انسان کا ایک نفسیاتی مسئلہ یہ ہے کہ جو شے اسے بغیر محنت حاصل ہوجائے تو اسے بالعموم اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح متعلقہ علوم میں عدم مہارت بھی بسا اوقات انسان میں ناقدری کا یہ رویہ پیدا کردیتی ہے۔ ایسی ہی ناقدری کی ایک مثال یہ کہنا ہے کہ فقہائے کرام نے اثباتی اور سلبی جہات میں شرعی احکامات کے فرض اور حرم کے درمیان جو اس قدر ذیلی درجات ذکر کیے ہیں نہ صرف یہ کہ وہ شرعا غیر مطلوب ہیں بلکہ یہ ان کی اپنی اختراع ہے (گویا فقہاء شارع بننے کا شوق پورا کرتے رہے)۔ اس دعوے کے ان پہلوؤں پر تو بات کرنا ہی ضیاع اوقات ہے کہ ان کا غلط معلوم ہونا بدیہی بات ہے، یہاں ہمارا مقصود یہ دکھانا ہے کہ احکامات کی اس درجہ بندی اور اجتماعی پالیسی سازی میں نہایت گہرا تعلق ہے نیز یہ کہ اس درجہ بندی کے بغیر اجتماعی پالیسی سازی ایک معمہ بن کر رہ جاتی ہے۔ یہاں جدید پالیسی سازی کے علوم کے تناظر میں اس بات کی اختصار کے ساتھ وضاحت کی جاتی ہے۔
ویلفئیر اکنامکس اور پبلک چوائس تھیوری دونوں کا دائرہ کار ریاستی پالیسی سازی ہے۔ دونوں کا مقصد ان بنیادوں کی نشاندہی کرنا ہے جن کے ذریعے یہ طے کیا جاسکے کہ متنوع و بالعموم متضاد انفرادی و معاشرتی ترجیحات و مقاصد میں سے ریاست کو کونسے مقاصد کو فروغ دینا چاہیے۔ مگر اس ضمن میں ان علوم کے ماہرین کو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ آخر ان مقاصد میں ترجیح کا پیمانہ کس بنیاد پر قائم کیا جائے؟ یہ سوال بنیادی طور پر تین امور کے گرد گھومتا ہے
1۔ مقاصد کے تعین کا اصول کیا ہے؟
2۔ طے شدہ مقاصد کے مابین درجہ بندی کس بنیاد پر کی جائے؟
3۔ان درجہ بندی شدہ مقاصد میں سے کون کس قدر زیادہ و کم اہمیت کا حامل ہے؟
سوشل سائنسز کے جدید علمی ڈسکورس میں ریاست کی مداخلت کے جواز و عدم جواز کا تعلق بہت حد تک ان سوالات کے جواب پر مبنی ہے۔ ان علوم کے ماہرین کے خیالات کا مطالعہ کرنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کے پاس ان سوالوں کا جواب دینے کا کوئی لگا بندھا طریقہ نہیں اور بالاخر فیصلہ ”عوامی شعور“ کے نام پر جسٹیفائی کیا جاتا ہے۔ مگر حقیقتا یہ فیصلے عوامی شعور نہیں بلکہ مخصوص علمی ڈسکورس کے حاملین کی ترجیحات کا اظہار ہوتے ہیں ( اس کی تفصیلات میں جانا یہاں ممکن و مقصود نہیں)۔ جب تک ان سوالوں کا جواب طے نہ کیا جائے کہ کیا اہم ہے اور کس قدر، اس وقت تک اجتماعی دائرے میں پالیسی سازی (یعنی کیا کرنا پہلے ضروری ہے اور کس قدر) محض مخصوص افراد کی خواہشات کو فروغ دینے کے ہم معنی ہوتا ہے جسے معاشروں پر مسلط کردینے کے بعد پھر ذرائع ابلاغ اور وسائل کے ذریعے ان پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کی جاتی رہتی ہے۔
انسانی زندگی و اعمال میں ترجیحات کے مسئلے کا تعین، یہ شرع کا ایک بنیادی موضوع ہے۔ فقہ کے ڈسکورس میں اسے احکامات کی درجہ بندی کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ وہ اصول وضع کیے ہیں جن کے ذریعے محدود نصوص کی روشنی میں بے شمار انسانی اعمال کو فرض سے لے کر حرام کے مابین مختلف درجات میں تقسیم کرنا ممکن ہوتا ہے۔ یہ درجہ بندی درحقیقت انہی سوالوں کا جواب ہوتا ہے کہ ”کیا اہم ہے اور کس قدر نیز اس کا تعین کیسے کیا جائے؟“
اب سوچیے کہ یہ کس قدر سادگی اور نادانی کی بات ہے کہ بجائے اس علمی ورثے پر فخر کیا جائے جو اس سوال کا جواب دینے کا پیچیدہ و منظم نظام فراہم کرتا ہے، اس پر سطحی باتوں کے ذریعے تنقید کرنے کا شوق پورا کیا جارہا ہے۔ بجائے یہ کہ اصول فقہ کے اس قیمتی ذخیرے کو سینے سے لگایا جائے، اپنے چند مزعومہ مبہم اصولوں کی بنیاد پر ان کی ضرورت کے انکار کا اعلان کیا جارہا ہے۔ ایسی سادگی پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے اور بس۔ ہمارے یہ احباب اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کی فکر سادہ ہے، مگر یہ لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ ایک فکر جب تک معاشرے کے ریگولیٹری سیٹ اپ کا حصہ نہ بنے اس میں ایسی اوورسمپلیفیکیشنز کا ہونا فطری بات ہے۔ جب فکر کو زندہ انسانی معاشروں میں قانونی معاملات پیش آتے ہیں تب یا تو اسکی سادگی خود بخود پیچیدگی میں بدلنا شروع ہو جاتی ہے اور اگر اس میں پیچیدگی قبول کرنے کی یہ صلاحیت نہ ہو تو فکر متروک ہو جاتی ہے۔ انسانی معاملات اور معاشرتی زندگی اتنی سادہ نہیں کہ انہیں بس دو کیٹیگریز میں جمع کرنا ممکن ہو۔