فقہ اسلامی کے مصادر

اسلامی نقطۂ نظرسے قانون کا اصل سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہے، اس لیے تمام قوانین کا رشتہ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی سے ہےالبتہ بعض احکام کی نسبت صراحتاً اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہے اور بعض احکام قرآن وحدیث سے ثابت ہونے والے اصول وقواعد کی روشنی میں اہلِ علم نے استنباط کیے ہیں، ان کی بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کی جاسکتی ہے، فرق یہ ہے کہ پہلا ذریعہ معصوم ہے۔ اگر قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت یقینی ہوتو اس میں غلطی کا احتمال نہیں اور دوسرا ذریعہ معصوم نہیں کیونکہ اس میں انسانی اجتہاد کو دخل ہے ، اس طرح فقہ اسلامی کے مصادر کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (

۱)نصوص (۲)اجتہاد کے دوسرے مسائل۔

منصوص مصادر

فقہ اسلامی کے منصوص مصادر چار ہیں:(۱)کتاب اللہ(۲)سنت رسول اللہ(۳)شرائع ماقبل(۴)جن مسائل میں اجتھاد کی گنجائش نہ ہو ان میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار۔

1. کتاب اللہ

کتاب اللہ سے مراد قرآن مجید ہے، جو بے کم وکاست محفوظ ہے اور قیامت تک رہے گا، قرآن مجید میں فقہی احکام سے متعلق آیات کی تعداد لوگوں نے دوڈھائی سوسے لیکر پانچ سو تک لکھی ہے، پانچ سو کی تعداد اس لحاظ سے ہوسکتی ہے کہ قرآن سے ثابت ہونے والے صریح احکام کے علاوہ اصولی احکام کوبھی شامل کرلیا جائے، ملاجیون نے تفسیرات احمدیہ میں اسی اصول پر آیات کا انتخاب کیا ہے، جن کی تعداد ۴۶۲/ ہے، نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے بھی نیل المرام میں آیات احکام کے استیعاب کی کوشش کی ہے، جن کی تعداد ۲۴۸/ ہوتی ہے، قرآن میں آیات احکام عبادات سے متعلق بھی ہیں اور معاملات سے بھی، نیز دیگر شعبۂ حیات سے بھی، شیخ عبدالوہاب خلاف نے عبادات کے علاوہ دوسرے مسائل سے متعلق آیات کی تعداد اس طرح لکھی ہے:

عائلی قوانین (۷۰)

قانون شہریت (۷۰)

احکام جرم وسزا (۳۰۱)

عدالتی قوانین (۱۳)

دستوری قوانین (۱۰)

اقتصادی قوانین (۱۰)

قومی وبین قومی قوانین (۲۵)

(علم اصول الفقہ للخلاف، صفحہ نمبر:۳۲،۳۱)

فقہی احکام کی اہمیت اور عملی زندگی سے اس کے تعلق کی وجہ سے بہت سے اہل علم نے آیات احکام کی تفسیر کا اہتمام کیا ہے، ان میں اہم کتابیں اس طرح ہیں:

احکام القرآن : امام ابوبکر حصاص رازی،متوفی:۳۷۰ھ

احکام القرآن : ابوبکر احمد بیہقی،متوفی:۴۵۸ھ

یہ دراصل امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی افادات ہیں جس کوعلامہ بیہقی نے یکجا اور مرتب کیا ہے۔

احکام القرآن :ابوبکر محمد بن عربی،متوفی:۵۴۳ ھ

تفسیرات احمدیہ: ملااحمد جیون، متوفی:۱۱۳۰ ھ

نیل المرام من تفسیر آیات الاحکام:نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ، متوفی:۱۳۰۷ ھ

احکام القرآن: مولانا ظفراحمد عثمانی، مولانا ادریس کاندھلوی اور مفتی شفیع صاحب عثمانی کی مشترکہ کوششوں سے مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیرنگرانی مرتب ہوا ہے، جو اپنے موضوع پر بہت مفصل اور جامع مجموعہ ہے۔

