کیاآئمہ مجتہدین کافروعی مسائل میں اختلاف تفرقہ بازی ہے؟

اختلاف کی تعریف :

خلاف کی لغوی تعریف ہے ، الاختلاف والمخالفة ، یعنی ایک شخص حال یا قول میں دوسرے کے مخالف رائے ومَنہج اختیارکرے ۔اورخلاف کی اصطلاحی تعریف ہے ، کہ کسی کے ساتھ قول یا رائے یا حالت یا هيئت یا مُوقف میں مخالف کرنا ۔یعنی خلاف یہ ہے کہ طرفين میں سے ہرایک دوسرے کے مخالف ہو

اختلاف کے اقسام :

علماء کرام نے اسلام میں رد وقبول کے اعتبار سے اختلاف کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں ، پہلی قسم ہے اختلاف تَضاد ، دوسری قسم ہے اختلاف تَنَوُّع

1. اختلاف تضاد(Contradiction):

تَضَاد لغت میں ضد کوکہتے ہیں جمع اس کی أضداد آتی ہے اور لغت میں ضِدُّ الشَيء کسی چیزکے مخالف ومُبائن اورالٹ چیزکوکہا جاتا ہے اور دو مَتضَاد چیزیں وه ہوتی ہیں جوآپس میں جمع نہیں ہوسکتے جیسے دن اور رات یعنی دو چیزوں میں اختلاف تضَاد کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا اجتماع ناممکن ہو ، بعض علماء نے اختلاف تَضَاد کی تعریف ألقَولان المُتنَافِيَان سے کی ہے ، اور پهر یہ اختلاف اصول میں ہوتا ہے اور یقینا اهل سنت کے مابین اصول دین میں کوئ اختلاف نہیں ہے لہذا یہ اختلاف مذموم و ناجائز ہے ۔اس اختلاف کی مثال اہل سنت والجماعت کا اختلاف فِرَق باطلہ وضالہ وأهل البدع کے ساته اصول دین میں ہے ۔

2. اختلاف تَنَوُّع (variety) :

تَنَوُّع کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز متعدد ہو لیکن حقیقت میں متفق ہو، یعنی ہروه اختلاف جس میں کئی وجوہات جائز ہوں ، اوراس اختلاف میں مُنافات نہیں ہوتا یعنی ایک قول دوسرے کی نفی وإبطال نہیں کرتا بلکہ ہرقول دوسرے کا ایک نوع ہوتا ہے ضد نہیں ہوتا ، اوراس میں تمام اقوال صحیح ہوتے ہیں ، اور پهر یہ کئی قسم پرہوتا ہے مثلا ایک یہ کہ دونوں فعل اوردونوں قول جائز وحق ہوں جیسا کہ قرآن کی قرأت کہ صحابہ کے مابین ان میں اختلاف ہوا ،ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قراءت کرتے ہوئے سنا حالانکہ میں نے نبی ﷺ سے اس کے برخلاف پڑهتے ہوئے سنا تها یعنی جو قراءت یہ آدمی پڑھ رہا تها نبی ﷺ سے میں نے اس طرح نہیں سنا لہذا میں نے اس کو نبی کی خدمت میں حاضرکیا اورمیں نے نبی ﷺ کو اس اختلاف کی خبردی ، پس میں نے نبی ﷺ کے چہره ( مبارک ) پرناپسندیدگی کے آثار دیکهے ، اورنبی ﷺ نے فرمایا تم دونوں درست ہو، یعنی قراءت کی روایت میں ۔( رواه البخاري ) علامہ طيبي رحمه الله فرماتے ہیں کہ وه آدمی اپنی قراءت میں درست ہے اور ابن مسعود رضی الله عنہ نے جو نبی صلى الله عليه وسلم سے سنا وه اس میں درست ہے

