساتھ ایک تقابلی جائزہ لیا ہے۔
۶-اسلام کے نظام سیاست و حکومت سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے معروف مصری کاتب عبد الحمید المتولی نے ”مبادیٴ نظام الحکم في الاسلام مع المقارنة بالمبادیٴ الدستوریہ الحدیثة“ کے نام سے ایک جامع کتاب لکھی ہے،جس میں اسلام کے نظام سیاست کا معاصر انظمہ کے ساتھ تقابل پیش کیا گیا ہے۔
۷- مکہ مکرمہ کی معروف یونیورسٹی جامعہ ام القری سے معروف فقیہ ڈاکٹر شعبان اسماعیل کی زیر نگرانی اسلام کے عسکری قوانین کا بین الاقوامی قانون جنگ کے ساتھ تقابل پر ایک ضخیم مقالہ چھپا ہے،”الحرب في الشریعة الاسلامیة و القانون الدولي العام “ کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل اس مقالے میں مقالہ نگا ر نے تفصیل کے ساتھ معاصر قوانین جنگ و صلح کا اسلامی قوانین کے ساتھ تقابل پیش کیا ہے۔
عالم عرب سے چھپی تقابلی مطالعے پر نمونے کے طور پر چند ایک تصانیف کا ذکر کیا گیا ہے،نہ حصر مقصود ہے اور نہ ہی یہ بتانا مقصود ہے کہ مذکورہ موضوع پر یہی کتب حرف آخر ہیں،فقہ اسلامی کا مجموعی حیثیت سے اور فقہ اسلامی کے مختلف ابواب کا معاصر قوانین اور انظمہ کے ساتھ تقابل آج کے فقہا ء کا پسندیدہ موضوع ہے،اور اس پر روز نت نئی کتب منظر عام پر آتی ہیں،اردو میں اس حوالے سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مشہور زمانہ خطبات ”محاضرات فقہ “کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی،یہ خطبات اگر چہ بنیادی طور پر فقہ اسلامی کے تعارف پر مشتمل ہیں،لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس میں جگہ جگہ فقہ اسلامی کا مغربی قوانین کے ساتھ بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔فقہ اسلامی کو عصری اسلوب میں سمجھنے والا کوئی شخص ان محاضرات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