روائع البیان فی تفسیر آیات الاحکام من القرآن :شیخ محمدعلی صابونی رحمہ اللہ

تفسیر آیات الاحکام: محمدعلی السائس، عبداللطیف السبکی، محمد ابراہیم محمد کرشون

ان کے علاوہ علامہ ابوعبداللہ محمد قرطبی متوفی:۶۷۰ھ کی الجامع لاحکام القرآن اور مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی متوفی:۱۲۲۵ ھ کی التفسیر المظہری اگرچہ پورے قرآن کی تفسیر ہے، لیکن اس پر فقہی رنگ غالب ہے اور قرآن کے فقہی احکام پر بہت شرح وبسط کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔


2. سنت رسول

احکامِ شرعیہ کا دوسرا ماخذ سنت رسول ہے، سنت رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، آپﷺ کا عمل نیز وہ قول وفعل ہے جو آپ کے سامنے آیاہو اور آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی ہو،سنت رسول اصل میں قرآن مجید کی تفسیر وتوضیح ہےاسی لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں تین طرح کی ہیں، یاتو قرآن میں جو حکم ہے وہی سنت رسول میں بھی ہے، یاقرآن میں کوئی حکم مجمل ہے اور سنت نے اس کو واضح کردیا ہے، یا قرآن مجید اس سلسلہ میں خاموش ہے اور سنت کے ذریعہ اس صورت کا حکم معلوم ہوتا ہے۔(الرسالہ:۹۱،۹۲، باب ماابان اللہ لخلقہ من فرضہ علی رسولہ اتباع اوحی اللہ)لیکن غور کیا جائے تو یہ صورت بھی قرآن مجید کے بتائے ہوئے اصولوں کے دائرہ میں آتی ہے، گویا قرآن نے ایک اصول بیان کردیا اور سنت کے ذریعہ اس کی تطبیق اور عملی صورتگری سامنے آگئی۔

حقیقت یہ ہے کہ فقہی اعتبارسے احادیث کی بڑی اہمیت ہے، قرآن مجید ایک دستوری کتاب ہے، جس میں اصولی احکام دیئے گئے ہیں اور دین کے حدودِاربعہ کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے، حدیث کے ذریعہ ان قرآنی احکام کی عملی تصویر سامنے آجاتی ہے اوراس طرح اہل ہوس کے لیے قرآن کے معنوں میں الٹ پھیر، تحریف اور من چاہی تاویل کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔چنانچہ جہاں حفاظ اورقاریوں کے ذریعہ الفاظِ قرآن کی حفاظت کا غیبی انتظام ہواہے، وہیں معنوی تحریف اور آمیزش سے حفاظت کا سروسامان حدیث کے ذریعہ انجام پایا ہے، اس طرح احادیث قرآن مجید کی معنوی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔

جو احادیث احکامِ فقہیہ سے متعلق ہیں ان کی تعداد تقریباً سات آٹھ ہزار ہے، کتبِ احادیث میں چونکہ مختلف سندوں سے آنے والی روایتوں کو مختلف حدیث شمار کرلیا جاتا ہے اس لیے ان کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی ہے، لیکن مکررات کو چھوڑکر اصل مضمون اور متن کے اعتبارسے احادیثِ احکام کی تعداد سات آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں۔احادیثِ احکام سے متعلق کتابیں مختلف طرح کی ہیں، ایک وہ جس میں مختلف مضامین کی احادیث ہیں لیکن احادیثِ احکام کی بھی ایک بڑی تعداد اس میں شامل ہے، چاہے اس کی ترتیب فقہی ہو یا نہ ہو، فقہی ترتیب پر جو کتابیں ہوں ان کو سنن کہا جاتا ہے۔

جوکتب احادیث فقہی ترتیب پر جمع کی گئی ہیں، ان میں سے اہم کتابیں یہ ہیں:

موطا امام مالک : امام مالک بن انس متوفی:۱۷۹ ھ

موطا امام محمد : امام محمد بن حسن شیبانی متوفی:۱۸۹ ھ

کتاب الآثار : امام یعقوب ابو یوسف متوفی:۱۸۲ ھ

کتاب الآثار : امام محمد بن حسن شیبانی متوفی:۱۸۹ ھ

مصنف ابن ابی شیبہ : ابوبکر عبداللہ بن محمد ابی شیبہ کوفی متوفی:۲۳۵ ھ

مصنف عبدالرزاق : ابوبکر عبدالرزاق صنعانی متوفی:۲۱۱ ھ

سنن ترمذی : امام محمد بن عیسی بن سورہ ترمذی متوفی:۲۷۹ ھ

سنن ابوداؤد : ابوداؤد سلیمان سجستانی متوفی:۲۷۵ ھ

سنن نسائی : ابوعبدالرحمن احمد بن علی نسائی متوفی:۲۱۵ ھ

سنن دارمی : امام عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی متوفی:۲۵۵ ھ