اسی طرح دو مختلف معانی کسی قول سے لیئے جائیں لیکن دونوں متضاد نہ ہوں بلکہ دونوں قول باوجود مختلف ہونے کے صحیح ہوں اوریہ اکثراختلافی مسائل میں موجود ہے اوراس طرح کا اختلاف خود رسول الله صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں واقع ہوا ہے اورآپ نے دونوں اقوال کو درست قراردیا ، مثال اس کی یہ ہے : غزوة الأحزاب : کے بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ « من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يصلين العصر إلا في بني قريظة » (رواه البخاري ومسلم وغيرهما). یعنی جوشخص الله پراورآخرت کے دن پرایمان رکهتا ہے وه عصرکی نمازنہ پڑهے مگر بَنی قریظہ میں ، اب جب غروب کا وقت قریب ہوگیا تو رسول الله ﷺ کے اس قول مبارک کے سمجهنے میں صحابہ کرام کے مابین اختلاف واقع ہوگیا ، اب بعض صحابہ نے یہ سمجها کہ مراد اس قول سے سرعت اورجلدی ہے اوراگرنمازکا وقت راستے میں آجائے تو راستے میں پڑھ لی جائے لہذا انهوں نے عصرکی نماز راستے میں ہی پڑھ لی ، لیکن بعض صحابہ نے راستے میں نماز نہیں پڑهی اوراس قول کا مطلب یہ سمجها کہ ہم عصرکی نماز بني قريظة میں ہی پڑهیں گے اگرچہ غروب کے بعد ہی کیوں نہ ہو ، رسولُ الله صلى الله عليه وسلم نے کسی ایک پر بهی انکار نہیں فرمایا بلکہ دونوں کو صحیح قرار دیا ، اوراس طرح کے اختلاف میں دونوں فریق بلاشک مُصیب اوردرست ہیں ۔اسی قسم کا اختلاف مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین بهی بکثرت موجود ہے، کوئ بھی عقل مند شخص مذکوره بالا حدیث پڑهنے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ معاذالله یہ اختلاف تفرقہ بازی ہے ۔

یادرہے کہ تمام فروعی اختلافی مسائل اسی قسم کے تحت آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اختلاف جائز ومقبول ومحمود ہے اورائمہ اربعہ کا اختلاف اذان واقامت ، واستفتاح ، وتشهد ، وغیره کے الفاظ میں اسی طرح صلاة الخوف ، وتكبيرات العيد، وتكبيرات الجنازة ، وفاتحة خلف الامام ، رفع یدین وعدم رفع یدین ، وآمین بالجهر وغیره مسائل میں اختلاف اسی قبیل سے ہیں الخ

اس فروعی اختلاف کے باوجود سلف صالحین وعلماء اسلام آپس میں انتہاء درجہ محبت وعقیدت رکهتے تهے اورایک دوسرے کو گمراه اورغلط وباطل نہیں کہتے تهے اس بارے میں سلف صالحین کی سیرتوں میں بے شمار واقعات ومثالیں موجود ہیں ، میں صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں إمام مالك بن أنس رحمه الله نے أهل المدينه یعنی أولاد صحابه سے علم حاصل کیا اوراسی علم کواپنی کتاب مُوطأ میں جمع کیا ، إمام الشافعي رحمه الله نے إمام مالك بن أنس رحمه الله سے شرف تلمذ حاصل کیا اوران سے علم حاصل کیا اوران کی احادیث کو روایت کیا ، لیکن اس سب کچھ کے باوجود إمام الشافعي رحمه الله نے بہت سارے اجتہادی مسائل میں إمام مالك بن أنس رحمه الله کی مخالفت کی ، لیکن کبهی بهی إمام مالك رحمه الله کے اجتہاد کوغلط نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ ، أنا مجتهد وهو مجتهد ولكل مجتهد نصيب ، یعنی میں بهی مجتہد ہوں اور إمام مالك بهی مجتهد ہے اورہرمجتهد کا اپنا نصیب وحصہ ہے ۔

