بھارت میں دھماکوں کی تحقیقات کشمیر کی سمت ۔ شواہد کمزور مگر گرفتاریاں تیز
شعور نیو ز(ویب ڈیسک): بھارت نے امریکہ سے 10 سالہ دفاعی معاہدہ کیا ۔اس کی خوشیوں کا سلسلہ چل رہا تھا کہ 15 دن میں بھارت کو 2 بڑے دھماکے اور مقبوضہ کشمیر میں ایک دھماکے کا سامنا کرنا پڑ گیا۔9 نومبر کو فرید آباد میں بارود کی گاڑی پکڑی گئی، پھر 10 کو نئی دہلی میں دھماکہ ہو گیا۔اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کے تھانے میں دھماکہ ہو گیا۔نئی دہلی اور سری نگر میں ہونے والے حالیہ دھماکوں نے بھارتی تحقیقاتی اداروں کو مقبوضہ کشمیر کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس بار نہ صرف شواہد انتہائی کمزور ہیں بلکہ بھارتی دعوے خود اس کی داخلی کمزوری اور سیاسی دباؤ کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں۔پلوامہ کے موقع پر جس طرح بھارت نے پھرتیاں دکھائی تھیں پاکستان پر الزام لگانے اور پانی بند کرکے حملے کرنے کی وہ صورتحال اب بالکل محسوس نہیں ہو رہی ۔ پاکستان کے حوالے سے بھارت بے انتہا محتاط بیانیے کے ساتھ کھڑا ہے ۔ اس وقت بھارت کے اندر ریاست بہار کے الیکشن بھی جاری ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک 1500 گرفتاریاں ہو چکی ہیں ، ڈاکٹر غلام نبی کا خاندان اور جماعتِ اسلامی ہند بھی نشانہ بنا ہو اہے۔ ظاہر ہے کہ 1500 افراد مل کر کوئی دھماکہ نہیں کر سکتے۔بھارتی پولیس نے مقبوضہ کشمیر میں 1500 سے زائد نوجوانوں، طلبہ اور مذہبی شخصیات کو گرفتار کیا ہے۔ قابلِ ذکر معاملہ جماعتِ اسلامی ہند کے سینیئر رہنما ڈاکٹر غلام نبی سنیئر اور ان کے اہلِ خانہ کی گرفتاری ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ ’دہشت گردوں سے رابطوں‘ میں شامل تھے مگر اصل میں کون دہشتگرد ہے یہ نہیں معلوم ؟بھارتی میڈیا میں تجزیہ کاروں نے اس الزام کو سیاسی اور کمزور شواہد پر مبنی قرار دیا ہے، کیونکہ اب تک دہلی دھماکے اور ڈاکٹر غلام نبی کے درمیان کوئی براہِ راست ثبوت سامنے نہیں آیا۔سری نگر پولیس اسٹیشن دھماکا — ایک 15 سالہ لڑکے پر الزام، مگر کہانی میں تضاداتدہلی کے بعد 15نومبر کو سری نگر پولیس اسٹیشن میں دھماکے کی خبر سامنے آئی9 افراد ہلاک ہوئے ۔ بھارتی حکام نے پہلے ‘’خود کش بمبار‘ قرار دیا اور اسکے بعد دھماکے کو تھانے کے اسلحہ خانے میں ہونے والی کوتاہی قرار دے دیا ۔ یہ تضاد بھارت کی ابتدائی تحقیقات میں سنگین خامیوں کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔بھارتی میڈیا اور کئی آزاد تجزیہ کاروں کے مطابق، دہلی اور کشمیر میں مسلسل بدامنی نے مودی حکومت پر مقامی سطح پر سخت دباؤ ڈال دیا ہے۔ اسی لیے:کشمیر کو دوبارہ نشانہ بنانا ایک آسان سیاسی راستہ ہےبغیر واضح شواہد کے گرفتاریاں بھارت کی بدحواسی اور ناکام حفاظتی نظام کو ظاہر کرتی ہیںدھماکے کے تین روز میں بھی نہ کوئی گروہ سامنے آیا، نہ کوئی ٹھوس لنک ملاسارا بوجھ پھر "کشمیر" پر ڈالنے کی کوشش کی گئییہ رویہ اس لیے بھی مشکوک ہے کہ 2019 کے پلوامہ حملے میں بھی بھارت نے بعد میں اپنے ہی داخلی کمزوریاں قبول کی تھیں، مگر اس کے باوجود نئی دہلی ایک بار پھر وہی پرانا راستہ اپنا رہی ہے۔ڈاکٹر غلام نبی کے گھر پر چھاپے — اہلِ خانہ نے بھارتی بیانیے کو مسترد کردیاڈاکٹر غلام نبی کے خاندان کا کہنا ہے کہ:“ہم پر دہشت گردی کے الزامات سیاسی بنیادوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ کوئی مواد، کوئی روابط، کوئی شہادت پیش نہیں کی گئی۔”خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ گھر پر چھاپے کے دوران کچھ نہ ملنے کے باوجود پولیس “زبردستی دہشت گردی کا نیریٹیو بنانے” پر تُلی ہوئی ہے۔بھارتی اداروں کی کمزوریاں بے نقاب — تین دن میں تین دھماکے اور حفاظتی ناکامیماہرین کے مطابق، نئی دہلی سمیت بھارت کے بڑے شہروں میں تین روز کے اندر تین دھماکوں نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ:بھارت کے خفیہ ادارے بروقت معلومات کیوں نہ حاصل کرسکے؟دہلی جیسے ہائی سیکیورٹی زون میں گاڑی دھماکے سے کیسے تباہ ہوگئی؟کشمیر میں ہر واقعہ کو پاکستان یا کشمیریوں سے جوڑ کر کیا بھارت اپنی اصل ناکامی چھپا رہا ہے؟یہ واضح نظر آرہا ہے کہ:مودی سرکار داخلی ناکامیوں کا ملبہ اٹھانے کے بجائے اسے کشمیر پر ڈال رہی ہے۔شواہد نہ ہونے کے باوجود کشمیریوں پر کارروائیاں بھارت کی کمزور حکمرانی اور تحقیقات میں غیر پیشہ ورانہ معیار کو آشکار کر رہی ہیں۔عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ سوالات کی زد میں ہے، مگر نئی دہلی اب بھی بیانیے کے بل پر سیاست کھیل رہی ہے۔