سنن ابن ماجہ : امام محمد بن زید بن ماجہ قزوینی متوفی:۲۷۳ ھ

سنن دارقطنی : علی بن عمردار قطنی متوفی:۲۸۵ ھ

سنن بیہقی : حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی:۴۵۸ ھ

ایسی کتابیں جوسنن نہیں ہیں لیکن ان میں احکام سے متعلق حدیثیں بکثرت ہیں وہ بہت ہیں لیکن ان میں مشہور اور اہم کتابیں یہ ہیں:

بخاری شریف : امام محمد بن اسماعیل متوفی:۲۵۶ ھ

مسند ابوداؤد : طیالسی امام سلیمان بن داؤد طیالسی متوفی:۲۰۴ ھ

مسلم شریف : امام مسلم بن حجاج نیشاپوری متوفی:۲۶۱ ھ

المعجم الکبیر : امام ابوقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی:۳۶۰ ھ

صحیح ابن خزیمہ : امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ متوفی:۳۱۱ ھ

المعجم الاوسط : امام ابوقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی:۳۶۰ ھ

مسندامام احمد بن حنبل : امام احمد بن محمد بن حنبل متوفی:۲۴۱ ھ

المعجم الصغیر : امام ابوقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی:۳۶۰ ھ

مسندبزار : امام ابوبکر احمد بن عمروبن بزار متوفی:۲۹۲ ھ

مستدرک حاکم : امام ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی:۴۰۵ ھ

کچھ کتابیں وہ ہیں جن کے مصنفین نے کتب احادیث کی روایات کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور ان میں احادیث احکام کا بہت بڑا حصہ آگیا ہے؛ اس سلسلہ میں درج ذیل کتابیں خاص طورسے قابل ذکر ہیں:


جامع الاصول من احادیث الرسول:


یہ کتاب علامہ ابن اثیر کی ہے، جس میں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور مؤطا امام مالک کی احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:


یہ حافظ علی بن ابی بکر ہیتمی کی تالیف ہے، جس میں انہوں نے مسنداحمد، مسند ابویعلی موصلی، مسندبزار اور طبرانی کی تینوں معاجم کی ان زائد احادیث کو جمع کیا ہے جو صحاح ستہ میں موجود نہیں ہیں اور ضعیف احادیث کے درجہ اور مقام کو واضح کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے، اس طرح اس میں احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا ہے۔

الجامع الصغیر من احادیث البشیرالنذیر:


یہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف ہے، جس میں انہوں نے (۱۰۱۳۱) حدیثیں سند کو حذف کرکے حروفِ تہجی کی ترتیب سے جمع کی ہیں اور ہرحدیث پر حدیث کے درجہ کی طرف رمزیہ الفاظ کے ذریعہ اشارہ بھی کیا ہے، پھر جو حدیثیں اس میں باقی رہ گئیں ان کو الفتح الکبیر کے نام سے جمع فرمایا، البتہ اس میں درجہ کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے، واقعہ ہے کہ ہرطرح کی حدیثوں کا یہ بہت بڑا ذخیرہ ہے؛ پھراس کی بنیادپر علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع الکبیر مرتب کی، جس میں قولی احادیث کی ترتیب حروفِ تہجی پر ہے اور فعلی احادیث کی ترتیب صحابہ کے نام پر ہے۔

جمع الفوائد بن جامع الاصول ومجمع الزوائد:


یہ محمد بن سلیمان مغربی کی تالیف ہے، جنہوں نے علامہ ابن اثیر کی جامع الاصول اورعلامہ ہیتمی کی مجمع الزوائد کی احادیث کو جمع کرنے کے علاوہ سنن ابن ماجہ اور سنن دارمی کی ان زائد احادیث کوبھی شامل کرلیا ہے جو صحاح ستہ میں موجود نہیں ہیں، اس کتاب میں حدیث کی چودہ اہم کتابوں کی احادیث یکجا ہوگئی ہیں اور اس طرح یہ کتاب احادیثِ نبوی کا عظیم انسائیکلو پیڈیا بن گئی ہے۔

کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال:


یہ علامہ علاء الدین علی متقی ہندی کی تالیف ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پورے ذخیرۂ احادیث کو موضوعات کی ترتیب پر مرتب فرمایا ہے، یہ کتاب اس وقت احادیث کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جو ۴۶۶۲۴/ احادیث وآثارپرمشتمل ہے۔

بعدکے اہلِ علم نے کتب احادیث سے سندکو حذف کرکے صرف احادیث احکام کو جمع کرنے کی بھی سعی کی ہے، اس سلسلے میں درج ذیل کتب اہم ہیں:

الاحکام : عبدالغنی مقدسی

عمدۃ الاحکام من سیدالانام : عبدالغنی مقدسی

الالمام لاحاد یث الاحکام : ابن دقیق العبد

المنتقی فی الاحکام : عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی

بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام : حافظ ابن حجر عسقلانی

آثارالسنن : علامہ ظہیراحسن شوق نیمومی

اعلاء السنن : مولانا ظفراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ

اس کے علاوہ احادیث احکام کا بہت بڑا حصہ ان کتابوں میں بھی آگیا ہے جن میں کسی فقہی کتاب کی مرویات کی تخریج کی گئی ہے، اس سلسلہ میں یہ کتابیں نہایت اہم اور احادیث احکام سے متعلق فنی مباحث کی جامع ہیں: “نصب الرایہ لاحادیث الھدایہ، الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ، التلخیص الحبیر، البدرالمنیر فی تخریج الاحادیث والآثار الواقعۃ فی الشرح الکبیر”۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ احکامِ شرعیہ میں عبادات اور حدود کا غالب ترین حصہ احادیث ہی پر مبنی ہے، اس لیے فقہ اسلامی کے مصادر میں حدیث کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس سلسلہ میں محدثین نے جو سعی بے پایاں کی ہے، مذاہب کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی “فَجَزَاھُمُ اللہُ خَیْرالْجَزَاء” مزید تفصیل کے لیے دیکھئے “حدیث کی تشریعی حیثیت” “حدیث رسول اور فقہ اسلامی” اور”ضعیفِ حدیث اور قوت استدلال”۔

3. آثارِصحابہ


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دین کو براہ راست حضرات صحابہ نے حاصل کیا ہے اور انہی کے واسطہ سے یہ دین پوری امت تک پہنچا ہے، صحابہ سب کے سب عادل، معتبر، خداترس اور مخلص تھے لہٰذا ان کے اقوال اور آراء کی خاص اہمیت ہے، بعض مسائل تو ایسے ہیں جن میں رائے اور اجتھاد کی گنجائش ہے اور بعض مسائل وہ ہیں جسے کوئی شخص اپنے اجتھاد سے اخذ نہیں کرسکتا، بلکہ لازماً ان کی بنیاد قرآن وحدیث ہی پرہوگی، اس دوسرے قسم کے مسائل میں صحابہ کی رائے احناف ومالکیہ کے نزدیک حجت اور دلیل ہے، اس لیے کہ ان کی رائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کسی بات پرہی مبنی ہوگی، گویا یہ بھی حدیث ہی کے درجہ میں ہے، آثارصحابہ کے نقل کرنے کا زیادہ اہتمام مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق میں کیا گیا ہے اور موجودہ دورمیں اس سلسلہ کی بہت قابلِ قدر خدمت ابوعبداللہ سید بن کسروری نے کی ہے کہ انہوں نے اپنے علم ودانست کے مطابق تمام آثارصحابہ کو “موسوعہ آثارالصحابہ” کے نام سے تین جلدوں میں جمع کردیا ہے، جس میں ۹۱۹۵ آثار ہیں، آثارصحابہ حدیث ہی میں داخل ہیں، آثارصحابہ کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے “فقہ اسلامی میں اقوال صحابہ کا مقام”۔