اور جب إمام الشافعي رحمہ الله سے یہ پوچھا گیا کہ کیا ہم إمام مالك کے مُقلد کے پیچهے نماز پڑھ سکتے ہیں ؟؟ تو إمام الشافعي رحمه الله غصہ ہوئے اور فرمایا کہ ألستُ أصلي خلف مالك ؟ کیا میں إمام مالك کے پیچهے نماز نہیں پڑهتا ؟ یعنی إمام مالك تو میرا شیخ واستاذ ہے لہذا میں ان کے پیچهے نماز پڑهتا ہوں اگرچہ میں نے بعض أمور اجتہادیہ میں ان کی مخالفت کی ہے ، مثلا إمام مالك رحمه الله فاتحه اور سورت میں بسم الله جهرا (اونچی آوازسے ) پڑهنے کے قائل نہیں ہیں ، لیکن إمام الشافعي رحمه الله بسم الله جهرا پڑهنے کے قائل ہیں وغیره ذالک اور یہی حال دیگر تمام ائمہ مجتهدین کا ہے ، رحمهم الله تعالی

حضرت شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله اپنی کتاب حجة الله البالغة 1/295،296 میں اختلاف الصحابة في الأحكام كثير عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ صحابہ تابعین اوران کے بعد کے علماء میں بعض بسم الله پڑهتے تهے اور بعض نہیں پڑهتے تهے ، اوربعض بسم الله (نمازمیں) جهرا پڑهتے تهے اور بعض جهرا نہیں پڑهتے تهے ، اور بعض فجرکی نمازمیں قنوت پڑهتے تهے اور بعض نہیں پڑهتے تهے ، اور بعض حجامت ( سینگی لگانے ) اورنکسیر اورقے کے بعد وضوء کرتے تهے اور بعض نہیں کرتے تهے ، اور بعض مَس ذكر اور عورت کو شہوت کے ساتهہ چهونے کے بعد وضوء کرتے اور بعض نہیں کرتے تهے ، اوربعض آگ سے پکی ہوئ چیز کهانے کے بعد وضوء کرتے تهےاور بعض نہیں کرتے تهے ، اوربعض اونٹ کا گوشت کهانے کے بعد وضوء کرتے تهےاور بعض نہیں کرتے تهے ، پهر حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله نے فرمایا کہ ائمہ کا یہ اختلاف اندهی تعصب کی وجہ سے نہیں تها ( بلکہ شرعی دلیل کی بنیاد پرتها ) لہذا باوجود اس اختلاف وه ایک دوسرے پیچهے نمازپڑهتے تهے جیسے امام أبو حنيفة اوران کے أصحاب اورامام شافعي وغيرهم رضي الله عنهم مدینہ کے مالكي مذهب کے ائمہ کے پیچهے نمازپڑهتے تهے اگرچہ وه نماز میں بسم الله سراً اور جهراً نہیں پڑهتے . اور هارون الرشید نے سینگی لگانے کے بعد نماز پڑهائ اور الإمام أبو يوسف حنفی نے ان کی امامت میں نماز پڑهی اورنماز کا اعاده نہیں کیا ۔ الإمام أحمد بن حنبل سینگی اورنکسیر آنے کے بعد وضوء کے قائل تهے ، ان سے کہا گیا کہ اگرامام کا خون نکل گیا اور وضوء نہیں کیا توآپ اس کے پیچهے نمازپڑهتے ہیں ؟؟ توفرمایا کیوں نہیں میں الإمام مالك وسعيد بن المسيب کے پیچهے نمازپڑهتا ہوں ، اور روایت میں آیا ہے کہ امام الشافعي رحمه الله نے امام أبي حنيفة رحمه الله کی مقبره کے قریب صبح کی نماز پڑهی تو امام أبي حنيفة رحمه الله کی ادب کی وجہ سے نماز میں قنوت نہیں پڑها،اورامام الشافعي رحمه الله نے یہ بهی فرمایا کہ کئ دفعہ ہم أهلُ العراق کے مذهب کو بهی لیتے ہیں الخ

حضرت شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله نے اس باب میں ایک مستقل کتاب بنام ‘ ألانصاف في بيان أسباب الاختلاف ‘ لکهی ہے ، یہ کتاب حجم میں تو اتنی بڑی نہیں ہے لیکن معارف وحقائق سے بهرپور ہے اور تاريخ التشريع اور فقهی اختلافات کے اسباب وعلل وغیره مسائل پر مشتمل انتہائ اہم کتاب ہے اهل علم اس کتاب سے استفاده کرسکتے ہیں ، اسی طرح الإمام السيوطي رحمه اللَّه نے اس باب میں جزيلُ المَواهِب في اختلاف المَذاهب کے نام سے ایک رسالہ لکها ہے ، اوربہت سارے علماء امت نے اس باب میں کتب ورسائل ومستقل ابحاث لکهی ہیں ،

حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله کا یہ کلام پڑهنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ائمہ مجتهدین وسلف صالحین کے مابین فروعی واجتہادی مسائل میں اختلاف شرعی دلیل وبرہان کی بناء پرتها ضد وتعصب وحسد ونفرت کی بنیاد پرنہیں تها ، اورپهراس اختلاف کے باوجود وه ایک دوسرے پر غلط وباطل ہونے کا فتوی نہیں لگاتے بلکہ آپس میں باہم شیر وشکرتهے اورایک دوسرے کے اجتہادات کا احترام کرتے تهے اور آپس میں حد درجہ احترام وعقیدت کا رشتہ رکهتے تهے اورادب واحترام کے اتنے اونچے مقام پرفائز تهے ۔

 أئمہ مجتهدین وفقهاء اسلام کے مابین اختلافات کے چند اہم اسباب

آئمہ مجتہدین میں مسائل فقہ /احکام ومسائل میں اختلاف کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں۔ ہم ان میں سے بنیادی اسباب پر تفصیل پیش کررہے ہیں ۔

1. لغت عربيہ کی أسالیب اورألفاظ کا معانی پردلالت میں اختلاف

عربی زبان کویہ امتیاز ہے کہ اس میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو ایک سے زائد معانی پردلالت کرتے ہیں اور چونکہ قرآن وحدیث کے لیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کا انتخاب کیا ہے “بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ”(الشعراء:۱۹۵) اس لیے اس کی بہت سی نصوص میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہے،عربی زبان دنیا کی سب سے بڑی فصیح وبلیغ و وسیع وأدق ترین زبان ہے عربی زبان میں مُؤوَّل ومُشترك ،حقیقت ومجاز ،عموم وخصوص ، صریح وکنایہ وغیره اصطلاحات بکثرت استعمال ہوتے ہیں اسی بناء پراجتہاد واستنباط بهی مختلف ہوجاتا ہے ، مثلا الله تعالی کا فرمان مبارک ہے وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ (البقرة) اب اس آیت میں ائمہ مجتهدین وفقهاأسلام کا لفظ ‘ قُرُوءٍ ‘ میں اختلاف ہوا ہے قُرُوءٍ جمع ہے قرءَ کی اورلغت میں ‘القرء’ کا نام حيض وطهر ( پاکی ) دونوں کے لیئے استعمال ہوتا ہے ، لیکن یہاں آیت میں کون سا معنی مراد ہے ؟ تو ائمہ مجتهدین کا اس میں اختلاف ہے۔ احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں’ القرء ‘ سے مراد حیض ہے اور شوافع فرماتے ہیں کہ یہاں اس سے مراد طهر ( پاکی ) ہے۔ یاد رہے کہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ اہلِ کوفہ نے “ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ” سے حیض مراد لیا ہے اور حضرت عائشہؓ، ابن عمرؓ اور زید بن ثابتؓ وغیرہ اہلِ حجاز نے “طہر” مراد لیا۔

اسی طرح عورت کو چهونے سے وضوء کے ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کا اختلاف ہے احناف یہ فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء نہیں ٹوٹتا لیکن شوافع فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ، اختلاف کی اصل وجہ اس آیت مبارکہ ۔ أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوّاً غَفُوراً۔ (النساء) میں وارد لفظ ‘ المَسّ ‘ ہے۔ شوافع یہ فرماتے ہیں کہ آیت میں لفظ ‘ مَسّ ‘ یعنی چهُونے سے مراد لغوی معنی ہے یعنی صرف چهُونا، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ، احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ مَسّ سے لغوی حقیقت مُراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ‘المباشَرة الفاحشة’ یعنی انتشارکے ساتھ دونوں کی شرمگاہوں کا ایک دوسرے کوچهُونا مراد ہے ، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء نہیں ٹوٹے گا ، ان دونوں مسائل میں دونوں طرف کے دلائل وقرائن کتب فقہ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں ۔

2. کسی حدیث یا کسی راوي کی صحت وضعف پر اختلاف :

جیسا کہ معلوم ہے کہ قرآن الكريم کے بعد سنت مُطہرة اسلام کی دوسری بڑی بنیاد واساس ہے اور یہ سنت مُطهرة واحادیث مبارکہ ہماری طرف مختلف رجال کے واسطہ سے پہنچے ہیں ، اور یہ سب چونکہ بشر وانسان تهے بشری تقاضوں سے ماوراء نہیں ہے، اورحدیث وسنت ہمارا دین ہے،اس لیئے علماء امت نے انتہائ سختی کے ساتهہ ایسے حضرات کی جانچ پڑتال کی جوحدیث وسنت روایت کرتے ہیں اوراس باب میں انتہائ سخت شرائط واصول وقواعد متعین کیئے اور یہ شرائط واصول چونکہ اجتہادی تهے اس لیئے محدثین کے مابین اس باب میں اختلاف واقع ہوا ۔

چونکہ پایہ ثبوت اور درجہ استخراجِ مسائل وغیرہ سے متعلق ہرمحدث کے اپنے اصول وضوابط ہوتے ہیں توممکن ہے کہ ایک محدث اپنے اصول کے لحاظ سے کسی راوی کی توثیق کردے اور دوسرا اپنے اصول کے اعتبار سے نقد وتحقیق کے بعد اسی راوی کی تضعیف کردے۔اسی طرح بعض ائمہ حدیث کے قبول کرنے میں بعض مسائل میں ایسے شروط لگاتے ہیں جو دوسرے ائمہ نہیں لگاتے۔ اسی طرح حدیث کے انواع واقسام بهی اجتہادی ہیں تو اس وجہ سے بهی اختلاف واقع ہوا مثلا حديث مُرسَل (جس میں تابعي کسی صحابی کے واسطہ کے بغیر کہے : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم)ہے۔ احناف کچھ شرائط کے ساتھ اس کولیتے ہیں اوراس سے استدلال کرتے ہیں جبکہ شوافع اس کو ضعیف سمجهتے ہیں اوراس سے استدلال نہیں کرتے۔بعض حديث مُرسَل کومُطلقا قبول کرتے ہیں اوربعض بالکل قبول نہیں کرتے اوربعض کچھ شرائط کے ساتھ قبول کرتے ہیں ، وغیرذالک ۔

3. أفہام وعُقول وعلوم میں تفاوت کا اختلاف:

جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ ایک طبعي أمر ہے کہ لوگ علم وفہم وعقل و سمجھ کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ، ایسا ہی ائمہ اسلام وعلماء امت کا حال ہے لہذا اسی وجہ سے دلائل شرعیہ سے أحکام مُستنبَط کرنے اوراجتہاد کرنے میں اختلاف واقع ہوا ۔ مجتہد نص کی نوعیت واضح طور پر سمجھ نہ پائے، یانص میں کوئی متحمل لفظ ہو یااس قدر مجمل ہوکہ مراد واضح نہ ہوتی ہو، کبھی مجتہدین کے فہم وفراست میں فرق وتفاوت سے بھی مسائل میں اختلاف ممکن ہے اور اس کی واضح مثال وہ حدیث ہے، جسے صحیحین نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے۔ جس کی تفصیل اوپر گذر چکی (لا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ …) أخرجه البخاري ومسلم ۔ایک جماعت نے عصر کی نماز راستے میں پڑهی اور دوسری جماعت نے بني قريظہ میں پڑهی ، اور دونوں کا اجتہاد صحیح ودرست ہے ۔

اسی طرح رسول اللہﷺ نے چونکہ صرف ایک حج فرمایا، اس موقع پرتمام صحابہؓ مناسکِ حج کا بغور مشاہدہ کررہے تھے، آثار وقرائن کے تحت کسی نے کسی عمل کووجوب پرمحمول کیا، کسی نے استحباب پر،اسی طرح روایات کا اختلاف اور ہرصحابی کے فہم وادراک میں اختلاف نے مختلف ومتضاد روایات کا ایک ذخیرہ جمع کردیا۔چنانچہ ہماری فقہ کی کتابوں میں فقہاء وعلماء کے درمیان اس باب میں جوعلمی وفقہی اختلاف ہے وہ اہلِ علم سے مخفی نہیں۔