4. شرائع ماقبل

تمام پیغمبروں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو دین بھیجا ہے وہ ایک ہی دین ہے، اعتقادی اور اخلاقی احکام میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے؛ اس لیے کہ اس کا سرچشمہ ایک ہی ذات ہے اور اگر عقیدہ واخلاق کی ہدایت میں کوئی فرق پایا جاتا ہوتو یقینی طورپر یہ انسانی تحریفات اور آمیزش کا نتیجہ ہے؛ البتہ “عملی زندگی” کے احکام جو فقہ کا اصل موضوع ہے، مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں؛ کیونکہ انسانی تمدن کے مرحلہ بہ مرحلہ ارتقاء کا تقاضہ یہی تھا، پہلی قسم کے احکام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم وموسی (علیہمالسلام) کو (مع ان سب کے اتباع کے) حکم دیا تھا (اور ان کی امم کو یہ کہا تھا) کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ (الشوریٰ: ۱۳)

اور دوسری قسم کے احکام کے بارے میں ارشاد ہے:”لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا”۔ تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے ایک (خاص) شریعت اور راہ رکھی ہے۔ (المائدہ:۴۸)

اس پس منظرمیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ شریعتوں کے احکام کی کیا حیثیت ہوگی، اس سلسلہ میں اہل علم نے جو گفتگو کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلی کتابوں میں جو احکام آئے ہیں وہ چار طرح کے ہیں:

اول وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے، بالاتفاق اس امت میں وہ احکام قابل عمل نہیں ہیں۔

دوسرے وہ احکام جن کا قرآن وحدیث میں ذکر آیا ہے اور یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ یہ حکم سابقہ امت کے لیے تھا، اس امت میں یہ حکم باقی نہیں بلکہ منسوخ ہوچکا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ امت محمدیہ میں اس حکم پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

تیسرے وہ احکام ہیں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں اور یہ بھی بتادیا گیا کہ یہ احکام اس امت کے لیے بھی ہیں، بالاتفاق اس شریعت میں بھی ان احکام پر عمل کیا جائے گا۔

چوتھے وہ احکام ہیں جن کو قرآن وحدیث نے پچھلی قوموں کی نسبت سے بیان کیا ہے لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں دونظریہ ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اس امت کے لیے بھی یہ حکم باقی ہے، احناف اسی کے قائل ہیں اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس امت کے لیے یہ حکم باقی نہیں (الاحکام للآمدی) لیکن یہ اختلاف عملی اعتبار سے زیادہ اہم نہیں ہے؛ کیونکہ عملاً شایدہی کسی مسئلہ میں اس کی وجہ سے اختلاف رہاہو۔

٭غیرمنصوص مصادر٭

اجماع

جن شرعی دلائل کا ماخذ انسانی اجتہادہے ان میں سب سے قوی اجماع ہے‘ اجماع سے مراد کسی رائے پر رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد امت کے مجتہدین کا متفق ہوجانا کیونکہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتی گویا امت کے افراد کے انفرادی اجتیاد میں تو خطا کا احتمال ہے، لیکن اجتماعی حیثیت میں وہ معصوم ہیں اور کسی غلط بات پر متفق نہیں ہوسکتے۔

اجماعی احکام میں کچھ تو وہ ہیں جن کی بنیاد احادیث پرہے، یعنی ایک حکم خبرواحد سے ثابت ہوا اور بعدکو تمام فقہاء اس پر متفق ہوگئے، اس طرح اس مسئلہ پر اجماع منعقد ہوگیا اور اجماع کی وجہ سے اس حکم نے قطعی اور یقینی حکم کا درجہ حاصل کرلیا اور کچھ احکام وہ ہیں جن کی بنیاد قیاس ومصلحت پرہے اور اس میں اجتہاد اور ایک سے زیادہ نقطۂ نظر کی گنجائش ہے، اس طرح کے احکام میں زیادہ تر اجماع کاانعقاد عہدِصحابہ میں ہواہے، کیونکہ اس عہدمیں تمام مجتہدین کی آراء سے واقف ہونا آسان تھا، خاص کر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ نے اجتماعی غوروفکر اور شورائی اجتہاد کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا، اس لیے ان کے عہدمیں نسبتاً زیادہ اجماع منعقد ہوئے۔

اجماعی احکام پر اہم تالیف علامہ ابن منذر متوفی:۳۱۸ ھ کی “کتاب الاجماع” ہے، جس میں ۷۶۵ اجماعی مسائل کا ذکر آیا ہے، اس سلسلہ میں ایک اہم خدمت اس دورمیں سعدی ابوحبیب نے کی ہے اور “موسوعۃ الاجماع” کے نام سے تمام اجماعی احکام کا احاطہ کرنے کی سعی کی ہے، اس کتاب میں ۱۳۰۴ اجماعی مسائل ذکر کئے گئے ہیں،اجماع کے بارے میں مزید تفصیل کے لیے دیکھئے کتاب “اجماع امت، فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ”۔


قیاس

غیرمنصوص مصادرمیں سے ایک قیاس بھی ہے، قیاس کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے برابر کرنے کے ہیں، کسی مسئلہ کے سلسلے میں قرآن وحدیث کی صراحت موجود نہ ہو لیکن قرآن وحدیث میں اس سے ملتاجلتا کوئی مسئلہ موجودہو اور اس مسئلہ میں اللہ اوررسول کے حکم کی جو وجہ ہوسکتی ہو وہ اس مسئلہ میں بھی موجود ہوچنانچہ یہاں بھی وہی حکم لگادیا جائے، اس کو قیاس کہتے ہیں، غور کیا جائے تو قیاس قرآن وحدیث کے مقابلہ میں دی جانے والی رائے نہیں ہےبلکہ قیاس کے ذریعہ قرآن وحدیث کے حکم کے دائرہ کو وسیع کیا جاتا ہے۔

جن مسائل کی بابت نص موجودنہ ہو ان میں قیاس پر عمل کیا جائے گا، یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے، شرعی دلیلوں میں قیاس کوچوتھے درجہ پر رکھا گیا ہے لیکن حدیث وقیاس یہ دونوں ایسے مصادر ہیں جن سے بیشتر فقہی احکام متعلق ہیں اور معاملات کے احکام کی بنیاد تو بڑی حدتک قیاس ہی پرہے اس لحاظ سے یہ نہایت اہم ماخذ ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے کتاب “قیاس، حقیقت وضرورت”۔

متفرق مصادر:

ان دونوں کے علاوہ کچھ اور غیرمنصوص مصادرہیں جن سے وقتاً فوقتاً فقہ اسلامی میں مدد لی جاتی ہے، مثلاً:

استحسان:

نص، اجماع، ضرورت ومصلحت، عرف وعادت اور غیرظاہر لیکن نسبتاً قوی قیاس کے مقابلہ میں ظاہری قیاس کو چھوڑدینے کا نام استحسان ہے۔

مصالح مرسلہ:

کتاب وسنت میں جن مصلحتوں کے معتبر ہونے کی صراحت ہے اور نہ نامعتبر ہونے کی، ان کو مصالح مرسلہ کہتے ہیں؛ اگر یہ شریعت کے مزاج اور عمومی ہدایات سے ہم آہنگ ہوں تو معتبر ہے۔

استصحاب:

گذشتہ زمانہ میں کسی امرکے ثابت ہونے کی وجہ سے موجودہ یا آئندہ میں بھی اس کو موجودہی مانا جائے تو اس کو اصطلاح میں استصحاب کہتے ہیں۔

عرف:

لوگ زندگی کے امور اور معاملات میں جس قول، فعل یا ترک فعل کے عادی ہوگئے ہوں ان کو عرف وعادت کہتے ہیں، عرف کا بدلے ہوئے حالات کے پس منظرمیں احکام کی تبدیلی سے گہرا تعلق ہے۔

ذریعہ:

ذریعہ کے معنی وسیلہ کے ہیں؛ لہٰذا اگر کوئی امر کسی واجب یا مستحب کا ذریعہ بنتاہو تو وہ ذریعہ مطلوب ہوگا اور اس کو فتح ذریعہ کہتے ہیں اور حرام ومکروہ کا ذریعہ بنتاہو تو وہ مذموم ہوگا، اس کو سدِذریعہ کہتے ہیں، پھر جو جس درجہ کا ذریعہ ہوگا اس نسبت سے اس کا حکم ہوگا۔