4. ظنی نص یعنی غير قطعی نص کا مطلب ومراد سمجهنے میں اختلاف:

یعنی کبهی کسی نص ظنی ( قرآن وسنت کے کسی حکم ) کا معنی پوشیده ہوتا ہے یا تاویل کا احتمال رکهتا ہے تو یہ بهی أئمہ مجتهدین کے مابین اختلاف کا سبب ہے ، اور یاد رہے کہ الله تعالی نے أحكام شرعية کے تمام دلائل کو قطعی نہیں بنایا بلکہ أكثرأحكام شرعية کو ظنی الدلالة بهی بنایا ہے تاکہ لوگوں کے لیئے مُكلفين کے لیئےآسانی اور وسعت حاصل ہو ، اوراجتهاد واستنباط کی صلاحیت رکهنے والے افراد کے لیئے میدان ومَجال وسیع ہو ، اور اس میں أفهام وعُقول میں تفاوت کا احترام و رعایت بهی ہے ۔

5. بعض مَصادرُ التشريع ودلائل كى تعيين میں اختلاف:

یعنی جب کسی مسئلہ میں كتاب الله یا حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم سے کوئ نص قاطع کوئ واضح دلیل موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں أئمہ مجتهدین کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے ،جیسے استحسان ، مصالح المُرسَلة ، قولُ الصحابي ، عمل أهل المدينة ، وغیره ذالک ، ان میں سے بعض کو بعض أئمہ مجتهدین حجت ودلیل مانتے ہیں اور بعض نہیں مانتے ، جیسا کہ کتب أصول الفقہ میں پوری تفصیل موجود ہے ۔

6. مختلف نصوص ودلائل کے مابین جمع وترجیح میں اختلاف:

کبهی ایسا ہوتا ہے کہ ایک نص ثابت ہوتی ہے اورعلماء کا اس کے ثبوت پراتفاق ہوتا ہے لیکن اختلاف واعتراض اس وقت ہوتا ہے جب ظاہری طور پر اس نص کے مُعارض ومُخالف کوئ دوسری صحیح نص موجود ہو ، تو پهر اس صورت میں أئمہ مجتهدین وفقهاأسلام کے مابین جمع وترجیح کے طریقوں میں اختلاف واقع ہوجاتا ہے ، یعنی مثلا دو صحیح دلائل آپس میں بظاہر مُتعارض ہوں توان کے درمیان جمع وترجیح کے مختلف طریقے ہیں ، جیسے عام وخاص، ومُطلق ومُقيد، وناسخ ومَنسوخ ،امر ونہی، وغیره ذالک کی دلالت کا اختلاف ، جیسا کہ کتب أصول الفقه میں پوری تفصیل موجود ہے .

مثلا استنجاء میں استقبالِ قبلہ اور استدبار کی بحث مشہور اور اس کا اختلاف معروف ہے، ایک جماعت کا خیال ہے کہ استقبال واستدبار دونوں جائز ہے، ایک جماعت مطلقاً جواز کی قائل ہے اور بعض نے فرق کیا ہے کہ صحرا وجنگل میں ناجائز اور آبادی میں جائز، یہ اختلاف بھی دراصل روایات کے اختلاف پرمبنی ہے، علامہ ابن رشد قرطبی نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں تین مذاہب ہوئے، بعض نے جمع وتطبیق کی راہ اختیار کی اور حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث کوجنگل وصحراء اور ابن عمرؓ کی روایت کوسترہ پرمحمول کیا، امام شافعیؒ وامام مالکؒ کا مذہب بھی یہی ہے، بعض نے ترجیح کی راہ اختیار کی اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث کوراجح قرار دیا، حضرت عمرؓ، حضرت ابوایوبؓ، امام ابوحنیفہؒ اور دیگر علماء احناف نے یہی مسلک اختیار کیا، بعض نے تعارض کی بناپراصل کی طرف رجوع کیا اور مطلق جواز کا فتویٰ دیا، یہ مسلک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، عروہ بن زبیرؓ، داؤدظاہری اور ربیعۃ الرائےکا ہے۔(بدایۃ المجتہد:۱/۸۷)

تعارض دلائل بھی فقہاء کے درمیان اختلاف کا ایک سبب ہےـ فقہاء ومحدثین کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلہ”وضوء بمس الذکر” ہے، دونوں فریق کے یہاں دلائل اور کبار صحابہؓ کی آراء موجود ہیں، فقہاء کے درمیان اختلاف ونزاع کی بنیاد محض دلائل کا تعارض واختلاف ہے۔(اثرالاختلاف فی القواعد الأصولیۃ:۱۰۲، ڈاکٹرمصطفی سعید الخن)


7. قواعد ومَبادئ الأصوليه میں اختلاف :


یعنی وه قواعد واصول جن کو أئمہ مجتهدین نے اپنے اجتهادات سے وضع کیا ہے جس کی بناء پرمجتهدین کی مختلف آراء ہوتے ہیں لہذا یہ بهی اختلاف کا سبب ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اجتہادی اصول وقواعد اور استخراج کے مصادر میں اختلاف کی یہ کڑی فقہ اسلامی میں اختلاف کی اہم ترین وجہ ہے اور اختلافِ فقہا پر اس کے گہرے اثرات ہیں، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امام مالکؒ کے یہاں تعامل اہلِ مدینہ حجت اور دلیلِ شرعی ہے آپ نے اپنے اصول “حجیت تعامل اہلِ مدینہ” کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ صلوٰۃ عیدین میں گیارہ تکبیرات ہیں، چھ پہلی رکعت میں (تکبیرِتحریمہ کے سوا) اور پانچ دوسری رکعت میں اس سلسلہ میں احناف کی رائے الگ ہے۔ (بدایۃ المجتہد:۱/۲۱۷)اصولی قواعد اور مصادر استنباط میں اختلاف کی بھی بہت سی نظیریں ہیں، جن کے تذکرہ کی یہاں گنجائش نہیں،

ان کے علاوہ اور بھی اسباب ووجوہ ہوسکتے ہیں، مثلاً اختلافِ قرأت، یعنی قرآن مجید کی تلاوت میں رسول اللہﷺسے مختلف قرأتیں تواتراً ثابت ہیں، ان قرأت کے اختلاف سے بھی احکام ومسائل کے استنباط میں اختلاف ہوسکتا ہے اور قرأت کے اسی معمولی اختلاف کا فقہی احکام پراثر یہ ہوا کہ وضو میں غسل رجلین کے مسئلہ میں جمہور فقہاء کے مقابلہ میں ایک طبقہ نے مسح رجلین کوکافی قرار دیا۔(اثرالاختلاف فی القواعد الأصولیۃ:۴۱)اسی طرح اختلافِ ضبط، اختلافِ سہو ونسیان وغیرہ اسباب بھی اختلاف کا باعث ہوتے ہیں۔(تفصیل کے لیے دیکھئے “الانصاف” شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ)

یاد رہے کہ ان سب امور میں اختلاف شرعی دلائل سے ثابت ہے اورجن مذکوره بالا چند اہم اسباب کا تذکره ہوا ان کے علاوه کئ اوراسباب بهی ہیں جس کا تفصیلی ذکرعلماء امت نے اپنی کتب میں کیا ہے جیسا کہ حضرت الامام شاه ولی الله دهلوی رحمه الله نے اپنی کتاب “الإنصاف في أسباب الاختلاف” میں اوراسی طرح کئ اورعلماء نے بهی مستقل بحث کی ہے ، مثلا ” أسباب اختلاف العلماء” للشيخ على الخفيف، اس طرح رفعُ الملام عن الأئمة الأعلام ، للشیخ ابن تيمية ، أثرالحديث في اختلاف الأئمة ، للشیخ محمد عوامة ، جزيل المواهب في اختلاف المذاهب ، للشیخ السیوطی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ۔ ہم نے بطور “مشتے نمونہ ازخروارے” اِن چند اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے، واللہ ولی التوفیق۔